مدینہ منورہ دنیا کا واحد ایسا شہر ہے، جس کی محبت اور ہجر و فراق میں ہزاروں زبانوں میں قصیدے لکھے گئے، جسے  دیکھنے کو کروڑوں آنکھیں اشکبار اور کروڑوں دل بے قرار رہتے ہیں، ہر عاشق کے دل میں یہاں کی حاضری کی تڑپ ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ وہ شہر ہے، جس سے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمبھی محبت فرمایا کرتے ، اسی کی طرف ہجرت فرمائی، یہیں قیام پذیر رہے اور آج بھی یہیں جلوہ فرما ہیں۔

مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں میرے آقا میرے سرور مدینے میں(وسائل بخشش)

نام یثرب سے مدینہ کی وجہ:

فتاویٰ رضویہ، جلد 21، صفحہ 119 پر ہے: حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ کے فرمان کا خلاصہ ہے: آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس شہر کی محبت کی وجہ سے اس کا نام مدینہ رکھا اور یثرب کہنے سے منع فرمایا، کیونکہ یہ زمانہ جاہلیت کا نام ہے کہ یہ ثَربٌ بمعنی ہلاکت و فساد اور تثریب بمعنی ملامت ہے یا اس وجہ سے کہ یثرب کسی بت پرست یا جابر و سرکش بندے کا نام تھا۔چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی تاریخ میں ایک حدیث لائے کہ جو ایک مرتبہ یثرب کہہ دے، تو اسے دس مرتبہ مدینہ کہنا چاہئے۔

احادیث کی روشنی میں فضائل:

1۔مدینہ منورہ میں مرنے کی فضیلت:

رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:جس سے ہو سکے مدینے میں مرے تو مدینے ہی میں مرے کہ جو مدینے میں مرے ، میں اس کی شفاعت کروں گا۔(ترمذی، 483/5، حدیث 3943)

2۔مدینے میں طاعون و دجال داخل نہ ہوں گے:

ارشاد فرمایا:مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فرشتے ہیں، اس میں طاعون و دجال داخل نہ ہوں گے۔(بخاری، ج 1، ص 419، حدیث 1880)

3 ۔اہلِ مدینہ سے فریب کا انجام:

شہر ِمدینہ کی فضیلت اس حدیث سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اہلِ مدینہ کے حق میں ارشاد فرمایا:جو اہلِ مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا، وہ ایسے گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔(بخاری شریف ، کتاب فضائل المدینہ 1/ 618، حديث 1877)

4۔ لوگوں کو پاک کر دیتا ہے:

ارشاد فرمایا:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی (غالب آجائے گی) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے ، لوگوں کو اس طرح پاک وصاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔( صحیح بخاری ، حدیث 1871، ج 1، ص 617)

5۔مدینہ کی تکلیف پر صبر کا اجر:

ارشاد فرمایا:مدینہ کی تکلیف و شدت پر میری امت میں سے جو کوئی صبر کرے، قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا۔(مسلم، ص 716، حدیث 1378)

6۔ایمان مدینہ منورہ کی طرف سمٹ جائے گا:

مدینہ منورہ کی طرف حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:ایمان مدینہ منورہ کی طرف اس طرح سمٹ جائے گا، جیسے سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ آتا ہے۔(صحیح بخاری، حدیث 1876)

7۔مدینہ محفوظ ہے:

فرمایا:اس ذات کی قسم!جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے!مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ، مگر اُس پر دو فرشتے ہیں، جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ (مسلم، ص 714، حدیث 1374)

8۔جنت کا باغ:

آپ کا فرمانِ جنت نشان ہے : میرے گھر اور میرے منبر کا درمیانی حصّہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ (بخاری، حدیث 1194)

9۔خاکِ مدینہ میں شفا ہے:

حضور انور علیہ افضل السلام اپنے چہرۂ مبارکہ سے یہاں کا گرد و غبار صاف نہ فرماتے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی منع فرماتے اور ارشاد فرماتے:خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔(جذب القلوب، ص 22)

10۔مدینہ کیلئے دعائے رسول:

آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے دعا ارشاد فرمائی:اے اللہ پاک!مدینہ منورہ میں اس سے دگنی برکت عطا فرما، جتنی تو نے مکہ مکرمہ میں رکھی ہے۔( بخاری، ج 1، حدیث 1885)

ہمیں بھی چاہئے کہ ہم حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے تقاضۂ محبت کی بنیاد پر ان سے منسوب ان کے شہر سے بھی محبت رکھیں اور اس کے ادب میں ذرا سی کوتاہی نہ کریں کہ یہ بڑی محرومی کا سبب بن سکتا ہے۔اللہ پاک توفیق مرحمت فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

بس مدینہ مدینہ ہی کرتی رہوں یہ دعا میری اے ربّ غفار ہے (وسائل بخشش)


مدینہ منورہ کی فضیلت و اہمیت:

روئے زمین کا کوئی ایسا شہر نہیں، جس کے اسمائے گرامی یعنی مبارک نام اتنی کثرت کو پہنچے ہوں، جتنے مدینہ منورہ کے نام ہیں، مدینہ منورہ ایسا شہر ہے، جس کی محبت اور ہجر و فرقت میں دنیا کے اندر سب سے زیادہ زبانوں اور سب سے زیادہ تعداد میں قصیدے لکھے گئے، لکھے جارہے ہیں اور لکھے جاتے رہیں گے۔

مکتبۃالمدینہ کی شائع کردہ کتاب عاشقانِ رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں صفحہ 260 پر ہے:مدینہ منورہ میں آپ کا قلبِ مبارک سکون پاتا،یہاں کاگردوغبار اپنے چہرہ ٔانور صاف نہ فرماتے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی اس سے منع فرماتے اور ارشاد فرماتے:خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔(جذب القلوب ،صفحہ22)

یثرب سے مدینہ بننے کی تحقیق:

فتاویٰ رضویہ، جلد 21، صفحہ 119 پر ہے:حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ اشعَّۃُ اللمعات شرح المشکوۃ میں فرماتے ہیں:آنحضرت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے وہاں لوگوں کے رہنے سہنے اور جمع ہونے اور شہر سے محبت کی وجہ سے اس کا نام مدینہ رکھا اور آپ نے اسے یثرب کہنے سے منع فرمایا، اس لئے کہ یہ زمانہ جاہلیت کا نام ہے۔

شہر ِنبوی کے فضائل حدیث کی روشنی میں:مدینہ منورہ کے فضائل سے کتبِ احادیث مالامال ہیں:

1۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مدینہ شریف اسلام کا گنبد،ایمان کا گھر، میری ہجرت گاہ اور حلال وحرام کے نافذ ہونے کی جگہ ہے۔(رواہ الطبرانی فی الاوسط عن ابی ہریرہ)

2۔مدینہ منورہ بھٹی کی طرح ہے،جو خرابی(خباثت) کو دور کرتا ہے اور بھلائی کو خالص کرتا ہے۔(رواہ البخاری و مسلم و ترمذی و نسائی)

3۔جو مدینے میں مرنے کی طاقت رکھتا ہو، وہ یہیں آ کر مرے، بے شک میں مدینے میں مرنے والوں کی شفاعت کروں گا۔(مشکوۃ شریف، صفحہ 240، رواہ ابن ماجہ)

4۔مدینہ شریف کی مٹی میں جذام سے شفا ہے۔(رواہ ابو نعیم فی الطب، زرقانی علی المواہب، جلد 8، صفحہ 336)

5۔میں سب سے پہلے اہلِ مدینہ کی شفاعت کروں گا، پھر مکہ والوں کی، پھر طائف والوں کی۔(رواہ الطبرانی فی الکبیر)

6۔سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا ارشادِ گرامی ہے:بیشک میرے منبر کے پائے جنت میں قائم ہیں۔(رواہ النسائی)

7۔آقائے رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:جس نے مدینہ آکر میری زیارت کی، میں بروزِ قیامت اس کا گواہ اور شفیع بنوں گا۔(رواہ البہیقی فی الشعب انس رضی اللہ عنہ)

8۔سرکارِ والاتبار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مدینہ میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فرشتے ہیں، اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔(بخاری، جلد 1، صفحہ 419، حدیث 1880)

9۔شہنشاہِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ با قرینہ ہے:میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا، مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع ہوں گا۔(مسلم، صفحہ 716، حدیث1378)

حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:شفاعت خصوصی حق یہ ہے کہ یہ وعدہ ساری امت کے لئے ہے کہ مدینہ میں مرنے والے حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی اس شفاعت کے مستحق ہیں۔

10۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جس نے حج کیا، پھر میری قبر کی زیارت کو آیا، گویا اس نے میری ظاہری زندگی میں میری زیارت کا شرف پایا۔(رواہ الطبرانی فی الکبیر والبہیقی فی السنن عن ابن عمر)

غمِ مدینہ محبتِ مدینہ کا درس:

