ان لوگوں کی کتنی بڑی بد نصیبی و محرومی ہے کہ نفلی عبادتیں و ریاضتیں کریں، فرائض کے علاوہ نفلی نمازیں پڑھیں، نفلی روزے رکھیں مگر گانوں باجوں، فلموں ڈراموں، غیر عورتوں کو تاکنے جھانکنے اور امردوں (یعنی بے ریش خوبصورت لڑکوں) پر بری نظر ڈالنے جیسے بے حیائی کے کاموں سے باز نہ آئیں۔ یا د رکھئے! ہزاروں سال کی نفلی نمازوں، نفلی روزوں، کروڑوں، اربوں روپیوں کی نفلی خیراتوں، بہت سارے نفلی حج اور عمرے کی سعادتوں کے بجائے صرف ایک گناہ صغیرہ سے اپنے آپ کو بچا لینا افضل ہے۔ کیونکہ کروڑوں نفلی کاموں کے ترک پربھی قیامت میں عذاب کی کوئی وعید نہیں جبکہ گناہ صغیرہ سے بچنا واجب اور اس کے ارتکاب پر بروز قیامت مؤاخذہ اور سزا کا استحقاق ہے۔

بری صحبت اور گندے ماحول کے دلدادہ بعض نادان لوگ معاذ اللہ گھر کی پوشیدہ باتیں نیز ازدواجی خفیہ معاملات بھی اپنے بے حیا دوستوں کے سامنے بیان کر ڈالتے ہیں۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، پیکر شرم و حیا، مکی مدنی آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: بےشک اللہ کے نزدیک بروز قیامت مرتبے کے اعتبارسے سب سے برا شخص وہ ہے جواپنی بیوی کے پاس آئے اور بیوی اس کے پاس آئے پھر وہ اپنی بیوی کے راز کو (لوگوں میں) ظاہر کردے۔ (مسلم، ص 753، حدیث: 1437)

حیا کرنے کا حق: حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: اللہ سے حیاء کرو جیسا حیاء کرنے کا حق ہے۔ عبداﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا: ہم اللہ سے حیاء کرتے ہیں اور سب خوبیاں اللہ کیلئے ہیں۔ ارشاد فرمایا: یہ نہیں، بلکہ اللہ سے کما حقّہ حیاء کرنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ سر اور سر میں جتنے اعضاء ہیں انکی اور پیٹ کی اور پیٹ جن جن اعضاء کو گھیرے ہے ان کی حفاظت کرے اور موت اور مرنے کے بعد گلنے سڑنے کو یاد کرے۔ اور آخرت کو چاہنے والا دنیا کی زیب و زینت چھوڑ دیتا ہے تو جس نے ایسا کیا اس نے اللہ سے شرمانے کا حق ادا کر دیا۔ (مسند امام احمد، 2/33، حدیث: 3671)

ہمیں اپنے جسم کے تمام اعضاء کو حیا کا عادی بنانا اور گناہوں سے بچانا چاہئے۔

سر کی حیاء: سر کو برائیوں سے بچانا یہ ہے کہ برے خیالات، گندی سوچ اور کسی مسلمان کے بارے میں بدگمانی وغیرہ سے احتراز (پرہیز) کیا جائے اور سر کے اعضاء جیسے ہونٹ، زبان، کان اور آنکھوں وغیرہ کے ذریعے بھی گناہ نہ کئے جائیں۔

زبان کی حیاء زبان کو برائیوں سے بچاتے ہوئے بدزبانی اور بے حیائی کی باتوں سے ہر وقت پرہیز کرنی چاہئے، اپنے بھائی کو گالی دینا گناہ ہے اور بے حیائی کی باتیں کرنے والے بد نصیب پر جنّت حرام ہے۔

جنّت حرام ہے: حضور تاجدار مدینہ ﷺ کا فرمان باقرینہ ہے: اس شخص پر جنّت حرام ہے جو فحش گوئی (یعنی بے حیائی کی بات) سے کام لیتا ہے۔ (ا لجامع الصّغیر للسّیوطی، ص 221، حدیث: 3648)

جہنّمی بھی بیزار: منقول ہے: چار طرح کے جہنّمی کہ جو کھولتے پانی اور آگ کے مابین(یعنی درمیان) بھاگتے پھرتے ویل وثبور (ھلاکت) مانگتے ہونگے۔ ان میں سے ایک وہ شخص کہ اس کے منہ سے پیپ اور خون بہتے ہونگے۔ جہنّمی کہیں گے: اس بد بخت کو کیا ہوا ہماری تکلیف میں اضافہ کئے دیتا ہے ؟ کہا جائے گا: یہ بدبخت خبیث اور بری بات کرتا تھا۔

شعیب بن ابی سعید رضی اللہ عنہ سے مروی، فرماتے ہیں: جو بے حیائی کی باتوں سے لذّت اٹھائے بروز قیامت اس کے منہ سے پیپ اور خون جاری ہونگے۔ (ایضاً ص188)

