اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ہماری زندگی کے ہر
معاملے میں رہنمائی کرتا ہے اس میں سے ایک چیز شرم و حیا بھی ہے لیکن دور حاضر پر غور
کیا جائے تو حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں شرم و حیا کی چادر اتار کر بے حیائی
کا لبادہ اوڑھ لیا گیا ہے ہر طرف عریانی، بے شرمی بے غیرتی کا بازار گرم ہے۔
آج مسلمان معاشرے میں کفار بد اطوار نے ایسی گہری چھاپ
چھوڑی ہے کہ الامان الحفیظ آج مسلمانوں پر غیر مسلموں نے ایسا غلبہ پا لیا ہے کہ مسلمان
اسلام کی تعلیمات کو بالکل فراموش کر بیٹھا ہے بالخصوص نوجوان نسل تباہی و بربادی کے
دہانے پر پہنچ گئی ہے ٹرینڈ کے نام پر کسی بھی طرح کے کام کرنے پر کوئی عار محسوس نہیں
کیا جاتا اگرچہ وہ کیسا ہی نازیب اور شریعت سے ٹکرانے والا ہو اور پھر ایسے ضمیر مردہ
ہو چکے ہیں کہ اس بے حیائی کی تشہیر میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔
اس کے متعلق قرآن پاک میں درج ذیل وعید آئی ہے چنانچہ
پارہ 18 سورہ نور کی آیت نمبر 19 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ
اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مفتی قاسم عطاری مدظلہ الباری
تحریر فرماتے ہیں: اشاعت سے مراد تشہیر کرنا اور ظاہر کرنا ہے جبکہ فاحشہ سے وہ تمام
اقوال اور افعال مراد ہیں جن کی قباحت بہت زیادہ ہے اور یہاں آیت میں اصل مراد زنا
ہے۔ (روح البیان، 6 / 130 ملخصاً) البتہ
یہ یاد رہے کہ اشاعت فاحشہ کے اصل معنیٰ میں بہت وسعت ہے چنانچہ اشاعت فاحشہ میں جو
چیزیں داخل ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:
(1)کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔
(2)کسی کے خفیہ عیب پر مطلع ہونے کے بعد اسے پھیلانا۔
(3)علمائے اہلسنّت سے بتقدیر الٰہی کوئی لغزش فاحش واقع
ہو تو ا س کی اشاعت کرنا۔
(4) حرام کاموں کی ترغیب دینا۔
(5) ایسی کتابیں لکھنا، شائع کرنا اور تقسیم کرنا جن
میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہوں۔
(6) ایسی کتابیں، اخبارات، ناول، رسائل اورڈائجسٹ وغیرہ
لکھنا اور شائع کرنا جن سے شہوانی جذبات متحرک ہوں۔
(7)فحش تصاویر اور وڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں دیکھنے
کے ذرائع مہیا کرنا۔
(8)ایسے اشتہارات اور سائن بورڈ وغیرہ بنانا اور بنوا
کر لگانا، لگوانا جن میں جاذبیت اور کشش پیدا کرنے کے لئے جنسی عریانیّت کا سہارا لیا
گیا ہو۔
(9) حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا،ان
کی تشہیر کرنا اور انہیں دیکھنے کی ترغیب دینا۔
(10) فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں
کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔
(11)زنا کاری کے اڈّے چلانا وغیرہ۔
ان تمام کاموں
میں مبتلا حضرات کو چاہئے کہ خدارا! اپنے طرز عمل پر غور فرمائیں بلکہ بطور خاص ان
حضرات کو زیادہ غورکرناچاہئے جو فحاشی وعریانی اور اسلامی روایات سے جدا کلچر کو عام
کر کے مسلمانوں کے اخلاق اور کردار میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں اور بے حیائی، فحاشی و
عریانی کے خلاف اسلام نے نفرت کی جو دیوار قائم کی ہے اسے گرانے کی کوششوں میں مصروف
ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مفتی صاحب ایک حدیث مبارکہ
بھی نقل فرماتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں:
حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا: جس نے اسلام میں اچھا طریقہ رائج کیا، اس کے لئے اسے رائج کرنے اور اپنے بعد
اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ہے، اور ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے بھی کچھ کم
نہ ہوگا اور جس نے اسلام میں برا طریقہ رائج کیا، اس پر اس طریقے کو رائج کرنے اور
اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ہے اور ان عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ
ہوگی۔ (مسلم، ص 508، حدیث: 1017)
اسی طرح ایک حدیث مبارکہ میں حیا اور ایمان کا تعلق
بیان فرمایا گیا ہے چنانچہ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس
میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک، 1/176،
حدیث:66)
اسی لئے اسلام کے دشمن مسلمانوں کی حیا پر وار کرتے
نظر آتے ہیں۔ ڈراموں، فلموں، اشتہارات اور مارننگ شوز وغیرہ کے نام پر معاشرے میں شرم
و حیا کے سائبان (شیڈ) میں چھید (سوراخ) کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس جدید دور میں
جہاں ان فتنوں سے بچنا ناممکن ہوتا جارہا تھا وہیں اللہ پاک نے امت پر احسان کرتے ہوئے
ہمیں شیخ شریعت پیر طریقت امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس
عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم عالیہ عطا فرمائے جنہوں نے اس بے حیائی اور دور
حاضر کے فتنوں سے بچانے کے لیے ہمیں پیارا پیارا مہکا مہکا مدنی ماحول دیا جس سے بہت
سے لوگوں کو توبہ کی توفیق ملی