اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

بے حیائی حیا کی ضد ہے جس کا معنی ہے بے شرمی۔ عربی زبان میں اس کو فاحشۃ کہتے ہیں ہر وہ قول اور فعل جو برا اور فحش ہو اسے فحشۃ کہتے ہیں

قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ (پ 8، الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام فرمائی ہیں (ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔آیت میں فواحش اس سے مراد ہر کبیرہ گناہ ہے جو اعلانیہ کیا جائے یا خفیہ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد زنا ہے

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ سے زیادہ غیور کوئی نہیں اسی لیے اللہ نے تمام ظاہری و باطنی بے حیائیوں کو حرام فرمایا ہے۔(بخاری، 3/225، حدیث: 4637)

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کسی قوم میں اعلانیہ طور پر بے حیائی فروغ پا جائے تو ان پر طاعون کو مسلط کر دیا جاتا ہے اور ایسی بیماریوں میں انہیں مبتلا کر دیا جاتا ہے جن کا پچھلی قوموں نے نام تک نہیں سنا ہوتا۔ (ابن ماجہ، 4/367، حدیث: 4019)

اخلاق باختگی اور حیا سوزی کی وبا بھی جسمانی وباؤں کے مقابلے میں کچھ کم ہلاکت خیز نہیں ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں حیا نہ ہو تو جو چاہو کرو۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

جہاں حیا کے خاتمے سے انسان کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے وہاں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب ہو جاتی ہیں انسان کے افعال اس کے کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں نتیجتا تباہی اور بربادی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔

بے حیائی کے اسباب: مخلوط تعلیم، فیشن پرستی بری صحبت میڈیا دین سے دوری فلمیں ڈرامے ناول ڈائجسٹ وغیرہ۔

بے حیائی کے نقصانات: بے حیائی کے اخروی نقصانات تو اپنی جگہ اس کی دنیاوی نقصانات بھی کم نہیں بے حیا انسان معاشرے میں ذلیل و خوار ہوتا ہے اس کا رعب و دبدبہ بھی ختم ہو جاتا ہے لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے ذرہ بھی عزت نہیں رہتی حضرت ابراہیم بن مسیرہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فحش کلامی یعنی بے حیا کی بے حیائی کی باتیں کرنے والا قیامت کے دن کتے کی شکل میں آئے گا۔ (اتحاف اسادة للزبیدی، 9/190)

بے حیائی سے بچنے کے طریقے: حیا انسان کا خاص جوہر ہے جتنا ایمان قوی اتنی حیا زیادہ۔ اپنے اندر بے حیائی کا خاتمہ کرنے اور شرم و حیا پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم بے حیائی کے نقصانات پہ غور کریں بزرگان دین کے واقعات اور ان کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے اپنی اچھی صحبت اپنائی سیرت مصطفی و صحابہ کا مطالعہ کیجیے حیا کے متعلق پڑھا جائے جیسا کہ حیا صرف بھلائی لاتی ہے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ایمان کے 60 سے زیادہ شعبے ہیں اور حیا بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے۔ سب سے بہترین حیا اللہ پاک سے حیا کرنا ہے۔ مراة المناجیح میں ہے کہ شرم و حیا ایمان کا اعلی رکن ہے، حدیث مبارکہ میں ہے: حضور علیہ الصلوۃ والسلام کنواری عورت سے زیادہ حیا فرمایا کرتے۔

ماحول کیسا ہی ہو حیا کا دامن ہمیشہ تھامے رکھنا چاہیے جیسا کہ ایک صحابیہ حضرت ام خلاد کا بیٹا جنگ میں شہید ہو گیا آپ خبر گیری کے لیے پردے کی حالت میں رسالت مصطفی ﷺ میں حاضر ہوئیں اس پر کسی نے حیرت سے کہا اس وقت بھی آپ نے منہ پر نقاب ڈال رکھا ہے کہنے لگی میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے حیا نہیں کھوئی۔ (ابو داود، 3/9، حدیث: 2488)

یاد رکھئے! اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو گا تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خصائل کی حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم و حیا کا خیال نہ رکھے گا تو اولاد میں بھی اس طرح کے خراب جراثیم سرایت کرجائیں گے۔ آج ضرورت اس امر (بات) کی ہے کہ حیا کو متأثّر کرنے والے تمام عوامل سے دور رہا جا ئے اور اپنےتشخّص اور روح ایمان کی حفاظت کی جائے۔

اللہ پاک ہمیں شرم و حیا کا پیک آپ بنائے اور بے حیائی سے بچائے۔ آمین

یا الہی دے ہمیں بھی دولت شرم و حیا حضرت عثماں غنی با حیا کے واسطے