حیا کی نشو و نما میں ماحول اور تربیت کا بہت عمل دخل ہے۔ حیادار ماحول ملنے کی صورت میں حیا کو خوب نکھار ملتا ہے جبکہ بے حیا لوگوں کی صحبت دل اور آنکھ کی پاکیزگی چھین کر بے شرم و بے حیا کر دیتی ہے اور بندہ بےشمار غیر اخلاقی اور ناجائز کاموں میں لگ جاتا ہے اس لیے کہ حیا ہی ہے جو برائیوں اور گناہوں سے روکتی ہے۔ جب حیا ہی نہ رہی تو اب برائی سے کون روکے؟

بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بدنامی کے خوف سے شرما کر برائیاں نہیں کرتے مگر جنہیں اپنی نیک نامی اور بدنامی اور دوسروں کی بدنامی کی پرواہ نہ ہو ایسے بے حیا لوگ ہر گناہ کر بیٹھتے ہیں۔

حیا وہ وصف ہے جو ان چیزوں سے روک دے جو اللہ اور مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ ہوں اور بے حیائی وہ وصف یا برائی ہے جو اس کے برعکس ہو۔ اسلام میں حیا کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو حیا کا درس دیتا ہے، چنانچہ حدیث پاک میں ہے: فرمایا: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہےاور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)یعنی ہر امت کی کوئی نہ کوئی خاص خصلت ہوتی ہے جو دیگر خصلتوں پر غالب ہوتی ہے اور اسلام کی وہ خصلت وہ خوبی حیا ہے۔ حیا کی ضد بے حیائی ہے جو انسان بے حیائی میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ بغیر کسی خوف سے بڑے بڑے جرم کرنے میں دلیر ہو جاتا ہے۔

حدیث پاک میں ہے: جب تو حیا نہ کرے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

بے حیائی صرف آنکھوں کے ذریعے ہی نہیں ہوتی بلکہ کان ہاتھ زبان اور لباس سے بھی بے حیائی کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ افسوس!صد کروڑ افسوس! ایک طرف گلیوں، بازاروں، تقریبوں اور سینما گھروں میں مرد عورت سے ملنا اور بدنگاہیاں اور بے تکلفیاں ہیں تو دوسری طرف گھر گھر میں ایک بھی سینما گھر کھل گیا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت ٹی وی وغیرہ کے ذریعے بد نگاہی و بے حیائی میں ملوث ہے۔

آج مسلمانوں کی عورتوں کی حالت ایسی ہے کہ سر شرم سے جھک جائے۔ پردے کا تصور ہی نہیں رہا بال کھول کر صرف نام کا لباس پہن کر تفریح گاہوں شادیوں میں شرکت کرنا ناچ گانے کی بے حیائی پھیلانے والی محافل میں شرکت کرنا کوئی معیوب ہی نہیں رہا اب جوان لڑکی چادر اور چاردیواری سے نکل کر مخلوط تعلیمی اداروں میں دندناتی پھرتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس بھی ہے کہ اب بھی جو چادر و چار دیواری میں ہوگی وہ ان شاءاللہ با حیا ہی ہوگی۔ حدیث پاک میں ہے: حیا ایمان سے ہے۔(ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)معلوم ہوا حیا دار عورت ایمان دار دینی کام کرنے والی ہوگی۔لیکن جس میں حیا نہ ہوگی وہ اسلام کی حدود اسکے اصول توڑنے میں بھی دیر نہیں کرے گی۔

سمجھ نہیں آتا کہ اس بگڑے ہوئے معاشرے کا رخ اللہ اور اسکے محبوب ﷺ کی اطاعت کی طرف کیسے پھیرا جائے اور اسکو جہنم کی طرف دوڑے چلے جانے سے روک کر کس طرح جنت کی طرف لے جایا جائے؟

افسوس!صد کروڑ افسوس!ذرائع ابلاغ مثال کے طور پر ٹی وی کے بے حیا چینلز اور بے حیائی کی باتوں سے بھر پور ناول اور ڈائجسٹ بے حیائی کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔

حضور ﷺ نے فرمایا: اس شخص پر جنت حرام ہے جو بے حیائی کی بات سے کام لیتا ہے۔ (جامع صغیر للسیوطی، ص 221، حدیث: 3648)

میرے مدنی مصطفی ﷺ شرم و حیا کے پیکر تھے۔ آپ ﷺ شرم و حیا کے باعث اکثر نیچی نگاہیں رکھا کرتے تھے۔ حدیث پاک میں فرمایا: حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔ (مسلم، ص40، حدیث: 37) باحیا بننے کے لیے دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے ہر دم وابستہ رہیے۔

اللہ خاتون جنت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے صدقے حیا والی چادر نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین