اس میں کوئی شک نہیں کہ شرم و حیا ایک ایسا مضبوط قلعہ
ہے، جو ذلّت و رسوائی سے بچاتا ہے اور جب کوئی شرم و حیا کےا س دائرے سے تجاوز کر لے
تو وہ بے شرمی اور بے حیائی کی گہرائیوں میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔
یوں تو انسان
میں کئی اور عادتیں اور اوصاف بھی ہوتے ہیں لیکن شرم و حیا ایک ایسا وصف ہےکہ اگر لب
و لہجے، عادات و اطوار اور حرکات و سکنات سے یہ پاکیزہ وصف نکل جائے تو دیگر کئی اچھے
اوصاف اور عمدہ عادات (Good Habits) پر پانی پھر جاتا ہے۔ دیگر کئی نیک اوصاف شرم
و حیا کے ختم ہو جانے کی وجہ سے اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں اور ایسا شخص لوگوں کی نظروں
سے گر جاتا ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ
تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ لوگ جو ارادہ کرتے اور چاہتے
ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب
ہے دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے۔
فرمان مصطفٰی ﷺ ہے: بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب
دار کر دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461،
حدیث: 4185)
حضور جان عالم ﷺ نے فرمایا: اس شخص پر جنت حرام ہے جو
فحش گوئی (بے حیائی کی بات) سے کام لیتا ہے۔ (الجامع الصغیر للسیوطی، ص 221، حدیث:
3648)
منقول ہے چار طرح کے جہنمی جو کھولتے پانی اور آگ کے
مابین بھاگتے پھرتے ویل و ثبور (ہلاکت) مانگتے ہو گے ان میں سے ایک شخص وہ کے جس کے
منہ سے خون اور پیپ بہتے ہوں گے جہنمی کہیں گے اس بد بخت کو کیا ھوا ہماری تکلیف میں
اضافہ کیے دیتا ہے ؟کہا جائے گا یہ بد بخت خبیث اور بری بات کی طرف متوجہ ہو کر اس
سے لذت اٹھاتا تھا جیسا کہ جماع کی باتوں سے۔ (اتحاف السادۃ للزبيدی، 9/147)
شعیب بن ابی سعید رضی اللہ عنہ سے مروی فرماتے ہیں جو
بے حیائی کی باتوں سے لذت اٹھائے بروز قیامت اس کے منہ سے خون اور پیپ جاری ہوں گے۔
(اتحاف السادۃ للزبيدی، 9/188)
حضرت ابراہیم بن میسرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: فحش
کلامی یعنی بے حیائی کی بات کرنے والا قیامت کے دن کتے کی شکل میں آئے گا۔
پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جب تم میں حیا نہ رہے تو جو
چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3484)
حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ
بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی
ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو
تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق
ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)
یا الہٰی دے ہمیں بھی دولت شرم و حیا حضرت عثمان غنی با حیا
کے واسطے