اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

یاد رکھئے! اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو گا تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خصائل کی حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم و حیا کا خیال نہ رکھے گا تو اولاد میں بھی اس طرح کے خراب جراثیم سرایت کرجائیں گے۔ آج ضرورت اس امر (بات) کی ہے کہ حیا کو متأثّر کرنے والے تمام عوامل سے دور رہا جا ئے اور اپنےتشخّص اور روح ایمان کی حفاظت کی جائے۔

حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جانے کا سبب ہے اور بے حیائی جفا ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)حیا ان صفات میں سے ہے جن کی وجہ سے انسان کے کردار میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے اور باحیا انسان دوسروں کی نظر میں بھی ایک اچھا انسان ہوتا ہے اور خدا کے یہاں بھی اس کا شمار اس کے پسندیدہ بندوں میں ہوتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ایمان کے ساٹھ سے زائد شعبے ہیں اور حیا ایمان کا عظیم شعبہ ہے۔ (مسلم، ص 39، حدیث: 35)

اسلام میں حیا کا ایک اہم مقام ہے اور اسے انسان کی فطرت قرار دیا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ایک مرتبہ ایک انصاری صحابی کو دیکھا جو اپنے بھائی کو شرم و حیا کے بارے میں سمجھا رہا تھا یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس کو چھوڑ دو کیونکہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ (ابو داود، 4/331، حدیث: 4795)

باحیا انسان خدا کو پسند ہے اسی لیے قرآن مجید نے اس لڑکی کی باحیا چال کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے جو حضرت موسی کو اپنے والد کے حکم پر بلانے آئی تھی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: فَجَآءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِیْ عَلَى اسْتِحْیَآءٍ٘- (پ 20، القصص:25) ترجمہ: ان دونوں میں سے ایک لڑکی ان کے پاس حیا کے ساتھ چلتی ہوئی آئی

نبی کریم ﷺ نے اپنی کئی احادیث میں حیا کے بارے میں ارشادات فرمائے ہیں، ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ہے: حیا خیر ہی لاتی ہے۔ (مسلم، ص40، حدیث: 37)

اور ایک روایت میں ہے کہ حیا سراسر خیر ہے۔

گویا انسان جس قدر باحیا ہو گا اتنا ہی خیر اس کے اندر ہو گا اور وہ سراپا خیر بن جائے گا اور جو حیا سے محروم ہو جائے وہ حقیقت میں خیر سے محروم ہو جاتا ہے۔ ایسے شخص سے خیر کی توقع رکھنا ہی فضول ہے۔ اسی لیے نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں حیا باقی نہ رہے تو پھر جو دل چاہے کرو۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

یہی وجہ ہے کہ ایک حدیث میں حیا کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد مبارک ہے: حیا ایمان کا حصہ ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016) اسی طرح ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: ایمان کے ستّر اور کچھ شعبے ہیں یا فرمایا: ساٹھ اور کچھ شعبے ہیں، پس ان میں سے سب سے افضل لا الہ الا اللہ اور سب سے ادنیٰ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا ہے اور حیا ایمان کا حصہ ہے۔ (مسلم، ص 39، حدیث: 35)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی حضور ﷺ کی شہزادی حضرت فاطمۃ الزہرہ کی طرح باحیا اور با پردہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین