
یقینا ہر رسول، ہر نبی اور ہر ولی با حیاء (ہی) ہوتا
ہے۔ اللہ کے مقبول بندے کے بارے میں بے حیائی کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا اور جو
بے حیاء ہے وہ نیک بندہ کہلانے کا حقدار نہیں۔ چچا، تایا، خالہ، ماموں اور پھوپھی کی
لڑکیوں، چچی، تائی، ممانی، اپنی بھابھی، نامحرم پڑوسنوں اور دیگر نامحرم عورتوں کو
جو قصداً دیکھے، ان سے بے تکلّف بنے، فلمیں ڈرامے دیکھے، گانے باجے سنے، فحش کلامی
یا گالم گلوچ کرے وہ بے حیاء ہی نہیں، بے حیاء لوگوں کا بھی سردار ہے۔ اگرچہ وہ حافظ،
قاری، قائم اللّیل و صائم الدّہر یعنی رات بھر عبادت کرنے والا اور سارا سال روزہ رکھنے
والا ہو۔ اس کے اعمال اپنی جگہ پر مگر ان کے ساتھ بے حیائی کے کاموں کے ارتکاب نے اسکی
صفت حیاء اور نیک ہونے کی خصلت کو سلب کر لیا۔ اور آجکل اس کے نظاّرے بھی عام ہیں۔
اچھّے خاصے مذہبی حلیے میں نظر آنے والے بے شمار افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ یعنی
چہرے پر داڑھی، سر پر زلفیں اور عمامہ شریف، سنّت کے مطابق لباس بلکہ بعض تو اچھّے
خاصے دین کے مبلغ ہونے کے باوجود، حیاء کے معاملے میں سراسر محروم ہوتے ہیں۔ دیور و
بھابھی کے پردے کے معاملے میں قطعاً لا پرواہی برت کر جہنّم کے حقدار ٹھہرتے ہیں ایسے
نیک نما افراد کو کوئی درد بھرا دل رکھنے والا سمجھائے بھی تو ایک کان سے سن کر دوسرے
کان سے نکالدیتے ہیں۔ جب انکی بے تکلّف دوستوں کے ساتھ گپ شپ کی منڈلیاں لگتیں اور
محفلیں جمتی ہیں۔ تو ان میں بلاوجہ شادیوں اور اخلاق سے گری ہوئی شہوت افزا باتوں کی
بھر مار ہوتی ہے، تیری شادی، میری شادی، فلاں کی شادی وغیرہ ان غیر مقدّس محفلوں کے
عام موضوعات ہوتے ہیں اور پھر اشاروں کنایوں میں ایسی باتیں کر کے لطف اٹھایا جاتا
ہے کہ کوئی باحیاء ہو تو شرم سے پانی پانی ہو جائے۔ (باحیا نوجوان، ص 30، 31)
رسول خدا ﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا
نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484) معلوم ہوا کہ کسی بھی برے کام سے
رکنے کا ایک سبب شرم و حیا بھی ہے۔
شرم وحیا کیا
ہے؟ وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسند ہوں ان سے بچانے والے وصف
کو شرم وحیا کہتے ہیں۔ (باحیا نوجوان، ص 7ماخوذاً)
حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا: جس نے اسلام میں اچھا طریقہ رائج کیا، اس کے لئے اسے رائج کرنے اور اپنے بعد
اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ہے، اور ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے بھی کچھ کم
نہ ہوگا اور جس نے اسلام میں برا طریقہ رائج کیا، اس پر اس طریقے کو رائج کرنے اور
اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ہے اور ان عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ
ہوگی۔ (مسلم، ص 508، حدیث: 1017)
حضرت عثمان
غنی رضی اللہ عنہ کی حیاء بھی اسی قسم سے ہے، جیسا کہ آپ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:
میں بند کمرے میں غسل کرتا ہوں تو اللہ سے
حیاء کی وجہ سے سمٹ جاتا ہوں۔ ابن عساکر نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا
کہ آقائے دو جہاں ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان سے
ہے اور عثمان رضی اللہ عنہ میری امّت میں سب سے بڑھ کر حیا کرنے والے ہیں۔ (ا لجامع
الصّغیر للسّیوطی، ص 235، حدیث:
3869)
یا الٰہی! دے ہمیں بھی دولت شرم و حیا حضرت عثماں غنیٔ با حیا
کے واسطے
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مصطفےٰ
جان رحمت ﷺ کنواری، پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ (ابن ماجہ، 4/460،
حدیث:4180)
اسی حیا پرور ماحول کا نتیجہ تھا کہ حضرت امّ خلاد رضی
اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔ یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے
کیلئے نقاب ڈالے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا: اس وقت
بھی باپردہ ہیں! کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے،حیا نہیں کھوئی۔ (ابو داؤد،
3/9، حدیث:2488 ملتقطاً)
شرم و حیا بڑھائیے نور ایمان جتنا زیادہ ہوگا شرم و
حیا بھی اسی قدر پروان چڑھے گی۔ اسی لئے آقا کریم ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان سے ہے۔ (مسند
ابی یعلیٰ، 6/291، حدیث: 7463) وہ لوگ جو مخلوط محفلوں (جہاں مردوعورت میں بے پردگی
ہوتی ہو)،مکمل بدن نہ ڈھانپنے والے لباس، روشن خیالی اور مادر پدر آزادی کو جدّت و
ترقی کا زینہ سمجھ کر انہیں فروغ دیتے ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ ان میں نور ایمان کتنا
کم ہوگیا ہے؟ حیا تو ایسا وصف ہے کہ جتنا زیادہ ہو خیر ہی بڑھاتا ہے۔ اسی لئے آقا کریم
ﷺ نے فرمایا:حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔ (مسلم، ص40، حدیث: 37)
حیاء کی2 قسمیں: فقیہ ابواللّیث سمرقندی رضی اللہ عنہفرماتے
ہیں: حیاء کی دو قسمیں ہیں: {1}لوگوں کے معاملہ میں حیاء {2}اللہ کے معاملہ میں حیاء۔
لوگوں کے معاملے میں حیاء کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تو اپنی نظر کو حرام کردہ اشیاء سے
بچا اور اللہ کے معاملے میں حیاء کرنے سے مراد یہ ہے کہ تو اس کی نعمت کو پہچان اور
اس کی نافرمانی کرنے سے حیاء کر۔ (تنبیہ الغافلین، ص 258 پشاور)

حیاء جہاں اعلی انسانی صفات میں سے ایک ہے وہیں بے حیائی
بدترین درجے کی بری صفت ہے جب کوئی انسانی گروہ کسی جرم کے ارتکاب کا عادی ہو جاتا
ہے تو پھر وہ بدی کو اچھائی اور برائی کو نیکی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آج بڑے پیمانے
پر انسان بے حیائی کے دور سے گزر رہا ہے۔فحش،فحشاء اور فاحشہ ہر وہ گناہ اور معصیت
جسکی قباحت واشاعت ذیادہ ہو کو کہتے ہیں۔
آسان مفہوم ہر قبیح فعل و قول کو فاحشہ (بے حیائی)کہتے
ہیں۔ آج غیر مسلم معاشرے میں تو کیا مسلم معاشرے میں بذریعہ ذرائع ابلاغ بے حیائی پھیلائی
جارہی ہے۔
جبکہ اللہ کی بارگاہ میں یہ کس قدر بڑا جرم وگناہ ہے۔
چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ
اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے ہیں
اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کیلیے دنیااور آخرت میں درد
ناک عذاب ہے دنیا کاعذاب ہے حد قائم کرنا چنانچہ حضرت عبداللہ بن ابی، حضرت حسان اور
حضرت مسطح کو حد لگائی گئی اورآخرت کے عذاب سے مراد کہ یہ اگر بغیر توبہ کے مر گئے
تودوذخ میں جائیں گے۔
قارئین غور فرمائیں! مذکورہ آیت میں ایک غیر تصدیق شدہ
بات کو پھیلانے والوں کواشاعت فاحشہ میں داخل ہونے اورحد جاری کرنے کا حکم دیاگیا تو
پھر حرام کاموں کی ترغیب دینا، ایسی کتابیں، ناول، ڈائجسٹ، رسائل، کالم، لکھنا جس سے
شہواتی جذبات متحرک ہوں،فحش تصاویر،اور و یڈیوز بنانا،بیچنا،انہیں دیکھنے کیلیے سہولت
مہیا کرنا،فلمیں ڈرامے،فیشن شو کے نام پر عورت اور حیاء سے عاری لباسوں کی نمائش،کس
قدرسنگین جرائم ہیں۔
دین اسلام بے حیائی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور رسول
اللہ ﷺ کی تعلیمات بھی بے حیائی کی مذمت بیان کرتی ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہے: جب تجھ میں
حیاء نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484)
اس سے معلوم ہوا برے کام سے رکنے کیلیے حیاء بہت ضروری
ہے لیکن جب حیاء ہی نہ رہے تو انسان کو اس کی سرکشی میں بھٹکنے کیلیےسخت ناراضگی کا
اظہار فرمایا گیا۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: خبردار! کوئی شخص کسی اجنبی عورت کے ساتھ
تنہائی میں نہیں ہوتا مگر ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔(ترمذی، 4/67، حدیث:
2172)
آج کے دور میں میڈیا جسطرح بے حیائی کو فروغ دے رہا
ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے پھر اس کے آزادانہ استعمال نے رہی سہی کسر نکال دی
اور بالخصوص مغرب جو ہر طرح کی ا۔سانی آزادی کا بڑاعلمبردار ہےاور بے حیائی کے ملکی
طور پر قانوں پاس کروانے کو ہیومن فریڈم کا نام دیتا ہے۔
آج وہ خود اپنی تباہی کو اپنی آنکھوں سےدیکھ رہے ہیں
اولاد والدین کی باغی ہے خاندانی نظام ٹوٹ کر رہ گیامگروہ روک نہیں پا رہے۔
ایسے ہی مسلمانوں کی حالت بھی کچھ خاص نہیں رہی کہ جب
تک یہ باحیاء تھے مسلمان ماؤں نے ایسے بہادر جرنیل و سپہ سالار پیدا کیے جنہوں نے دین
اسلام کی خدمت کی جبکہ آج مسلمان غیروں کے تابع ہو کر انکے سرنگوں ہیں۔
در حقیقت جب انسان حیاء کو کھو دیتا ہے تو وہ جانوروں
کی صفت میں داخل ہو جاتا ہے یہ عام مشاہدہ ہے کہ جانور لباس و پردے سے عاری ہوتے ہیں
ہمارا پیارا دین اسلام حیاء کی بہت ترغیب دیتا ہے اسی پر عمل کرتے ہوئے چند
آداب حیاء نیت قرطاس کئے جارہے ہیں۔ توجہ سے ملا حظہ کیجیے:
لباس: ایک مسلمان کا
لباس ایسا ہونا چاہیے کہ جس سے حیاء کے تمام تقاضے پورے ہوں اور دوسروں کی بد نگاہی
کا بھی سبب نہ بن رہا ہو۔
گفتگو: کہا جاتا ہے کہ
گفتگو انسان کا کل ہوتی ہے لہذاایسی ہونی چاہیے جو شرعی لحاظ سے حیاء والی اور دیگر
افراد کیلیے گناہوں سے بچنے والی ہو۔
میڈیا کا استعمال: میڈیا
کے استعمال میں خاص احتیاط کی حاجت ہے کہ کہیں ہماری وجہ سے معاشرے میں بےحیائی تو
نہیں پھیل رہی۔
اچھی صحبت: اپنا دینی وقار
قائم رکھتے ہوئے اچھے
اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کی جاے تاکہ ہماری صحبت میں جو بیٹھے وہ بھی حیاء داربن
کے اٹھے۔
بے حیائی از بنت میاں محمد یوسف قمر، جامعۃ
المدینہ جیل روڈ پاکپورہ سیالکوٹ

دین اسلام حیا کا علمبردار ہے لہٰذا امراض ظاہریہ و
باطنیہ کو واضح فرما کر ہمارے ظاہر و باطن کی اصلاح فرماتا ہے۔ انہیں ظاہری مہلکات
(ہلاکت میں ڈالنے والے) امراض میں سے ایک بے حیائی بھی ہے چنانچہ اللہ فرماتا ہے: وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ
مُّبِیْنٌ(۱۶۸) اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ وَ اَنْ
تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۶۹) (پ 2،
البقرۃ: 168، 169) ترجمہ کنز الایمان: اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بےشک وہ تمہارا
کھلا دشمن ہے۔ وہ تو تمہیں یہی حکم دے گا بدی اور بے حیائی کا اور یہ کہ اللہ پر وہ
بات جوڑو جس کی تمہیں خبر نہیں۔
سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے: وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-(پ
14، النحل: 90)ترجمہ کنز الایمان: اور منع فرماتا ہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی
سے۔
آئیے احادیث مبارکہ کی روشنی میں بے حیائی کے متعلق
ملاحظہ کرتے ہیں:
1) نبی کریم ﷺ كا فرمان عبرت نشان ہے:چار (4) طرح کے
جہنّمی کہ جو کھولتے پانی اور آگ کے مابین(یعنی درمیان) بھاگتے پھرتے ویل وثبور (ہلاکت)
مانگتے ہوں گے۔ ان میں سے ایک وہ شخص کہ اس کے منہ سے پیپ اور خون بہتے ہوں گے۔ جہنّمی
کہیں گے: اس بد بخت کو کیا ہوا ہماری تکلیف میں اضافہ کئے دیتا ہے؟ کہا جائے گا: یہ
بدبخت خبیث اور بری بات کی طرف متوجہ ہو کر اس سے لذّت اٹھاتا تھا جیسا کہ جماع کی
باتوں سے۔ (اتحاف السّادة للزّبیدی، 9/187)
2) حضرت شعیب بن ابی سعید رضی اللہ عنہ سے مروی فرماتے
ہیں: جو بے حیائی کی باتوں سے لذّت اٹھائے بروز قیامت اس کے منہ سے پیپ اور خون جاری
ہوں گے۔ (ایضاً ص 188)
3) حضرت ابراہیم بن میسرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فحش کلامی (یعنی بے حیائی کی باتیں) کرنے والا قیامت کے دن کتّے کی شکل میں آئے گا۔
(اتحاف السّادة للزّبیدی، 9/190)
مفسّر شہیر حکیم الامّت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں: خیال رہے کہ تمام انسان قبروں سے بشکل انسانی اٹھیں گے پھر محشر
میں پہنچ کر بعض کی صورتیں مسخ ہو جائیں گی۔ (مراة المناجیح، 6/660)
4) پیکر شرم و حیا ﷺ فرماتے ہیں: جب تجھے حیا نہیں تو
تو جو چاہے کرے۔ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبّان، 2 /3، حدیث: 606)
یہ فرمان تہدید و تخویف (یعنی ڈرانے اور خوف دلانے)
کے طور پر ہے کہ جو چاہے کرو جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ برا (بے حیائی والا کام) کرو
گے تو اس کی سزا پاؤ گے۔
حیا کی انتہا: حضرت عثمان غنی
رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: حیا کی غایت (یعنی انتہا) یہ ہے کہ اپنے آپ سے بھی حیا کرے۔
(باحیا نوجوان، ص 58)
امیر اہلسنّت دامت برکاتہم اپنے نعتیہ دیوان میں لکھتے
ہیں:
ہر گھڑی شرم و حیا سے بس رہے نیچی نظر پیکر شرم و حیا بن کر رہوں
آقا مدام

ہمارے سچے اور پیارے دین اسلام کو یہ اعزاز و شرف حاصل
ہے کہ اس نے پاکیزہ معاشرے کے قیام اور جو چیزیں اس میں رکاوٹ ہیں انکو ختم کرنے کے
لیے انتہائی احسن و مؤثر اقدامات کئے ہیں۔
بے حیائی۔ /فحاشی اور عریانی پاکیزہ معاشرے کے لیے زہر
قاتل کی طرح ہے دین اسلام نے ان چیزون کو ختم کر نے پر نہ صرف زور دیا بلکہ انکے ذرائع
و اسباب کے خاتمہ کی طرف بھی توجہ کی۔
جیسے عورتوں کو (غیر محرم) مردوں سے نرم و نازک لہجے
میں بات کرنے سے منع کیا گیا جو کہ بے حیائی کی طرف جانے کا ذریعہ ہے۔
دین اسلام کی تعلیم پر قربان جائیے کہ اللہ پاک نے ایک
پوری سورۃسورۃ النور نازل فرمائی جس کا مرکزی مضمون ہی پردہ شرم و حیاء اور عفت و عصمت
ہے۔ سبحان اللہ
اور ہمارے پیارے آقا کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں
حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم اپنے مردوں کو
سورۂ مائدہ سکھاؤ اور اپنی عورت کو سورۂ نور کی تعلیم دو۔ (شعب الایمان، 2/469، حدیث
2468)
فحش کلامی بےحیائی ہی ہےفحش گوئی شرمناک امور یعنی (برے
اور گندے باتوں) کو کھلےالفاظ میں تذکرہ کرنا۔
کتنے خوش نصیب ہیں وہ اسلامی بھائی اور بہنیں جو صرف
اچھی گفتگو کے لیے ہی زبان کو حرکت دیتے ہیں افسوس آجکل بہت کم بیٹھکیں ایسی ہوں گی
جو فحش کلامی سے دور ہوں۔فحش کلامی کرنے سن کے لذت اٹھانے اور برے اشارے کرنے والے
