قرآن و سنت میں بے حیائی کے کاموں سے بچنے اور حیاکی
تلقین کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ہے: قُلْ اِنَّمَا
حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ (پ
8، الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام
فرمائی ہیں (ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔
حدیث مبارکہ میں آپﷺ کا فرمان ہے: لوگوں تک گزشتہ نبیوں
کا جو کلام پہنچا، اس میں یہ بھی مذکور تھا: جب تم میں حیا نہ رہے تو پھر جو چاہے کرو۔
(بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
صفت حیاء فطرت سلیمہ کو جانچنے کی ایک کسوٹی ہے تو جب
انسان قرآن وحدیث پر بھی عمل نئی کرےگاتو پھر ان فحش و بے حیائی کے کاموں میں خود تو
ملوث ہوگا ہی ساتھ اسکی اشاعت کرکے دوسروں کو بھی نقصان پہنچائے گا۔
الله پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا: اِنَّ الَّذِیْنَ
یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ
اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا
تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
اشاعت سے مراد تشہیر کرنا اور ظاہر کرنا ہے جبکہ فاحشہ
سے مراد وہ تمام اقوال اور افعال ہیں جن کی قباحت بہت زیادہ ہے البتہ یہ یاد رہے کہ
اشاعت فاحشہ کے اصل معنیٰ میں بہت وسعت ہے چنانچہ اشاعت فاحشہ میں جو چیزیں داخل ہیں
ان میں سے کچھ یہ ہیں:
(1) کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔
(2) کسی کے خفیہ عیب پر مطلع ہونے کے بعد اسے پھیلانا۔
(3) علمائے اہلسنّت سے بتقدیر الٰہی کوئی لغزش فاحش
واقع ہو تو ا س کی اشاعت کرنا۔
(4) حرام کاموں کی
ترغیب دینا۔
(5) ایسی کتابیں لکھنا، شائع کرنا اور تقسیم کرنا
جن میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہوں۔
(6)ایسی کتابیں، اخبارات، ناول، رسائل اورڈائجسٹ
وغیرہ لکھنا اور شائع کرنا جن سے شہوانی جذبات متحرک ہوں۔
(7)فحش تصاویر اور وڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں
دیکھنے کے ذرائع مہیا کرنا۔
(8) ایسے اشتہارات اور سائن بورڈ وغیرہ بنانا اور
بنوا کر لگانا، لگوانا جن میں جاذبیت اور کشش پیدا کرنے کے لئے جنسی عریانیّت کا سہارا
لیا گیا ہو۔
(9) حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا،ان
کی تشہیر کرنا اور انہیں دیکھنے کی ترغیب دینا۔
(10) فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں
کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔
ان تمام کاموں میں مبتلا حضرات کو چاہئے کہ اپنے طرز عمل پر غور وفکر فرمائیں
بلکہ بطور خاص ان حضرات کو زیادہ غورکرناچاہئے جو فحاشی وعریانی اور اسلامی روایات
سے جدا کلچر کو عام کر کے مسلمانوں کے اخلاق اور کردار میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں۔ لہذا
ہمیں چاہئے کہ ہم ہر وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسند یدہ ہوں ان
سے بچائیں کہ یہ وصف شرم وحیا کہلاتا ہے۔
اور اس کا برعکس بے حیائی و بے شرمی ہے قرآن و سنت ہمارا
پیارا دین اسلام ہمیں بے حیائی فحش سے بچنے کی تلقین کرتا ہے اسلام اور حیا کا آپس
میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے۔ حیاء ایمان کا حصہ ہے۔
سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان
آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک
للحاکم، 1/176، حدیث:66)
یاد رکھئے! اگر ہم خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا
ہونگے تبھی ہماری اولاد، گھر والےاور دوسرے بھی ان صفات و خصائل کی حامل ہوں گے اور
اگر خود شرم و حیا کا خیال نہ رکھیں گے تو دوسروں کو کیسے اس مرض سے بچائیں گے اب ضرورت
اس امر (بات) کی ہے کہ حیا کو متأثّر کرنے والے تمام عوامل سے خو بھی دور رہا جا ئے
اور اپنےتشخّص اور روح ایمان کی حفاظت کی جائے۔ اہر دوسروں کو بھی بچایا جائے۔