حیاء جہاں اعلی انسانی صفات میں سے ایک ہے وہیں بے حیائی
بدترین درجے کی بری صفت ہے جب کوئی انسانی گروہ کسی جرم کے ارتکاب کا عادی ہو جاتا
ہے تو پھر وہ بدی کو اچھائی اور برائی کو نیکی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آج بڑے پیمانے
پر انسان بے حیائی کے دور سے گزر رہا ہے۔فحش،فحشاء اور فاحشہ ہر وہ گناہ اور معصیت
جسکی قباحت واشاعت ذیادہ ہو کو کہتے ہیں۔
آسان مفہوم ہر قبیح فعل و قول کو فاحشہ (بے حیائی)کہتے
ہیں۔ آج غیر مسلم معاشرے میں تو کیا مسلم معاشرے میں بذریعہ ذرائع ابلاغ بے حیائی پھیلائی
جارہی ہے۔
جبکہ اللہ کی بارگاہ میں یہ کس قدر بڑا جرم وگناہ ہے۔
چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ
اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے ہیں
اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کیلیے دنیااور آخرت میں درد
ناک عذاب ہے دنیا کاعذاب ہے حد قائم کرنا چنانچہ حضرت عبداللہ بن ابی، حضرت حسان اور
حضرت مسطح کو حد لگائی گئی اورآخرت کے عذاب سے مراد کہ یہ اگر بغیر توبہ کے مر گئے
تودوذخ میں جائیں گے۔
قارئین غور فرمائیں! مذکورہ آیت میں ایک غیر تصدیق شدہ
بات کو پھیلانے والوں کواشاعت فاحشہ میں داخل ہونے اورحد جاری کرنے کا حکم دیاگیا تو
پھر حرام کاموں کی ترغیب دینا، ایسی کتابیں، ناول، ڈائجسٹ، رسائل، کالم، لکھنا جس سے
شہواتی جذبات متحرک ہوں،فحش تصاویر،اور و یڈیوز بنانا،بیچنا،انہیں دیکھنے کیلیے سہولت
مہیا کرنا،فلمیں ڈرامے،فیشن شو کے نام پر عورت اور حیاء سے عاری لباسوں کی نمائش،کس
قدرسنگین جرائم ہیں۔
دین اسلام بے حیائی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور رسول
اللہ ﷺ کی تعلیمات بھی بے حیائی کی مذمت بیان کرتی ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہے: جب تجھ میں
حیاء نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484)
اس سے معلوم ہوا برے کام سے رکنے کیلیے حیاء بہت ضروری
ہے لیکن جب حیاء ہی نہ رہے تو انسان کو اس کی سرکشی میں بھٹکنے کیلیےسخت ناراضگی کا
اظہار فرمایا گیا۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: خبردار! کوئی شخص کسی اجنبی عورت کے ساتھ
تنہائی میں نہیں ہوتا مگر ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔(ترمذی، 4/67، حدیث:
2172)
آج کے دور میں میڈیا جسطرح بے حیائی کو فروغ دے رہا
ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے پھر اس کے آزادانہ استعمال نے رہی سہی کسر نکال دی
اور بالخصوص مغرب جو ہر طرح کی ا۔سانی آزادی کا بڑاعلمبردار ہےاور بے حیائی کے ملکی
طور پر قانوں پاس کروانے کو ہیومن فریڈم کا نام دیتا ہے۔
آج وہ خود اپنی تباہی کو اپنی آنکھوں سےدیکھ رہے ہیں
اولاد والدین کی باغی ہے خاندانی نظام ٹوٹ کر رہ گیامگروہ روک نہیں پا رہے۔
ایسے ہی مسلمانوں کی حالت بھی کچھ خاص نہیں رہی کہ جب
تک یہ باحیاء تھے مسلمان ماؤں نے ایسے بہادر جرنیل و سپہ سالار پیدا کیے جنہوں نے دین
اسلام کی خدمت کی جبکہ آج مسلمان غیروں کے تابع ہو کر انکے سرنگوں ہیں۔
در حقیقت جب انسان حیاء کو کھو دیتا ہے تو وہ جانوروں
کی صفت میں داخل ہو جاتا ہے یہ عام مشاہدہ ہے کہ جانور لباس و پردے سے عاری ہوتے ہیں
ہمارا پیارا دین اسلام حیاء کی بہت ترغیب دیتا ہے اسی پر عمل کرتے ہوئے چند
آداب حیاء نیت قرطاس کئے جارہے ہیں۔ توجہ سے ملا حظہ کیجیے:
لباس: ایک مسلمان کا
لباس ایسا ہونا چاہیے کہ جس سے حیاء کے تمام تقاضے پورے ہوں اور دوسروں کی بد نگاہی
کا بھی سبب نہ بن رہا ہو۔
گفتگو: کہا جاتا ہے کہ
گفتگو انسان کا کل ہوتی ہے لہذاایسی ہونی چاہیے جو شرعی لحاظ سے حیاء والی اور دیگر
افراد کیلیے گناہوں سے بچنے والی ہو۔
میڈیا کا استعمال: میڈیا
کے استعمال میں خاص احتیاط کی حاجت ہے کہ کہیں ہماری وجہ سے معاشرے میں بےحیائی تو
نہیں پھیل رہی۔
اچھی صحبت: اپنا دینی وقار
قائم رکھتے ہوئے اچھے
اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کی جاے تاکہ ہماری صحبت میں جو بیٹھے وہ بھی حیاء داربن
کے اٹھے۔