بےحیائی والی گالیاں دینے والے اس روایت سے عبرت حاصل کریں۔
چار طرح کے جہنمی کہ جو کھولتےپانی اور آگ کے درمیان
ہلاکت مانگتے ہوں گے ان میں سے 1 وہ شخص کہ اس کے منہ سے خون و پیپ بہہ رہا ہوگا جہنمی
کہیں گے کہ اس بدبخت کو کیا ہوا کہ ہماری تکلیف میں اضافہ کیے دیتا ہے؟ کہا جائے گا
یہ بد بخت بری اور خبیث بات کی طرف متوجہ ہوکر اس سے لذت اٹھاتاتھا جیسا کہ جماع کی
باتوں سے۔ (اتحاف السادۃ للزبیدی، 9/187)
1۔ اور روایت ملاحظہ ہو۔اس شخص پر جنت حرام ہے جو فحش
گوئی سے کام لیتا ہو۔ (جامع صغیر للسیوطی، ص 221، حدیث:
3648)
اللہ پاک قر ان کریم کی سورہ نور آیت 19 میں ارشاد فرماتا
ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ
اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔جیسے
1۔حرام کاموں کی ترغیب دینا۔
2۔ایسی کتابیں خبریں ناول ڈائجسٹ لکھنا اور شائع کرنا
جن سے شہوانی جذبات متحرک ہوں۔
3۔فحش تصاویر اور ویڈیوز بنانا اور بیچنا۔اور دیکھنے
کے ذرائع مہیا کرنا۔
4۔ایسے اشتہارات وغیرہ بنوانالگوانا جن میں کشش کے لیے
جنسی عریانی/عورت کی نمائش ہو۔
5۔فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباس کی نمائش
کے ذریعے بےحیائی پھیلانا۔
6۔زناکاری کے اڈے چلانا۔
ان کاموں میں مبتلا افراد کو چاہیے کہ خدارا اپنے طرز
پر غور کیجیے جو کہ اسلامی روایات سے جدا کلچر عام کرنے کے ذریعے مسلمانوں کے اخلاق
و کردار میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں1 روایت ملاحظہ فرمائیں۔اور عبرت حاصل فرمائیے۔
حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: جس نے اسلام میں اچھا طریقہ رائج کیا، اس کے لئے اسے رائج کرنے اور اپنے
بعد اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ہے، اور ان عمل کے کرنے والوں کے ثواب میں سے بھی
کچھ کم نہ ہوگا، اور جس نے اسلام میں برا طریقہ رائج کیا، اس پر اس طریقے کو رائج کرنے
اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ہے اور ان عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی
نہ ہوگی۔ (مسلم، ص 805، حدیث: 1017)
اس سے بے حیائی کو پھیلانے اور اسکے لیے ذرائع مہیا
کرنے والوں کو درس عبرت حاصل کرنی چاہیے۔
قرآن کریم میں سورہ بنی اسرائیل کی آیت 32 میں بدکاری
کو بےحیائی فرمایا گیا: وَ لَا تَقْرَبُوا
الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ
15، بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ
بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔
بدکاری پرلے درجہ کی بےحیائی ہے جو کہ حرام اور کبیرہ
گناہ ہے۔ اسی طرح بدنگاہی بھی بے حیائی ہی ہے۔ اعلی حضرت فرماتے ہیں: پہلے نظر بہکتی
ہے پھر دل بہکتا ہے پھر ستر بہکتا ہے۔ (انوار رضا، ص 391 ملخصا) اللہ پاک اپنے کلام
پاک میں مسلمانوں کو اپنی نگاہوں کو نیچی رکھنے کا حکم ارشاد فرماتا ہے اور فرماتا
ہے کہ یہ ان کے لیے ستھرا ہے۔
اللہ پاک سورہ نور آیت 30 میں مومن مردوں کو نگاہیں
جھکا کر رکھنے کا حکم ارشاد فرماتا ہے: قُلْ
لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا
فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا
یَصْنَعُوْنَ(۳۰) (پ
18، النور: 30) ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ
اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ
پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔
اور مومن عورتوں کو فرمایا کہ وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ
یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ
مِنْهَا (پ
18، النور: 31) ترجمہ: اور مسلمان عورتوں کوحکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں
اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے۔
یعنی مومن عورتیں اپنی زینت وغیرہ اپنے محارم کے علاوہ
پر ظاہر نہ کریں اس سے بے حیائی کا خاتمہ ہوگا عورت پردے کا اہتمام کرے۔ اپنے گھر رہےبلا
اجازت شرعی گھر سے نہ نکلے اور تمام مسلمان شریعت مطہرہ پر پابندی سے عمل کریں تو ان
شاءاللہ الکریم پاکیزہ معاشرہ عین اسلامی تعلیمات کے مطابق تشکیل پائے گا۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ہماری زندگی کے ہر
معاملے میں رہنمائی کرتا ہے اس میں سے ایک چیز شرم و حیا بھی ہے لیکن دور حاضر پر غور
کیا جائے تو حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں شرم و حیا کی چادر اتار کر بے حیائی
کا لبادہ اوڑھ لیا گیا ہے ہر طرف عریانی، بے شرمی بے غیرتی کا بازار گرم ہے۔
آج مسلمان معاشرے میں کفار بد اطوار نے ایسی گہری چھاپ
چھوڑی ہے کہ الامان الحفیظ آج مسلمانوں پر غیر مسلموں نے ایسا غلبہ پا لیا ہے کہ مسلمان
اسلام کی تعلیمات کو بالکل فراموش کر بیٹھا ہے بالخصوص نوجوان نسل تباہی و بربادی کے
دہانے پر پہنچ گئی ہے ٹرینڈ کے نام پر کسی بھی طرح کے کام کرنے پر کوئی عار محسوس نہیں
کیا جاتا اگرچہ وہ کیسا ہی نازیب اور شریعت سے ٹکرانے والا ہو اور پھر ایسے ضمیر مردہ
ہو چکے ہیں کہ اس بے حیائی کی تشہیر میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔
اس کے متعلق قرآن پاک میں درج ذیل وعید آئی ہے چنانچہ
پارہ 18 سورہ نور کی آیت نمبر 19 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ
اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مفتی قاسم عطاری مدظلہ الباری
تحریر فرماتے ہیں: اشاعت سے مراد تشہیر کرنا اور ظاہر کرنا ہے جبکہ فاحشہ سے وہ تمام
اقوال اور افعال مراد ہیں جن کی قباحت بہت زیادہ ہے اور یہاں آیت میں اصل مراد زنا
ہے۔ (روح البیان، 6 / 130 ملخصاً) البتہ
یہ یاد رہے کہ اشاعت فاحشہ کے اصل معنیٰ میں بہت وسعت ہے چنانچہ اشاعت فاحشہ میں جو
چیزیں داخل ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:
(1)کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔
(2)کسی کے خفیہ عیب پر مطلع ہونے کے بعد اسے پھیلانا۔
(3)علمائے اہلسنّت سے بتقدیر الٰہی کوئی لغزش فاحش واقع
ہو تو ا س کی اشاعت کرنا۔
(4) حرام کاموں کی ترغیب دینا۔
(5) ایسی کتابیں لکھنا، شائع کرنا اور تقسیم کرنا جن
میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہوں۔
(6) ایسی کتابیں، اخبارات، ناول، رسائل اورڈائجسٹ وغیرہ
لکھنا اور شائع کرنا جن سے شہوانی جذبات متحرک ہوں۔
(7)فحش تصاویر اور وڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں دیکھنے
کے ذرائع مہیا کرنا۔
(8)ایسے اشتہارات اور سائن بورڈ وغیرہ بنانا اور بنوا
کر لگانا، لگوانا جن میں جاذبیت اور کشش پیدا کرنے کے لئے جنسی عریانیّت کا سہارا لیا
گیا ہو۔
(9) حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا،ان
کی تشہیر کرنا اور انہیں دیکھنے کی ترغیب دینا۔
(10) فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں
کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔
(11)زنا کاری کے اڈّے چلانا وغیرہ۔
ان تمام کاموں
میں مبتلا حضرات کو چاہئے کہ خدارا! اپنے طرز عمل پر غور فرمائیں بلکہ بطور خاص ان
حضرات کو زیادہ غورکرناچاہئے جو فحاشی وعریانی اور اسلامی روایات سے جدا کلچر کو عام
کر کے مسلمانوں کے اخلاق اور کردار میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں اور بے حیائی، فحاشی و
عریانی کے خلاف اسلام نے نفرت کی جو دیوار قائم کی ہے اسے گرانے کی کوششوں میں مصروف
ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مفتی صاحب ایک حدیث مبارکہ
بھی نقل فرماتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں:
حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا: جس نے اسلام میں اچھا طریقہ رائج کیا، اس کے لئے اسے رائج کرنے اور اپنے بعد
اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ہے، اور ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے بھی کچھ کم
نہ ہوگا اور جس نے اسلام میں برا طریقہ رائج کیا، اس پر اس طریقے کو رائج کرنے اور
اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ہے اور ان عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ
ہوگی۔ (مسلم، ص 508، حدیث: 1017)
اسی طرح ایک حدیث مبارکہ میں حیا اور ایمان کا تعلق
بیان فرمایا گیا ہے چنانچہ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس
میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک، 1/176،
حدیث:66)
اسی لئے اسلام کے دشمن مسلمانوں کی حیا پر وار کرتے
نظر آتے ہیں۔ ڈراموں، فلموں، اشتہارات اور مارننگ شوز وغیرہ کے نام پر معاشرے میں شرم
و حیا کے سائبان (شیڈ) میں چھید (سوراخ) کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس جدید دور میں
جہاں ان فتنوں سے بچنا ناممکن ہوتا جارہا تھا وہیں اللہ پاک نے امت پر احسان کرتے ہوئے
ہمیں شیخ شریعت پیر طریقت امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس
عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم عالیہ عطا فرمائے جنہوں نے اس بے حیائی اور دور
حاضر کے فتنوں سے بچانے کے لیے ہمیں پیارا پیارا مہکا مہکا مدنی ماحول دیا جس سے بہت
سے لوگوں کو توبہ کی توفیق ملی

دکھ، خوشی اور غصے کے اظہار کے طریقے انسانوں کے ساتھ
ساتھ جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں جبکہ شرم و حیا ایسا وصف ہے جو صرف انسان میں پایا
جاتا ہے اور یہ جانور اور انسان کے درمیان وجہ امتیاز اور ان دونوں میں فرق کی بنیادی
علامت ہے۔ اگر لب و لہجے،حرکات و سکنات اور عادات و اطوار سے شرم و حیا رخصت ہو جائے
تو باقی تمام اچھائیوں پر خود بخود پانی پھر جاتا ہے اور دیگر تمام نیک اوصاف کی موجودگی
کے باوجود اپنی وقعت کھو دیتے ہیں۔ جب تک انسان شرم وحیا کے حصار (دائرے) میں رہتا
ہے ذلت و رسوائی سے بچا رہتا ہے اور جب اس قلعے کو ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا و بدترین
کام بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔رسول خدا ﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا:
جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484) معلوم ہوا کہ کسی
بھی برے کام سے رکنے کا ایک سبب شرم و حیا بھی ہے۔ بے حیائی کے لغوی معنی ہے بے شرمی،
بے مروتی، بے غیرتی، بے لحاظی وغیرہ۔
اب آئیے ذرا بے حیائی کی وجہ سے دنیا میں سزا و عذاب
کی طرف تو خدا کا فرمان سنیں: اِنَّ الَّذِیْنَ
یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ
اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا
تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے
معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد
ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور
حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک
خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181) صرف اسلام ہی ایسا
مذہب ہے جو حقیقی حیا کو فروغ دیتا ہے۔رسول خدا ﷺ نے ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں جن
پر عمل کرنا پورے معاشرے کو حیا دار بنا سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات فطرت انسانی میں موجود
شرم و حیا کی صفت کو ابھارتی ہیں اور پھر اس میں فکر و شعور کے رنگ بھر کر اسے انسان
کا خوشنما لباس بنا دیتی ہیں۔ رسول خدا ﷺ کی شرم و حیا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں: مصطفےٰ جان رحمت ﷺ کنواری، پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔
(معجم کبیر، 18/206،حدیث:508)
حیا نہیں کھوئی: اسی
حیا پرور ماحول کا نتیجہ تھا کہ حضرت امّ خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید
ہوگیا۔ یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نقاب ڈالے بارگاہ رسالت میں
حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا: اس وقت بھی باپردہ ہیں! کہنے لگیں: میں نے
بیٹا ضرور کھویا ہے،حیا نہیں کھوئی۔ (ابو داود، 3/9، حدیث:2488)
شرم و حیا بڑھائیے نور ایمان جتنا زیادہ ہوگا شرم و
حیا بھی اسی قدر پروان چڑھے گی۔ اسی لئے آقا کریم ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان سے ہے۔(مسند
ابی یعلیٰ، 6/291، حدیث: 7463) وہ لوگ جو مخلوط محفلوں (جہاں مردوعورت میں بے پردگی
ہوتی ہو)،مکمل بدن نہ ڈھانپنے والے لباس، روشن خیالی اور مادر پدر آزادی کو جدّت و
ترقی کا زینہ سمجھ کر انہیں فروغ دیتے ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ ان میں نور ایمان کتنا
کم ہوگیا ہے؟ حیا تو ایسا وصف ہے کہ جتنا زیادہ ہو خیر ہی بڑھاتا ہے۔ اسی لئے آقا کریم
ﷺ نے فرمایا:حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔ (مسلم، ص40، حدیث: 37)
آئیے! شرم و حیا کی اہمیت سے متعلق چند احادیث طیبہ
سنتے ہیں: ارشاد فرمایا: بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، تو جب ایک اٹھ
جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک، 1 / 176،
حدیث: 66)
ارشاد فرمایا: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام
کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 460، حدیث:
4181)
ارشاد فرمایا: بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب دارکر
دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)
پىارے پىارے اسلامى بھائىو! غور کیجئے! اسلام میں شرم
و حیا کی کتنی اہمیت ہے، ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ ایمان و حیاآپس میں ملے ہوئے ہیں،
جب ایک بھی ختم ہوتاہے تو دوسرا خودبخود(Automatic) ختم ہوجاتا ہے۔ آج اسلام کے دشمنوں کی یہی سازش
ہے کہ مسلمانوں سےکسی طرح چادر حیا کھینچ لی جائے، جب حیا ہی نہ رہے گی تو ایمان خود
ہی رخصت ہو جائے گا۔
آج ہمارے معاشرے میں کیسی کیسی بے حیائیاں ہورہی ہیں،
آئیے کچھ سنتے ہیں: اس میں شک نہیں کہ جیسے جیسے ہم زمانۂ رسالت سے دور ہوتے جا رہے
ہیں شرم و حیا کی روشنیاں ماڈرن،اندھی اور تاریک تہذیب کی وجہ سے بجھتی جا رہی ہیں۔
اس منحوس تہذیب کے جراثیم مسلم معاشرے میں بھی اپنے پنجے گاڑنے لگے ہیں۔ افسوس! وہ
شرم و حیا جسے اسلام مرد و زن کا جھومر قرار دیتا ہے آج اس جھومر کو کلنک کا ٹیکا (بدنامی
کا دھبّا) بتایا جا رہا ہے۔ محرم و نامحرم کا تصوّر اور شعور دے کر اسلام نے مرد و
زن کے اختلاط پر جو بند باندھا تھا آج اس میں چھید (سوراخ) نمایاں ہیں۔ رسول خدا ﷺ
نے فرمایا: خبردار کوئی شخص کسی(اجنبیہ) عورت کے ساتھ تنہائی میں نہیں ہوتا مگر ان
کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ (ترمذی، 4/67، حدیث: 2172)
میڈیا کی مہربانیاں: میڈیا
جس تواتر سے بچّوں اور بڑوں کو بےحیائی کا درس دے رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
قابل غور ہے کہ جو نسل نو (نئی نسل) والدین کے پہلو میں بیٹھ کر فلموں ڈراموں کے گندے
اور حیا سوز مناظر دیکھ کر پروان چڑھے گی اس میں شرم و حیا کا جوہر کیسے پیدا ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ نسل نو کی ایک تعداد شرم و حیا کے تصوّر سے بھی کوسوں دور دکھائی دیتی
ہے۔ شرم و حیا کی چادر کو تار تار کرنے میں رہی سہی کسر انٹر نیٹ نے پوری کردی ہے۔
اس کے فوائد اپنی جگہ مگر بےحیائی اور بے شرمی کے فروغ میں بھی انٹرنیٹ نے یہ ثابت
کر دکھایا ہے کہ وہ واقعی تیزترین ہے۔
یاد رکھئے! اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل
پیرا ہو گا تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خصائل کی حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم
و حیا کا خیال نہ رکھے گا تو اولاد میں بھی اس طرح کے خراب جراثیم سرایت کرجائیں گے۔
آج ضرورت اس امر (بات) کی ہے کہ حیا کو متأثّر کرنے والے تمام عوامل سے دور رہا جا
ئے اور اپنےتشخّص اور روح ایمان کی حفاظت کی جائے۔
شرم و حیا کے بارے میں مزید معلومات کیلئے شیخ طریقت
امیر اہل سنّت دامت برکاتہم العالیہ کے رسالہ باحیا نوجوان کا مطالعہ کیجئے۔
اگر ہم تاریخ(History)
کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ زمانۂ جاہلیت یعنی سرکار دوعالم، نور مجسم ﷺ
کی دنیا میں جلوہ گری سے پہلے کے زمانے(زمانۂ جاہلیّت) میں عربوں میں بے حیائی اور
بے شرمی عام تھی۔ مردوعورت کا میل جول، عورتوں کے ناچ گانے سے لطف اٹھانا، یہ سب اس
وقت بھی عام تھا۔ عرب کے بڑے بڑے شعراء عورتوں کی نازیبا حرکتوں اور اداؤں کا ذکر اپنی
شاعری میں فخریہ کرتے تھے۔ اسی طرح بعض لوگ باپ کے مرنے پر معاذاللہ باپ کی بیوی یعنی
اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کر لیتے۔ ان کے علاوہ بھی طرح طرح کی بے شرمی و بے حیائی کی
رسمیں ان میں عام تھیں۔ الغرض! جاہلیت کے معاشرے کا شرم و حیا سے دور دور کا بھی تعلق
نہیں تھا۔
لیکن جب پیکر شرم و حیا، جناب احمد مصطفےٰ ﷺ دنیا کو
اپنی نورانی تعلیمات سے منور کرنے تشریف لائے تو آپ نے اپنی نگاہ حیا دار سے ایسا ماحول
بنایا کہ ہر طرف شرم و حیا کی روشنی پھیلنے لگی، اب وہی معاشرہ (Society)جسے
حیا چھو کے بھی نہیں گزری تھی، وہاں شرم و حیا کا سازگار ماحول پیدا ہونے لگا، وہی
معاشرہ جہاں شرم و حیا کرنا عار سمجھا جاتا تھا اب اسی ماحول میں جناب حضرت عثمان غنی
رضی اللہ عنہ جیسے لوگ پیدا ہونے لگے کہ جن کے بارے میں خود حبیب خدا، سرور ہر دوسرا
ﷺ نے ارشاد فرمایا: عثمان سےتو آسمان کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ (مسلم، ص 1004، حدیث: 2401)
توچونکہ آقا کریم، رسول رحیم ﷺ خود شرم و حیا کے پیکر
تھے، اس لیے آپ ﷺ نے اپنی مقدس تعلیمات سے پورے معاشرے کو حیادار اور باوقار بنا دیا
اور وہاں رہنے والا ہر ایک شرم و حیا کا پیکر بننے لگا۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ
کیا ہی خوب فرماتے ہیں:
نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود اونچی بینی کی رفعت
پہ لاکھوں سلام
اس سے ہمیں بھی یہ درس ملتا ہےکہ اگر ہم اپنے گھر میں
شرم و حیا کا ماحول بنانا چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں خود اپنے اندر شرم وحیا پیدا کرنا
ہوگی۔ اگر ہماری خواہش ہے کہ ہمارے گھر والے بے پردگی سے بچیں تو پہلے ہمیں خود حیا
کا پیکر بننا ہوگا۔ ٭اگرہم چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر والے فلموں اور ڈراموں کے حیا سوز
مناظر سے بچیں تو پہلے ہمیں خود فلموں ڈراموں کا بائیکاٹ کرنا ہوگا۔ ٭اگرہم یہ چاہتے
ہیں کہ ہمارے گھر والے غیر محرم کے پردے کو یقینی بنائیں تو پہلے ہمیں خود اس کی پاسداری
کرنی ہوگی۔ ٭اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر میں ایسا لباس نہ پہنا جائے جو شرم و
حیا کے خلاف ہے تو پہلے ہمیں بھی ایسے لباس کو چھوڑ نا ہوگا۔ ٭اگر ہم یہ چاہتے ہیں
کہ ہمارے گھر میں کوئی ایسی بات نہ ہو جو شرم وحیا کے خلاف ہو تو پہلے ہمیں خود بھی
فحش اور بے حیائی والی گفتگوسے بچنا ہوگا۔ ٭اگر ہماری یہ خواہش ہے کہ ہمارے گھر والے
نظریں جھکانے والے بنیں تو پہلے ہمیں نظریں جھکانے کی عادت بنانی پڑے گی۔ ٭اگر ہماری
یہ خواہش ہے کہ ہمارے گھر والے گانے سننے سے بچیں تو پہلے ہمیں گانوں باجوں سے اپنی
نفرت ظاہر کرنی ہوگی۔ ٭اگر ہماری یہ خواہش ہے کہ ہمارے گھر والے پارکوں، شاپنگ سینٹروں
اوربازاروں میں بے پردہ نہ گھومیں تو ہمیں خود بھی شرم وحیا کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے
بلاوجہ ایسے مقامات پرجانے سے بچناہوگا۔ ٭اگر ہماری یہ خواہش ہے کہ ہمارے گھر والے
بازاری گفتگو سے بچتے ہوئے مہذب اندازمیں بات کریں تو پہلے ہمیں خوداس کاعملی پیکربنناپڑے
گا

ماہنامہ کے محترم قارئین! اللہ پاک نے انسان کو دیگر حیوانات پر ترجیح دی
اور اشرف المخلوقات بنایا اللہ پاک نے انسان کے اندر بہت سی ایسی صفات پیدافرمائیں
جو دیگر مخلوقات میں نہ پیدا فرمائی۔ ان میں ایک صفت حیاء بھی ہے حیاء کی وجہ سے انسان
بہت سے ایسے کام کرنےسے بچ جاتا ہے جو معاشرے میں عار کا باعث ہوں جبکہ بے حیائی ایک
ایسی خامی ہے جو انسان سے بہت سے گناہ اور برے کام کرواتی ہے۔ اب ہم ذیل میں بے حیائی
کے موضوع پر کلام کریں گے! الله پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ
اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔اس آیت کا معنی یہ ہیکہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں
بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے دنیا کے عذاب سے
مراد حد قائم کرنا ہے۔ آخرت کے عذاب سے مراد وہ اگر توبہ کیئے بغیر مر گئے تو آخرت
میں دوزخ ہے۔
لفظ فا حشہ سے مراد وہ تمام اقوال و افعال ہیں جن کی
قباحت بہت زیادہ ہے۔اسی طرح احادیث مبارکہ میں بے حیائی کی مذمت ہے! حضرت ابو مسعود
عقبہ بن عمرو انصاری رضی اللہ روایت کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ ارشاد فرمایا: سابقہ انبیاءاکرام
