یقینا ہر رسول، ہر نبی اور ہر ولی با حیاء (ہی) ہوتا
ہے۔ اللہ کے مقبول بندے کے بارے میں بے حیائی کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا اور جو
بے حیاء ہے وہ نیک بندہ کہلانے کا حقدار نہیں۔ چچا، تایا، خالہ، ماموں اور پھوپھی کی
لڑکیوں، چچی، تائی، ممانی، اپنی بھابھی، نامحرم پڑوسنوں اور دیگر نامحرم عورتوں کو
جو قصداً دیکھے، ان سے بے تکلّف بنے، فلمیں ڈرامے دیکھے، گانے باجے سنے، فحش کلامی
یا گالم گلوچ کرے وہ بے حیاء ہی نہیں، بے حیاء لوگوں کا بھی سردار ہے۔ اگرچہ وہ حافظ،
قاری، قائم اللّیل و صائم الدّہر یعنی رات بھر عبادت کرنے والا اور سارا سال روزہ رکھنے
والا ہو۔ اس کے اعمال اپنی جگہ پر مگر ان کے ساتھ بے حیائی کے کاموں کے ارتکاب نے اسکی
صفت حیاء اور نیک ہونے کی خصلت کو سلب کر لیا۔ اور آجکل اس کے نظاّرے بھی عام ہیں۔
اچھّے خاصے مذہبی حلیے میں نظر آنے والے بے شمار افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ یعنی
چہرے پر داڑھی، سر پر زلفیں اور عمامہ شریف، سنّت کے مطابق لباس بلکہ بعض تو اچھّے
خاصے دین کے مبلغ ہونے کے باوجود، حیاء کے معاملے میں سراسر محروم ہوتے ہیں۔ دیور و
بھابھی کے پردے کے معاملے میں قطعاً لا پرواہی برت کر جہنّم کے حقدار ٹھہرتے ہیں ایسے
نیک نما افراد کو کوئی درد بھرا دل رکھنے والا سمجھائے بھی تو ایک کان سے سن کر دوسرے
کان سے نکالدیتے ہیں۔ جب انکی بے تکلّف دوستوں کے ساتھ گپ شپ کی منڈلیاں لگتیں اور
محفلیں جمتی ہیں۔ تو ان میں بلاوجہ شادیوں اور اخلاق سے گری ہوئی شہوت افزا باتوں کی
بھر مار ہوتی ہے، تیری شادی، میری شادی، فلاں کی شادی وغیرہ ان غیر مقدّس محفلوں کے
عام موضوعات ہوتے ہیں اور پھر اشاروں کنایوں میں ایسی باتیں کر کے لطف اٹھایا جاتا
ہے کہ کوئی باحیاء ہو تو شرم سے پانی پانی ہو جائے۔ (باحیا نوجوان، ص 30، 31)
رسول خدا ﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا
نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484) معلوم ہوا کہ کسی بھی برے کام سے
رکنے کا ایک سبب شرم و حیا بھی ہے۔
شرم وحیا کیا
ہے؟ وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسند ہوں ان سے بچانے والے وصف
کو شرم وحیا کہتے ہیں۔ (باحیا نوجوان، ص 7ماخوذاً)
حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا: جس نے اسلام میں اچھا طریقہ رائج کیا، اس کے لئے اسے رائج کرنے اور اپنے بعد
اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ہے، اور ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے بھی کچھ کم
نہ ہوگا اور جس نے اسلام میں برا طریقہ رائج کیا، اس پر اس طریقے کو رائج کرنے اور
اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ہے اور ان عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ
ہوگی۔ (مسلم، ص 508، حدیث: 1017)
حضرت عثمان
غنی رضی اللہ عنہ کی حیاء بھی اسی قسم سے ہے، جیسا کہ آپ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:
میں بند کمرے میں غسل کرتا ہوں تو اللہ سے
حیاء کی وجہ سے سمٹ جاتا ہوں۔ ابن عساکر نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا
کہ آقائے دو جہاں ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان سے
ہے اور عثمان رضی اللہ عنہ میری امّت میں سب سے بڑھ کر حیا کرنے والے ہیں۔ (ا لجامع
الصّغیر للسّیوطی، ص 235، حدیث:
3869)
یا الٰہی! دے ہمیں بھی دولت شرم و حیا حضرت عثماں غنیٔ با حیا
کے واسطے
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مصطفےٰ
جان رحمت ﷺ کنواری، پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ (ابن ماجہ، 4/460،
حدیث:4180)
اسی حیا پرور ماحول کا نتیجہ تھا کہ حضرت امّ خلاد رضی
اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔ یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے
کیلئے نقاب ڈالے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا: اس وقت
بھی باپردہ ہیں! کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے،حیا نہیں کھوئی۔ (ابو داؤد،
3/9، حدیث:2488 ملتقطاً)
شرم و حیا بڑھائیے نور ایمان جتنا زیادہ ہوگا شرم و
حیا بھی اسی قدر پروان چڑھے گی۔ اسی لئے آقا کریم ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان سے ہے۔ (مسند
ابی یعلیٰ، 6/291، حدیث: 7463) وہ لوگ جو مخلوط محفلوں (جہاں مردوعورت میں بے پردگی
ہوتی ہو)،مکمل بدن نہ ڈھانپنے والے لباس، روشن خیالی اور مادر پدر آزادی کو جدّت و
ترقی کا زینہ سمجھ کر انہیں فروغ دیتے ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ ان میں نور ایمان کتنا
کم ہوگیا ہے؟ حیا تو ایسا وصف ہے کہ جتنا زیادہ ہو خیر ہی بڑھاتا ہے۔ اسی لئے آقا کریم
ﷺ نے فرمایا:حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔ (مسلم، ص40، حدیث: 37)
حیاء کی2 قسمیں: فقیہ ابواللّیث سمرقندی رضی اللہ عنہفرماتے
ہیں: حیاء کی دو قسمیں ہیں: {1}لوگوں کے معاملہ میں حیاء {2}اللہ کے معاملہ میں حیاء۔
لوگوں کے معاملے میں حیاء کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تو اپنی نظر کو حرام کردہ اشیاء سے
بچا اور اللہ کے معاملے میں حیاء کرنے سے مراد یہ ہے کہ تو اس کی نعمت کو پہچان اور
اس کی نافرمانی کرنے سے حیاء کر۔ (تنبیہ الغافلین، ص 258 پشاور)