لغوی معنی : دھوکہ دینا

اصطلاحی معنی : معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا غدر یعنی بد عہدی کہلاتا ہے ( باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 170)

اور اللہ پاک قراٰن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِیْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّ هُمْ لَا یَتَّقُوْنَ(۵۶)ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا پھر ہر بار اپنا عہد توڑ دیتے ہیں اور ڈرتے نہیں۔(پ 10، الانفال: 56)

اللہ پاک یا بندوں سے کیے ہوئے وعدہ جھوٹا کرنا حرام ہے اور وعدہ توڑنا ہر عقلمند کے نزدیک شرم ناک جرم ہے اور وعدہ توڑنے والا سب کے نزدیک بے اعتبار ہوجاتا ہے ۔

احادیث میں وعدہ توڑنے کی مذمت بیان کی گئی ہے اور وعدہ کی پاسداری کرنے کی تاکید فرمائی۔ جیسے (1) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ بہت کم تھا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں اس کے بغیر وعظ فرمائیں : جو امین نہیں اس کا ایمان نہیں اور جو پابندِ وعدہ نہیں اس کا دین نہیں۔ ( مرآۃ المناجيح، ج1 ،حدیث: 35)

اور حدیث میں وعدہ خلافی کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ جیسے (2) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو مسلمان عہد شکنی کرے اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ پاک کی اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ ( بخاری ، ج 2 ،حدیث: 3179)

ایک اور حدیث پاک میں وعدہ خلافی کرنے والے کو اللہ کا مد مقابل قرار دیا گیا ہے ۔ (3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت رسو ل صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک فرماتا ہے میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا (1) وہ شخص جو میرے نام کا وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے (2) وہ شخص جو آزاد کو بیچے اور اس کی قیمت کھالے (3) وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے ۔( بخاری کتاب البیوع ،حدیث: 2227)

ایک اور حدیث میں وعدہ توڑنے کو منافق کی علامت قرار دی جیسے(4) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے رایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس میں چار عیب ہوں گے وہ نرا منافق ہے ، جس میں ایک عیب ہو اس میں منافقت کا عیب ہوگا جب تک اسے چھوڑ نہ دے (1) جب امانت دی جائے تو خیانت کرے (2) جب بات کرے گا تو جھوٹ بولے گا (3) جب وعدہ کرے گا تو خلاف ورزی کرے گا (4) جب لڑے گا تو گالی دے گا ۔(مرآۃ المناجيح، ج 1 ،حدیث: 56)

تو ان احادیث سے واضح ہو اکہ وعد ہ خلافی کرنا کسی مسلمان کی شان نہیں اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بد عہدی جیسے موذی مرض سے نجات عطا کرے اور ہمیں کبھی بھی کسی مسلمان کے ساتھ بد عہدی کرنے سے بچنے کی توفیق عطا کرے۔ اٰمین 

حدیث پاک (1) چار خصلتیں جس میں ہوگی وہ پکا منافق ہے :(1)بات کرے تو جھوٹ بولے (2)امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے (3)جب عہد کرے تو دھوکادہی سے کام لے (4)جب جھگڑے تو گالی بکے۔

حدیث پاک (2) ہر بد عہد کے لئے بروزِ قیامت اس کی سرین کے پاس ایک جھنڈا ہوگا کہا جائے گا کہ یہ فلاں کی بد عہدی ہے سنو ! عوام کا امیر سے بد عہدی کرنے سے بڑھ کر کوئی بد عہدی نہیں ۔

حدیث پاک (3)رسو لِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: بروزِ قیامت تین لوگوں کی طرف سے میں مطالبہ کروں گا :(1) وہ شخص جسے میرے سبب عطا کیا گیا پھر اس نے بد عہدی کی ۔(2) وہ شخص جس نے آزاد شخص کو بیچ کر اس کی قیمت کھالی اور (3) وہ شخص جس نے کسی کو مزدور رکھا اور اس سے پورا پور اکام لیا مگر اُسے اجرت نہیں دی۔( اس حدیث پاک امام مسلم و بخاری نے روایت کی ہے)

حدیث پاک (4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں (1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2) جب امانت دی جائے تو خیانت کرے (3) اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔ (مسلم اور بخاری شریف)

(5) حدیث پاک حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تین چیزیں جس شخص میں پائی گئیں وہ منافق ہے اگرچہ و ہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے اور گمان کرے کہ وہ مسلمان ہے (1)جب بات کی ہے تو جھوٹ بولے (2)اور جب امانت دی جائے تو خیانت کرے (3)اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے ۔ (سنن کبریٰ للبیھقی،مسلم و بخاری شریف )

مستحکم تعلقات ، لین دین میں آسانی ، معاشرے میں امن اور باہمی اعتماد کی فضا کا  قائم ہونا وعدہ پورا کرنے سے ممکن ہے ۔ مگر افسوس وعدہ پورا کرنے کے معاملے میں بھی ہمارا حال کچھ اچھا نہیں بلکہ وعدہ خلا فی ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے ، اور وعدہ پورا کرنے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی ، پر بہت سارے لوگوں کا معمول بن چکا ہے کہ کسی کو ٹالنا ہو تو فوراً جھوٹا وعدہ کر لیتے ہیں تاکہ اس شخص سے جان چھوٹے ، اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح کرنے سے بچ جاتے ہیں مگر یہ غلط فہمی ہے کیونکہ وعدہ خلافی اور جھوٹا وعدہ ہمارے لئے وبالِ جان بن جاتا ہے ہمیں سمجھنا چاہئے کہ وعدہ پورا کرنے کے لئے جتن کرنے سے زیادہ تناؤ ہمیں وعدہ خلافی کی بدو لت ہوتا ہے اس کی مذمت احادیث مبارکہ میں آئی ہے جو درج ذیل ہیں : (1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اللہ پاک فرماتا ہے کہ قیامت کے دن میں تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا ،ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے تیسرا وہ شخص جو مزدور سے پورا کام لے اور اس کی مزدوری نہ دے۔ ( مرآۃ المناجيح، جلد 4،حدیث:2984) (2)حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے جو کسی کا عہد توڑے تو اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے نہ اس کی کوئی فرض عبادت قبول کی جائے گی نہ نفل ۔( مرآۃ المناجيح، جلد 4 حدیث: 2728)(3)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو لِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : قیامت کے دن عہد شکنی کرنے والے کے لئے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔ ( مرآۃ المناجيح، جلد 5،حدیث:3725)

