اسلام حیا کا علمبردار ہے اور حیا کو ایمان کا جزء عظیم قرار دیتا ہے جب بے حیائی کا فتنہ کسی انسان کو اپنے شکنجے میں جھگڑ لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں وہ کسی بھی قسم کے جرم کے ارتکاب میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا ارشاد باری تعالیٰ ہے: قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ(۳۰) (پ 18، النور: 30) ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔

جہاں حیا کے خاتمے سے انسان کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے وہاں سوچنے سمجھنےکی صلاحیتیں سلب ہو جاتی ہیں انسان کے افعال اس کے کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں نتیجۃً تباہی اور بربادی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔

ہمارے یہاں آج کل معاشرے میں بے حیائی کا بازار گرم ہے کاروبار کے نام پر مرد و عورت کے ناجائز تعلقات، بری صحبت، انٹرنیٹ کا غیر ضروری استعمال، فحش گوئی، فیشن شو کے نام پر عورتوں کی نمائش، وغیرہ یہ سب بے حیائی ہی نہیں تو اور کیا ہے؟غلط خیالات پر مبنی گانے ڈرامے وغیرہ شیطانی راہ کے بہت بڑے حمایتی ہیں ان کو فروغ دینے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال بہت گھناونا ہے جس میں بےہودہ مواد نشر کیا جاتا ہے اور اس کا وبال یہ ہے کہ ہمارے مسلمانوں کی 90 فیصد آبادی گناہوں بھری اور بے حیائی پر مبنی فلمیں دیکھ کر اور اس سے لطف اٹھا کر گناہوں کے ایک بڑے دندل میں دھنستی جا رہی ہے حضور ﷺ نے فرمایا: جب تمہیں حیا نہ ہو تو جو چاہو کرو۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

اس کے برعکس کتنے خوش نصیب ہیں وہ اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں جو صرف اللہ کی رضا والے کام کرتے ہیں اور اپنی زبان کان اور ہاتھوں کو صرف نیکیوں کے کاموں میں ہی گزارتے ہیں اور فحش گوئی سے بچتے ہیں بخاری شریف اور مشکات شریف میں حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: کون ہے جو مجھے دو چیزوں (زبان اور شرمگاہ) کی ضمانت دے میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں گا۔ (ترمذی، 4/182، حدیث: 2416)

امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عورتوں کے مجمع میں شامل ہو کر نبی کریم ﷺ سے بیعت کی آپ ﷺ نے فرمایا: میں ان کاموں کے بارے میں بیعت لے رہا ہوں جو تم کر سکو میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہم پر ہماری نسبت زیادہ مہربان ہیں پھر میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہم سے بیعت لیجئے یعنی مصافحہ کیجئے آپ ﷺ نے فرمایا: میرا زبانی سو عورتوں سے بیعت لے لینا ایسے ہی ہے جیسا میرا ایک عورت سے زبانی بیعت لے لینا۔ (مشکوۃ المصابیح، 2/69، حدیث: 4048)

آپ ﷺ بلا شبہ رحمت اللعالمین ہیں لیکن آپ ﷺ نے اس کے باوجود عورتوں سے مصافحہ کرنے سے پرہیز کیا اب ذرا سوچیے کہ ہمارے آقا مدنی والے مصطفی ﷺ کی حیا کا یہ عالم ہے کہ آپ پردے میں بیٹھی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا فرماتے تو پھر مصافحہ تو دور کی بات آپ نے کبھی آنکھ مبارک اٹھا کر نامحرم عورتوں کی طرف نظر نہ فرمائی اور آپ ﷺ نے مصافحہ سے اس لیے پرہیز کیا تاکہ قیامت تک غلط قسم کے مذہبی پیشوا اس کی آڑ میں سنت کے نام پر بے شرمی اور بے حیائی کا طوفان اٹھانے میں دلیر نہ ہو جائیں اللہ پاک ہمیں حضور ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے اور بے حیائی کے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