بے حیائی کا مطلب ہے بے شرم اور حیا کی کمی۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں انسان کے اندر شرم و حیا کی صفت نہیں رہتی۔حیا ایک ایسی صفت ہے جس کے نتیجے میں انسان برائی اور غلطی سے باز رہتا ہے اور اگر یہ ختم ہو جائے تو انسان کو اپنے جرم کے ارتکاب پر ذرا بھی شرمندگی نہیں ہوتی ہے۔ شرم و حیا رخصت ہو جائے تو باقی تمام اچھائیوں پر خود بخود پانی پھر جاتا ہے اور دیگر تمام نیک اوصاف کی موجودگی کے باوجود اپنی وقعت کھو دیتے ہیں۔ جب تک انسان شرم وحیا کے حصار (دائرے) میں رہتا ہے ذلت و رسوائی سے بچا رہتا ہے اور جب اس قلعے کو ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا و بدترین کام بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔رسول خدا ﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484) معلوم ہوا کہ کسی بھی برے کام سے رکنے کا ایک سبب شرم و حیا بھی ہے۔

شرم وحیا کیا ہے؟ وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسند ہوں ان سے بچانے والے وصف کو شرم وحیا کہتے ہیں۔ اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے۔ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:66) اسی لئے اسلام کے دشمن مسلمانوں کی حیا پر وار کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈراموں، فلموں، اشتہارات اور مارننگ شوز وغیرہ کے نام پر معاشرے میں شرم و حیا کے سائبان (شیڈ) میں چھید (سوراخ) کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)

صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو حقیقی حیا کو فروغ دیتا ہے۔رسول خدا ﷺ نے ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں جن پر عمل کرنا پورے معاشرے کو حیا دار بنا سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات فطرت انسانی میں موجود شرم و حیا کی صفت کو ابھارتی ہیں اور پھر اس میں فکر و شعور کے رنگ بھر کر اسے انسان کا خوشنما لباس بنا دیتی ہیں۔میڈیا جس تواتر سے بچّوں اور بڑوں کو بےحیائی کا درس دے رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ قابل غور ہے کہ جو نسل نو (نئی نسل) والدین کے پہلو میں بیٹھ کر فلموں ڈراموں کے گندے اور حیا سوز مناظر دیکھ کر پروان چڑھے گی اس میں شرم و حیا کا جوہر کیسے پیدا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ نسل نو کی ایک تعداد شرم و حیا کے تصوّر سے بھی کوسوں دور دکھائی دیتی ہے۔ شرم و حیا کی چادر کو تار تار کرنے میں رہی سہی کسر انٹر نیٹ نے پوری کردی ہے۔ اس کے فوائد اپنی جگہ مگر بےحیائی اور بے شرمی کے فروغ میں بھی انٹرنیٹ نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ واقعی تیزترین ہے۔

یاد رکھئے! اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو گا تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خصائل کی حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم و حیا کا خیال نہ رکھے گا تو اولاد میں بھی اس طرح کے خراب جراثیم سرایت کرجائیں گے۔ آج ضرورت اس امر (بات) کی ہے کہ حیا کو متأثّر کرنے والے تمام عوامل سے دور رہا جا ئے اور اپنےتشخّص اور روح ایمان کی حفاظت کی جائے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور تمام امت محمدیہ کو باحیا زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