جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے۔بے حیائی بہت زیادہ بڑھتی جا رہی ہے۔افسوس! صد کروڑ افسوس! جوان لڑکی اب چادر اور چار دیواری سے نکل کر مخلوط تعلیم کی نحوست میں گرفتار، بوائے فرینڈ کے چکر میں پھنس گئی، اسے جب تک چادر اور چار دیواری میں رہنے کی سعادت حاصل تھی وہ شرمیلی تھی اور اب بھی جو چادر و چار دیواری میں ہوگی وہ انشاء اللہ باحیا ہی ہوگی۔ افسوس! حالات بلکل بدل چکے ہیں، اب تو اکثر کنواری لڑکیاں شادیوں میں خوب ناچتیں اور مہندی و مائیوں کی رسموں وغیرہ میں بے با کانہ بے حیائی کے مظاہرے کرتی ہیں، بعض قوموں میں یہ بھی رواج ہے کہ دولہا نکاح کے بعد رخصتی سے قبل نامحرمات کہ جن سے پردہ ضروری ہے ان جوان لڑکیوں کے جھرمٹ میں جاتا ہے اور وہ دولھا کے ساتھ کھینچا تانی و ہنسی مزاق کرتی ہیں یہ سراسر ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ الغرض آج کی فیشن ایبل و بے پردہ لڑکیاں افعال و اقول ہر لحاظ سے چادر حیاء کو تار تار کر رہی ہیں۔ پارہ 22 سورة الا حزاب کی آیت نمبر 33 میں پردے کا حکم دیتے ہوئے اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى (پ 22، الاحزاب: ) ترجمہ کنز الا یمان: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اوربے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔

حضور ﷺ کی شرم و حیاء: ہر قبیح قول و فعل اور قابل مذمت حرکات و سکنات سے عمر بھر ہمیشہ آپ ﷺ کا دامن عصمت پاک و صاف ہی رہا۔ آپ ﷺ کی شان حیاء کی تصویر کھینچتے ہوئے ایک معزز صحابی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ ﷺ کنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیادار تھے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث:4180)

نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام

سب سے بڑا با حیا امتی: آقائے دو جہاں ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان سے ہے اور عثمان میری امّت میں سب سے بڑھ کر حیا کرنے والے ہیں۔ (جامع صغیر للسیوطی، ص 235، حدیث: 3869)

یاالٰہی! دے ہمیں بھی دولت شرم و حیا حضرت عثماں غنی با حیا کے واسطے

بد نگاہی کا عذاب: میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! خدا کی قسم! بد نگاہی کا عذاب برداشت نہیں ہو سکے گا، منقول ہے: جوشخص اپنی آنکھ کو حرام سے پر کرتا ہے اللہ تعالیٰ بروز قیامت اسکی آنکھ میں جہنم کی آگ بھر دے گا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 10)

کثرت حیاء سے منع مت کرو: اگر کوئی بچی پردہ کرے تو اسکا مذاق اڑیا جاتا اور اسے کہا جاتا ہے ابھی کیوں پردہ شروع کردیا ابھی تو تم چھوٹی ہو۔ اور ماں باپ کو بھی منع کیا جاتا ہے کہ اسے پردہ نہ کرائیں بچی پر سختی ہے۔ کزنز ہیں بھائیوں کی طرح ہیں مل بیٹھنے دو حالانکہ یہی تربیت کا وقت ہے۔ جب یہی بچی بڑی ہو جاتی ہے تو پھر سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ اسکی تربیت تو خراب ہو جاتی ہے۔ اب یہ ماں باپ کی عزت کا جنازہ نکال دیتی ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سرکار نامدار مدینے کے تاجدار ﷺ نے ایک انصاری عورت کو ملاحظہ فرمایا: جو اپنے بھائی کو شرم و حیاء کے متعلق نصیحت کر رہے تھے (یعنی کثرت حیاء سے منع کر رہے تھے) تو فرمایا اسے چھوڑ دو، بے شک حیاء ایمان سے ہے۔ (ابو داود، 4/331، حدیث: 4795)

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! معلوم ہوا حیا جتنی زیادہ ہو اتنی ہی اچھی ہے۔ جو حیا کمزوری اور احساس کمتری کی وجہ سے نہ ہو بلکہ خوف خدا کے سبب ہو اس میں یقیناً بھلائی ہی بھلائی ہے۔

ہر حال میں پردہ: حضرت امّ خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔ آپ ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے نقاب ڈالے با پردہ بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئیں، اس پر کسی نے حیرت سے کہا: اس وقت بھی آپ نے نقاب ڈال رکھا ہے! کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے، حیا نہیں کھوئی۔ (ابو داود، 3/9، حدیث: 2488)

کلمہ کفر: فقہائے کرام فرماتے ہیں: کسی سے کہا گیا اللہ سے حیا کر اس نے کہا: میں نہیں کرتا۔ ایسا کہنا کفر ہے۔ (فتاویٰ تاتارخانیہ، 5/470)