نسلِ انسانی کی طویل تاریخ اپنے سینے میں متعدد ایسی شخصیات کو محفوظ کئے ہوئے
ہے جن کے وجود سے عالم ِ انسانیت کو فلاح کی توفیق حاصل ہوئی۔چرخِ اسلام پر ائمہ کرام،مفسرین،
محدثین، فقہا اور صوفیا کی ایک کہکشاں منور ہے۔ ہر وجود محترم اور لائقِ تعظیم ہے۔
پندرہوں صدی ہجری سرزمینِ بر صغیر پر ایسا ہی ایک وجود علم و عمل کی روشنیاں بکھیرتے
دیکھ رہی ہے۔میری مراد اِس صدی ہجری کی وہ پاک طینت و پاک سیرت شخصیت ہیں جنہیں دنیا
شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد
الیاس عطّار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے نام سے جانتی و پہچانتی
ہے۔
آپ جماعتِ اہلِ سنّت کے ممتاز ترین صاحبِ علم و بصیرت اور باقیاتِ صالحات میں
سے ایک ہیں۔شیخِ کامل سنتوں کے عامل قبلہ امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ زوال پذیر معاشرے اور انحطاط کی طرف اترتی ہوئی
امّتِ مسلمہ کی طرف بیداری کا پیغام بن کر آئے۔ نظریات کا فساد،اعمال کا بگاڑ اور سیرت
و کردار کا زوال روح فرسا تھا ،بے یقینی اور بے عملی کا زہر سارے معاشرے کو متعفن کررہا
تھا۔اللہ پاک کا کرم ہوا،مصطفیٰ کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی رحمت ہوئی کہ خطہ پاکستان
پر اس محسنِ ملّت کا ظہور ہوا۔
مختصر تعارف:آپ کا نام محمد الیاس،والد کا نام حاجی عبدالرحمن قادری،کنیت ابو
بلال،تخلص عطار اور مشہور القابات شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنت اور بانیِ دعوتِ اسلامی
ہیں جبکہ اہلِ محبت آپ کو باپا کہہ کر بھی بلاتے ہیں۔ آپ کی پیدائش 26 رمضان المبارک
1369 ہجری بمطابق 1950ء میں پاکستان کے مشہور شہر کراچی میں ہوئی۔آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ
الْعَالِیَہ دورِ شباب ہی میں علومِ دینیہ کے زیور سے آراستہ ہوچکے تھے۔ آپ نے حصولِ
علم کے ذرائع میں سے کتب بینی اورصحبت علما کو اختیار کیا ۔اس سلسلے میں آپ نے سب سے زیادہ استفادہ مفتی
اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی وقارالدین قادِری رَضَوی رحمۃ اللہ علیہ سے کیا اور مسلسل 22 سال ان کی صحبت بابرکت سے مستفیض ہوتے رہے حتی
کہ انہوں نے قبلہ امیرِاَہلِ سنّت کو اپنی خلافت واجازت سے بھی نوازا۔
علمی حیثیت:آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ذکاوتِ طبع، قوتِ اتقان اور
وسعتِ مطالعہ میں اپنی مثال آپ ہیں۔ کثرتِ مطالعہ، بحث وتمحیص اوراَکابر علمائےکرام
سے تحقیق وتدقیق کی وجہ سے آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ مسائلِ شرعیہ اورتصوّف
واخلاق پر یدِ طولیٰ رکھتے ہیں، کئی سالوں سے مسلسل”مدنی مذاکرہ“ نامی ہفتہ وار ایسی
علمی نشست قائم فرماتے ہیں جس میں شرکت کرنے والے ہر خاص و عام کو شرعی، طبی، تاریخی
اور تنظیمی معلومات کا خزانہ ہاتھ آتا ہے۔
تحریری خدمات:آپ ایک اچھے انشاپرداز اور صاحبِ اسلوب،کہنہ مشق ادیب اور قابلِ
اعتماد قلم کار ہیں۔آپ کی نثری خدمات متعدد کتب و رسائل پر مشتمل ہیں جن میں اصلاحی
موضوعات اور دینِ اسلام کے بنیادی مسائل کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ آپ کی تحریر کی خاصیت
یہ ہے کہ اس میں سلاست و روانی ، ایجاز و اختصار اور روحانی تاثیر پائی جاتی ہے۔ آپ