(4)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو لِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : قیامت کے دن ہر عہد شکن کے لئے ایک جھنڈا بلند ہوگا جس کے ذریعے وہ پہچانا جائے گا۔ ( مرآۃ المناجيح، جلد 5،حدیث:3726)(5)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ بہت کم تھا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں اس کے بغیر وعظ فرمائیں کہ جو امین نہیں اس کا ایمان نہیں اور جو پابند وعدہ نہیں اس کا دین نہیں۔ (مرآۃ المناجيح، جلد 1،حدیث: 35)(6)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس میں چار عیب ہوں وہ نرا منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک عیب ہو اس میں منافقت کا عیب ہوگا جب تک کہ اسے چھوڑ نہ دے ، جب امانت دی جائے تو خیانت کرے ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے تو خلاف کرے، جب لڑے تو گالیاں بکے۔ (مرآۃٰ المناجيح، جلد 1،حدیث :56)

اللہ پاک مجھے اور آپ کو اور ہمارے معاشرے کو اس مذموم صفت وعدہ خلافی سے نجات عطا فرمائے۔ اٰمین

وعدہ خلافی اور عہد شکنی بھی حرام اور گناہ کبیرہ  ہے کیونکہ اپنے عہد اور وعدہ کو پورا نہ کرنا مسلمان پر شرعاً واجب و لازم ہے اللہ پاک نے قراٰن مجید میں فرمایا : ترجمہ کنزالایمان: ایمان والو اپنے قول پورے کرو۔دوسری آیت میں یوں ارشاد فرمایا: ترجمہ کنزالایمان: بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔

حدیث(1) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہیں اور اس کا کوئی فرض قبول نہ ہوگا نہ نفل۔ (صحیح بخاری کتاب الجزیرہ والموادعۃ، باب اثم من عاھدثم غدر،2/370، حدیث 3179)

حدیث (2) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ چار باتیں جس شخص میں ہوں وہ خالص منافق ہوگا :(1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2) جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے (3) جب کوئی معاہدہ کرے تو عہد شکنی کرے (4) جب جھگڑا کرے تو گالی بکے (صحیح بخاری کتاب الجزیرہ والموادعۃ باب اثم من عاھدثم غدر،2/370، حدیث: 3178)

حدیث(3) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد شکنی کرنے والے کی سرین کے پاس قیامت میں اس کی عہد شکنی کا ایک جھنڈا ہو گا۔ (صحیح مسلم کتاب الجھادو السیر باب تحریم الغدر ،ص 956،حدیث 1738)

حدیث(4) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اولین و آخرین کو اللہ تعالی قیامت کے دن جمع فرمائے گا تو ہر عہد توڑنے والوں کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔(صحیح مسلم کتاب الجھادو السیر باب تحریم الغدر ،ص955،حدیث: 1735)

حدیث(5) ایک صحابی سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ لوگ اس وقت تک ہلاک نہ ہوں گے جب تک کہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں گے۔(سنن ابی داود کتاب الملاحم باب الامرو النھی،4/166، حدیث: 4347)


اس دنیا کی زندگی کے تمدنی ہونے کی وجہ سے ہر انسان فطری  و طبعی طور پر مدنی (مل جل کر زندگی بسر کرنے والا) ہوتا ہے ،کیونکہ ہر انسان کسی نا کسی کام میں کسی غیر کا محتاج ضرور ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس پر دوسرے لوگوں کے شرعی ،فطری اور اخلاقی حقوق متعلق ہوتے ہیں۔ جن میں سے ایک وعدہ و عہد وپیمان کر کے اس کو پورا کرنا بھی ہے، لیکن بسااوقات آدمی شیطان کے بہکاوے میں آکر بعض اسباب کی وجہ سے دوسرے انسان کو دھوکا دے بیٹھتا ہے اور جانے انجانے میں گناہ کے میں پڑ جاتا ہے۔

بدعہدی کی تعریف:معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرناغدر یعنی بدعہدی کہلاتاہے۔( فیض القدیر،حرف الھمزۃ، 2/625)

بدعہدی کاحکم: عہد کی پاسداری کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور غدر یعنی بدعہدی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ،الخلق الحادی والعشرون۔۔۔الخ،1/ 652)

وعدہ کو پورا کرنے کی عظمت و اہمیت: یاد رہے جس طرح قولًا جھوٹ مذموم ہے اسی طرح عملی جھوٹ کی بھی ممانعت ہے، جس طرح قول کی سچائی مطلوب ہے اسی طرح عمل کی سچائی بھی مطلوب ہے۔ وعدہ خلافی عملی جھوٹ میں شمار ہوتا ہے، اور ایفائے عہد (وعدہ کو پورا کرنا) عملی صدق و سچائی کہلاتا ہے۔ اسلام میں بڑی تاکید کے ساتھ عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا اور عہد شکنی کی مذمت ہے۔

وعدہ پورا کرنے کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رب کریم نے اس کا تذکرہ قراٰن پاک کی مختلف آیات میں کیا ہے۔ جیسے پارہ 15 سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر34میں فرمایا: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور عہد پورا کرو بیشک عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔(پ15، بنٓی اسرآءیل:34)

