حیا ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو دیگر برائیوں سے روکتی
ہے۔اگر انسان میں حیا ہی نہ رہے تو اسکا دل جلد ہی گناہوں کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ فرمان
مصطفٰے ﷺ ہے: ایمان کے ستّرسے زائد شعبے (یعنی خصلتیں) ہیں اور حیا ایمان کا ایک شعبہ
ہے۔ (مسلم، ص 39، حدیث: 35)
مفسرشہیرحکیم الامّت حضر ت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ
الحنّان لکھتے ہیں: صرف ظاہری نیکیاں کرلینا اور زبان سے حیا کا اقرار کرنا پوری حیا
نہیں بلکہ ظاہری اور باطنی اعضاء کو گناہوں سے بچانا حیاہے۔ چنانچہ سرکو غیرخدا کے
سجدے سے بچائے، اندرون دماغ کو ریا اورتکبرسے بچائے، زبان، آنکھ اور کان کو ناجائز
بولنے، دیکھنے، سننے سے بچائے، یہ سر کی حفاظت ہوئی، پیٹ کو حرام کھانوں سے، شرمگاہ
کو زنا سے، دل کو بری خواہشوں سے محفوظ رکھے یہ پیٹ کی حفاظت ہے۔ حق یہ ہے کہ یہ نعمتیں
رب کی عطاء اور جناب مصطفیٰ ﷺ کی سخا سے نصیب ہوسکتی ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح، 2 / 440)
اللہ فرماتا ہے: قُلْ
لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا
فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا
یَصْنَعُوْنَ(۳۰) (پ
18، النور: 30) ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ
اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ
پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ
فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا (پ
18، النور: 31) ترجمہ: اور مسلمان عورتوں کوحکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی
رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی
ظاہر ہے۔
احادیث مبارکہ میں ہے: حسن بصری رحمۃاللہ علیہ سے مرسلاً
مروی ہے، کہتے ہیں مجھے یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دیکھنے والے پر اور
اس پر جس کی طرف نظر کی گئی اللہ لعنت فرماتا ہے (یعنی دیکھنے والا جب بلا عذر قصداً
دیکھے اور دوسرا اپنے کو بلا عذر قصد ادکھائے)۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/ 574، حدیث: 3125)
سنن ابو داؤد میں ہے: اور ہاتھ زنا کرتے ہیں اور ان
کا زنا (حرام کو) پکڑنا ہے اور پاؤں زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا (حرام کی طرف) چلنا
ہے اور منہ (بھی) زنا کرتا ہے اور اس کا زنا بوسہ دینا ہے۔ (ابو داود، 2 / 359، حدیث: 2153)
صحیح مسلم میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے، فرماتے ہیں کہ رسولاللہ ﷺ نے فرمایا: دوزخیوں کی دو جماعتیں ایسی ہونگی جن میں
نے (اپنے اس عہد مبارک میں) نہیں دیکھا (یعنی آئندہ پیدا ہونے والی ہیں، ان میں) ایک
وہ قوم جن کے ساتھ گائے کی دم کی طرح کوڑے ہونگے جن سے لوگوں کو ماریں گے اور (دوسری
قسم) ان عورتوں کی ہے جو پہن کر ننگی ہوں گی دوسروں کو (اپنی طرف) مائل کرنے والی اور
مائل ہونے والی ہوں گی، ان کے سر بختی اونٹوں کی ایک طرف جھکی ہوئی کوہانوں کی طرح
ہوں گے وہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ ا س کی خوشبو پائیں گی حالانکہ اس کی خوشبو
اتنی اتنی دور سے پائی جائے گی۔ (مسلم، ص 1177، حدیث:
2128)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کسی کے سر میں
لوہے کی سوئی گھونپ دی جائے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسی عورت کو چھوئے
جو اس کے لئے حلال نہیں۔ (معجم کبیر، 20 / 211، حدیث:
486)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورتوں کے ساتھ تنہائی
اختیار کرنے سے بچو! اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! کوئی شخص کسی
عورت کے ساتھ تنہائی اختیار نہیں کرتا مگر ان کے درمیان شیطان داخل ہوجاتا ہے اور مٹی
یا سیاہ بدبودار کیچڑ میں لتھڑا ہوا خنزیر کسی شخص سے ٹکرا جائے تو یہ اس کے لئے اس
سے بہتر ہے کہ اس کے کندھے ایسی عورت سے ٹکرائیں جو اس کے لئے حلال نہیں۔ (الزواجر
عن اقتراف الکبائر، 2 / 6)