حیا کے لغوی معنی وقار، سنجیدگی اور متانت کے ہیں۔ یہ
بے شرمی، فحاشی اوربے حیائی کی ضد ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں سب سے پہلے کے بے حیائی کے بارے میں
قرآن کریم میں اللہ رب العزت کیا فرماتا ہے: اِنَّ
الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ
اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور
چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک
عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن ابی، حضرت حسّان
اور حضرت مسطح رضی اللہ عنہما کو حدلگائی گئی اور آخرت کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ اگر
توبہ کئے بغیر مر گئے تو آخرت میں دوزخ ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز
اور باطن کے احوال جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (مدارک، ص 774)
حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا: جس نے اسلام میں اچھا طریقہ رائج کیا، اس کے لئے اسے رائج کرنے اور اپنے بعد
اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ہے، اور ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے بھی کچھ کم
نہ ہوگا اور جس نے اسلام میں برا طریقہ رائج کیا، اس پر اس طریقے کو رائج کرنے اور
اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ہے اور ان عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ
ہوگی۔ (مسلم، ص 508، حدیث: 1017)
ارشاد فرمایا کہ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس
کی رحمت نہ ہوتی اور یہ کہ اللہ تم پر نہایت مہربان، رحم فرمانے والا ہے تو اللہ تعالیٰ
تمہیں تمہاری اس حرکت کا مزہ چکھاتا اور اس کا عذاب تمہیں مہلت نہ دیتا۔