میٹھے مدینہ کے لئے تڑپنے والوں کو سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمبے یارومددگار نہیں رہنے دیتے، جو عشقِ مصطفٰے سے اپنا سینہ مدینہ بنا لیتے ہیں، ایک نہ ایک دن ضرور مدینہ روانہ ہو جاتے ہیں،ہر عاشقِ رسول اس شہر سے والہانہ عقیدت و محبت رکھتا ہے، بلکہ حدیثِ پاک میں ہے:انسان جس سے محبت رکھتا ہے، اس کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔الحمدللہ دعوتِ اسلامی کے مہکے مہکے دینی ماحول میں ہمیں ذکرِ مدینہ کی جھلک نظر آرہی ہے، ہمارے معمولات میں انوارِ مدینہ کی جھلک نظر آتی ہے۔اللہ پاک ہم سب کو آرزوئے مدینہ سے سرشار، ذکرِ مدینہ سے پر بہار، دو عالم کے تاجدار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا نورانی دربار زندگی میں بار بار دکھائے۔آمین


عجب رنگ پر ہے بہارِ مدینہ کہ سب جنتیں ہیں نثار ِمدینہ

مکہ مکرمہ سے تقریباً تین سو بیس 320 کلومیٹر کے فاصلے پر مدینہ منورہ ہے، جہاں مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمتشریف لائے اور دس برس تک مقیم رہ کر اِسلام کی تبلیغ فرماتے رہے اور اسی شہر میں آپ کا مزار اقدس ہے،حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے محبوب شہر اور اہلِ ایمان و عاشقانِ مدینہ کی متاعِ کل مدینہ منورہ وہ عظیم و بابرکت شہر کہ جس کی تعریف و توصیف کو احاطۂ تحریر میں لانا ناممکن ہے، حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے نہ صرف اس شہر سے محبت فرمائی، بلکہ اِس کے خصوصی فضائل بھی بیان فرمائے، نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اِسے ایمان کی پناہ گاہ قرار دیا، مدینہ منورہ وہ عظیم الشان شہر ہے، جس کے کثیر نام ہیں، اس کا پرانا نام یثرب ہے۔

یثرب سے مدینہ بننے کی مختصر تحقیق:

یثرب کامعنیٰ تجار کی سر زمین ہے، حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمجب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر یثرب پہنچے تو اس جگہ کی آب و ہوا میں عفونت تھی، انھیں موافق نہ آئی، اکثر مہاجرین بیمار ہوگئے، اِن میں حضرت صدیقِ اکبر رضی الله عنہ اور اِن کے غلام بلال اور عامر بھی تھے، بخار نے اِن کو پریشان کردیا، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اِن خستہ حالوں پر رحم فرماتے ہوئے دُعا فرمائی، آپ کی اِس دُعا کی برکت سے اللہ پاک نے غریب بیماروں کو تندرستی عنایت فرمائی اور مدینہ کی ہوا سازگار اور صحیح ہوگئی اور وہاں کی وبا حجفہ کی طرف منتقل ہوگئی۔ (بحوالہ معارج النبوت، حصّہ سوم، ص34)

صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول ِپاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی، لوگ اِسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی، جیسے بھٹی لوہے کی میل کو۔ (بحوالہ صحیح بخاری، کتاب فضائل المدینہ، باب فضل المدینہ، الخ حدیث 1871، ج1، ص617، بہار شریعت، حصّہ 6، فضائل مدینہ طیبہ، ص 1220، حدیث 19)

حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو یہ بات پسند نہ تھی کہ مدینہ پاک کو یثرب کہا جائے کہ یثرب کے معنی اچھے نہیں ہیں۔اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا ناجائز و ممنوع و گناہ ہے اور کہنے والا گنہگار ہے۔

اُن کے قدم پہ ہیں نثار جن کے قدوم ناز نے اجڑے ہوئے دیار کو رشکِ چمن بنادیا

شہر ِنبوی کے 10 فضائل احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں:

مدینہ منورہ وہ مبارک و مقدس و معطر شہر ہے، جو حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو آپ کے اصحاب علیہم الرضوان بلکہ ہر عاشق صادق کو محبوب و پسند ہے، شہر نبوی کے فضائل احادیث کی روشنی میں پیشِ خدمت ہیں:

مدینہ مدینہ ہمارا مدینہ ہمیں جان ودل سے ہے پیارا مدینہ

سہانا سہانا دل آرا مدینہ ہر عاشق کی آنکھوں کا تارا مدینہ

1۔پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینے شریف سے ازدیادِ محبت کی دُعا فرمائی اور فرمایا:اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَۃ كَحُبِّنَا مَكَّۃ أَوْ أَشَدَّ ۔ترجمہ:اے اللہ پاک!تو مدینہ طیبہ کو ہمارے نزدیک ایسا محبوب کردے جیسا کہ مکہ معظمہ ہے یا اِس سے بھی زیادہ۔

2۔صحیح حدیث شریف میں ہے:جب رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممکہ معظمہ سے واپس مدینہ طیبہ کی طرف لوٹتے تو مدینہ پاک کی خوشی اور محبت میں چادر کندھے مبارکہ ہٹا کر فرماتے:ھٰذَا اَرْوَاحُ طَیّبَہ۔ یہ ہوائیں کیسی بھلی لگتی ہیں۔

3۔ صحیح حدیث شریف میں وارد ہے:حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:اے اللہ پاک!مدینہ پاک میں مکہ مکرمہ کی برکتوں سے دوگنی برکتیں پیدا فرما۔(بخاری، کتاب فضائل المدینہ11، باب620، حدیث (1885)

صحیح بخاری میں حضرت سعد رضی الله عنہ سے مروی،رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں:جو اہلِ مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا، ایسا گھُل جائے گا، جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل المدینہ، باب اثم من کا داھل المدینہ، حدیث 1877، ج1، ص618، بہار شریعت، حصّہ6 ، باب فضائل مدینہ طیبہ، ص1219)

طبرانی عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے مروی ،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:یااللہ پاک !جو اہلِ مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں ڈرائے تو اُسے خوف میں مبتلا کر اور اس پر اللہ پاک اور فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے گا، نہ نفل(اِسی کی مثل نسائی و طبرانی نے سائب بن خلاد رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے۔) (المعجم الاوسط للطبرانی حدیث 3589، ج2، ص379، بہار شریعت، حصّہ 6، ص1219، باب فضائل مدینہ طیبہ)

5۔صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،رسول پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینہ کے راستوں پر فرشتے پہرا دیتے ہیں، اِس میں نہ دجال آئے نہ طاعون۔ (صحیح مسلم، کتاب الحج، حدیث1379، ص(716)

6۔مسلم شریف میں ہے:اے اللہ پاک!ہمارے مدینے میں برکت دے، اے اللہ پاک!ثمر میں برکت دے، اے اللہ پاک! ہمارے پیمانے میں برکت دے، اے اللہ پاک!ہمارے مد میں برکت دے، اے اللہ پاک!ہمارے مدینہ میں برکت دے، اے اللہ پاک! ایک برکت کے ساتھ دو برکتیں جمع فرما۔

7۔طبرانی میں ہے،حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مدینہ مکہ سے افضل ہے،وَالْمَدِیْنَۃُ خَیْرٌمِّنْ مَّکَّۃَ۔(بحوالہ وفاء الوفاء، ج1، ص(37)

8۔حدیثِ مبارکہ میں ہے:ایمان مدینہ منورہ میں ایسے پناہ لے گا،جیسے سانپ اپنے بل میں چلا جاتا ہے۔

(بحوالہ: بخاری شریف، ج1، ص(252)

9۔ بخاری شریف،ج1، ص252 میں حدیثِ مبارکہ روایت کی گئی ہے کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں مدینہ کا نام طابہ رکھوں۔طوبہ کے معنی ہیں ایسی خوشبو جو باعث فرحت و تسکین ہو، یہی وجہ ہے کہ مدینہ منورہ خصوصاً روضہ انور کے در و دیوار سے ایسی خوشبو پھوٹتی ہے، جو اہل ِعشق فوراً محسوس کرلیتے ہیں اور یہ خوشبو انہیں دنیا کے کسی خطے میں محسوس نہیں ہوتی۔(بحوالہ: جذب القلوب)

10۔علامہ ابنِ جوزی و ابنِ کثیر رحمۃُ اللہِ علیہما وغیرہ حدیثِ مبارکہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مجھے اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! مدینہ منورہ کے غبار میں شفا ہے۔ (بحوالہ: خلاصۃ الوفاء)

مدینہ منورہ سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو تمام خطوں سے زیادہ محبوب ہے، اِس لئے ہم بھی عشقِ مصطفٰےٰ سے لبریز اِسی خطے کے دیوانے ہیں، ہمیں بھی دنیا کے تمام خطوں میں مدینہ ہی زیادہ پیارا ہے کہ یہ عظیم و بابرکت شہر ہے، یہاں کی خاک، یہاں کی وادیاں، یہاں کے مکانات،یہاں کے کنویں، یہاں کی کھجوریں،یہاں کی مساجد، یہاں سے نسبت رکھنے والی ہر چیز عاشقوں کے لئے معتبر و بابرکت ہے، اللہ پاک سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں بار بار ہزار بار یہاں جانا نصیب فرمائے، مدینہ میں ہی مدفن نصیب فرمائے۔