اور پارہ 18 سورۃ المؤمنون میں ارشاد فرمایا: وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں ۔

اور خود اللہ پاک نے بھی اپنی اس صفت کا بارہا ذکر فرمایا ہے (کہ اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا)

وَ لَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗؕ ترجمۂ کنزالعرفان: اللہ ہرگز اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرے گا (پ 17، الحج : 47)

اللہ کے نبی حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی تعریف کرتے ہوئے خاص طور پر اس کا ذکر فرمایا گیا: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴) ترجمۂ کنزالعرفان: اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والارسول تھا۔(پ16، مریم : 54)

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے ارشادات کے ذریعہ بھی ایفائے عہد کی اہمیت اور وعدہ خلافی کی برائی کو بیان فرمایا ہے۔ حدیثِ قدسی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ اللہ پاک نے فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں جن کا میں قیامت کے دن خصم بنوں گا(یعنی ان کے خلاف مقدمہ کھڑا کروں گا) ان میں ایک وہ ہے جس نے میرا واسطہ دے کر کوئی معاہدہ کیا اور پھر اسے توڑ دیا۔(بخاری، کتاب البیوع، باب اثم من باع حُرّاً)

روایت ہے حضرت انس سے کہ یہ بہت کم تھا کہ حضور ہمیں اس کے بغیر وعظ فرمائیں کہ جو امین نہیں اس کا ایمان نہیں جو پابند وعدہ نہیں اس کا دین نہیں۔ ( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 ،حدیث:35 )

روایت ہے عبداللہ ابن عمر سے فرماتے ہیں کہ فرمایا نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ جس میں چار عیوب ہوں وہ نرا منافق ہے اور جس میں ایک عیب ہو ان میں سے اس میں منافقت کا عیب ہوگا جب تک کہ اُسے چھوڑ نہ دے جب امانت دی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف کرے، جب لڑے تو گالیاں بکے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:1 حدیث:56 )

حضرت عبد اللہ ابن عمرو سے روایت ہے: فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ جوکسی عہد و پیمان والے کو قتل کردے وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے محسوس کی جاتی ہے۔

حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الرحمن "کسی عہد وپیمان والے کو قتل کردے" کے تحت فرماتے ہیں: عہدوپیمان والے کافر سے مراد یا ذمی کفار ہیں مسلمانوں کی رعایا اور مستامن جو کچھ مدت کے لیے امان لے کر ہمارے ملک میں آئیں اور معاہد جن سے ہماری صلح ہو ان میں سے کسی کو بلاوجہ قتل کرنا درست نہیں، ہاں اگر وہ کوئی ایسی حرکت کریں جس سے ان کا قتل درست ہوجائے تو قتل کئے جائیں۔(یعنی ایک کافر سے وعدہ خلافی کی یہ عید ہے تو مسلمان بھائی سے وعدہ خلافی کا انجام کتنا برا ہوگا الله اکبر)( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 حدیث:3452 )

روایت ہے حضرت عباس سے وہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے راوی فرمایا اپنے بھائی سے نہ جھگڑا کرو نہ اس کا مذاق اڑاؤ نہ اس سے کوئی وعدہ کرو جو خلاف کرو۔( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 حدیث نمبر:4892 )

حضرت عبداللہ بن ابوحمساء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نزولِ وحی اور اعلانِ نبوت سے قبل میں نے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے خریدو فروخت کا ایک معاملہ کیا مگر اس وقت پوری رقم ادا نہ کرسکا تو میں نے وعدہ کیا کہ باقی رقم ابھی آکر ادا کرتا ہوں،اتفاق سے تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یاد نہ آیا۔ تیسرے دن جب میں اس جگہ پہنچا جہاں آنے کا وعدہ کیا تھا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اسی مقام پر اپنا منتظر پایا، میری اس وعدہ خلافی سے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ماتھے پر ذرا بھی بل نہیں آیا، بس اتنا ہی فرمایا کہ تم کہاں تھے؟ میں اس جگہ تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔(سنن ابی داود،4/342 ،حدیث:4836)

غوثِ پاک اور ایفائے عہد: غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ایک سفر میں کوئی شخص میرا رفیق بنا، ایک بار اس نے مجھے ایک جگہ بٹھایا اور اپنے انتظار کا وعدہ لے کر چلا گیا، میں ایک سال تک وہاں بیٹھا رہا پھر وہ لوٹا اور یہی وعدہ لے کر چلا گیا، ایسا تین بار ہوا، آخری بار وہ آیا اور کہا: میں ”خِضر“ ہوں۔(اخبار الاخیار، ص12)

