شرم و حیا اور اسلام کا آپس میں وہی تعلق ہے جو جسم
اور روح کا ہے آقا ﷺ نے فرمایا: بے حیا جس چیز میں ہو اسے عیب دار کر دیتی ہے اور حیا
جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)اللہ پاک قرآن پاک
میں سورہ اعراف آیت نمبر 33 میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ
اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ (پ
8، الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام
فرمائی ہیں (ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔
حضور ﷺ نے فرمایا: جب تم میں حیا باقی نہ رہے تو تو
جو چاہے کر۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
بے حیائی سے دل سخت ہو جاتا ہے جیسا کہ آقا ﷺ نے فرمایا:
حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں پہنچاتا ہے جبکہ بے حیائی اور بدکلامی سنگدلی
ہے اور سنگدلی جہنم میں پہنچاتی ہے۔(ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ محبوب دوجہاں
ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک جب کسی بندے کی ہلاکت کا فیصلہ فرماتا ہے تو سب سے پہلے اس سے
شرم و حیا چھین لیتا ہے اور جب اس سے حیا جاتی رہی تو تم اسے اس کی بے حیائیوں کی وجہ
سے شدید مبغوض اور قابل نفرت پاؤ گے اور جب اسکی یہ حالت ہو جائے تو
اس سے امانت چھین لی جاتی ہے اور جب اس سے امانت چھن جائے تو
تم اسے اس کی بد دیانتی کی وجہ سے خائن اور دھوکے باز پاؤ گے جب اسکی حالت یہاں تک
پہنچ جائے تو
اس سے رحمت بھی چھین لی جاتی ہے جب رحمت چھن جائے تو
اس بے رحمی کی وجہ سے مردود و ملعون پاؤ گے اور جب وہ اس مقام پر پہنچ جائے تو
اس کے گلے سے اسلام کا پٹہ نکال لیا جاتا ہے اور اسے اسلام سے عار آنے لگتی ہے۔
وہ بہترین عمل جس کا انسان تصور کر سکتا ہے وہ اس کا
اچھا اخلاق ہی ہے چنانچہ یہی عمل میزان میں زیادہ وزنی ہوگا بے حیائی اور بدگوئی کو
وہی شخص اپنا سکتا ہے جو اخلاق سے اصلًا عاری ہوتا ہے۔