کے کلام میں سے جو چیز لوگوں نے پائی ہے اس میں ایک بات یہ ہے کہ جب تمہیں حیا نہ آئے
تو تم جو چاہو کر لو۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
پیارے آقا ﷺ فرماتے ہیں: اس شخص پر جنت حرام ہے جو فحش
گوئی یعنی بے حیائی کی بات سے کام لیتا ہے۔ (جامع صغیر للسیوطی، ص 221، حدیث:
3648)
جو شخص نامحرم عورتوں کو قصداً دیکھے، ان سے بے تکلف
بنے، فلمیں ڈرامے دیکھے، گانے باجےسنے، فحش کلامی، گالم گلوچ کرےوہ بے حیاء نہیں بلکہ
بے حیاء لوگوں کا بھی سردار ہے اگر چہ وہ حافظ قاری، قائم اللیل و صائم الدہر ہو جو
ان بے حیائی کے کاموں کے ارتکاب نے اس کی صفت حیاءاور نیک ہونے کا خصلت کو سلب کر لیا۔
بےحیائی مہیا کرنے کے ذرائع و اسباب: کسی
پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔ حرام کاموں کی ترغیب دینا علمائے اہلسنت سے بتقدیر
الہی کوئی لغزش فاحش واقع ہو تو اس کی اشاعت کرنا۔ ایسی کتابیں لکھنا، شائع کرنا، اور
تقسیم کرنا جن میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہوں۔ فیشن شو کے نام
پر عورت اور حیاء سے عاری لباسوں کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔ ان تمام کاموں میں
مبتلا حضرات کو چاہیے کہ خدارا! اپنے طرز عمل پر غور فرمائیں بلکہ بطور خاص ان حضرات
کو زیادہ غور کرنا چاہیے جو فحاشی و عریانی اور اسلامی روایات سے جدا کلچر کو عام کر
کے مسلمانوں کے اخلاق اور کردار میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں اور بے حیای و فحاشی و عریانی
کے خلاف اسلام نےنفرت کی جو دیوار قائم کی ہے اسے گرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

جسے انگریزی میں indecency یا immorality کہا جاتا ہے، کے لغوی معنی
شرم و حیا سے خالی ہونا ہیں۔ اسلام میں بےحیائی کا مطلب صرف جسمانی بےحیائی نہیں، بلکہ
ذہنی، اخلاقی اور روحانی بےحیائی بھی اس میں شامل ہے۔ قرآن مجید میں بے حیائی کو بے
شمار جگہوں پر ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ
اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ(۳۰) (پ
18، النور: 30) ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ
اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ
پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔
اس کے علاوہ، قرآن میں عورتوں کو بھی اپنی حجاب کو سنبھالنے
اور زینت کے اظہار سے اجتناب کرنے کی ہدایت دی گئی ہے: وَ
لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّؕ-
(پ 18، النور 31) ترجمہ کنز العرفان: اور زمین پر اپنے پاؤں اس لئے زور سے نہ
ماریں کہ ان کی اس زینت کا پتہ چل جائے جو انہوں نے چھپائی ہوئی ہے۔
احادیث مبارکہ
میں بھی بے حیائی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم
میں حیا باقی نہ رہے تو تم جو چاہو کرو۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
قارئین کرام بے حیائی کے کئی اسباب ہیں جن میں سے چند
کی تفصیل جاننے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:
دین سے دوری: یہ بے حیائی کا
سب سے بڑا سبب ہے۔ جب افراد اپنی اسلامی تعلیمات کو چھوڑ دیتے ہیں اور دین کی حدود
سے تجاوز کرتے ہیں، تو بے حیائی کے عمل کو گناہ نہ سمجھتے ہوئے اسے اپنا لیتے ہیں۔ارشاد
باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ
الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ(۳۶) (پ
25، الزخرف، 36) ترجمہ کنز الایمان: اور جسے رَتُوند(اندھا بننا) آئے رحمٰن کے ذکر
سے ہم اس پر ایک شیطان تعیُّنات کریں کہ وہ اس کا ساتھی رہے۔ اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا
ہے کہ دین سے دوری انسان کو گناہ کی طرف مائل کرتی ہے۔
مغربی ثقافت کا اثر: مغربی
معاشرے کی تقلید اور ان کے عادات و رسومات کو اپنانا بھی بے حیائی کے اسباب میں شامل
ہے۔ میڈیا، فلمیں، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی مدد سے بے حیائی کی تشہیر کی جاتی
ہے، جس کے نتیجے میں افراد معاشرتی اور اخلاقی حدود کو پار کر لیتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار
کی تو وہ انہی میں سے ہوا۔ (ابو داود، 4/62، حدیث: 4031)
تعلیمی اور تربیتی کمی: تعلیمی
اداروں اور گھر کے ماحول میں اخلاقی تربیت کا فقدان بھی بے حیائی کا سبب بن سکتا ہے۔
جب بچوں کو اخلاقی و دینی تعلیم نہ دی جائے اور انہیں معاشرتی حدود کا شعور نہ ہو،
تو وہ آسانی سے بے حیائی کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ قرآن میں اللہ نے والدین کو اپنی
اولاد کی تربیت کی ذمہ داری دی ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا (پ
28، التحریم: 6) ترجمہ: اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔
ترمذی میں ہے
حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016) جب کہ بے حیائی کو ایمان
کے مخالف قرار دیا گیا ہے۔بے حیائی سے بچنا ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے تاکہ معاشرتی
اور فردی سطح پر بہتری لائی جاسکے اللہ ہمیں اپنی زندگی کو قرآن و حدیث کی روشنی میں
اخلاقی اصولوں کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

انسانی وجود پر لاحق ہونے والی بیماریاں دو طرح کی ہیں۔
ظاہری باطنی ظاہری بیماریوں سے ہر ایک واقف ہوتا ہے اور علاج اور معالجہ بھی کراتا
ہے۔مگر افسوس! کہ باطنی بیماریوں کی طرف عدم توجہ ہے۔جان لیجیے! کہ جہاں ظاہری بیماریوں
سے صحت متاثر ہوتی ہے تو وہاں باطنی بیماریوں سے ایمان متاثر ہوتا ہے۔
بے حیائی بھی باطنی بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے۔آج
معاشرے میں تباہی و بدامنی کا ایک اہم سبب بےحیائی ہی ہے۔ اسی کے سبب معاشرے میں طرح
طرح کے جرائم جنم لے رہے ہیں۔حیاء کہ جس کا احادیث میں بھی ذکر ہے۔ اس کے متعلق فرمان
مصطفیٰ ﷺ ہے: حیاء ایمان کا ایک حصہ ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)
افسوس! صدکروڑ افسوس! حیاء جو کہ بھلائی کی راہ دکھاتی
ہے اس کی قلت کے باعث نوجوان تو کجا بچے اور بوڑھے (عمر رسیدہ) افراد بھی طرح طرح کے
گناہوں میں مبتلا ہیں۔
بے حیائی کے
اسباب بے حیائی کے اسباب میں سر فہرست تو سوشل میڈیا کا غلط استعمال ہے کہ جس میں روزانہ
گھنٹوں صرف کر کے خصوصا نوجوان نسل گمراہی کے گہرے دلدل میں پھنس رہی ہے اور دوسری
بڑی وجہ بری صحبت کہ جو صرف بےحیائی میں ہی نہیں بلکہ کثیر گناہوں میں مبتلا ہونے کی
اہم وجہ ہے۔جبکہ علم دین سے دوری بھی ایک اہم سبب ہے۔ بے پردگی کا بھی ایک اچھا خاصہ
کردار ہے۔ اللہ اکبر! آج کل بے پردگی بہت عام ہو چکی ہے بازاروں، گلیوں،سینما وغیرہ
سمیت جگہ جگہ بےحیائی و بےپردگی نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ پردہ جس کا مقصد اعضاء ستر کو
ڈھانپنا ہے اسے ترک کر کے معاشرے نے دل کا پردہ اختیار کر لیا ہے یہ جملہ عام ہو گیا۔
صرف دل کا پردہ ہونا چاہیے، یاد رکھیے! سرکار مدینہ