وعدہ خلافی کے چار اسباب وعلاج: (1)…وعدہ خلافی کا پہلا سبب قلت خشیت( خوف خدا کا کم ہونا) ہے کہ جب اللہ پاک کا خوف ہی نہ ہو تو بندہ کوئی بھی گناہ کرنے سے باز نہیں آتا، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ فکر آخرت کا ذہن بنائے، اپنے آپ کو رب پاک کی بے نیازی سے ڈرائے، اپنی موت کو یاد کرے۔(2)…غدر یعنی بدعہدی کا دوسرا سبب حب دنیا ہے کہ بندہ کسی نہ کسی دنیوی غرض کی خاطر بدعہدی جیسے قبیح فعل کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ حب دنیا کی مذمت پر غور کرے کہ دنیا کی محبت کئی برائیوں کی جڑ ہے، جو شخص حب دنیا جیسے موذی مرض کا شکار ہوجاتا ہے اس کے لیے دیگر کئی گناہوں کے دروازے کھل جاتے ہیں ، یقیناً سمجھدار وہی ہے جو جتنا دنیا میں رہنا ہے اتنا ہی دنیا میں مشغولیت رکھے اور فقط اپنی اُخروی زندگی کی تیاری کرتا رہے۔(3)…غدر یعنی بدعہدی کا تیسرا سبب دھوکہ بھی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ دھوکے جیسے قبیح فعل کی مذمت پر غور کرے کہ جو لوگ دھوکہ دیتے ہیں ان کے بارے میں احادیث مبارکہ میں یہ وارد ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں۔ (4)…غدر یعنی بدعہدی کا چوتھا سبب جہالت ہے کہ جب بندہ غدر جیسی موذی بیماری کے وبال سے ہی واقف نہ ہوگا تو اس سے بچے گا کیسے؟ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ غدر کی تباہ کاریوں پر غور کرے کہ بدعہدی کرنا مؤمنوں کی شان نہیں ہے، حضور نبی کریم رؤف رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، صحابۂ کرام علیہم الرضوان اور دیگر بزرگان دین رحمہم اللہُ السّلام نے کبھی کسی کے ساتھ بدعہدی نہیں فرمائی، بدعہدی نہایت ہی ذلت و رسوائی کا سبب ہے، بدعہدی کرنے والے شخص کے لیے کل بروز قیامت اس کی بدعہدی کے مطابق جھنڈا گاڑا جائے گا۔ بدعہدی کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ بندہ اللہ پاک کی بارگاہ میں یوں دعا کرے: اے اللہ پاک مجھے بدعہدی جیسے موذی مرض سے نجات عطا فرما، میں کبھی بھی کسی مسلمان کے ساتھ بدعہدی نہ کروں۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،ص173تا 175)

لیکن افسوس کہ وعدہ پورا کرنے کے معاملے میں بھی ہمارا حال کچھ اچھا نہیں بلکہ وعدہ خلافی کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے، لیڈر قوم سے وعدہ کرکے توڑ دیتے ہیں اور لوگ ایک دوسرے سے عہد کرکے توڑ دیتے ہیں ۔

الله پاک ہمیں وعدہ خلافی سے بچنے کی طاقت و توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


وعدہ کسے  کہتے ہیں ؟ لغت میں اچھی چیز کی امید دلانے یا بری چیز سے ڈرانے ان دونوں کو وعدہ کہا جاتا ہے۔ اصطلاح میں کسی چیز کی امید دلانے کو وعدہ کہتے ہیں ۔(مِرْاٰۃُ المَنَاجِیح، 6/488 )

وعدہ خلافی کیا ہے؟: وعدہ خلافی کی تعریف یہ ہے کہ وعدہ کرتے وَقْت ہی نیّت یہ ہو کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہ نہیں کروں گا۔(شیطان کے بعض ہتھیار ، ص42)

حدیث پاک میں ہے : وعدہ خلافی یہ نہیں کہ ایک شخص وعدہ کرے اور اسے پورا کرنے کی نیت بھی رکھتا ہو پھر پورا نہ کر سکے، بلکہ وعدہ خلافی تو یہ ہے کہ وعدہ تو کرے مگر پورا کرنے کی نیت نہ ہو پھر پورا نہ کرے ۔(شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ الخ، سیاق ماروی عن النبی ان سباب المسلم الخ، 2/ 868، حدیث : 1881) ایک اور حدیثِ پاک میں ہے کہ جب کوئی شخص اپنے بھائی سے وعدہ کرے اور اس کی نیّت پورا کرنے کی ہو پھر پورا نہ کر سکے، وعدہ پر نہ آسکے تو اُس پر گناہ نہیں ۔( ابوداوٗد، کتاب الادب، باب فی العدۃ، 4/ 388، حدیث :4995 )مفسر شہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان فرماتے ہیں : حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کرسکے تو وہ گناہ گار نہیں ، یوں ہی اگر کسی کی نیّت وعدہ خلافی کی ہو مگر اِتِّفاقاً پورا کردے تو گنہگار ہے اُس بَدنیّتی کی وجہ سے ۔ ہر وعدے میں نیّت کا بڑا دخل ہے ۔(مراٰۃالمناجیح، 6/492)وعدہ کرتے وقت اِنْ شَآءَ اللہ کہہ دینا چاہیے تاکہ وعدہ پورا نہ ہونے کی صورت میں جھوٹ بھی نہ ہو اور اللہ پاک کی مدد شامل حال ہوجائے۔

وعدہ خلافی اور عہد شکنی حرام اور گناہِ کبیرہ ہے کیوں کہ اپنے عہد اور وعدہ کو پورا کرنا مسلمان پر شرعاً واجب و لازم ہے۔ اللہ پاک نے قراٰن مجید میں فرمایا : اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) ترجمۂ کنزالایمان: بےشک عہد سے سوال ہونا ہے۔(پ15، بنٓی اسرآءیل:34)

اَحادیث میں بھی وعدہ خلافی کی مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے 5 اَحادیث یہاں ذکر کی جاتی ہیں:(1)اللہ پاک کی لعنت: مکے مدینے کے سلطان، سرکارِ دوجہان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جو کسی مسلمان سے عہد شکنی (یعنی وعدہ خلافی) کرے اُس پر اللہ پاک اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل ۔ ( بُخاری، 1/616، حدیث:1870)

(2)جو وعدہ پورا نہیں کرتا: حضرت سیِّدُنا اَنَس بن مالک رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ سیِّدعالم ،نُورِ مجسَّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں جو بھی خطبہ ارشاد فرمایا اس میں فرمایا: اس کا کوئی ایمان نہیں جو امانت دار نہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، مسند انس بن مالک،4/271، حدیث:12386)