یاربِّ محمدمیری تقدیر جگا دے صحرائے مدینہ مجھے آنکھوں سے دکھا دے

پیچھا میرا دنیا کی محبت سے چھڑا دے یاربّ مجھے دیوانی مدینے کی بنادے


مدینہ تو وہ بستی ہے جہاں رحمتوں کا نزول ہوتا ہے، جہاں کے رستوں پر فرشتے پہرہ دیتے ہیں، جہاں گناہ گاروں کو دامنِ رحمت میں چھپایا جاتا ہے، جہاں مغفرتوں کے پروانے تقسیم ہوتے ہیں، جہاں بے سہاروں کی بگڑیاں بنتی ہیں، جہاں غم کے ماروں کے غم دور ہوتے ہیں،جہاں خالی جھولیاں بھردی جاتی ہیں،جہاں دشمنوں کو بھی خالی نہیں لوٹایا جاتا، جہاں جانے کے لیے عشاق تڑپتے ہیں اور کیوں نہ تڑپیں کہ اللہ پاک کے آخری نبی، مکی مدنی آقا، دوجہانوں کے داتا، بے سہاروں کے سہارا، گناہگاروں کے شفیع صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بنفسِ نفیس وہاں موجود ہیں، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے منسوب یادیں وہاں موجود ہیں۔

اہلِ عرب مدینہ طیبہ کو یثرب کے نام سے بلایا کرتے تھے۔ آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے قدمین شریفین کی برکت سے یہ بستی طیبہ ہوگئی۔ حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالْحقّ مُحَدِّث دِہلَوی رحمۃ اللہ علیہ اَشِعَّۃُ اللَّمعات شَرْحُ الْمِشْکٰوۃمیں فرماتے ہیں:آنحضرت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے وہاں لوگوں کے رَہنے سَہنے اور جَمْع ہونے اور اس شہر سے مَحَبَّت کی وجہ سے اس کا نام ’’مدینہ ‘‘ رکھا اور آپ نے اسے یَثرِب کہنے سے مَنْعْ فرمایا اِس لئے کہ یہ زمانۂ جاہلیّت کانام ہے یا اِس لئے کہ یہ ’’یثَرْبٌ‘‘سے بنا ہے جس کے معنیٰ ہلاکت اورفَساد ہے اور تَثْرِیْبٌ معنیٰ سَرزَنِش اور ملامت ہے یا اس وجہ سے کہ یَثرِب کسی بُت یا کسی جابِر و سَرکَش بندے کانام تھا۔( فتاوی رضویہ ،جلد 21 صَفْحَہ 119)رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں:جو مدینہ کویَثرِب کہے اُس پر توبہ واجِب ہے، مدینہ طابہ ہے مدینہ طابہ ہے ۔

1۔مدینہ پاک تو وہ مبارک شہر ہے جس کی برکت کی دعا خود نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمائی ہے۔ حضرتِ ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،لوگ جب موسِم کا پہلا پھل دیکھتے،اُسے حُضُورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ اَفلاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمتِ سراپا رحمت میں  حاضِر لاتے، سرکارِ نامدار(صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم) اسے لے کراس طرح دُعا کرتے:الٰہی! تو ہمارے لیے ہمارے پھلوں میں بَرَکت دے اور ہمارے لیے ہمارے مدینے میں بَرَکت کر اور ہمارے صاع و مُد(یہ پیمانوں کے نام ہیں ان)میں بَرَکت کر، یااللہ پاک!بے شک ابراہیم تیرے بندے اور تیرے خلیل اور تیرے نبی ہیں اور بے شک میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکّے کے لیے تجھ سے دُعا کی اور میں مدینے کے لیے تجھ سے دُعا کرتا ہوں،  اُسی کی مثْل جس کی دعا مکّے کے لیے انہوں نے کی اور اتنی ہی اور(یعنی مدینے کی برکتیں مکے سے دُگنی ہوں)۔پھر جو چھوٹا بچّہ سا منے ہوتا اُسے بلاکر وہ پھل عطا فرما دیتے۔ مسلم ،ص713،حدیث:1373

2۔ روئے زمین پرمدینہ طبیہ سے بڑھ کر کوئی بستی فضیلت والی نہیں اور ہو بھی کیسے کہ دوجہانوں کے مختار، محبوب رب کعبہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا روضہ انور یہاں موجود ہے۔فضیلتِ مدینہ پیارے آقاکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمائی اور اس میں رہنے کی ترغیب ارشاد فرمائی ہے۔حضرت سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں :میں نے رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :’’ یمن فتح ہو گا ،اس وقت کچھ لوگ دوڑتے ہوئے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور ان کو جو اُن کی اطاعت میں ہیں لے جائیں گے حالانکہ مدینہ اُن کے لئے بہتر ہے اگر جانتے اور شام فتح ہوگا، کچھ لوگ دوڑتے آئیں گے ، اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے، اور عراق فتح ہو گا، کچھ لوگ جلدی کرتے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے۔( بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب من رغب عن المدینۃ،1 /618، حدیث:1857، مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی المدینۃ عند فتح الامصار، ص719، حدیث:497(1388))

3۔ مدینہ شریف تو وہ بستی ہے جہاں جینا بھی سعادت اورمرنابھی سعادت ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہماسے روایت ہے، سرکار ِدو عالَم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا: ’’جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے کہ جو مدینہ میں مرے میں اُس کی شفاعت فرماؤں گا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، 5 /483، حدیث:3943)

4۔مدینہ منورہ کی کیاشان ہے کہ یہاں کی نگہبانی کے لیے انسان نہیں بلکہ فرشتے مقرر ہیں۔چنانچہ

نبیِّ مکرم، نُورِمُجَسَّم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ مُعظَّم ہے:’’اُس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے! مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ مگر اُس پر دو فِرشتے ہیں جو اِس کی حفاظت کررہے ہیں۔‘‘(مسلم،ص714،حدیث:1374)

5۔ مدینہ منورہ تو ان خطوں میں سے ہے جو دجال کے فتنوں سے محفوظ رہے گا۔ چنانچہ 

سرکارِ والا تَبار،ہم بے کسوں کے مددگار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا ارشادِ خوشگوار ہے:عَلٰی اَنْقَابِ الْمَدِینَۃِ مَلَائِکَۃٌ لَّا یَدْخُلُہَا الطَّاعُونُ وَلَا الدَّجَّالُمدینےمیں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فِرِشتے ہیں،اس میں طاعون اوردجّال داخل نہ ہوں گے۔( بُخاری ج1 ص619حدیث 1880)

6۔ مدینہ تو وہ سرزمین ہے کہ وہاں عشاق ایسا سکون پاتے ہیں جو دنیا کے کسی شہر یا خوبصورت وادی میں ممکن ہی نہیں۔وہاں کے خار بھی پھول لگتے ہیں اور مدینہ طیبہ کی مبارک سرزمین پر تکلیف آبھی جائے تو اس کو باخوشی صبر کے ساتھ برداشت کرکے حدیثِ مبارکہ میں بیان کردہ فضیلت کے حق دار قرار پاتے ہیں۔ سرکارِ دو عالَم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینہ طیبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : ’’مدینہ کی تکلیف و شدت پر میری اُمت میں سے جو کوئی صبر کرے قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا۔( مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ۔ الخ، ص715، حدیث: 483(1377))

7۔ مدینہ طیبہ تو گناہ گاروں کے لیے ذریعہ نجات ہے کہ دو جہانوں کے سرور، رحمتِ عالمیان صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مدینہ(گناہوں کے)میل کو ایسے چھڑاتا ہے جیسے بھٹی لوہے کا زنگ دور کرتی ہے۔ (مسلم، کتاب الحج، باب فض المدینہ، حدیث 1363، ص 710)

8۔ ایمان کی پناہ گاہ مدینہ ہے۔فرمانِ مصطفٰے ہے :مسجد نبوی میں ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔( ترمذی،5/282، حدیث 3465)

9۔ مدینہ کی مبارک خاک کی بھی کیا بات ہے کہ دوجہانوں کے مختار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔(جذب القلوب، ص 22) یہاں کی دھول مٹی آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنے چہرہ اقدس سے صاف نہ فرماتے تھے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی اس سے منع فرماتے تھے۔ مکے اور مدینے کے پہاڑوں اور وادیوں میں بھی نورانیت ہے اور کیوں نہ ہوکہ ان تمام جگہوں میں کوئی ایسا ذرہ نہیں جس پر نگاہِ مصطفٰے نہ پڑی ہو اور وہ دیدارِ مصطفٰے سے فیضیاب نہ ہوا ہو۔( جذب القلوب ص 148)

10۔ مدینہ تو مدینہ ہے۔اس خطہ زمین کی وجہ سے یہاں کے رہنے والوں کو اتنی فضیلت حاصل ہے کہ مدینہ کے رہنے والوں کو ستانے والوں کے لیے اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :’’ یااللہ پاک! جو اہلِ مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں ڈرائے تو اُسے خوف میں مبتلا کر اور اس پر اللہ پاک، فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے گا نہ نفل۔( معجم الاوسط، باب الراء، من اسمہ روح، 2 / 379، حدیث:3589)مدینہ منورہ عشاق کے لیے جنت سے بڑھ کر ہے کہ مدینہ میں روضہ رسول ہے۔ خدا کی قسم! روضہ رسول سے عظیم جگہ دنیا کے کسی مقام کجا جنت میں بھی نہیں ہے۔