کتّے کی شکل میں شہوت کی تسکین کی خاطر تیری شادی، میری شادی کہتے ہوئے بے شرمی کی باتیں کرنے والے ڈراموں کے شائقین، وی سی آر پر فحش فلمیں دیکھنے والے، سینما گھروں میں جانے والے، فلمی گانے گنگنانے والے بیان کردہ حدیث پاک سے درس عبرت حاصل کریں۔

حضرت ابراہیم بن میسرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: فحش کلامی (یعنی بے حیائی کی باتیں) کرنے والا قیامت کے دن کتے کی شکل میں آئے گا۔ (اتحاف السّادۃ للزّبیدی 9 /190)

مفسّر شہیر حکیم الامّت حضر ت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں: خیال رہے کہ تمام انسان قبروں سے بشکل انسانی اٹھیں گے پھر محشر میں پہونچ کر بعض کی صورتیں مسخ ہو جائیں گی۔ (مراۃ المناجیح، 6/660)

انسان اکثر اوقات معزّزین کے سامنے بے حیائی کی باتیں کرتے ہوئے شرماتا ہے، لیکن افسوس الٹی سیدھی باتیں کرتے وقت یہ احساس نہیں رہتا کہ معزّز ترین ربّ العٰلمین جلّ جلالہٗ سب کچھ سن رہا ہے۔

اللہ تمام باتیں سنتا ہے حضرت بشر حافی علیہ رحمۃ اللہ الکافی نہایت کم گفتگو کرتے اور اپنے دوستوں کو فرماتے: تم غور تو کرو کہ اپنے اعمال ناموں میں کیا لکھوا رہے ہو! یہ تمہارے رب کے سامنے پڑھا جائے گا، تو جو شخص قبیح (یعنی شرمناک) گفتگو کرتا ہے اس پر حیف (یعنی افسوس) ہے، اگر اپنے دوست کو کچھ لکھواتے ہوئے کبھی اس میں برے الفاظ لکھواؤ تو یہ تمہاری حیا کی کمی کی وجہ سے ہے۔ تو اپنے رب کے ساتھ ایسا معاملہ کتنا برا ہوگا (یعنی جب نامہ اعمال میں بے حیائی کی باتیں ہوں۔ (تنبیہ المغترین، ص 228)

ایمان کے دو شعبے: سرکار مدینہ راحت قلب و سینہ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: حیاء اور کم گوئی ایمان کے دو شعبے ہیں اور فحش بکنا اور زیادہ باتیں کرنا نفاق کے دو شعبے ہیں۔ (ترمذی، 3/414، حدیث: 2034)

مفسّر شہیر حکیم الامّت حضر ت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان اس حدیث پاک کے اس حصے زیادہ بولنا کی شرح میں فرماتے ہیں: یعنی ہر بات بے دھڑک منہ سے نکال دینا منافق کی پہچان ہے۔ زیادہ بولنے والا گناہ بھی زیادہ کرتا ہے یعنی اسی فیصدی گناہ زبان سے ہوتے ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح، 6/435)

سر کے اعضاء میں آنکھیں بھی شامل ہیں، انکو بھی بد نگاہی اور جن چیزوں کی طرف نظر کرنا شرعًا ناجائز ہے، ان سے بچانا اشدّ ضروری و تقاضائے حیاء ہے۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں مروں پھر زندہ ہوں، پھر مروں پھر زندہ ہوں، پھر مروں پھر زندہ ہوں تب بھی میرے نزدیک یہ اس سے بہتر ہے کہ میں کسی کے ستر (یعنی شرمگاہ) کو دیکھوں یا کوئی میرے ستر کو دیکھے۔ (تنبیہ الغافلین، ص 258)

فاسق کون؟ کسی دانا سے پوچھا گیا کہ فاسق کون ہے ؟ فرمایا: فاسق وہ ہے جو اپنی نظر لوگوں کے دروازوں اور انکے ستروں (پردے کی جگہوں) سے نہ بچائے۔ (تنبیہ الغافلین، ص 258)

ملعون ہے حضرت حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی سے روایت ہے کہ: رسول اکرم ﷺ کا ارشاد عبرت بنیاد ہے: اللہ تبارک و تعالیٰ کی لعنت ہو دیکھنے والے پر اور اس پر جس کی طرف دیکھاجائے۔ (شعب الایمان، 6/162، حدیث: 7788) مفسّر شہیر حکیم الامّت حضر ت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ جو مرد اجنبی عورت کوقصداً بلا ضرورت دیکھے اس پر بھی لعنت ہے اور جو عورت قصداً بلا ضرورت اجنبی مرد کو اپنا آپ دکھائے اس پر بھی لعنت غرضیکہ اس میں تین قیدیں لگانی پڑیں گی اجنبی عورت کو دیکھنا، بلاضرورت دیکھنا، قصداً دیکھنا۔ (مراۃ المناجیح، 5/24) سرکارمدینۂ منوّرہ، سردارمکّۂ مکرّمہ ﷺ کاارشاد عبرت بنیاد ہے: اپنی ران مت کھولواورکسی کی ران نہ دیکھو خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ۔ (ابو داود، 3/263، حدیث: 3140)

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں بے حیائی سے محفوظ فرمائے۔ آمین