ایک روز سرورِ عالَم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بارگاہِ الہٰی میں عرض کی:اے اللہ ! پاک،تو نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اپنا خلیل ہونے کا شرف عطا فرمایا،حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو اپنے ساتھ کلام کرنے سے سرفراز کیا،حضرت ادریس علیہ السّلام کو بلند مکان جنت تک رسائی دی،پہاڑوں اور لوہے کو حضرت داؤد علیہ السّلام کا فرمانبردار کر دیا،جِنّات،انسان اور تمام حیوانات حضرت سلیمان علیہ السّلام کے تابع کر دئیے، تومجھے کس شرف اور کرامت سے خاص فرمایا ہے؟اس پر یہ سورت نازل ہوئی جس میں گویا کہ ارشاد فرمایا گیا ’’اے حبیب! صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ، اگر ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کواپنا خلیل بنایا ہے تو آپ کی خاطر ہم نے آپ کا سینہ علم و حکمت اور معرفت کے نور سے کھول دیا تاکہ مُناجات کی لذّت،امت کا غم،اپنی بارگاہ میں حاضری کا ذوق اور آخرت کے گھر کا شوق آپ کے دل میں سما جائے،آسمانی وحی کو اٹھانا آپ کے دل پر آسان ہو جائے، اللہ پاک کی طرف رغبت دینے کی تبلیغ کرنے پر آنے والے مَصائب کو برداشت کر سکے اور ان خوبیوں اور کرامتوں کی بدولت آپ کو وہ مقام حاصل ہو کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے خلیل ہونے کو اس سے کچھ نسبت نہ رہے اور اگر ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو اپنے ساتھ ہم کلام ہونے کا شرف عطا کیا اور حضرت ادریس علیہ السّلام کو بلند مکان تک رسائی عطا کی ہے تو آپ کو اس غم سے نجات دی جو آپ کی پُشت پر بہت بھاری تھا اور آپ کو لامکاں میں بلا کر اپنے دیدار سے مشرف کیا یہاں تک کہ ہم میں اور آپ میں (ہماری شایانِ شان)دو کمانوں کے برابر بلکہ ا س سے بھی کم فاصلہ رہ گیا اور آسمانوں کی پوری سلطنت میں آپ کی قربت اور منزلت کا شہرہ ہو گیا۔اگر ہم نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السّلام کو دنیا کی چند چیزوں پر حکومت بخشی ہے تو آپ کو عالَمِ عُلْوی یعنی آسمانوں پر قدرت دی ہے کہ وہاں کے فرشتے خادموں کی طرح آپ کی بارگاہ میں حاضر رہتے ہیں اور آپ کے سپاہیوں کی طرح آپ کے دشمنوں سے لڑتے ہیں اور آسمانوں میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو آپ کی نبوت و رسالت سے واقف نہ ہو اور آپ کے حکم سے اِنحراف کرے۔( روح البیان، الم نشرح، تحت الآیۃ: 11، 10 / 465، الکلام الاوضح فی تفسیر الم نشرح، ص14، ملتقطاً)

اللہ پاک کے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی شان بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :

اصالتِ کُل، امامتِ کل، سیادتِ کل، امارتِ کل

حکومتِ کل ،ولایتِ کل ،خدا کے یہاں تمہارے لئے

فرشتے خِدَم رسول حِشم تمامِ امم غُلامِ کرم

وجود و عدم حدوث و قِدم جہاں میں عیاں تمہارے لئے

یہ طور کجا سپہر تو کیا کہ عرشِ عُلا بھی دور رہا

جہت سے ورا وصال ملا یہ رفعتِ شاں تمہارے لئے

مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ’’یعنی اے حبیب! صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ، ہم نے آپ کی خاطر آپ کے سینۂ اقدس کو ہدایت ، معرفت،نصیحت، نبوت اور علم وحکمت کے لئے کشادہ اور وسیع کر دیا یہاں تک کہ عالَمِ غیب اور عالَمِ شہادت اس کی وسعت میں سما گئے اور جسمانی تعلقات روحانی اَنوار کے لئے مانع نہ ہوسکے اور علومِ لدُنّیہ ، حکمِ الہٰیہ ، معارفِ ربّانیہ اور حقائقِ رحمانیہ آپ کے سینۂ پاک میں جلوہ نُما ہوئے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ظاہری طور پر سینۂ مبارک کا کھلنا مراد ہے ۔اَحادیث میں مذکور ہے کہ ظاہری طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے سینۂ مبارک کا کھلنا بھی بار ہا ہوا ،جیسے عمر مبارک کی ابتداء میں سینۂ اَقدس کھلا ، نزولِ وحی کی ابتداء کے وقت اور شبِ معراج سینہ مبارک کھلا اور اس کی شکل یہ تھی کہ حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے سینۂ پاک کو چاک کرکے قلب مبارک نکالا اور زریں طَشت میں آبِ زمزم سے غسل دیا اور نور و حکمت سے بھر کر اس کو اس کی جگہ پر رکھ دیا۔(خزائن العرفان، الم نشرح ، تحت الآیۃ:1، ص 1110، خازن ، الم نشرح ، تحت الآیۃ: 1، 4 / 388، روح البیان، الم نشرح ، تحت الآیۃ:1، 10 / 461-462، ملتقطاً)