ﷺ کی ازواج مطہرات، شہزادیاں،صحابیات،اور خصوصا خاتون جنت سیدہ فاطمتہ الزہرہ رضی اللہ
عنہا سے بڑھ کر کسی کا دل پاکیزہ نہیں ہو سکتا۔ان مبارک خواتین کو تو بشارت جنت حاصل
تھی پھر بھی انہوں نے پردہ نہ چھوڑا۔ کیونکہ پردے کا حکم قرآن سے ثابت ہے۔ چنانچہ قرآن
پاک میں ارشاد باری ہے: وَ قَرْنَ فِیْ
بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى
(پ 22، الاحزاب: ) ترجمہ کنز الا یمان: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اوربے پردہ
نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔
بے حیائی و بےپردگی کی وعید: فرمان
مصطفیﷺ: جہنمیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جنہیں میں نے (اپنے زمانے میں) نہیں دیکھا (بلکہ
وہ میرے بعد والے زمانے میں ہوں گی):
1) وہ لوگ جن کے پاس گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے
جن سے وہ لوگوں کو (ناحق) ماریں گے۔
2) وہ عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی،مائل
کرنے والی اور مائل ہونے والی ہوں گی،ان کے سر موٹی اونٹنیوں کے کوہانوں کی طرح ہوں
گے (یعنی راہ چلتے ہوئے شرم سے سر نیچا نہ کریں گی،اونٹ کی کوہان کی طرح ان کے سر بے
حیائی سے اونچے رہا کریں گے) یہ جنت میں نہ جائیں گی اور نہ اسکی خوشبو پائیں گی حالانکہ
اس کی خوشبو بہت دور سے آتی ہو گی۔
بے حیائی سے بچنےکے علاج:
1)علماء و متقین کی صحبت اختیار کیجئے۔
2)علم دین حاصل کیجئےخصوصا باطنی بیماریوں کی معلومات
کتاب کا مطالعہ کیجیے۔
3) پردے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے شرعی پردہ اختیار کیا
جائے۔
4) سوشل میڈیا کے استعمال میں کمی کی جائے اور فضول
apps کو delete کر دیں۔
5) گھروں میں مدنی چینل دیکھا جائے اور دعوت اسلامی
کے دینی ماحول سے وابستہ ہو جائیں ان شاء اللہ الکریم دین و دنیا کی بھلائیاں نصیب
ہوں گی۔

بے شرمی اور بے حیائی تباہی لاتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے
کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری
پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں لہذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا
اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے حدیث شریف
میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث:
4181)
صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو حقیقی حیا کو فروغ دیتا
ہے رسول کریم ﷺ نے ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں جن پر عمل کرنا پورے معاشرے کو حیا
دار بنا دیتا ہے۔
رسول خداﷺ کی شرم و حیا: حضرت
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺکنواری پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ
باحیا تھے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث:4180)
حیا نہیں کھوئی: اسی
حیا پرور ماحول کا نتیجہ تھا کہ حضرت سیدتنا ام خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں
شہید ہو گیا یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے نقاب ڈالے بارگاہ رسالت
میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا: اس وقت بھی باپردہ ہیں! کہنے لگیں: میں
نے بیٹا ضرور کھویا ہے حیا نہیں کھوئی۔ (ابو داود، 3/9، حدیث: 2488)
شرم و حیا اور ہمارا معاشرہ: اس
میں شک نہیں کہ محرم و نامحرم کا تصور اور شعور دے کر اسلام نے مرد و زن کے اختلاط
پر جو بند باندھا تھا آج اس میں چھید (سوراخ) نمایاں ہیں۔
میڈیا کی مہربانیاں: میڈیا
جس تواتر سے بچو اور بڑوں کو بے حیائی کا درس دے رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں قابل
غور ہے کہ جو نئی نسل والدین کے پہلو میں بیٹھ کر فلموں ڈراموں کے گندے اور حیا سوز
مناظر دیکھ کر پروان چڑھے گی اس میں شرم و حیا کا جوہر کیسے پیدا ہوگا۔ سوشل میڈیا
کے فوائد اپنی جگہ مگر بے حیائی اور بےشرمی کے فروغ میں بھی انٹرنیٹ نے یہ ثابت کر
دکھایا ہے کہ وہ واقعی تیز ترین ہے۔
یاد رکھیے! اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل
پیرا ہوگا تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خصائل کی حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم و
حیا کا خیال نہ رکھے گا تو اولاد میں بھی اس طرح کے جراثیم سرایت کر جائیں گے۔
بے حیائی کے نقصانات: دنیاوی
نقصانات بھی کم نہیں ہیں بے حیا انسان معاشرے میں ذلیل و خوار ہوتا ہے اس کا رعب و
دبدبہ بھی ختم ہو جاتا ہے لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے ذرا سی بھی عزت و وقعت نہیں
رہتی اس کے علاوہ اور بھی کئی نقصانات ہیں ہمیں اپنے اندر شرم و حیا پیدا کرنے کا ایک
طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم بے حیائی کے نقصانات پہ غور کریں اور اس کے اخروی نقصانات تو
اور زیادہ سخت ہیں جیسا کہ حضرت ابراہیم بن میسرہ فرماتے ہیں کہ: فحش کلامی (یعنی بے
حیائی کی باتیں) کرنے والا قیامت کے دن کتے کی شکل میں آئے گا۔
شرم و حیا انسان کی زندگی میں نکھار پیدا کر کے اس کو
معاشرے کا معزز فرد بنا دیتی ہے اور اس کے برعکس بےحیائی انسان کو ذلیل و رسوا کر دیتی
ہے بے حیائی دل کو پتھر کی طرح سخت کر دیتی ہے بے حیائی جنت سے دور اور جہنم کے قریب
کر دیتی ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ
تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
بے حیائی حیا کی ضد ہے جس کا معنی ہے بے شرمی۔ عربی
زبان میں اس کو فاحشۃ کہتے ہیں ہر وہ قول اور فعل جو برا اور فحش ہو اسے فحشۃ کہتے
ہیں
قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ
الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ (پ 8،
الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام فرمائی
ہیں (ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔آیت میں
فواحش اس سے مراد ہر کبیرہ گناہ ہے جو اعلانیہ کیا جائے یا خفیہ ایک قول یہ ہے کہ اس
سے مراد زنا ہے
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ سے زیادہ غیور کوئی نہیں اسی لیے اللہ نے تمام ظاہری
و باطنی بے حیائیوں کو حرام فرمایا ہے۔(بخاری، 3/225، حدیث: 4637)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کسی قوم میں اعلانیہ
طور پر بے حیائی فروغ پا جائے تو ان پر طاعون کو مسلط کر دیا جاتا ہے اور ایسی بیماریوں
میں انہیں مبتلا کر دیا جاتا ہے جن کا پچھلی قوموں نے نام تک نہیں سنا ہوتا۔ (ابن
ماجہ، 4/367، حدیث: 4019)
اخلاق باختگی اور حیا سوزی کی وبا بھی جسمانی وباؤں
کے مقابلے میں کچھ کم ہلاکت خیز نہیں ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں حیا
نہ ہو تو جو چاہو کرو۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
جہاں حیا کے خاتمے سے انسان کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے
وہاں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب ہو جاتی ہیں انسان کے افعال اس کے کنٹرول سے باہر
