دین اسلام حیا کا علمبردار ہے لہٰذا امراض ظاہریہ و باطنیہ کو واضح فرما کر ہمارے ظاہر و باطن کی اصلاح فرماتا ہے۔ انہیں ظاہری مہلکات (ہلاکت میں ڈالنے والے) امراض میں سے ایک بے حیائی بھی ہے چنانچہ اللہ فرماتا ہے: وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸) اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۶۹) (پ 2، البقرۃ: 168، 169) ترجمہ کنز الایمان: اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بےشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تو تمہیں یہی حکم دے گا بدی اور بے حیائی کا اور یہ کہ اللہ پر وہ بات جوڑو جس کی تمہیں خبر نہیں۔

سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے: وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-(پ 14، النحل: 90)ترجمہ کنز الایمان: اور منع فرماتا ہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے۔

آئیے احادیث مبارکہ کی روشنی میں بے حیائی کے متعلق ملاحظہ کرتے ہیں:

1) نبی کریم ﷺ كا فرمان عبرت نشان ہے:چار (4) طرح کے جہنّمی کہ جو کھولتے پانی اور آگ کے مابین(یعنی درمیان) بھاگتے پھرتے ویل وثبور (ہلاکت) مانگتے ہوں گے۔ ان میں سے ایک وہ شخص کہ اس کے منہ سے پیپ اور خون بہتے ہوں گے۔ جہنّمی کہیں گے: اس بد بخت کو کیا ہوا ہماری تکلیف میں اضافہ کئے دیتا ہے؟ کہا جائے گا: یہ بدبخت خبیث اور بری بات کی طرف متوجہ ہو کر اس سے لذّت اٹھاتا تھا جیسا کہ جماع کی باتوں سے۔ (اتحاف السّادة للزّبیدی، 9/187)

2) حضرت شعیب بن ابی سعید رضی اللہ عنہ سے مروی فرماتے ہیں: جو بے حیائی کی باتوں سے لذّت اٹھائے بروز قیامت اس کے منہ سے پیپ اور خون جاری ہوں گے۔ (ایضاً ص 188)

3) حضرت ابراہیم بن میسرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: فحش کلامی (یعنی بے حیائی کی باتیں) کرنے والا قیامت کے دن کتّے کی شکل میں آئے گا۔ (اتحاف السّادة للزّبیدی، 9/190)

مفسّر شہیر حکیم الامّت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خیال رہے کہ تمام انسان قبروں سے بشکل انسانی اٹھیں گے پھر محشر میں پہنچ کر بعض کی صورتیں مسخ ہو جائیں گی۔ (مراة المناجیح، 6/660)

4) پیکر شرم و حیا ﷺ فرماتے ہیں: جب تجھے حیا نہیں تو تو جو چاہے کرے۔ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبّان، 2 /3، حدیث: 606)

یہ فرمان تہدید و تخویف (یعنی ڈرانے اور خوف دلانے) کے طور پر ہے کہ جو چاہے کرو جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ برا (بے حیائی والا کام) کرو گے تو اس کی سزا پاؤ گے۔

حیا کی انتہا: حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: حیا کی غایت (یعنی انتہا) یہ ہے کہ اپنے آپ سے بھی حیا کرے۔ (باحیا نوجوان، ص 58)

امیر اہلسنّت دامت برکاتہم اپنے نعتیہ دیوان میں لکھتے ہیں:

ہر گھڑی شرم و حیا سے بس رہے نیچی نظر پیکر شرم و حیا بن کر رہوں آقا مدام

اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ آقا کریم ﷺ کے صدقے ہمیں بھی پیکر شرم و حیا بنائے۔ آمین