آیت ’’ اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ(۱)‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں :

(1)دنیا کی حقارت اور آخرت کے کمال کے علم سے سینے کا کھل جانااللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے۔ایک اور مقام پر اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِۚ-وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کا سینہ تنگ ،بہت ہی تنگ کردیتا ہے گویا کہ وہ زبردستی آسمان پر چڑھ رہا ہے۔(پ 8،انعام:125)

اورحضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’ تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی تو صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اس کھولنے سے کیا مراد ہے؟ارشاد فرمایا:’’ اس سے مراد وہ نور ہے جو مؤمن کے دل میں ڈالا جاتا ہے جس سے اس کا دل کھل جاتا ہے۔عرض کی گئی: کیا اس کی کوئی نشانی ہے جس سے اس کی پہچان ہو سکے؟ارشاد فرمایا:’’ہاں ،(ا س کی تین علامتیں ہیں )(1)آخرت کی طرف رغبت(2) دنیا سے نفرت ، اور(3) موت سے پہلے آخرت کی تیاری۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزہد، ما ذکر عن نبیّنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی الزہد ، 8 / 126، الحدیث: 14)

(2) حضورِ اَقدس صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اللہ پاک کے ایسے حبیب ہیں کہ اللہ پاک نے بن مانگے ان کا مقدس سینہ ہدایت اور معرفت کے لئے کھول کر انہیں یہ نعمت عطا کر دی۔

پیارےپیارے اسلامی بھائیوں! اس سے معلوم ہوا کہ حضورپاک صاحب لولاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا اللہ پاک کے ہاں کتنا بلندمرتبہ ہے اوراس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اگر ہم حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک لیکراللہ پاک سے مانگیں گے توان شاءاللہ الکریم عطافرمائے گا۔

10 مشہوراسمائے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ذیل میں ہیں :

( 1)یامؤمن:جو115بارپڑھ کراپنے اوپردم کردے گاان شاءاللہ الکریم تندرستی پائے گا۔

(2 )یاعزیز:41بارحاکم یاافسروغیرہ کےپاس جانے سے قبل پڑھ لیجیئے ان شاءاللہ الکریم وہ حاکم یاافسرمہربان ہوجائے گا۔

(3 )یارحیم :جوکوئی ہرروز 500بارپڑھے گاان شاءاللہ الکریم دولت پائے گااورمخلوق اس پرمہربان اورشفیق ہوگی ۔

(4 )یاکریم :اگراپنے بسترمیں اس کوپڑھتے سوجائےتوفرشتےاس کےلئےدعاکریں گے۔ان شاءاللہ الکریم ۔

(5 )یاحکیم :80بارجوروزانہ پانچوں نمازوں کےبعدپڑھ لیاکرے۔ان شاءاللہ الکریم کسی کامختاج نہ ہوگا۔

(6 )یاشھید:21بارصبح (طلوع آفتاب سے پہلےپہلے )نافرمان بچی یابچےکی پیشانی پرہاتھ رکھ کرآسمان کی طرف منہ کرکےجوپڑھے ان شاءاللہ الکریم اس کابچہ یابچی نیک بنے ۔

(7 )یاقوی :اگرجمعہ کی دوسری ساعت میں بہت پڑھے گا ان شاءاللہ الکریم نسیان (یعنی بھولنے کامرض )جاتارہے گا۔

(8 )یاظاہر:گھرکی دیوار پرلکھ لیجیئے ان شاءاللہ الکریم دیوار سلامت رہے گی ۔

(9 )یاباطن : جوکسی کوامانت سونپے یازمین میں دفن کرے توالباطن لکھ کراس شے کےساتھ رکھ دے ان شاءاللہ الکریم کوئی اس میں خیانت نہ کرے گا۔

(10 )یارءوف:10بارکسی مظلوم کاکسی ظالم سے پیچھا چھڑاناچاہے پڑھےپھر اس ظالم سے بات کرےان شاء اللہ الکریم وہ ظالم اس کی سفارش قبول کرے گا۔

(11)یارشید:جوشخص کسی کام کی تدبیر نہ جانتاہووہ مغرب اورعشاء کے درمیان 1000بارپڑھے ان شاءاللہ الکریم تدبیر اس کے دل میں آجائے گی ۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ حدائق بخشش میں لکھتے ہیں:

غمزدوں کو رضاؔ مژدہ دیجے کہ ہے بیکسوں کا سہارا ہمارا نبی ۔صلی اللہ علیہ وسلم