کی تحریریں اردو ادب کا وہ قیمتی خزانہ ہیں جن میں بیان کے جوش و زور اور شوکت وجلالت
کے نگار خانے آراستہ ہیں۔
شاعری:اللہ پاک نے آپ کو وہ زورِ قلم عطا فرمایا ہے کہ جہاں آپ کے نثری شہہ
پارے ادبی حیثیت کے حامل ہیں وہیں آپ کی شاعری بھی آپ کی قادرالکلامی پر شاہد و عادل
ہے۔حمد ہو یا نعت، منقبت ہو یا صلاۃُ سلام،مثنویات ہوں یا شادی کا سہرہ، استغاثات ہوں،
مناجات ہوں یا رمضان کےالوداعی کلام ! ہر موضوع پر آپ نے قلم اٹھایا اور بہترین اشعار
لکھے۔ آپ کی لکھی نعتیں ”پکارو یا رسول اللہ اور نور والا آیا ہے“ بچے بچے کو زبانی
یاد ہوتی ہیں۔ہر جمعہ کو بیشتر مساجد کے اسپیکر آپ کے لکھے ہوئے صلاۃ و سلام ”تاجدارِ
حرم اے شہنشاہِ دیں تم پہ ہر دم کروڑوں درود و سلام“ اور ”زائر طیبہ روضے پہ جاکر تو
سلام میرا رو رو کہ کہنا“ کی صداؤں سے گونج رہے ہوتے ہیں۔ رمضان کا الوداعی جمعہ کیا
آتا ہے گویا ہر مسجد سے آپ کے لکھےہوئے کلام ”قلبِ عاشق ہے اب پارہ پارہ الوداع الوداع
ماہ ِرمضاں“ کی آوازیں آرہی ہوتی ہیں۔آپ کا نعتیہ دیوان ”وسائلِ بخشش“ متعدد بار شائع
ہوچکا ہے۔
اوصافِ حمیدہ:اللہ نے آپ کو اپنے اسلاف کا پَرتَو بنایا ہے۔ محبتِ الٰہی، عشقِ
رسول،الفتِ صحابہ،علما سے پیار،مدینے سے عقیدت، سنّت سے محبت اور ان کا احیاء، آخرت
کی فکر، امّت کا درد، تبلیغِ قراٰن و سنّت اور اصلاحِ امّت کا جذبہ، نیکیوں کی حرص،
عاجزی و انکساری، صبر و استقلال، عفو و درگزر، زہدوتقویٰ، اخلاص، حسنِ اخلاق،جود وسخا،
دنیاسے بے رغبتی اور خیر خواہیِ مسلمین آپ کے وہ اوصافِ حمیدہ ہیں جو آپ کی طبیعت میں
گویا رَچ بس چکے ہیں۔
شادی کے پُرمسرت موقع پر بہت سے لوگ غیر شرعی معاملات میں پڑ جاتے ہیں حتیٰ
کہ بعض دینی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کو یہ سوچ کہ ”زمانہ کیا کہے گا،شادی ایک بار ہی
تو ہوتی ہے“ غفلت میں مبتلا کردیتی ہےلیکن سنیئے اس ولیِ کامل کی شادی کے بارے میں:
آپ فرماتے ہیں میں نے اپنی شادی کا کارڈ سب سے پہلے مدینے میں رہنے والے ایک صاحب کے
ذریعے بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں بھجوایا اور وقتِ نکاح یہ سوچ
کر مجھ پر عجیب کیفیت طاری تھی کہ میں نے بارگاہِ رسالت میں دعوت عرض کی ہے،اب دیکھئے
آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کب کرم فرماتے اور تشریف لاتے ہیں۔ اللہ اکبر کبیرا
کیا شان ہے اس مردِ قلندر کی،سبحان اللہ۔
حق گوئی: ہر دور میں باطل نے حق کو زیر کرکے اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی
مگر حق اور اہل حق باطل اور اہلِ باطل کے مقابل سینہ سپر رہے اورہردور میں حق غالب
رہا جبکہ باطل کو منہ کی کھانا پڑی۔اس دو ر میں بھی موقع بموقع کئی بار باطل نے سر
اٹھایا اور عَلمِ اسلام کو پست کرنے کی کوششیں کیں مگر امیرِ اہلِ سنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ
الْعَالِیَہ نے عَلمِ حق کبھی سرنگوں نہ ہونے دیا اور اپنے شب و روز کو اہلِ سنّت کی
ترویج و اشاعت اور فاضلِ بریلوی امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے مشن کو فروغ دینے
کے لئے وقف کرتے ہوئے عشق و مستی کا پیغام اس جرأت وقوت سے دیا کہ بدعقیدگی کے ایوانوں