فردوس کی بلندی بھی چھو سکے نہ اس کو خلدِ بریں سے اونچا میٹھے نبی کا روضہ

(وسائل بخشش ص 298)

اے عشقِ رسول کا دم بھرنے والیوں! ہم جن سے محبت کا دعوی کرتی ہیں، وہ بھی مدینہ شریف سے بے پناہ محبت فرماتے تھے۔ لہٰذا محبتِ رسول کا تقاضا ہے کہ ہم بھی مدینے کی گلیوں، کوچوں، در و دیوار، پھولوں حتی کہ کانٹوں سے بھی پیار کریں اور ان کے دیدار کی نہ صرف خواہش کریں بلکہ اس کے لیے اللہ پاک سے دعائیں مانگیں۔اللہ پاک ہمیں مدینہ پاک کی سچی محبت اور باآدب حاضری نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


مدینۃ المنورہ دنیا کا وہ عظیم ترین و مقدس شہر ہے جس کی فضیلت و اہمیت بکثرت قرآنی آیات  و احادیثِ پاک سے ثابت ہے اور فضیلت کیوں نہ ہو کہ یہ وہ مبارک شہر ہے جہاں ہمارے پیارے آقا و مولا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمدس سال اس شہر مقدس میں تشریف فرما رہے اور حضور پرنور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماب بھی وصالِ ظاہری کے بعد اسی مبارک شہر کو اپنی نگاہِ بے نیاز سے فیضیاب فرما رہے ہیں اور پوری دنیاکے مسلمان اس مبارک شہر سے دل و جان محبت کرتے ہیں ۔ یہ وہ مبارک شہر ہے جہاں صرف عزت والے اور عقیدت مند لوگ ہی حاضر ہو سکتے ہیں۔شہر ِنبوی کے متعلق دس فضائل حدیثِ پاک کی روشنی میں پیش خدمت ہیں پڑھیے اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کیجئے ۔چنانچہ

1: آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم میں جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے وہ مدینے ہی میں مرے کیونکہ جو مدینے میں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا ۔(شعب الایمان ج 3 ص 497 حدیث 1482)

زمیں تھوڑی سی دیدے بہر مدفن اپنے کوچے میں لگا دے میرے پیارے میری مٹی بھی ٹھکانے سے

(ذوق نعت)

2: فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے! مدینے میں نہ کوئی گھاٹی اور نہ کوئی راستہ مگر اس پر دو فرشتےمقرر ہیں جو اِس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ (مسلم ص 714حدیث 1374)

امام نوَوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :اس روایت میں مدینۃُ المنّورہ کی فضیلت بیان ہوئی اور پیارے آقا علیہ السلام کے زمانہ مبارکہ میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی، کثیر تعداد میں فرشتے حفاظت کرتے اور ان فرشتوں نے تمام گھاٹیوں کو سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی عزت افزائی کے لیے محاصرہ کیا ہوا تھا۔ (شرح صحیح مسلم للنوی ج 5 جزء 9 ص 148)

3: مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت )کا حکم ملا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی(یعنی سب پر غالب آ جائے گی) اسے یثرب کہا جاتا ہے اور وہ مدینہ ہے (یعنی یہ بستی) لوگوں کو ایسے پاک و صاف کردے گی جیسے بھٹی لوہے کے زنگ و میل کو۔ (صحیح البخاری حدیث 1871،ج1،ص617)

یثرب سے مدینہ کیسے بنا؟

پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے مدینہ پاک تشریف لانے سے پہلے اسے یثرب کہا جاتا تھا( یعنی بیماریوں کا گھر) جب آپ علیہ السلام تشریف لائے تو آپ علیہ السلام نے اس کا نام المدینہ،طیبہ ،طابہ رکھا اور مدینہ کو یثرب کہنے سے منع فرمایا ۔(فضائلِ مدینہ، ص 112)کیونکہ یثرب یا تثریب سے بنا ہے جس کا مطلب ہے: زجرو توبیخ یعنی (ڈانٹنا ، جھاڑنا سر زنش کرنا) اور ملامت (یعنی شرمندگی کے )ہے یا یہ ثربٌ سے بنا ہے جس کا معنی ہے” فساد “اور یہ دونوں نام بُرے ہیں اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماچھے نام پسند فرماتے تھے اور بُرے نام ناپسند فرماتے ۔

(فضائل مدینہ، ص 113مصنف الدکتور ابو ابراھیم ملا خاطر، مکتبہ ضیاء القرآن )

طیبہ اور طابہ کہنے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

بعض علما نے فرمایا :اس کو طیبہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی مٹی پاک ہے اور بعض نے فرمایا : اس کے باشندے یعنی رہائشی لوگ پاک ہیں اور بعض کے نزدیک زندگی پاکیزہ ہونے کی وجہ سے طیِّبہ اور طابہ کہا جاتا ہے۔ (فضائل مدینہ ص 110۔109)

4: جو پختہ ارادے کے ساتھ میری زیارت کو آیا بروزِ قیامت میری حفاظت میں رہے گا اور جو مدینے میں مستقل قیامت اختیار کرے گا اور مدینے کی تکلیفوں ہر صبر کرےگا تو میں بروزِ قیامت اس کی گواہی دوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا اور جو مکے مدینے میں سے کسی ایک میں مرے گا اللہ پاک اسے اس حال میں اٹھائے گا کہ وہ قیامت سے بے خوف رہے گا۔(مشکاۃ المصابیح ج 1 ص حدیث 2755)

5: پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ پاک کی گرد و غبار صاف نہ فرماتے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی منع فرماتے اور ارشاد فرماتے :مدینہ پاک کی خاک میں شفا ہے۔( جذب آپ قلوب ص22)

6: جو مسلمان زیارت کی نیت سے مدینۃ المنورہ آتا تو فرشتے رحمت کے تحائف سے اس کا استقبال فرماتے ہیں ۔ (جذب القلوب ص 211)

7: شہر ِمدینہ کی مقدس زمین پر مزارِ رسول ہے جہاں صبح و شام ستر ستر ہزار فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔

(عاشقان رسول کی 130 حکایات ص 261)

8:مسجدِ نبوی شریف میں ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(ابن ماجہ 2ص176حدیث 1413)

9:فرمایا:مدینہ پاک کی مبارک خاک میں ہر بیماری سے شفا ہے۔(جامع الاصول للجزری ج9ص297حدیث 6962)

10:دنیا کا کوئی شہر ایسا نہیں جس کے اتنے اسمائے مبارکہ ہوں سوائے مدینۃ المنورہ کے کہ بعض علمائے کرام نے 100 نام تحریر فرمائے ہیں۔

اللہ پاک کی قسم! وہ مسلمان بہت ہی خوش نصیب ہے جسے غم ِمدینہ کی دولت نصیب ہو جائے۔غمِ مدینہ کی دولت حاصل کرنے کے لیے بکثرت تصورِ مدینہ کیجئے۔فضائلِ مدینہ کا مطالعہ فرمائیے نیز مدینہ کی یاد میں لکھے گئے کلامِ پاک سنیے ان شاء اللہ غمِ مدینہ کے ساتھ ساتھ محبتِ مدینہ بھی نصیب ہوگی۔اللہ پاک ہم سب کو صحیح معنوں میں اخلاص کے ساتھ محبتِ مدینہ اور غم ِمدینہ نصیب فرمائے۔ آمین


مدینہ منورہ کی عظمت و فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ  یہ وہ مقدس اور عظیم شہر ہے کہ اللہ پاک نے جس کا ذکر قرآن ِکریم میں مختلف ناموں کے ساتھ فرمایا بلکہ مدینہ منورہ کا مشہور نام مدینہ 3مرتبہ قرآن میں آیا ہے۔

مدینۂ پاک دنیا کا واحد شہر ہے جس کے 100 سے زائد نام ہیں ، اس کے عِلاوہ دنیا میں کوئی ایسا شہر نہیں جس کے اتنے زیادہ نام ہوں ۔ شیخ عبد الحق مُحَدِّثْ دِہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :مدینۂ پاک کے اتنے زیادہ نام ہونے سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ یہ مبارک شہر کیسی عظمتوں والا ہے ۔( جذب القلوب ،ص9)

زمانہ سعادت نشانِ نبوت سے پہلے مدینہ شریف کو یثرب و اثرب بروزن مسجد کہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنے رب کے حکم سے اس کا نام طابہ اور طیبہ رکھا۔ لوگ کہتے ہیں :یثرب حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے کسی ایک کا نام ہے جب ان کی اولاد متفرق شہروں میں آباد ہوئی تو یثرب نے اس سرزمین میں قیام کیا۔