(3)پکا منافق:حضور نبی پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاح افلاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے : جس شخص میں یہ چار خصلتیں پائی جائیں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے تو اس میں نفاق کی ایک علامت پائی جائے گی یہاں تک کہ وہ اس کو چھوڑ دے، اور وہ خصلتیں یہ ہیں : (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2) جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے (3) جب عہد کرے تو دھوکا دے اور (4) جب کسی سے جھگڑے تو گالی گلوچ بکے ۔ (صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب علامات المنافق،ص5،حدیث: 34)

(4)عہد شکنی کا جھنڈا: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن جب اللہ پاک اَوّلین و آخِرین کو جمع فرمائے گا تو عہد توڑنے والے ہر شخص کے لئے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی کا جھنڈا ہے۔(بخاری، کتاب الادب، باب ما یدعی الناس بآبائہم، 4 / 149،حدیث:6177،مسلم کتاب الجہاد والسیر، باب تحریم الغدر، ص955،حدیث: 1735)

(5)ہلاک نہ ہوں گے: ایک صحابی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ لوگ اس وقت تک ہلاک نہ ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں گے۔(سنن ابی داود، کتاب الملاحم، باب الامروالنھی،4/166،حدیث:4347)

مذکورہ بالا روایات سے وعدہ خلافی کی قباحت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ اللہ پاک ہمیں وعدہ خلافی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اللہ پاک ایمان والوں کو  وعدہ پورا کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوْفُوۡا بِالْعُقُوۡدِ ۔ (پارہ6،المائدۃ:1)

بلکہ وعدہ پورا کرنے والے کو جنت کی خوشخبری سنائی گئی ہے،چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: تم مجھے 6 چيزوں کی ضمانت دے دو ميں تمہیں جنت کی ضمانت ديتا ہوں:ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب وعدہ کرو توپورا کرو۔ (مسند احمد بن حنبل ،جلد:8، صفحہ:412،حدیث:22821،دارالفکر بیروت)

اسی لئے علمائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم فرماتے ہیں:وعدہ پورا کرنا واجب اور وعدہ خلافی حرام ہے۔ (حدیقہ ندیہ، الخلق الثالث و العشرون، 3/139 دار الکتب العلمیہ بیروت)وعدہ خلافی سے مراد یہ نہیں کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیّت اسے پورا کرنے کی بھی ہو بلکہ وعدہ خلافی یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیّت اسے پورا کرنے کی نہ ہو ۔(الجامع الاخلاق الراوی للخطیب ،2/60، رقم:1179 مکتبۃ المعارف)نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بھی وعدہ خلافی کی مذمت بیان فرمائی ہے، چند روایات ملاحظہ کیجئے!

1۔رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہو گا نہ نفل۔(صحیح بخاری،کتاب الجزیہ والموادعۃ،باب اثم من عاھدثم غدر،جلد:2، صفحہ:370، حدیث:3179 دار الکتب العلمیہ بیروت)

2۔نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: چار باتیں جس شخص میں ہوں وہ خالص منافق ہو گا:(۱)جب بات کرے تو جھوٹ بولے ۔ (۲)اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔ (۳) اور جب کوئی معاہدہ کرے تو عہد شکنی کرے۔ (۴) اور جب جھگڑا کرے تو گالی بکے۔ (صحیح بخاری،کتاب الجزیۃ والموادعۃ،باب اثم من عاھدثم غدر،جلد:2، صفحہ:370،حدیث:3178)

3۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ہر عہد شکنی کرنے والے کی سرین کے پاس قیامت میں اس کی عہد شکنی کا ایک جھنڈا ہو گا جس سے اس کی پہچان ہو گی۔ (صحیح مسلم،کتاب الجہادوالسیر،باب تحریم الغدر، صفحہ:740،حدیث:1738 دار الکتاب العربی)

4۔فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے: جب اولین و آخرین کو اللہ پاک (قیامت کے دن) جمع فرمائے گا تو ہر عہد توڑنے والے کیلئے ایک جھنڈا بلند کر کے کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔( صحیح مسلم،کتاب الجہادوالسیر،باب تحریم الغدر، صفحہ:740،حدیث: 1735)

5۔رسول اللہ صلی علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:لوگ اس وقت تک ہلاک نہ ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں گے۔(سنن ابی داود،کتاب الملاحم،باب الامروالنھی، جلد:4، صفحہ:166، حدیث:4347)

6۔ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:وعدہ قَرْ ض کی مانند ہے۔ہلاکت ہے اُس کے لئے جو وعدہ کرے اور پھر اُس کے خِلاف کرے،اُس کے لئے ہلاکت ہے،اُس کے لئے ہلاکت ہے۔( معجم اوسط،باب الحاء،من اسمہ حمزہ،جلد2، صفحہ:351،حدیث:3514 دارالفکر ، بیروت)

7۔رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نےفرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے : قیامت کے دِن تین شخصوں کا میں مدعی ہوں گا اور جس کامیں مدعی ہوں میں ہی اسی پر غالِب آؤں گا ، ایک وہ جس نے میرا عہد دیا پھر عہد شکنی کی۔ دوسرا وہ جس نے کسی آزاد کو غُلام بناکر بیچ ڈالا اور اس کی قیمت کھائی ۔ تیسرا وہ جس نے کسی شخص کو مزدوری میں لے کر اپنا کام تو اس سے پورا کرا لیا اور مزدوری اسے پوری نہ دی ۔(ابنِ ماجہ ، کتاب الرھون ، باب اجر الاجراء ، ج3،ص162 ، حدیث:2443 دار المعرفۃبیروت)


