بے حیائی کا تصور انسانی معاشرت میں ایک نازک موضوع
ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں فرد یا معاشرہ اخلاقی اور سلیقے کی حدوں کو عبور کرتا
ہے۔ بے حیائی کی تعریف عام طور پر اس عمل کے طور پر کی جاتی ہے جس میں انسان اپنے کردار،
لباس یا گفتگو میں نامناسبیت دکھاتا ہے۔
بے حیائی کے کئی اسباب ہوتے ہیں، جن میں ثقافتی تبدیلیاں،
معاشرتی دباؤ، اور میڈیا کا اثر شامل ہیں۔ جدید دور میں، ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا
نے بے حیائی کے تصور کو مزید پھیلایا ہے۔ نوجوان نسل میں یہ رویے زیادہ دیکھے جاتے
ہیں، کیونکہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف ماڈلز اور طرز زندگی کو اپناتے ہیں۔
بے حیائی کے اثرات فرد اور معاشرے دونوں پر مرتب ہوتے
ہیں۔ فرد کی ذاتی زندگی متاثر ہوتی ہے، جس سے خود اعتمادی، عزت نفس، اور ذاتی تعلقات
میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ معاشرتی سطح پر، بے حیائی کے باعث اخلاقی زوال، خاندانی
ڈھانچے میں کمزوری، اور معاشرتی تعلقات میں بے چینی پیدا ہوتی ہے۔
بے حیائی کے خلاف اقدامات ضروری ہیں۔ والدین کو چاہیے
کہ وہ اپنے بچوں کو اخلاقیات کی تعلیم دیں اور انہیں صحیح اور غلط کی پہچان کرائیں۔
تعلیمی اداروں میں بھی اس موضوع پر آگاہی پیدا کرنا ضروری ہے۔ مذہبی اور ثقافتی ادارے
بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، تاکہ معاشرتی اخلاقیات کو فروغ دیا جا
سکے۔
بے حیائی ایک سنگین مسئلہ ہے جو ہماری معاشرتی اور اخلاقی
زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے اجتماعی کوششیں اور بہتر تعلیم
کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس مسئلے کی نشاندہی کریں اور اس کے خلاف اقدام کریں تو ہم ایک
صحت مند معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
بے حیائی، اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک ناپسندیدہ عمل
ہے۔ قرآن اور سنت میں بے حیائی کی مذمت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے کچھ اہم نکات درج ذیل
ہیں:
1۔ عزت نفس اور شرم حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: ہر دین کا
ایک خاص طرز عمل ہے اور اسلام کا طرز عمل حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)اس
حدیث میں حیا کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے، جو کہ بے حیائی کے متضاد ہے۔
2۔ اجتماعی ذمہ داری نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب کسی
قوم میں اعلانیہ طور پر بے حیائی فروغ پا جائے تو ان پر طاعون کو مسلط کر دیا جاتا
ہے اور ایسی بیماریوں میں انہیں مبتلا کر دیا جاتا ہے جن کا پچھلی قوموں نے نام تک
نہیں سنا ہوتا۔ (ابن ماجہ، 4/367، حدیث: 4019)یہ حدیث بتاتی ہے کہ بے حیائی کی جڑیں
معاشرتی سطح پر بھی پھیلتی ہیں اور اس کا نتیجہ پورے معاشرے کو متاثر کرتا ہے۔
3۔ خود احتسابی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے: حیا
ایمان کا حصہ ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ بے حیائی کا راستہ اختیار کرنے سے ایمان میں
کمزوری آتی ہے۔
4۔ صحیح معاشرتی رویے نبی کریم ﷺ نے اپنے ماننے والوں
کو ہدایت دی کہ وہ اپنی زبان، ہاتھ، اور آنکھوں کی حفاظت کریں۔ بے حیائی کے مختلف مظاہر
جیسے کہ بے ہودہ گفتگو، نامناسب لباس، اور غیر اخلاقی رویے، ان ہدایات کے منافی ہیں۔
اسلام میں بے حیائی کو سخت ناپسند کیا گیا ہے۔ حدیث
کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ حیا اور اخلاقی اقدار کی پاسداری ہماری ذمہ داری ہے، اور
ان کی اہمیت کو سمجھنا معاشرتی بہتری کے لئے ضروری ہے۔ ہمیں اپنے کردار اور رویے میں
اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ ہم اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاریں۔ قرآن
پاک میں بے حیائی کے بارے میں متعدد مقامات پر ہدایت دی گئی ہے۔ چند اہم آیات درج ذیل
ہیں:
1۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-(پ
14، النحل: 90)ترجمہ کنز الایمان: اور منع فرماتا ہے بے حیائی اور بری بات اور
سرکشی سے۔یہ آیت بتاتی ہے کہ بے حیائی کا ارتکاب انسانی اخلاقی قدروں کے منافی ہے۔
2۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا
فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا
یَصْنَعُوْنَ(۳۰) (پ
18، النور: 30) ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ
اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ
پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔یہ آیت اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ
انسان کو اپنی آنکھوں اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنی چاہیے تاکہ بے حیائی سے بچا جا سکے۔
قرآن پاک میں بے حیائی کی واضح مذمت کی گئی ہے، اور
مسلمانوں کو اخلاقی و روحانی پاکیزگی کی اہمیت کو سمجھایا گیا ہے۔ یہ ہدایات ہمیں ایک
باوقار اور بااخلاق زندگی گزارنے کی ترغیب دیتی ہیں۔حضرت محمد ﷺ کی حیا ایک اعلیٰ نمونہ
ہے جو تمام مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ کی حیا کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
1۔ اخلاقی معیار نبی کریم ﷺ کی زندگی میں حیا کا ایک
خاص مقام تھا۔ آپ نے کبھی بھی ایسی باتیں نہیں کیں جو اخلاقی طور پر ناپسندیدہ ہوں۔
آپ کی زبان اور اعمال ہمیشہ پاکیزگی کی علامت رہے۔
2۔ لباس اور ظاہری حالت آپ ﷺ کا لباس ہمیشہ سادہ، صاف
اور باوقار ہوتا تھا۔ آپ نے کبھی بھی ایسی چیزیں نہیں پہنی جو بے حیا کی علامت ہوں۔
3۔ نجی زندگی آپ نے اپنی ذاتی زندگی میں بھی حیا کا
مظاہرہ کیا۔ آپ نے اپنے خاندان اور ساتھیوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا اور ہمیشہ شرم
و حیا کی تعلیم دی۔
4۔ اجتماعی رویہ آپ نے اپنی امت کو بھی حیا کی تلقین
کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان کا حصہ ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)یہ بات اس بات
کی عکاسی کرتی ہے کہ حیا کا تعلق دین سے ہے۔
ہمیں کیسی حیا کرنی چاہیے؟
1۔ آبرو کی حفاظت: ہمیں اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرنی
چاہیے، جیسے کہ لباس اور گفتگو میں سلیقہ ہونا چاہیے۔
2۔ اخلاقی اصولوں کی پاسداری: ہماری گفتگو، رویہ اور
تعاملات ہمیشہ اخلاقی اصولوں کے مطابق ہونے چاہئیں۔
3۔ معلومات کا انتخاب: ہمیں ان مواد سے پرہیز کرنا چاہیے
جو بے حیائی یا ناپسندیدہ رویوں کی ترویج کرتے ہیں۔
4۔ نوجوان نسل کی تربیت: ہمیں اپنے بچوں کو حیا کی اہمیت
سمجھانی چاہیے اور ان کی تربیت میں اس پہلو کو شامل کرنا چاہیے۔