قرآنِ پاک کی بھی آیت ِمبارکہ میں”یثرب‘‘ کا لفظ ذکر ہوا، اس کے بارے میں اعلیٰٰ حضرت امام احمد رضاخان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:قرآنِ عظیم میں لفظ ”یثرب‘‘ آیا وہ رب العزت نے منافقین کا قول نقل فرمایا ہے۔ یثرب کا لفظ فساد و ملامت سے خبر دیتا ہے وہ ناپاک اسی طرف اشارہ کر کے یثرب کہتے ، اللہ پاک نے ان پر رد کے لئے مدینہ طیبہ کا نام طابہ رکھا، حضور اقدس، سرورِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں:” یقولون یثرب وھی المدینہ‘‘وہ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ تو مدینہ ہے۔( بخاری ، کتاب فضائل المدینۃ، باب فضل المدینۃ ۔الخ،ا / 217 ، حدیث: 1871)اس سے معلوم ہوا !مدینہ کو یثرب کہنا منافقین کا طریقہ ہے ۔

یثرب نہ کہنے کی وجہ:

لفظ یثرب سے کراہت کی وجہ اس کا ثرب سے مشتق ہونا(بننا ہے) جس کے معنی فساد کے ہیں یا تثریب سے مشتق ہونا (بننا ہے) جس کے معنی مواخذہ اور عذاب کے ہیں ان سب باتوں کے علاوہ یثرب ایک کافر کا نام بھی ہے لہٰذا اس کے نام پر اس مقام شریف کا نام رکھنا جس کی عزت شرک کے غبار اور کفر سے پاک و بری ہو۔ کسی طرح مناسب نہیں ہے ۔

مدینہ منورہ کو یثرب کہنے کا شرعی حکم :

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا نا جائز و ممنوع و گناہ ہے اور کہنےوالا گنہگار۔ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں: جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے۔ مدینہ طابہ ہے مدینہ طابہ ہے۔( مسند امام احمد ، مسند الکوفیین، حدیث البراء بن عازب ، 4 / 409)

علامہ مناوی تیسیر شرحِ جامعِ صغیر میں فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوا! مدینہ طیبہ کا یثرب نام رکھنا حرام ہے کہ یثرب کہنے سے استغفار کا حکم فرمایا اور استغفار گناہ ہی سے ہوتی ہے۔

( التیسیر شرح جامع الصغير ،حرف المیم،2 / 444)

فضائلِ مدینہ احادیث کی روشنی میں:

1)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا: مجھے اس بستی کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا جو تمام بستیوں کو کھا جاتی ہے ، لوگ اسے یثرب کہتے ہیں حالانکہ وہ مدینہ ہے اور وہ بُرے لوگوں کو اس طرح دور کر تا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کرتی ہے۔( بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب فضل المدینۃ وانہا تنفی الناس، 1 / 217 ،حدیث: 1871)

2)حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔(مسلم، کتاب الحج، باب المدینۃۃتنفی شرارہا،حدیث: 491(1385))

3)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مدینہ منورہ کے دونوں پتھریلے کناروں کے در میان کی جگہ کو میری زبان سے حرم قرار دیا گیا ہے ۔

( بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب حرم المدينۃ، 1 / 216،حدیث: 1829)

5) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے دعا فرمائی:اے اللہ پاک!جتنی برکتیں مکہ میں نازل کی ہیں اس سےدگنی برکتیں مدینہ میں نازل فرما۔

( بخاری، کتاب فضائل المدينۃ، 11:باب، 1 / 220،حدیث: 1885)

4)حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:سیّد المرسَلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے دست ِاَقدس سے مدینہ منورہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:بے شک یہ حرم ہے اور امن کا گہوارہ ہے۔

( معجم الکبیر، باب السین، یسیر بن عمرو عن سہل بن حنیف، 6 / 92، حدیث: 5611)

6)حضرت عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پُر نور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

( بخاری، کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، باب فضل ما بین القبر والمنبر، 1 / 402، حدیث: 1195)

(7)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے،حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا: جس کو مدینہ منورہ میں موت آ سکے تو اسے یہاں ہی مرنا چاہئے،کیونکہ میں یہاں مرنے والوں کی(خاص طور پر ) شفاعت کروں گا۔ ( ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، 5 / 483،حدیث: 3943)

8)سرورِ کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ منورہ کے حق میں اکثر دعائےخیروبرکت فرماتے رہتے تھے۔ آپ دعا کرتے:اللهم بارك لنا في مدينتنا وبارك لنا في صاعنا وبارک لنا في مدنا اللهم ان ابراہیم عبدك وخليلك ونبیک وانی عبدک ونبیک وانه دعاك لمكته وانا ادعوك للمدينته بمثل ما دعاك لمكنه ومثله معه ترجمہ:اے اللہ پاک!برکت دے ہمارے لئے ہمارے مدینہ میں اور برکت دے ہمارے لئے ہمارے صاع میں اور برکت دے ہمارے لئے ہمارے مد میں۔اے اللہ پاک! بے شک ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے اور تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ بے شک ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی تجھ سے مکہ کے لئے اور میں دعا کرتا ہوں تجھ سے مدینہ کے لیے اتنی مقدار میں کہ تجھ سے دعا کی تھی مکہ کے لئے اور اس کے مثل اس کے ساتھ۔

9)مام حاکِم نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ نے روایَت کیا :جب مدنی آقا ، مکی داتا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہجرت کا اِرادہ فرمایا تو بارگاہِ الٰہی میں دُعا کی:اللہمَّ اِنَّکَ اِنْ اَخْرَجْتَنِیْ مِنْ اَحَبِّ الْبِلَادِ اِلَیَّ فَاَسْکِنِّیْ فِی اَحَبِّ الْبِلَادِ اِلَیْکَ یعنی الٰہی!تُو نے مجھے میرے مَحْبُوب ترین شہر سے ہجرت کا حکم دِیا ہے ، اب میرا قِیَام ایسی جگہ فرما جو تیرے ہاں محبوب ترین ہو۔ (مستدرك ، كتاب : ہجرۃ ، جلد : 3 ، صفحہ : 535 ، حدیث : 4320بتغیر قلیل)

شیخ عبد الحق مُحَدِّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیثِ پاک جَذْبُ الْقُلُوب میں نقل فرمائی اور فرمایا : اِذِ الْحَبِیْبُ لَا یَخْتَارُ لِحَبِیْبِہٖ اِلَّا مَا ہُو اَحَبُّ وَ اَکْرَمُ عِنْدَہٗ یعنی ایک محبت کرنے والا اپنے محبوب کے لئے وہی پسند کرتا ہے جو اس کے نزدیک زیادہ پسندیدہ اور عزّت والا ہو۔ (جذبُ القلوب ، صفحہ : 20)

اس دُعا کے بعد اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب،حبیبِ لبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے لئے مدینۂ پاک کا انتخاب فرمایا ، اس سے معلوم ہوا! مدینۂ پاک اللہ پاک کے ہاں مَحْبُوب ترین مقام ہے۔

10) مدینہ منورہ کا ایک وصف سنئے۔ وہ یہ ہے کہ یہ شہر مقدس دجال کے وجود اور نجاست سے محفوظ رہے گا۔ صحیحین (بخاری و مسلم) کی روایت سے یہ ثابت ہے کہ اس زمانے میں مدینہ منورہ کی ہر گلی پر فرشتوں کی ایک جماعت مقرر ہوگی کہ اس کی حفاظت کرے اور دجال کے داخلے کو روک دے۔

دوسری حدیث میں یہ آیا ہے : روئےزمین پر کوئی شہر ایسا نہیں ہے جہاں دجال نہ جاسکے۔ سوائے مکہ اور مدینہ کے۔ مدینہ منورہ وہ حسین شہر ہےکہ جہاں میرے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمآرام فرما ہیں اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہوسکتی ہے !

مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں میرے آقا میرے دلبر مدینے میں

پھر کیوں نہ ہم عشق ِمدینہ میں تڑپیں!غم ِمدینہ میں روئیں !کہ محبوب کے کوچہ سے دور رہ کر محب تڑپتا اور مچلتا ہی رہتا ہے۔اللہ پاک ہم سب کو غمِ مدینہ میں رونا نصیب کرے ۔(آمین)


تعریف کے لائق جب الفاظ نہیں ملتے                     تعریف کرے کوئی کس طرح مدینے کی

مدینے شریف کی عظمت و رفعت بیاں کیسے ہو !جس میں ہمارے پیارے آقاصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنی حیات مبارکہ گزاری۔ پیارے آقاصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے مکہ شریف سے مدینہ تشریف لانے سے پہلے اس شہر کو یثرب کہا جاتا تھا ،پھر مکی مدنی آقاصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی جب مدینہ شریف میں تشریف آوری ہوئی تو یہ جہالت میں ڈوبا ہوا یثرب نامی شہرِ مدینہ بن گیا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے یوں دعا مانگی:اے اللہ پاک! تو نے جو برکت مکہ میں رکھی ہے مدینہ کو اس سے دُگنی برکت عطا فرما۔

(بخاری، کتاب فضائل مدینہ، رقم1885 ،ج1، ص620)