سب سے پہلے وعدہ خلافی کی تعریف جان لی جائے کہ وعدہ خلافی کہتے کسے ہیں ۔ معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا غدر یعنی بدعہدی کہلاتا ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،ص180) قراٰنِ کریم اور احادیث طیبہ میں کئی مقامات میں وعدہ پورا کرنے کی اہمیت اور وعدہ خلافی کی مذمتوں کو بیان کیا گیا ہے ۔قراٰن پاک پارہ 15 سورہ بنی اسرائیل میں اللہ پاک نے  ارشاد فرمایا: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) ترجمۂ کنزالایمان: اور عہد پورا کرو بےشک عہد سے سوال ہونا ہے۔(پ15، بنٓی اسرآءیل:34) اسی طرح احادیث طیبہ میں بھی وعدہ پورا کرنے کے فضائل اور وعدہ خلافی کرنے کی مذمتیں بیان کی گئی ہیں ۔کیونکہ ہمارا موضوع وعدہ خلافی پر احادیث میں جو مذمتیں آئی ہیں وہ بیان کرنا ہے۔ تو اس لئے ہم چند احادیث ذکر کر رہے ہیں جن میں وعدہ خلافی کی مذمتیں بیان کی گئی ہیں۔ چنانچہ اللہ کریم کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے منافق کی نشانیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ۔چار علامتیں جس شخص میں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا اور ان میں سے ایک علامت ہوئی تو اس شخص میں نفاق کی ایک علامت پائی گئی یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے: (1)جب امانت دی جائے تو خیانت کرے (2) جب بات کرے تو جھوٹ بولے(3)جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے (4)جب جھگڑا کرے تو گالی بکے ۔ (بخاری، کتاب الایمان، 1/24، حدیث: 33)ایک اور جگہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کا کچھ دِین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا۔(معجم کبیر،10/227، حدیث:10553) ترمذی شریف میں ہے کہ اللہ کریم کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:ہر عہد شکن کے لئے قیامت کے دن ایک نیزہ گاڑا جائے گا۔(جامع ترمذی، جلد اول باب جہاد ،حدیث: 1518)

وعدہ پورا کرنے کی اہمیت کے بارے میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا کہ وعدہ کا پورا کرنا ضروری ہے مسلمان سے وعدہ کرو یا کافر سے عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے استاذ، شیخ، نبی، الله تعالٰی سے کیے ہوئے تمام وعدے پورے کرو، ہاں اگر کسی سے حرام کام کا وعدہ کیا ہے اسے ہرگز پورا نہ کرے حتی کہ حرام کام کی نذر پوری کرنا حرام ہے۔(مراة المناجیح جلد 6 تحت حدیث : 4870) اللہ کریم ہمیں بھی پیارے آقا (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کے صدقے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور وعدہ خلافی کرنے سے بچائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

وعدہ کو پورا کرنے کی پابندی بھی درختِ اخلاق کی ایک بہت ہی اہم اور نہایت ہی ہری بھری شاخ ہے۔ وعدہ پورا کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور وعدہ خلافی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ چنانچہ اللہ پاک  پاره 10 سوره انفال کی آیت نمبر 55 اور 56 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ(۵۵) اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِیْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّ هُمْ لَا یَتَّقُوْنَ(۵۶)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک سب جانوروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور ایمان نہیں لاتے وہ جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا پھر ہر بار اپنا عہد توڑ دیتے ہیں اور ڈرتے نہیں۔

مذکورہ ان دو آیات سے معلوم ہوا کہ خواہ بندوں سے کیا ہوا جائز وعدہ توڑا جائے یا اللہ سے کئے ہوئے وعدہ کی خلاف ورزی کی جائے دونوں انتہائی مذموم ہیں اور احادیث میں بھی وعدہ خلافی کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ دو احادیث ملاحظہ ہوں : (1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مدِّ مقابل ہوں گا، ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے ۔دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے ۔ تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے۔ (صراط الجنان، 4/ 30)

(2) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے جو کسی مسلمان سے وعدہ توڑے تو اس پر اللہ ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ نہ اس کی کوئی فرض عبادت قبول کی جائے گی نہ نفل ۔ (صراط الجنان، 4/31)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! وعدہ خلافی کرنا مؤمنوں کی شان نہیں اور حضورِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور صحابۂ کرام علیہم الرضوان اور دیگر بزرگانِ دین رحمۃُ اللہِ علیہم نے کبھی کسی کے ساتھ وعدہ خلافی نہیں کی۔ وعدہ خلافی سے بچنے کا ایک علاج یہ ہے کہ ہم اللہ پاک سے دعا کرے کہ اے میرے رب ذو الجلال ہمیں وعدہ خلافی جیسے موذی مرض سے بچا، میں کبھی بھی کسی مسلمان سے وعدہ خلافی نہ کروں۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ دنیا ایک امید کے ساتھ اپنے سفر پر روا ہے اور اس امید کو تقویت وعدے سے ملتی ہے جس طرح رب کے وعدے سے دین پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے ٹھیک اسی طرح بندوں کے وعدے سے باہمی معاونت میں مضبوطی پیدا ہو جاتی ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ بندے اپنے وعدے کو پورا کرے ۔ جو شخص ایفائے عہد پر قائم رہتا ہے وہ اپنی سماج و خاندان میں ممتاز ہوا کرتا ہے ۔ اور اسلام نے ایفائے عہد پر اتنا زور دیا ہے کہ قدم قدم پر وعدے کا ذکر فرمایا ہے اور وعدہ خلافی کرنے پر وعید بھی سنائی ہے۔ جیسا کہ پارہ  15 بنی اسرائیل 34 پر اللہ پاک کا فرمان موجود ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) ترجمۂ کنزالایمان: اور عہد پورا کرو بےشک عہد سے سوال ہونا ہے۔(پ15، بنٓی اسرآءیل:34) یہاں وعدے کی پاسداری کا حکم ہے ۔ اور جو بندہ رب کائنات کے حکم کی پاسداری کرتا ہے رب اس سے راضی ہو جاتا ہے۔

