جب تک انسان شرم وحیا کے حصار (دائرے) میں رہتا ہے ذلت و رسوائی سے بچا رہتا ہے اور جب اس قلعے کو ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا و بدترین کام بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔رسول خدا ﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484) معلوم ہوا کہ کسی بھی برے کام سے رکنے کا ایک سبب شرم و حیا بھی ہے۔ شرم وحیا کیا ہے؟ وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسند ہوں ان سے بچانے والے وصف کو شرم وحیا کہتے ہیں۔ (باحیا نوجوان، ص 7ماخوذاً)

حیاء کے احکام حیاء کبھی فرض و واجب ہوتی ہے جیسے کسی حرام و ناجائز کام سے حیاء کرنا کبھی مستحب جیسے مکروہ تنزیہی سے بچنے میں حیائی، اور کبھی مباح (یعنی کرنا نہ کرنا یکساں) جیسے کسی مباح شرعی کے کرنے سے حیاء۔

یہ حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181) صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو حقیقی حیا کو فروغ دیتا ہے۔

رسول خدا ﷺ نے ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں جن پر عمل کرنا پورے معاشرے کو حیا دار بنا سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات فطرت انسانی میں موجود شرم و حیا کی صفت کو ابھارتی ہیں اور پھر اس میں فکر و شعور کے رنگ بھر کر اسے انسان کا خوشنما لباس بنا دیتی ہیں۔ رسول خدا ﷺ کی شرم و حیا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مصطفےٰ جان رحمت ﷺ کنواری، پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث:4180)

حیا نہیں کھوئی: اسی حیا پرور ماحول کا نتیجہ تھا کہ حضرت امّ خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔ یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نقاب ڈالے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا: اس وقت بھی باپردہ ہیں! کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے،حیا نہیں کھوئی۔ (ابو داؤد، 3/9، حدیث:2488 ملتقطاً) شرم و حیا بڑھائیے نور ایمان جتنا زیادہ ہوگا شرم و حیا بھی اسی قدر پروان چڑھے گی۔ اسی لئے آقا کریم ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان سے ہے۔ (مسند ابی یعلیٰ، 6/291، حدیث: 7463) وہ لوگ جو مخلوط محفلوں (جہاں مردوعورت میں بے پردگی ہوتی ہو)،مکمل بدن نہ ڈھانپنے والے لباس، روشن خیالی اور مادر پدر آزادی کو جدّت و ترقی کا زینہ سمجھ کر انہیں فروغ دیتے ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ ان میں نور ایمان کتنا کم ہوگیا ہے؟ حیا تو ایسا وصف ہے کہ جتنا زیادہ ہو خیر ہی بڑھاتا ہے۔ اسی لئے آقا کریم ﷺ نے فرمایا:حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔ (مسلم، ص40، حدیث: 37)

حیاء کرنے کا حق: حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم، نور مجسّم، شاہ بنی آدم، رسول محتشم ﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: اللہ سے حیاء کرو جیسا حیاء کرنے کا حق ہے۔ عبداﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا: ہم اللہ سے حیاء کرتے ہیں اور سب خوبیاں اللہ کیلئے ہیں۔ ارشاد فرمایا: یہ نہیں، بلکہ اللہ سے کما حقّہ حیاء کرنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ سر اور سر میں جتنے اعضاء ہیں انکی اور پیٹ کی اور پیٹ جن جن اعضاء کو گھیرے ہے ان کی حفاظت کرے اور موت اور مرنے کے بعد گلنے سڑنے کو یاد کرے اور آخرت کو چاہنے والا دنیا کی زیب و زینت چھوڑ دیتا ہے تو جس نے ایسا کیا اس نے اللہ سے شرمانے کا حق ادا کر دیا۔ (مسند امام احمد، 2 /33، حدیث: 3671)

اللہ کریم ہم سب کو باحیا بنائے۔ آمین