ہو جاتے ہیں نتیجتا تباہی اور بربادی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔
بے حیائی کے اسباب: مخلوط
تعلیم، فیشن پرستی بری صحبت میڈیا دین سے دوری فلمیں ڈرامے ناول ڈائجسٹ وغیرہ۔
بے حیائی کے نقصانات: بے
حیائی کے اخروی نقصانات تو اپنی جگہ اس کی دنیاوی نقصانات بھی کم نہیں بے حیا انسان
معاشرے میں ذلیل و خوار ہوتا ہے اس کا رعب و دبدبہ بھی ختم ہو جاتا ہے لوگوں کے دلوں
میں اس کے لیے ذرہ بھی عزت نہیں رہتی حضرت ابراہیم بن مسیرہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے
ہیں کہ فحش کلامی یعنی بے حیا کی بے حیائی کی باتیں کرنے والا قیامت کے دن کتے کی شکل
میں آئے گا۔ (اتحاف اسادة للزبیدی، 9/190)
بے حیائی سے بچنے کے طریقے: حیا
انسان کا خاص جوہر ہے جتنا ایمان قوی اتنی حیا زیادہ۔ اپنے اندر بے حیائی کا خاتمہ
کرنے اور شرم و حیا پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم بے حیائی کے نقصانات پہ غور
کریں بزرگان دین کے واقعات اور ان کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے اپنی اچھی صحبت اپنائی
سیرت مصطفی و صحابہ کا مطالعہ کیجیے حیا کے متعلق پڑھا جائے جیسا کہ حیا صرف بھلائی
لاتی ہے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ایمان کے 60 سے زیادہ شعبے ہیں اور حیا بھی ایمان
کا ایک شعبہ ہے۔ سب سے بہترین حیا اللہ پاک سے حیا کرنا ہے۔ مراة المناجیح میں ہے کہ
شرم و حیا ایمان کا اعلی رکن ہے، حدیث مبارکہ میں ہے: حضور علیہ الصلوۃ والسلام کنواری
عورت سے زیادہ حیا فرمایا کرتے۔
ماحول کیسا ہی ہو حیا کا دامن ہمیشہ تھامے رکھنا چاہیے
جیسا کہ ایک صحابیہ حضرت ام خلاد کا بیٹا جنگ میں شہید ہو گیا آپ خبر گیری کے لیے پردے
کی حالت میں رسالت مصطفی ﷺ میں حاضر ہوئیں اس پر کسی نے حیرت سے کہا اس وقت بھی آپ
نے منہ پر نقاب ڈال رکھا ہے کہنے لگی میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے حیا نہیں کھوئی۔ (ابو
داود، 3/9، حدیث: 2488)
یاد رکھئے! اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل
پیرا ہو گا تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خصائل کی حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم
و حیا کا خیال نہ رکھے گا تو اولاد میں بھی اس طرح کے خراب جراثیم سرایت کرجائیں گے۔
آج ضرورت اس امر (بات) کی ہے کہ حیا کو متأثّر کرنے والے تمام عوامل سے دور رہا جا
ئے اور اپنےتشخّص اور روح ایمان کی حفاظت کی جائے۔
اللہ پاک ہمیں شرم و حیا کا پیک آپ بنائے اور بے حیائی
سے بچائے۔ آمین
یا الہی دے ہمیں بھی دولت شرم و حیا حضرت عثماں غنی با حیا کے واسطے

آج کل کا یہ عام مشاہدہ ہے کہ اس دور میں بے حیائی بڑھتی
ہی جا رہی ہے اور اسی طرح اور بھی کئی گناہ ایسے ہیں کہ دن بدن بڑھ ہی رہے ہیں۔
اس گناہ (یعنی بے حیائی) کے اسباب بہت ہی زیادہ ہیں
سب سے بڑی وجہ دین سے دوری اور علم دین کا حاصل نہ کرنا ہے۔
اس کی چند مثالیں یہ ہیں کہ ناچ گانوں کی تقریبات کو
منعقد کرنا اور عورتوں کا بے پردہ ہو کر گھروں سے باہر نکلنا کہ جب عورتیں بے پردہ
ہو کر گھروں سے نکلتی ہیں تو آوارہ لوگ انہیں گھورتے ہیں عورتیں اس قدر سج سنور کر
باہر نکلتی ہیں شاید مرد نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی طرف نگاہیں اٹھاتے ہیں۔ بے حیائی
کا سب سے بڑا ذریعہ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا وغیرہ ہیں پہلے یہ چیزیں کمپیوٹر پر ہی ہوتی
تھیں مگر اب کے دور میں موبائل پر ہر قسم کے بے حیائی کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں
آج کل گناہ کرنا بہت آسان ہو گیا ہے۔
بے پردگی کرنا
حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے اور اگر پردے کا سرے سے ہی انکار کیا تو کافر
ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ (جس کو دیکھنا حرام ہے اس پر) قصداً (یعنی جان بوجھ کر) ڈالی
جانے والی پہلی نظر بھی حرام ہے اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
فرمان مصطفیٰ ﷺ: تم یا تو اپنی نگاہیں نیچی رکھو گے
اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو گے اور اپنے چہروں کو سیدھے رکھو گے یا تمہاری شکلیں
بگاڑ دی جائیں گی۔
اب اگر ہم بات کریں بے حیائی کرنے والوں اور دیکھنے
والوں کی تو ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ناچنے والیوں کے بارے میں اللہ پاک نے ارشاد
فرمایا: وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ
زِیْنَتِهِنَّؕ- (پارہ 18، النور 31) ترجمہ کنز العرفان: اور زمین پر
اپنے پاؤں اس لئے زور سے نہ ماریں کہ ان کی اس زینت کا پتہ چل جائے جو انہوں نے چھپائی
ہوئی ہے۔
حدیث مبارکہ میں ہے کہ اللہ پاک اس قوم کی دعا قبول
نہیں فرماتا جن کی عورتیں جانجھن پہنتی ہوں اس سے سمجھ لینا چاہیے کہ جب زیور کی آواز
دعا قبول نہ ہونے کا سبب ہے تو خاص عورت کی آواز اور اس کی بے پردگی کیسی اللہ پاک
کے غضب کو لازم کرنے والی ہوگی۔ پردے کی طرف سے بے پرواہی تباہی کا سبب ہے (اللہ کی
پناہ)۔ (صراط الجنان، 6/624)
بے حیائی دیکھنے والوں کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا
ہے: قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا
فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا
یَصْنَعُوْنَ(۳۰) (پ
18، النور: 30) ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ
اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ
پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔ اس آیت مبارکہ میں مسلمان مردوں کو
حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور جس چیز کو دیکھنا جائز نہیں اس
پر نظر نہ ڈالیں۔
بے حیائی سے
بچنے اور اپنی نگاہیں جھکا کر رکھنے کی ترغیب کے لیے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا
یہ کلام ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں: نظر نیچی رکھنا دل کو بہت زیادہ پاک کرتا ہے اور نیکیوں
میں اضافے کار ذریعہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تم نظر نیچی نہ رکھو بلکہ اسے آزادانہ
ہر چیز پر ڈالو تو بسا اوقات تم بے فائدہ اور فضول بھی ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دو
گے اور رفتہ رفتہ تمہاری نظر حرام پر بھی پڑنا شروع ہو جائے گی، اب اگر جان بوجھ کر
حرام پر نظر ڈالو گے تو یہ بہت بڑا گناہ ہے اور عین ممکن ہے کہ تمہارا دل حرام چیز
پر فریفتہ ہو جائے اور تم تباہی کا شکار ہو جاؤ اور اگر اس طرف دیکھنا حرام نہ ہو بلکہ
مباح ہو تو ہو سکتا ہے کہ تمہارا دل اس میں مشغول ہو جائے اور اس کی وجہ سے تمہارے
دل میں طرح طرح کے وسوسے آنا شروع ہو جائیں اور وسوسوں کا شکار ہو کر نیکیوں سے رہ
جاؤ لیکن اگر تم نے (حرام اور مباح) کسی طرف دیکھا ہی نہیں تو ہر فتنے اور وسوسے سے
محفوظ رہو گے اور اپنے اندر راحت محسوس کرو گے۔ (صراط الجنان، 6/617)