شرم و حیا کی اہمیت سے متعلق چند احادیث طیبہ

ارشاد فرمایا: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)

ارشاد فرمایا: بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب دارکر دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)

پیاری پیاری اسلامى بہنو! غور کیجئے! اسلام میں شرم و حیا کی کتنی اہمیت ہے، ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ ایمان و حیاآپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک بھی ختم ہوتاہے تو دوسرا خودبخود(Automatic) ختم ہوجاتا ہے۔ آج اسلام کے دشمنوں کی یہی سازش ہے کہ مسلمانوں سےکسی طرح چادر حیا کھینچ لی جائے، جب حیا ہی نہ رہے گی تو ایمان خود ہی رخصت ہو جائے گا۔

آج ہمارے معاشرے میں کیسی کیسی بے حیائیاں ہورہی ہیں، آئیے کچھ سنتے ہیں * فحش یعنی بے حیائی والی گفتگو کرنا٭ گالیاں دینا۔ ٭ چست یعنی بدن سے چپکا ہوا لباس پہننا اس طرح کہ اس سے بدن کے اعضا جھلکیں۔ ٭ بڑوں کی تعظیم نہ کرنا۔ ٭ گانے باجے سننا۔ ٭ فلمیں ڈرامے د یکھنا۔ ٭ گناہوں کا ارتکاب کرنا۔ ٭ حیاسوز ناول پڑھنا۔ ٭ نامحرم مردوں اورعورتوں کا شادیوں / فنکشن (Function)کے نام پر ایک دوسرے میں آنا جانا، بلاتکلف باتیں کرنا۔ ٭ شرعی پردے کا لحاظ نہ کرنا۔ اس کے علاوہ اوربھی کئی مثالیں ہیں۔ یاد رکھئے: حدیث پاک میں ہے: حیا ایمان کا حصہ ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)یعنی جس میں جتنا ایمان زیادہ ہوگا اتنا ہی وہ شرم و حیا والا ہوگا جبکہ جس کا ایمان جتنا کمزور ہوگا، شرم وحیا بھی اس میں اتنی ہی کمزور ہوگی۔

بے حیائی اور زمانۂ جاہلیت پیاری پیاری اسلامی بہنو! اگر ہم تاریخ(History) کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ زمانۂ جاہلیت یعنی سرکار دوعالم، نور مجسم ﷺ کی دنیا میں جلوہ گری سے پہلے کے زمانے(زمانۂ جاہلیّت) میں عربوں میں بے حیائی اور بے شرمی عام تھی۔ مردوعورت کا میل جول، عورتوں کے ناچ گانے سے لطف اٹھانا، یہ سب اس وقت بھی عام تھا۔ عرب کے بڑے بڑے شعراء عورتوں کی نازیبا حرکتوں اور اداؤں کا ذکر اپنی شاعری میں فخریہ کرتے تھے۔ اسی طرح بعض لوگ باپ کے مرنے پر معاذاللہ باپ کی بیوی یعنی اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کر لیتے۔ ان کے علاوہ بھی طرح طرح کی بے شرمی و بے حیائی کی رسمیں ان میں عام تھیں۔ الغرض! جاہلیت کے معاشرے کا شرم و حیا سے دور دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔

حضرت امّ خلّادرضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔ یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نکلیں، لیکن اس وقت بھی چہرے پر نقاب ڈالنا نہیں بھولیں، چہرے پر نقاب ڈال کر بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا: آپ اس وقت بھی باپردہ ہیں؟ تو اس پر بی بی امّ خلّادرضی اللہ عنہاکہنے لگیں: میں نے اپنا بیٹا ضرور کھویا ہے، مگر اپنی حیا نہیں کھوئی، وہ اب بھی باقی ہے۔(ابو داود، 3/9، حدیث: 2488)

توچونکہ آقا کریم، رسول رحیم ﷺ خود شرم و حیا کے پیکر تھے، اس لیے آپ ﷺ نے اپنی مقدس تعلیمات سے پورے معاشرے کو حیادار اور باوقار بنا دیا اور وہاں رہنے والا ہر ایک شرم و حیا کا پیکر بننے لگا۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا ہی خوب فرماتے ہیں:

نیچی نظروں کی شرم و حیا پر درود اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام

ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس سے ہمیں بھی یہ درس ملتا ہےکہ اگر ہم اپنے گھر میں شرم و حیا کا ماحول بنانا چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں خود اپنے اندر شرم وحیا پیدا کرنا ہوگی۔ اگر ہماری خواہش ہے کہ ہمارے گھر والے بے پردگی سے بچیں تو پہلے ہمیں خود حیا کا پیکر بننا ہوگا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کی ہمیں بے حیائی سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین