ارشاد فرمایا: بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب دارکر دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)پىارے پىارے اسلامى بھائىو! غور کیجئے! اسلام میں شرم و حیا کی کتنی اہمیت ہے، ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ ایمان و حیاآپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک بھی ختم ہوتاہے تو دوسرا خودبخود ختم ہوجاتا ہے۔ آج اسلام کے دشمنوں کی یہی سازش ہے کہ مسلمانوں سےکسی طرح چادر حیا کھینچ لی جائے، جب حیا ہی نہ رہے گی تو ایمان خود ہی رخصت ہو جائے گا۔

آج ہمارے معاشرے میں کیسی کیسی بے حیائیاں ہورہی ہیں، آئیے کچھ سنتے ہیں: ٭ فحش یعنی بے حیائی والی گفتگو کرنا۔ ٭ گالیاں دینا۔ ٭ چست یعنی بدن۔

فحش، فاحشۃ، فواحش و فحشاء کے الفاظ عام طور پر بدکاری اور عمل قوم لوط کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ 15، بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔

اس آیت میں زنا کو فاحشہ سے تعبیر فرمایا ہے۔ نیز دوسرے مقام پر عمل قوم لوط کو بھی فاحشہ سے تعبیر کیا گیا ہے: وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۸۰) (پ 8، الاعر اف: 80) ترجمہ: اور لوط نے جب اپنی قوم سے کہا کیا تم ایسی بے حیائی کا کام کرتے ہو جو تم سے پہلے جہاں والوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔

لیکن یہ اصطلاح وسیع تر معنوں میں بھی استعمال ہوتی ہے، اس میں بے حیائی، عریانی، بدکاری، حیا سوز فلمیں اور ڈرامے، برہنہ تصاویر، مجالس میں بدن کی نمائش، عورتوں اور مردوں کا اختلاط اور بوس و کنار سب شامل ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ (پ 8، الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام فرمائی ہیں (ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بے حیائی کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت و ترویج کو بھی بے حیائی سے تعبیر فرمایا ہے اور اسے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب کا باعث قرار دیا ہے؛ پس جب بے حیائی کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قدر بڑا جرم ہے، تو آج کل ذرائع ابلاغ کے ذریعے شب و روز مسلم معاشرے میں جو بے حیائی پھیلائی جا رہی ہے، اللہ کے نزدیک یہ کس قدر بڑا جرم اور گناہ ہو گا۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