مذکورہ حدیثِ پاک میں نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے برکت کی دعا فرمائی۔ بہت سی خیر کا نام برکت ہے۔ چونکہ مدینہ شریف کو پیارے آقاصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے شرفِ قیام بخشا، سر زمینِ مدینہ کو اپنے مبارک قدموں کے بوسے لینے کی سعادت عطا فرمائی اس دعا کا ظہور وہاں کی آب و ہوا اور اشیا میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ان سعادتوں سے فیض یاب ہو کر شہرِ مدینہ نے عظمت و رفعت پائی۔ آپصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی دعا سے اس مبارک شہر کو اتنی برکت میسر آئی کہ مدینے میں رہنا عافیت کی علامت اور مدینے میں مرنا شفاعتِ مصطفےکی ضمانت قرار پایا۔

یوں یہ شہر بہت فضیلت اور دُگنی خیر و برکت کا ایسا مرکز بنا کہ جسے دیکھنے کے لئے ہر عاشقِ رسول تڑپتا ہے۔

آئیے !مدینہ منورہ کی فضیلت کے بارے میں پیارے آقاصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی چند احادیثِ مبارکہ پڑھئے:

1۔پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ہے:یہ طیبہ ہے اور گناہوں کو اس طرح مٹاتا ہے جیسے آگ چاندی کا کھوٹ دور کر دیتی ہے۔(بخاری، ج3، ص36، حدیث4050)

2۔حضرت اَفلَح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :میں حضرتِ یزید بن ثابت اور ابو ایوب رضی اللہ عنہماکے قریب سے گزرا۔ یہ دونوں مسجدِ جنائز کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا :کیا تمہیں وہ بات یاد ہے جو رسول اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ہمیں اسی مسجد میں بیان فرمائی تھی؟ تو دوسرے نے کہا :ہاں۔ مدینہ شریف کے بارے میں آپصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا خیال تھا کہ عنقریب لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں زمین کی فتوحات کھول دی جائیں گی اور لوگ اس کی طرف نکل کھڑے ہونگے تو وہ خوشخالی اور عیش و عشرت اور لزیز کھانے پائیں گے پھر اپنے حج یا عمرہ کرنے والے بھائیوں کے پاس سے گزریں گے تو ان سے کہیں گے:تم تنگدستی اور سخت بھوک کی زندگی کیوں گزار رہے ہو؟رسول اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے کئی مرتبہ یہ جملہ دہرایا کہ جانے والا اور رہ جانے والا اور مدینہ ان کے لئے بہتر ہے جو اس میں ٹھہرا رہے اور مرنے تک تنگدستی و سختی پر صبر کرے میں اس کی گواہی دوں گا یا شفاعت کروں گا۔ (طبرانی کبیر، رقم 3985، ج4، ص153)

وہاں اک سانس مل جائے یِہی ہےزِیست کا حاصل وہ قسمت کا دھنی ہے جو گیا دم بهر مدینے میں

3۔حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی پاکصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا: مدینہ منورہ میں رمضان کا ایک مہینہ گزارنا دیگر شہروں میں رمضان کے ایک ہزار مہینے گزارنے سے بہتر ہے اور مدینہ منورہ میں ایک جمعہ ادا کرنا دیگر شہروں میں ایک ہزار جمعے ادا کرنے سے بہتر ہے۔ (طبرانی کبیر، رقم1144، ج1، ص372)

4۔حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے دعا مانگی:یا اللہ پاک! تیرے بندے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تجھ سے مکہ والوں کے لئے برکت کی دعا کی اور میں محمد تیرا بندہ اور رسول ہوں میں مدینہ والوں کے لئے برکت کی دعا کرتا ہوں تو ان کے صاع اور مُد (یہ دونوں پیمانے ہیں) میں ویسی برکت عطا فرما جیسی برکت تُو نے مکہ والوں کے لئے عطا فرمائی اور اس برکت کے ساتھ دو برکتیں اور عطا فرما۔ (مجمع الزوائد، کتاب الحج، باب جامع فی الدعالھا، رقم 5815، ج3، ص656)

5۔حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینہ لوگوں کے لئے بہتر ہے اگر جانتے اور جو اس شہر سے منہ پھیر کر اسے چھوڑ دے گا اللہ پاک اس سے بہتر لوگوں کو اس شہر میں بسا دے گا اور جو اس میں تنگدستی اور یہاں کی تکالیف پر ثابت قدم رہے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا گواہی دوں گا۔ (مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینہ، رقم 1363، ص709)

6۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ اکرمصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا: جو میری اُمت میں سے مدینہ میں تنگدستی پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا اس کے لئے گواہی دوں گا۔ (مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینہ، رقم1378، ص716)

7۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:میری اس مسجد میں نماز پڑھنا مسجدِ حرام کے علاوہ دیگر مساجد میں ایک ہزار نمازیں پڑھنے سے افضل ہے اور میری اس مسجد میں ایک جمعہ ادا کرنا مسجدِ حرام کے علاوہ دیگر مساجد میں ایک ہزار جمعہ ادا کرنے سے افضل ہے اور میری اس مسجد میں رمضان کا ایک مہیناگزارنا مسجدِ حرام کے علاوہ دیگر مساجد میں ایک ہزار ماہ رمضان گزارنے سے افضل ہے۔(شعب الایمان، باب فی المناسک فضل الحج والعمرۃ، رقم 4147، ج3، ص476)

8۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ،نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو مدینہ میں مرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ مدینہ میں ہی مرے کیونکہ جو مدینہ میں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔

(ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینہ، رقم3943، ج5، ص483)

میں ہوں سنی، رہوں سنی، مروں سنی مدینے میں بقیعِ پاک میں بن جائے تربت یا رسول اللہ

9۔رسول اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ہے:تم میں سے جس سے ہو سکے وہ مدینہ میں مرے کیونکہ جو مدینہ میں مرے گا میں قیامت کے دن اس کی گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔

(طبرانی کبیر مسند، رقم747، ج24، ص294)

10۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیِّ پاکصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو دو حرموں(یعنی مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ) میں سے کسی ایک میں مرے گا قیامت کے دن امن والوں میں اٹھایا جائے گا اور جو ثواب کی نیت سے مدینہ میں میری زیارت کرنے آئے گا وہ قیامت کے دن میرے پڑوس میں ہو گا۔

(شعب الایمان، باب فی مناسک فضل الحج و العمرۃ، رقم4158، ج3، ص490)

نصیب والوں میں میرا بھی نام ہو جائے جو زندگی کی مدینے میں شام ہو جائے

اللہ پاک ہمیں بھی مدینہ منورہ کی یاد میں رونا اور تڑپنا نصیب فرمائے جو روتے اور تڑپتے ہیں مدینے کے لئے اللہ پاک ان کے صدقے ہمیں دنیاوی غموں سے بچا کر غمِ مدینہ عطا فرمائے کہ جسے مدینے کا غم نصیب ہو جائے اسے کوئی بھی دنیاوی غم نہیں ستاتا۔اللہ پاک ہمیں بیمارِ مدینہ بنا دے،ہمیں بھی مدینہ منورہ میں ایمان والی، شہادت والی موت نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامینصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

مجھے ہریالے گنبد کے تلے قدموں میں موت آئے سلامت لے کے جاؤں دین و ایماں یا رسول اللہ


صوبۂ پنجاب پاکستان کے شہر لاہور میں دعوتِ اسلامی کے جامعۃ المدینہ بوائز کا مدنی مشورہ ہوا جس میں ناظمینِ کرام سمیت شعبے کے  دیگر اہم اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

اس مدنی مشورے میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی یعفور رضا عطاری نے ناظمینِ کرام کو دعوتِ اسلامی کے دینی و فلاحی کاموں کے لئے زیادہ سے زیادہ قربانی کی کھالیں جمع کرنےکا ذہن دیا۔

اس کے علاوہ رکنِ شوریٰ نے دعوتِ اسلامی کے تحت ہونے والے 12 دینی کاموں اور خودکفالت کے متعلق اہم امور پر گفتگو کی۔(رپورٹ:محمد ابوبکر عطاری معاون رکن شوری حاجی یعفور رضا عطاری، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ۔

ترجمہ کنز العرفان: بیشک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب صاف ستھرے رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

(سورہ بقرہ، آیت 222)

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:وَاللہِ اِنِّی لَاَسْتَغْفِرُ اللہَ وَاَتُوبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِینَ مَرَّۃً ۔

ترجمہ:خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ سے اِستغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔

(مشکاۃ المصابیح،ج1،ص434،حدیث:2323)

حکیمُ الاُمّت مُفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں: توبہ و استغفار روزے نماز کی طرح عبادت بھی ہے اسی لئے حضور انور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم اس پر عمل کرتے تھے ورنہ حضور انور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم معصوم ہیں گناہ آپ کے قریب بھی نہیں آتا۔ (مراٰۃ المناجیح،ج3،ص353ملخصاً)

شیخ طریقت امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ مبلغین دعوت اسلامی موقع مناسبت سے عاشقان رسول کو اپنے گناہوں سے توبہ کرنے اور استغفار کرنے کی ترغیب ارشاد فرماتے رہتے ہیں۔

