دکھ، خوشی اور غصے کے اظہار کے طریقے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں جبکہ شرم و حیا ایسا وصف ہے جو صرف انسان میں پایا جاتا ہے اور یہ جانور اور انسان کے درمیان وجہ امتیاز اور ان دونوں میں فرق کی بنیادی علامت ہے۔ اگر لب و لہجے،حرکات و سکنات اور عادات و اطوار سے شرم و حیا رخصت ہو جائے تو باقی تمام اچھائیوں پر خود بخود پانی پھر جاتا ہے اور دیگر تمام نیک اوصاف کی موجودگی کے باوجود اپنی وقعت کھو دیتے ہیں۔ جب تک انسان شرم وحیا کے حصار (دائرے) میں رہتا ہے ذلت و رسوائی سے بچا رہتا ہے اور جب اس قلعے کو ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا و بدترین کام بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔رسول خدا ﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484) معلوم ہوا کہ کسی بھی برے کام سے رکنے کا ایک سبب شرم و حیا بھی ہے۔ بے حیائی کے لغوی معنی ہے بے شرمی، بے مروتی، بے غیرتی، بے لحاظی وغیرہ۔

اب آئیے ذرا بے حیائی کی وجہ سے دنیا میں سزا و عذاب کی طرف تو خدا کا فرمان سنیں: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181) صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو حقیقی حیا کو فروغ دیتا ہے۔رسول خدا ﷺ نے ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں جن پر عمل کرنا پورے معاشرے کو حیا دار بنا سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات فطرت انسانی میں موجود شرم و حیا کی صفت کو ابھارتی ہیں اور پھر اس میں فکر و شعور کے رنگ بھر کر اسے انسان کا خوشنما لباس بنا دیتی ہیں۔ رسول خدا ﷺ کی شرم و حیا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مصطفےٰ جان رحمت ﷺ کنواری، پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ (معجم کبیر، 18/206،حدیث:508)

حیا نہیں کھوئی: اسی حیا پرور ماحول کا نتیجہ تھا کہ حضرت امّ خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔ یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نقاب ڈالے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا: اس وقت بھی باپردہ ہیں! کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے،حیا نہیں کھوئی۔ (ابو داود، 3/9، حدیث:2488)

شرم و حیا بڑھائیے نور ایمان جتنا زیادہ ہوگا شرم و حیا بھی اسی قدر پروان چڑھے گی۔ اسی لئے آقا کریم ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان سے ہے۔(مسند ابی یعلیٰ، 6/291، حدیث: 7463) وہ لوگ جو مخلوط محفلوں (جہاں مردوعورت میں بے پردگی ہوتی ہو)،مکمل بدن نہ ڈھانپنے والے لباس، روشن خیالی اور مادر پدر آزادی کو جدّت و ترقی کا زینہ سمجھ کر انہیں فروغ دیتے ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ ان میں نور ایمان کتنا کم ہوگیا ہے؟ حیا تو ایسا وصف ہے کہ جتنا زیادہ ہو خیر ہی بڑھاتا ہے۔ اسی لئے آقا کریم ﷺ نے فرمایا:حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔ (مسلم، ص40، حدیث: 37)

آئیے! شرم و حیا کی اہمیت سے متعلق چند احادیث طیبہ سنتے ہیں: ارشاد فرمایا: بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، تو جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک، 1 / 176، حدیث: 66)

ارشاد فرمایا: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 460، حدیث: 4181)

ارشاد فرمایا: بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب دارکر دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)

پىارے پىارے اسلامى بھائىو! غور کیجئے! اسلام میں شرم و حیا کی کتنی اہمیت ہے، ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ ایمان و حیاآپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک بھی ختم ہوتاہے تو دوسرا خودبخود(Automatic) ختم ہوجاتا ہے۔ آج اسلام کے دشمنوں کی یہی سازش ہے کہ مسلمانوں سےکسی طرح چادر حیا کھینچ لی جائے، جب حیا ہی نہ رہے گی تو ایمان خود ہی رخصت ہو جائے گا۔

آج ہمارے معاشرے میں کیسی کیسی بے حیائیاں ہورہی ہیں، آئیے کچھ سنتے ہیں: اس میں شک نہیں کہ جیسے جیسے ہم زمانۂ رسالت سے دور ہوتے جا رہے ہیں شرم و حیا کی روشنیاں ماڈرن،اندھی اور تاریک تہذیب کی وجہ سے بجھتی جا رہی ہیں۔ اس منحوس تہذیب کے جراثیم مسلم معاشرے میں بھی اپنے پنجے گاڑنے لگے ہیں۔ افسوس! وہ شرم و حیا جسے اسلام مرد و زن کا جھومر قرار دیتا ہے آج اس جھومر کو کلنک کا ٹیکا (بدنامی کا دھبّا) بتایا جا رہا ہے۔ محرم و نامحرم کا تصوّر اور شعور دے کر اسلام نے مرد و زن کے اختلاط پر جو بند باندھا تھا آج اس میں چھید (سوراخ) نمایاں ہیں۔ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: خبردار کوئی شخص کسی(اجنبیہ) عورت کے ساتھ تنہائی میں نہیں ہوتا مگر ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ (ترمذی، 4/67، حدیث: 2172)

میڈیا کی مہربانیاں: میڈیا جس تواتر سے بچّوں اور بڑوں کو بےحیائی کا درس دے رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ قابل غور ہے کہ جو نسل نو (نئی نسل) والدین کے پہلو میں بیٹھ کر فلموں ڈراموں کے گندے اور حیا سوز مناظر دیکھ کر پروان چڑھے گی اس میں شرم و حیا کا جوہر کیسے پیدا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ نسل نو کی ایک تعداد شرم و حیا کے تصوّر سے بھی کوسوں دور دکھائی دیتی ہے۔ شرم و حیا کی چادر کو تار تار کرنے میں رہی سہی کسر انٹر نیٹ نے پوری کردی ہے۔ اس کے فوائد اپنی جگہ مگر بےحیائی اور بے شرمی کے فروغ میں بھی انٹرنیٹ نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ واقعی تیزترین ہے۔

یاد رکھئے! اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو گا تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خصائل کی حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم و حیا کا خیال نہ رکھے گا تو اولاد میں بھی اس طرح کے خراب جراثیم سرایت کرجائیں گے۔ آج ضرورت اس امر (بات) کی ہے کہ حیا کو متأثّر کرنے والے تمام عوامل سے دور رہا جا ئے اور اپنےتشخّص اور روح ایمان کی حفاظت کی جائے۔

شرم و حیا کے بارے میں مزید معلومات کیلئے شیخ طریقت امیر اہل سنّت دامت برکاتہم العالیہ کے رسالہ باحیا نوجوان کا مطالعہ کیجئے۔

اگر ہم تاریخ(History) کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ زمانۂ جاہلیت یعنی سرکار دوعالم، نور مجسم ﷺ کی دنیا میں جلوہ گری سے پہلے کے زمانے(زمانۂ جاہلیّت) میں عربوں میں بے حیائی اور بے شرمی عام تھی۔ مردوعورت کا میل جول، عورتوں کے ناچ گانے سے لطف اٹھانا، یہ سب اس وقت بھی عام تھا۔ عرب کے بڑے بڑے شعراء عورتوں کی نازیبا حرکتوں اور اداؤں کا ذکر اپنی شاعری میں فخریہ کرتے تھے۔ اسی طرح بعض لوگ باپ کے مرنے پر معاذاللہ باپ کی بیوی یعنی اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کر لیتے۔ ان کے علاوہ بھی طرح طرح کی بے شرمی و بے حیائی کی رسمیں ان میں عام تھیں۔ الغرض! جاہلیت کے معاشرے کا شرم و حیا سے دور دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔

لیکن جب پیکر شرم و حیا، جناب احمد مصطفےٰ ﷺ دنیا کو اپنی نورانی تعلیمات سے منور کرنے تشریف لائے تو آپ نے اپنی نگاہ حیا دار سے ایسا ماحول بنایا کہ ہر طرف شرم و حیا کی روشنی پھیلنے لگی، اب وہی معاشرہ (Society)جسے حیا چھو کے بھی نہیں گزری تھی، وہاں شرم و حیا کا سازگار ماحول پیدا ہونے لگا، وہی معاشرہ جہاں شرم و حیا کرنا عار سمجھا جاتا تھا اب اسی ماحول میں جناب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جیسے لوگ پیدا ہونے لگے کہ جن کے بارے میں خود حبیب خدا، سرور ہر دوسرا ﷺ نے ارشاد فرمایا: عثمان سےتو آسمان کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ (مسلم، ص 1004، حدیث: 2401)

توچونکہ آقا کریم، رسول رحیم ﷺ خود شرم و حیا کے پیکر تھے، اس لیے آپ ﷺ نے اپنی مقدس تعلیمات سے پورے معاشرے کو حیادار اور باوقار بنا دیا اور وہاں رہنے والا ہر ایک شرم و حیا کا پیکر بننے لگا۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا ہی خوب فرماتے ہیں:

نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام

اس سے ہمیں بھی یہ درس ملتا ہےکہ اگر ہم اپنے گھر میں شرم و حیا کا ماحول بنانا چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں خود اپنے اندر شرم وحیا پیدا کرنا ہوگی۔ اگر ہماری خواہش ہے کہ ہمارے گھر والے بے پردگی سے بچیں تو پہلے ہمیں خود حیا کا پیکر بننا ہوگا۔ ٭اگرہم چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر والے فلموں اور ڈراموں کے حیا سوز مناظر سے بچیں تو پہلے ہمیں خود فلموں ڈراموں کا بائیکاٹ کرنا ہوگا۔ ٭اگرہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر والے غیر محرم کے پردے کو یقینی بنائیں تو پہلے ہمیں خود اس کی پاسداری کرنی ہوگی۔ ٭اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر میں ایسا لباس نہ پہنا جائے جو شرم و حیا کے خلاف ہے تو پہلے ہمیں بھی ایسے لباس کو چھوڑ نا ہوگا۔ ٭اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر میں کوئی ایسی بات نہ ہو جو شرم وحیا کے خلاف ہو تو پہلے ہمیں خود بھی فحش اور بے حیائی والی گفتگوسے بچنا ہوگا۔ ٭اگر ہماری یہ خواہش ہے کہ ہمارے گھر والے نظریں جھکانے والے بنیں تو پہلے ہمیں نظریں جھکانے کی عادت بنانی پڑے گی۔ ٭اگر ہماری یہ خواہش ہے کہ ہمارے گھر والے گانے سننے سے بچیں تو پہلے ہمیں گانوں باجوں سے اپنی نفرت ظاہر کرنی ہوگی۔ ٭اگر ہماری یہ خواہش ہے کہ ہمارے گھر والے پارکوں، شاپنگ سینٹروں اوربازاروں میں بے پردہ نہ گھومیں تو ہمیں خود بھی شرم وحیا کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے بلاوجہ ایسے مقامات پرجانے سے بچناہوگا۔ ٭اگر ہماری یہ خواہش ہے کہ ہمارے گھر والے بازاری گفتگو سے بچتے ہوئے مہذب اندازمیں بات کریں تو پہلے ہمیں خوداس کاعملی پیکربنناپڑے گا

اللہ پاک ہمیں با حیا بنائے آمین۔