وعدہ خلافی کی تعریف : حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : وعدہ خلافی یہ نہیں کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیّت اسے پورا کرنے کی بھی ہو بلکہ وعدہ خلافی یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیّت اسے پورا کرنے کی نہ ہو ۔( غیبت کی تباہ کاریاں، ص 464)

جائز و عدہ پورا کرنا عام علما کے نزدیک مستحب ہے وعدہ خلافی مکروہ بعض علما کے نزدیک ایفائے عہد واجب ہے۔ وعدہ خلافی حرام ہے ۔ اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر عذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کر سکے تو وہ گنہگار نہیں۔ (مراۃ ،6/492) وعدہ کیا مگر اس کو پورا کرنے میں شرعی قباحت تھی اس وجہ سے پورا نہیں کیا تو اس کو وعدہ خلافی نہیں کہا جائے گا اس صورت میں گناہ نہیں ہوگا۔ (بہار شریعت ،حصہ 16 ،ص 295)

احادیثِ مبارکہ میں وعدہ خلافی کی بڑی مذمت آئی ہے آئیں چند احادیث سے درسِ عبرت حاصل کرتے ہیں:۔ (1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :منافق کی تین نشانیاں ہیں: بات کرے تو جھوٹ کہے، وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔ اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کا مرتکب ہو۔ مسلم کی روایت میں اضافہ ہے اگر چہ روزہ رکھے نماز پڑھے اور دعوی اسلام کرے۔ (ریاض الصالحین، 1/372)

(2) روایت ہے حضرت انس سے کہ یہ بہت کم تھا کہ حضور ہمیں اس کے بغیر وعظ فرمائیں کہ جو امین نہیں اس کا ایمان نہیں جو پابند و عدہ نہیں اس کا دین نہیں ! (مراۃ المناجيح، ج 1 حدیث : 35)(3) حضرت عبد الله بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس میں چار باتیں ہوں وہ خالص منافق ہوگا اور جس میں ان میں سے ایک بات پائی جائے اس میں نفاق کی ایک خصلت پائی گئی یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے، امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ۔ بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو توڑ دے اور جھگڑا کرے تو بیہودہ بکے۔( ریاض الصالحین، 1/372)

(4) جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نقل۔ ( بخاری، 2/370، حدیث: 3179)(5) لوگ اس وقت تک ہلاک نہ ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں گے۔( سنن ابو داؤد، 4/166 ،حدیث: 4347)

افسوس کہ وعدہ پورا کرنے کے معاملے میں بھی ہمارا حال کچھ اچھا نہیں بلکہ وعدہ خلافی کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے ۔ لیڈر قوم سے عہد کر کے توڑ دیتے ہیں ،بچوں کو جھوٹی تسلی دی جاتی ہیں۔ جس کی نحوست کے سبب ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہمیں اپنی حالت پر غور کر لینی چاہیے اور الله اور اس کے رسول کے فرامین سے درسِ عبرت لینی چاہیے۔ اللہ ہمیں بھی وعدہ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ہمارے معاشرے میں بہت ساری قباحتیں اور مختلف قسم کی برائیاں رائج ہیں ان برائیوں میں سے ایک وعدہ خلافی ہے۔ یہ ایک ایسی برائی ہے کہ ہر مذہب والے اس کی برائی کرتے ہیں  اسی لئے اسلام میں بڑی تاکید کے ساتھ وعدے کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) ترجمۂ کنزالایمان: اور عہد پورا کرو بےشک عہد سے سوال ہونا ہے۔(پ15، بنٓی اسرآءیل:34) بہرِ صورت وعدہ خلافی کی مذمت میں بہت ساری احادیث میں برائی كو ذکر كيا گيا ہے۔ آئیے اس کے متعلق 5 احادیث کریمہ ذکر کی جاتی ہیں :۔

(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (بخاری شریف،حدیث:33)نفاق کفر کی ایک قسم ہے اور اس حدیث پاک میں وعدہ خلافی کو نفاق کی علامت قرار دیا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وعدہ خلافی کرنا کتنا مذمت والا کام ہے ۔

(2) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے کہ یہ بہت کم تھا کہ حضور ہمیں اس کے بغیروعظ فرمائیں کہ جو امین نہیں اس کا ایمان نہیں جو پابند وعدہ نہیں اس کا دین نہیں۔(مشکوۃ المصابیح،حدیث:31)(3) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ السّلام نے فرمایا: جس میں چار عیوب ہوں وہ نرا منافق ہے اور جس میں ایک عیب ہو ان میں سے اس میں منافقت کا عیب ہوگا جب تک کہ اُسے چھوڑ نہ دے جب امانت دی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف کرے، جب لڑے تو گالیاں بکے۔ (مشکوۃ المصابیح،حدیث:51)

(4) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور علیہ السّلام کو فرماتے سنا بے شک بدعہدی کرنے والے کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا ۔ (جامع ترمذی ،باب جہاد ،حدیث : 1581)(5) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ السّلام نے فرمایا: اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ تین طرح کے لوگ ایسے ہیں کہ جن کا قیامت کے دن میں مدعی بنوں گا ایک وہ شخص کہ جس نے میرے نام پر عہد کیا اور توڑ دیا اور وہ شخص کہ جس نے کسی آزاد کو بیچا اور اس کی قیمت کھا گیا اور وہ شخص کے جس نے کسی اجیر کو اجرت پر لیا اور اس سے پورا کام کروایا اور اسے اجرت نہیں دی۔ (بخاری،کتاب البیوع: حدیث : 2227)