عاشقان رسول کو گناہوں سے توبہ کرنے کا ذہن دینے اور استغفار کرنے کی ترغیب دلانے کے لئے امیر اہلسنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے اس ہفتے 17صفحات پر مشتمل رسالہ فضائلِ استغفارپڑھنے/ سننے کی ترغیب دلائی ہے بلکہ پڑھنے/سننے والوں کو اپنی دعاؤں سے بھی نوازا ہے۔

دعوت اسلامی کی مجلس تراجم کی جانب سے اس رسالے کا سات زبانوں(انگلش، اردو، بنگلہ، ہندی، رومن اردو، سندھی، پشتو) میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے، دعوت اسلامی کی ویب سائٹ پر ان زبانوں میں رسائل موجود ہیں، مذکورہ زبانوں کے جاننے والے درج ذیل لنک پر کلک کرکے رسائل کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔

دعائے عطار

یارب المصطفٰے! جو کوئی 17 صفحات کا رسالہفضائلِ استغفارپڑھ یا سن لے اُسے تیری رِضا کے لئے زیادہ سے زیادہ ذکر کرنےکی توفیق عطا فرما اور اُسے بخشش دے۔ اٰمین

یہ رسالہ دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے ابھی مفت ڈاؤن لوڈ کیجئے

Download

رسالہ آڈیو میں سننے کے لئے کلک کریں

Audio Book


پچھلے دنوں شیخوپورہ ، فیضان مدینہ گوجرانوالہ میں شعبہ تحفظ اوراق مقدسہ کے تحت سیکھنے سکھانے کا مدنی حلقہ لگایا گیاجس میں فیضان مدینہ کورس کے شرکاء نے شرکت کی ۔

اس مدنی حلقے میں مبلغ دعوت اسلامی محمد عثمان عطاری نے نماز کی اہمیت کے موضوع پر گفتگو کی جس میں نماز نہ پڑھنے کی وعید یں بتائی اور 12 دینی کام کرنے کاذہن دیا ۔(رپورٹ: محمد آفتاب عطاری شعبہ تحفظ اوراق مقدسہ گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ ، کانٹینٹ: محمد مصطفی انیس) 


مدینہ منورہ  عاشقانِ رسول کی محبتوں کا مرکز ہے اور کیوں نہ ہو کیونکہ مدینہ منورہ ہی روئے زمین کا وہ ٹکڑا یا گوشہ ہے جو تمام عالم سے افضل ہے اس کے افضل ہونے کی وجہ یہاں موجود وہ ہستی ہے جو تمام خلق سے افضل و اعلیٰ ہےبلکہ وجہِ تخلیقِ کائنات ہے اور وہ ہستی جنابِ سیدُ المرسلین،رحمۃ العالمین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی ذات بابرکت ہے۔

میری الفت مدینے سے یوں ہی نہیں میرے آقا کا روضہ مدینے میں ہے

مدینہ کو یثرب کہنے کی ممانعت :

ہجرت سے پیشتر لوگ مدینہ کو یثرب کہتے تھے مگر اس نام سے پکارنا جائز نہیں کہ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔بعض شاعراپنے اشعار میں مدینہ طیبہ کو یثرب لکھا کرتے ہیں انہیں اس سے احتراز لازم اور ایسے شعر کو پڑھیں تو اس لفظ کی جگہ طیبہ پڑھیں کہ یہ نام حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے رکھا ہے۔بلکہ صحیح مسلم شریف میں ہے:اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔ (بحوالہ: بہار شریعت ، حصہ ششم ، ص : 1220 )

مدینہ منورہ کے فضائل احادیث کی روشنی میں پیش کرنے کی سعی کی جارہی ہے۔ چنانچہ

آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:جس سے ہوسکے کہ مدینے میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے جو مدینہ میں مرے گا میں اس کی شفاعت فرماؤں گا ۔ (بحوالہ: جامع الترمذی ،باب ما جاء فی فضل المدینہ ،حدیث :3943، ص483 )

رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مکہ ومدینہ کے سوا کوئی شہر ایسا نہیں کہ وہاں دجال نہ آئے ۔ مدینہ کا کوئی راستہ ایسا نہیں جس پر ملائکہ پہرا نہ دیتے ہوں ۔دجال ( قریبِ مدینہ ) شور ِزمین میں اترے گا ۔اس وقت مدینہ میں تین زلزلے ہوں گے جن سے ہر کافر و منافق یہاں سے نکل کر دجال کے پاس چلا جائے گا۔

( بحوالہ: صحیح مسلم ، کتاب الفتن ، حدیث: 2943 ، ص ، 716)

نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت) کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھاجائے گی (سب پر غالب آئے گی) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔( بحوالہ :صحیح بخاری ، کتاب فضائل المدینہ ، حدیث: 1871 ، ص ،618 )

آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مدینہ کے راستے پر فرشتے (پہرا دیتے ہیں ) اس میں نہ دجال آئے ،نہ طاعون۔ (بحوالہ : صحیح مسلم ، کتاب الحج ، حدیث: 1379 ، ص ، 716)

پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ منورہ کے لیے یوں دعائیں کیا کرتے تھے ،چنانچہ،

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:لوگ جب شروع شروع پھل دیکھتے اسے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی خدمت میں حاضر کرتے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماسے لے کر یہ کہتے:الہٰی! تو ہماری کجھوروں میں برکت دے اور ہمارےلیے مدینہ میں برکت دے اور ہماری صاع ومد میں برکت کر۔ یااللہ پاک!بے شک حضرت ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے اور تیرے خلیل اور تیرے نبی ہیں اور بے شک میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں ۔ انہوں نےمکہ کے لیے تجھ سے دعا کی اورمیں مدینہ کے لیے تجھ سےدعا کرتا ہوں اسی کی مثل جس کی دعا مکہ کے لیے انہوں نے کی اور اتنی ہی اور( مدینہ کی برکتیں مکہ سے دوچند ہوں ) ۔پھر جو چھوٹا بچہ سامنے آتا اسے بلاکر وہ کجھور عطا فرما دیتے۔( بحوالہ: صحیح مسلم ، کتاب الحج ، حدیث: 1373، ص : 713)

مروی ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا : یا اللہ پاک ! تو مدینہ کو ہمارا محبوب بنادے جیسے ہم کو مکہ محبوب ہے بلکہ اس سے زیادہ اور اس کی آب ہوا کو ہمارے لیے درست فرمادے اور اس کے صاع و مد میں برکت عطا فرمااور یہاں کے بخار کو منتقل کر کے جحفہ میں بھیج دے۔

(بحوالہ: (صحیح مسلم ، کتاب الحج حدیث : 1376،ص:715)

توضیح:

علامہ قسطلانی رحمۃُ اللہِ علیہ مسند ِابو یعلی میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:نبی پر اس جگہ موت طاری کی جاتی ہے جو جو جگہ نبی کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوتی ہے اور جو جگہ نبی کوسب سےزیادہ محبوب ہوتی ہے وہ اللہ پاک کو بھی محبوب ہے اور جو جگہ اللہ پاک اور اس کے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب ہوگی وہی جگہ سب سے افضل ہوگی۔

(شرح صحیح مسلم ،ص: 735:736)

ان کے طفیل حج بھی خدا نے کرادیے اصل ِمراد حاضری اس پاک در کی ہے

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:اے اللہ پاک! ان کے پیمانے میں برکت عطا فرما۔ اےاللہ پاک! ان کے صاع میں برکت عطا فرما۔اے اللہ پاک! ان کے مد میں برکت عطا فرما۔(شرح صحیح مسلم ،کتاب الحج ،جلد ،3 ،حدیث ، 3221)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:اے اللہ پاک!جتنی برکتیں مکہ میں نازل کی ہیں اس کی دگنی برکتیں مدینہ میں نازل فرما۔

(بحوالہ: شرح صحیح مسلم، کتاب الحج، حدیث ، 3222: ص: 720)

وضاحت:

آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینہ کے لیے دعا فرمائی تاہم امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمۃُ اللہِ علیہما کا نظریہ یہ ہے کہ مکہ مدینہ سے افضل ہے تاہم مکہ کی افضلیت آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے روضہ کے ماسواہے اور ان احادیث کے پیشِ نظر حق یہ ہے کہ خواہ مکہ افضل ہو لیکن اجرو ثواب اور خیر وبرکت مدینہ میں مکہ سے دو چند ہےنیز فتحِ مکہ کے بعد بھی حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مدینہ میں رہنا فرض تھا اگر مکہ افضل ہوتا تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مکہ میں رہنے کا حکم دیا جاتا۔ (شرح صحیح مسلم ، ص: 729 )

طبرانی کبیر کی ایک طویل حدیث میں حضرت ابی اسید ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ سرسبز ملک کی طرف چلے جائیں گے ، وہاں کھانا اور لباس اور سواری انہیں ملے گی پھر وہاں سے اپنے گھر والوں کو لکھ بھیجیں گے کہ ہمارے پاس چلے آؤ تم حجاز کی خشک زمین پر پڑے ہو حالانکہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہے اگر جانتے۔ (بحوالہ: المعجم الکبیر ، للطبرانی ، حدیث : 587 ، ج: 19 ، ص، 265 )

آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینہ پاک کو حرم قرار دیا ،چنانچہ

حضرت رافع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا :حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں اس کے دونوں پتھریلے کنارے یعنی مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں۔

(بحوالہ: شرح صحیح مسلم، کتاب الحج ، حدیث : 3211)

حرم کی زمین اور قدم رکھ کر چلنا ارے سر کا موقع ہے او جانے والے

درس :

دنیا میں بے شمار ممالک اور شہر اپنی خوبصورتی و دلکشی کے باعث سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں لیکن جس نے مدینہ کی بہاریں دیکھ لی ہیں وہ جانتی ہے اس سے بڑھ کر نہ کوئی شہر ہے اور نہ ہوگا۔لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے قلوب واذہان کو مدینہ کی یادوں سے بسائیں اور صرف اسی کی خواہش کریں اور اذنِ طیبہ کے لیے خوب تڑپیں۔

پیرس پہ مرنے والی پیرس کو بھول جاتی تو بھی جو دیکھ لیتی سرکار کا مدینہ

کہاں کوئی روتی ہے جنت کی خاطر رلاتی ہے عاشقہ کو یاد ِمدینہ

مدینہ منورہ کے 10 فضائل حدیث کی روشنی میں:

روضہ رسول کی فضیلت اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ یہ وہ سر زمین پاک ہے جو عرش و کرسی سے بھی اعلیٰ جگہ ہے کہ یہاں میرے محبوب کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمآرام فرمااور جلوہ فرما ہیں۔ یہ وہ سر زمین ہے جسے میرے آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنی ذات کی رہائش سے ایسا منور فرمایا کہ یہ جگہ یثرب سے مدینہ ہوگئی۔

یثرب بنا مدینہ:

یثرب زمانۂ جاہلیت کا نام ہے یا اس لئے کہ یہ ’’ ثربٌ ‘‘ سے بنا ہے جس کا معنیٰ ہلاکت اور فساد ہے اور’’ تَثْرِ یْب ‘‘ بمعنیٰ سرزنِش اور مَلامَت ہے یا اس وجہ سے کہ ’’ یَثْرِبْ ‘‘ کسی بُت یا کسی جابِر و سَرکش بندے کا نام تھا۔ ‘‘

(اَشِعۃ اللَّمعات ،کتاب المناسک ، باب حرم المدینۃ...الخ ، الفصل الاول ،2/417 کوئٹہ)

اَحادیثِ مُبارَکہ میں مدینۂ منوَّرہ کو یَثْرِبْ کہنے کی سخت ممانعت آئی ہے چنانچہ سردارِ مکۂ مکرمہ، تاجدارِ مدینۂ منورہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اِرشاد فرمایا:جو مدینہ کو یَثْرِبْ کہے تو اِستغفار کرے۔مدینہ طابہ(پاک و صاف خوشبودار جگہ)ہے،مدینہ طابہ ہے۔( کنزالعمال ،کتاب الفضائل ، فضائل المدینۃ...الخ،الجزء: 12،6/107،حدیث: 34836 دار الکتب العلميۃ بیروت)

عرصہ ہوا طیبہ کی گلیوں سے وہ گزرے تھے اس وقت بھی گلیوں میں خوشبو ہے پسینے کی

1۔احادیثِ طیبہ کی روشنی میں فضیلتِ مدینہ:

مدینہ طیبہ میں مرنے والوں کی حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمشفاعت فرمائیں گے:

سرکارِدو عالَم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:’’جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے کہ جو مدینہ میں مرے گا میں اُس کی شفاعت فرماؤں گا۔

(ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، 5 / 483، حدیث: 3943)

2۔ مدینہ خیر و عافیت کی جگہ ہے:

والمدينۃ خيرٌ لهم لو كانوا يعلمون مدینہ خیروبرکت کی جگہ ہے ۔(صحيح البخاري:1875)

إنها حرَمٌ آمِنٌ بیشک مدینہ امن والا حرم ہے۔ (صحيح مسلم:1375)

4۔ تا قیامت مدینہ دجال اور 5 ۔ طاعون سے محفوظ ہے:

على أنقابِ المدينۃ ملائكۃ،لايدخُلُها الطاعونُ،ولا الدجالُ۔(صحيح البخاري:7133)
ترجمہ:مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں اس میں نہ تو طاعون اور نہ ہی دجال داخل ہو سکتا ہے۔

6۔ آخری زمانے میں ایمان مدینہ طیبہ میں سمٹ آئے گا:

نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا : ایمان سمٹ کر مدینہ طیبہ میں اس طرح داخل ہو جائے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں داخل ہوتا ہے۔(ابن ماجہ، السنن، کتاب المناسک، باب فضل المدينہ، 3 : 524، رقم : 3111)

7۔ مدینہ طیبہ میں آنے والی مصیبت پر

8 ۔ صبر کا بھی بڑا اجر ہے:

رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا :جو مدینہ منورہ کی سختیوں اور مصیبتوں پر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گا قیامت کے روز میں اس کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘

(مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب الترغيب فی سکنی المدينۃ والصبر علی لاوائها، 2 : 1004، رقم : 1377)

9۔ بدعت سے شہر ِمدینہ پاک ہے:

10۔ مدینے میں بدعت ایجاد کرنے والوں پر لعنت ہے:

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :جو کوئی مدینے میں بدعت ایجاد کرے یا بدعت ایجاد کرنے والے کو پناہ دے، اس پر اللہ پاک، اس کے فرشتے اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔( 2127 سنن ترمذی کتاب فضائل و مناقب)

اللہ اکبر! اتنی رحمتیں اور برکتیں اور کیوں نا ہو کہ یہاں وہ ہیں کے جنہیں اللہ پاک نے رحمۃ العلمین بنایا جن کا ذکر بلند فرمایا،ہر عالم میں آپ کا چرچہ ہے۔ہر مومن کا دل آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی محبت سے لبریز ہے خواہ عمل کے میدان میں کتنا ہی کمزور مومن ہو لیکن اس کا دل محبتِ رسول سے بھرا ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو کہ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا: کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ،اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب(یعنی پیارا) نہ ہو جاؤں۔ (بخاری،ج1،ص17،حدیث:15)

عشق ہو تو ایسا کہ جو بھی کام کریں جو بھی عبادت کریں ذہن میں سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی ادا ہو کہ میرے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نماز ایسے ادا کی ، رکوع کروں تو آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا رکوع یاد آجائے سجدہ میں جاؤں تو یاد آجائے کہ یہ وہی سجدہ ہے جسے میرے کریم آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ادا فرمایا۔ سبز گنبد دیکھوں تو سما بندھ جائے کہ گنبد خضرا اسی جگہ ہے جو حجرۂ عائشہ صدیقہ ہے۔ ارے یہ تو وہی جگہ ہے جہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام میرے رب کا پیغام لے کر آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تھے یہ مدینہ وہی جگہ ہے جہاں صحابہ کرام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے جھرمٹ میں مدینے والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمتشریف فرما ہوتے تھے یہ وہی مدینہ ہے جہاں سے میرے غریب پرور گزرا کرتے تھے تو آپ کی مہک سے گلی کوچے محلے معطر ہوجاتے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان آپ کو آپ کی خوشبو سے تلاش فرمالیا کرتے ۔

عرصہ ہوا طیبہ کی گلیوں سے وہ گزرے تھے اس وقت بھی گلیوں میں خوشبو ہے پسینے کی

پیاری اسلامی بہنو! عشق و محبت بہت ضروری چیزیں ہے جس کی بدولت ہم ایمان کی حلاوت(مٹھاس) کو پاسکتے ہیں اور عشق ِمدینہ میں تڑپنا، غمِ مدینہ میں رونا یہ اہلِ سنت کا طرہ ٔامتیاز ہے۔ بیشک شروع میں تکلف سے ایسا کرنا پڑے تو کیجئے ۔ضرور رقت اور غم ِمدینہ بلا تکلف حاصل ہو ہی جائے گا۔ اللہ پاک ہمیں حقیقی عشقِ رسول و غمِ مدینہ عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


01 جولائی 2022 ء بروز جمعہ دربار والی مسجد میں پتوکی کے ذمہ داران کا مدنی مشورہ ہوا جس میں تحصیل نگران  مولانا فیضان عطاری مدنی نے ذمہ داران کی تربیت کرتے ہوئے تصور مدینہ و تصور مرشد کرنے کا ذہن دیا ساتھ ہی ذوالحجہ کے ان مبارک دنوں میں نفلی روزیں ، نفلی عبادات اور زیادہ سے زیادہ دینی کام کرنے کی ترغیب دلائی ۔

اس کے علاوہ سٹی مشاورت و یو سی نگران کے اسلامی بھائیوں کی تقرری کا اعلان کیا ساتھ ہی قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے لیے لوگوں سے ملاقاتیں کرنے کی ترغیب دلائی ۔ (رپورٹ: علی ریاض عطاری ، مجلس سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ ، کانٹینٹ: محمد مصطفی انیس)