پر لرزہ طاری ہوگیا۔ جب اسلام دشمن قوتوں نے بے مثل مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے گستاخانہ خاکے بنائے تب اس مردِ مجاہد نے دنیا بھر میں فیضانِ جمالِ مصطفیٰ
کے نام سے مساجد بنانے کا اعلان کرکے ایسا انوکھا کارنامہ انجام دیا کہ دشمن دانت پیستا
رہ گیا ، الحمد للہ دنیا بھر میں فیضانِ جمالِ مصطفیٰ کے نام سے کئی مساجد قائم کردی
گئیں جہاں بندگانِ خداوند اپنے رب کے حضور سجدہ ریزی کرتے ہیں۔
سنی وہی ہوتا ہے جس کے ایک ہاتھ میں اہلِ بیتِ اطہار اور دوسرے ہاتھ میں صحابۂ
کرام کا دامن ہو۔ اہلِ بیتِ اطہار نجات کی کشتی اور صحابۂ کرام آسمان ہدایت کے روشن
ستارے ہیں۔ سنی اہلِ بیت کی کشتی میں سوار ہوکر نجومِ رسالت کی پیروی کرتے ہوئے اپنے
ایمان کو سلامت رکھتا ہے۔امیر اہلِ سنت میں بھی اہلِ بیتِ اطہار اور صحابۂ کرام کی
محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے جس کی واضح مثال یہ کہ آپ نے21 رمضان المبارک کو یومِ شہادت
سیدنا مولا علیٰ المرتضیٰ شیرِ خدا کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم کے موقع پر مولیٰ
علی کے نام پر 2121 مساجد بنانے کا اعلان کیا،حُب علی کا اظہار کرتے ہوئے براہِ راست
مدنی مذاکرے میں آپ کا کہنا تھا کہ اگر تم میرے جسم کی بوٹی بوٹی کردو تو وہ بھی کہے
گی ”یاعلی ،یاعلی، یاعلی!“۔ یوم شہادتِ سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا آیا تو آپ
نے بڑی شان و شوکت سے جلوسِ بیادِ فاطمہ رضی اللہ عنہا نکالا لیکن جب بعض لوگوں نے
اصحابِ ذی وقار بالخصوص حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی عدالت کو تقیہ اور کتمان
کی چادر کی اوٹ میں نشانہ بنانا شروع کیا تو اس مردِ مجاہد نے بھی چپ کی چادر اوڑھنا
مناسب نہ سمجھا اور فیضانِ امیرِ معاویہ کے نام سے 22سو مساجد بنانے کا اعلان کردیا
جس پر سینکڑوں احباب نے مساجد بنانے کی نہ صرف نیت کی بلکہ تعمیراتی کام کا آغاز بھی
کردیا، اس اعلان سے بھی باطل کے ایوانوں میں سناٹا چھاگیا۔الغرض ہر موڑ پر استقامت
علیٰ الحق کا مظاہرہ کرتے ہوئے عشق و محبت کے اس سفیر نے منہجِ اہلِ سنّت کے داعی ہونے
کا مکمل ثبوت دیا اور احقاقِ حق کا حق ادا کردیا۔
آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ تنہا چلے تھے لیکن قوتِ عشق نے بہت جلد
راستے ہموار کرلئے ،محبت کے زمزے پھوٹنے لگے، لوگوں کے دلوں میں عشقِ رسول کی قندیلیں
روشن ہوتی گئیں اور ایک انقلاب برپا ہوگیا۔آج گلشنِ عطار ہرا بھرا نظر آتا ہے۔عرب ہو
یا ایشیاء،افریقہ ہو یا امریکہ ،یورپ ہو یا آسٹریلیا جس سمت جائیے ہر سو عطار کا فیضان نگاہوں کی راحت کا سامان بنتا ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے:
دنیا بھر میں فضلِ رب سے چرچے ہیں عطار کے
بڑے بڑے گن گاتے
ہیں ان کے ستھرے کردار کے
اللہ پاک پیاری دعوتِ اسلامی
اور اس تحریک کے بانی، سیدی و مرشدی و سندی شیخِ طریقت قبلہ امیرِ اَہلِ سنّت حضرت
علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ
کو حاسدین کے حسد،شریروں کی شرارت،بروں کی برائی اوربد نظروں کی بد نظری سے بچائے اور
آپ کا سایہ ہمارے سروں پر دراز فرمائے ۔اٰمین بجاہِ طہٰ و یٰسین