مذکورہ احادیث سے ثابت ہو گیا کہ وعدہ خلافی کتنا برا کام ہے ،وعدہ خلافی نفاق کی علامت ،وعدہ خلافی کرنے والا مؤمن کامل نہیں ہوتا لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم وعدہ خلافی کرنے سے بچیں تاکہ ہم اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین پر عمل کرنے والے بن جائیں، اور ہمارا ایمان کامل ہو جائیں اللہ پاک ہمیں اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے اسلامی بھائیوں !  اللہ پاک کی طرف سے بندوں پر بہت سارے ایسے احکام بھی ہیں جن کو کرنے سے اللہ پاک کی رضا حاصل ہوتی ہے اور اس کے خلاف کرنے سے اللہ پاک ناراض ہوتا ہے انہیں میں سے وعدہ بھی ہے کسی سے وعدہ کر کے پورا کرینگے تو اللہ پاک کی رضا بھی حاصل ہوگی اور اچھی نیت سے ثواب بھی ملے گا اور خلاف ورزی کرنے سے اللہ پاک بھی ناراض ہوگا اور مذمت کے بھی مستحق ہونگے۔

آیئے سب سے پہلے وعدے کی اہمیت اور اس کی فضیلت کو جان لیتے ہیں، وعدہ پورا کرنا بندے کی عزت و وقار کے اضافہ کا سبب بنتا ہے اور وعدے سے روگردانی کرنا اور اس کی خلاف ورزی کرنے سے بندہ دوسرے شخص کی نظروں میں ماند پڑ جاتا ہے، اور وعدے کے متعلق اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) ترجمۂ کنزالایمان: اور عہد پورا کرو بےشک عہد سے سوال ہونا ہے۔(پ15، بنٓی اسرآءیل:34) مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ تفسیر ِنعیمی میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں اے بندوں اپنے عہد کو بہت شدت سے پورا کرو۔ بیشک قیامت کے دن دیگر اعمال کے ساتھ وعدوں کا بھی حساب کتاب ہوگا کہ تم نے عہد کر کے کیوں توڑا۔ اور عہد کیوں کیا تھا۔ ۔ (تفسیر نعیمی، 15/171 ملخصاً)

اور حدیث پاک میں ہے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تمہارے بہترین لوگ وہ ہیں جو وعدہ پورا کرتے ہیں۔ (مسند أبی یعلی، 1/451، حدیث:1047) مذکورہ آیتِ کریمہ اور حدیث میں وعدے کی اہمیت اور فضیلت کو مزید اجاگر کیا گیا۔

وعدہ خلافی کا شرعی حکم: شارح مشکاۃ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ مرأۃ المناجیح میں فرماتے ہیں وعدے کا پورا کرنا واجب ہے وعدہ چاہے کسی بھی شخص سے ہو(مسلمان ہو یا کافر)یا کسی بھی چیز کا ہو(آیت کے مطلق ہونے کی وجہ سے ) اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کر سکے تو وہ گنہگار نہیں۔ (مرأۃ المناجیح،6/370،مطبوعہ ادبی دنیا دہلی)

وعدہ خلافی کی مذمت کے متعلق احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں :۔(1) سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان سے عہد شکنی (یعنی وعدہ خلافی) کرے اس پر اللہ پاک اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (صحیح بخاری،1/616، حدیث:1870) (2) اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کسی شخص نے دریافت کیا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قرض سے بہت ہی زیادہ پناہ مانگتے ہیں اس پر حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی شخص مقروض ہوتا ہے، جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب المساجد، جلد1، حدیث:589)

(3) حضور نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے کہ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ جن کا قیامت میں میں خود مدعی بنوں گا۔ ایک تو وہ شخص جس نے میرے نام پہ عہد کیا اور پھر وعدہ خلافی کی دوسرا وہ جس نے کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور تیسرا وہ شخص جس نے کسی مزدور کو اجرت پر رکھا پھر اس سے کام تو پورا لے لیا لیکن اس کی مزدوری نہ دی۔ (صحیح البخاری،کتاب الاجارہ، حدیث:2270) (4) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خالص منافق کی چار خصلتیں بیان فرمائی ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو توڑ دے اور جب معاہدہ کرے دھوکہ دے اور جب جھگڑا کرے گالی گلوج کرے۔ (صحیح بخاری، جلد3، حدیث :2459)

(5) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ بہت کم تھا کہ حضور علیہ السّلام ہمیں اس کے بغیر وعظ فرمائیں کہ جو امین نہیں اس کا ایمان نہیں جو پابند وعدہ نہیں اس کا دین نہیں۔(شعبالایمان،6/196،حدیث :4045) اس حدیث پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں یعنی امانت اور پابندی وعدہ کے بغیر ایمان اور دین کامل نہیں۔ (مرأۃ المناجیح، 1/60)

وعدہ خلافی کے نقصانات اور ان سے نصیحت: وعدہ انسانی زندگی کے لئے ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے خالق مخلوق کے درمیان پورا نظام کائنات وعدوں کی وفاداری کا نام ہے اسی طرح عہد شکنی یا وعدے سے غفلت اور بے پرواہی برتنا پوری کائنات عالم کا فساد ہے۔ اور وعدہ پورا کرنا ایک عظیم عبادت ہے جس میں حقوق اللہ بھی ہیں اور حقوق العباد بھی بلکہ اصل ایمان وعدہ وفائی ہے اور اصل کفر عہد شکنی اور وعدہ خلافی ہے۔ (تفسیر نعیمی، جلد15) اور وعدہ پورا کرنا تمام نبیوں کی سنت ہے، اللہ پاک حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے لیے فرماتا ہے: وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷) ترجمۂ کنزالعرفان: اور ابراہیم کے جس نے (احکام کو) پوری طرح ادا کیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے لیے فرماتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ ترجمۂ کنزالعرفان: اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے کا سچا تھا۔

اللہ پاک ہمیں وعدہ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور عہد شکنی سے محفوظ فرمائے اور سنتِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم