صحابی : وہ ہستی ہے جنہوں نے حالتِ ایمان میں حضورنبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملاقات فرمائی ہو اور اسلام پر ہی وفات پائی ہو۔(شرح نخبة الفکر،ص111)

مراتب : بعد انبیا ومرسلین، تمام مخلوقِ الٰہی انس و جن و مَلک سے افضل صدیق اکبر ہیں، پھر عمر فاروق اعظم، پھر عثمان غنی، پھر مولی علی پھر بقیہ عشرہ مبشِّرہ و حضرات حسنين واصحاب بدر واصحاب بيعةُ الرضوان (رضی اللہ عنہم) کے لیے افضلیت ہے اور یہ سب قطعی جنتی ہیں ۔ (بہارشریعت،1/249،241، بتغیرقلیل)

دورِ صحابۂ کرام : مشہور قول کے مطابق صحابۂ کرام علیہم الرضوان کا زمانہ 110 ہجری میں سب سے آخر میں انتقال فرمانے والے صحابی رسول حضرت ابو الطفيل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کے انتقال شریف پر پورا ہوگیا۔(نزہة القاری،3/801)

حقوقِ صحابۂ کرام : جس طرح ہر مسلمان پر اللہ پاک، اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، اور دیگر لوگوں کے حقوق ہیں۔ اسی طرح ہر مسلمان پر صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے بھی حقوق ہیں جن کو ادا کرنا بے حد ضروری ہے۔ ان میں سے 5 حقوق مندرجہ ذیل ہیں:

(1)محبت و عقیدت ہونا : اللہ پاک جب کسی کی بھلائی چاہتا ہے تو اُس کے دل میں میرے ( تمام ) صحابہ کی محبت پیدا فرما دیتا ہے۔(تاریخ اصبهان،1/467،حدیث: 929)کیونکہ جب بندہ قراٰن و حدیث کا علم حاصل کرتا ہے تو توجہ اس بات کی طرف جاتی ہے کہ یہ سب علم کن ہستیوں سے ہوتے ہوئے ہم تک پہنچا، اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے قراٰن و حدیث کا علم سب سے پہلے صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی مقدس جماعت نے لیا اور آگے پھیلایا تو کیوں نہ پھر صحابۂ کرام سے دل و جان سے محبت و عقیدت ہو۔

(2)تعظیم کرنا : ہر وہ شخص جسے کوئی مقام و مرتبہ حاصل ہوتا ہے تو اس کی تعظیم ہوتی ہے جبکہ دینی مرتبہ اور اس میں بھی صحابیت کا درجہ جو انبیا کے بعد سب سے اعلٰی، تو ہر غیر صحابی کو صحابی کی تعظیم و توقیر لازم ہے، جیسا کہ فرمانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : میرے صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تم میں بہترین لوگ ہیں ۔ (الاعتقاد للبيهقى ،ص320)

(3)عزت و حفاظت کرنا : فرمانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جو میرے صحابہ کو بُرا کہے اُس پر اللہ پاک کی لعنت اور جو اُن کی عزت کی حفاظت کرے، میں قیامت کے دن اس کی حفاظت کروں گا۔(تاريخ ابن عساكر،44/222) اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی صحابۂ کرام علیہم الرضوان کو برا بھلا کہے تو اس کو روکنا اور صحابۂ کرام کی عزت پر پہرا دینا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اسی میں نجات ہے۔

(4) سب و شتم سے بچنا : فرمانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : قیامت کے دن ہر شخص کو نجات کی اُمید ہوگی سوائے اس شخص کے جس نے میرے صحابہ کو گالی دی، بے شک اہل محشر اُن پر لعنت کریں گے ۔ (تاریخ اصبهان، 1/126) اللہ اللہ، وہ ایسا دن ہے کہ نفسا نفسی کا عالم ہوگا اور اس دن بھی صحابۂ کرام کو گالی دینے والے کو نجات کی امید نہ ہوگی۔ اسی لیے ہر مسلمان، صحابۂ کرام کو گالی دینا تو درکنار دل میں بھی برا جاننے کی غلطی نہ کرے۔

(5)صحابۂ کرام کے آپسی اختلاف میں نہ پڑنا : مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے باہم(یعنی اختلافی) جو واقعات ہوئے، اُن میں پڑنا حرام ، حرام، سخت حرام ہے، مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات آقائے دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جاں نثار اور سچے غلام ہیں۔(بہار شریعت،1/254) صحابۂ کرام کا یہ لازمی حق ہے کہ جو بھی معاملات انکے درمیان ہوئے اس میں کسی مسلمان کو اپنی عقل کے گھوڑے نہیں دوڑانے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی صحابی کی ادنٰی سی بے ادبی سیدھا جہنم میں گرا دے۔

اللہ پاک ہمیں صحابہ و اہلبیت کی پکی سچی محبت عطا فرمائے اور انکی پیروی نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

صحابی کسے کہتے ہیں؟: امام حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃُ ﷲ علیہ نے صحابی کی تعریف (definition)یوں کی ہے جو بہت جامع ومانع اور اہل علم کے ہاں مقبول اور راجح ہے، کہ صحابی وہ ہے جس نے حالتِ ایمان میں نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملاقات کی ہو اور وہ اسلام پر ہی فوت ہوا ہو۔ (نزهَۃ النظر بشرح نخبۃ الفکر: 64)

صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ نفوس قدسیہ ہیں جن کو خاتم الانبیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جمال جہاں آراء سے اپنی آنکھیں روشن کرنے اور آپ کی مجلس نشینی کی سعادت نصیب ہوئی۔ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فیض صحبت نے ان کے شرف انسانیت کو جیتی جاگتی تصویر بنادیا۔ ان کا ہر فرد خشیت الہی، حق گوئی(Righteousness) ایثار، قربانی ،تقوی ،دیانت ،عدل اور احسان کا پیکر جمیل تھا تمام علمائے حق کا اس بات پر کامل اتفاق ہے کہ صحبت رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بڑھ کر کوئی شرف اور بزرگی نہیں، اس صحبت سے متمتع ہونے والی پاک ہستیوں کی عظمت اور حسن کردار کا ذکر قراٰن و حدیث میں وارد ہوا ہے اور چونکہ صحابۂ کرام ہمارے مقتداء و پیشوا ہیں تو تمام مسلمان پر صحابۂ کرام کے بے شمار حقوق ہیں جن کا پاس ولحاظ رکھنا ہم سب کے لیے ضروری ہے ۔

ذیل میں چند حقوق اختصار کے ساتھ مندرجہ ذیل ہیں:

(1) ان سے محبت ، ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ کا استعمال کرنا : اس لیے کہ اللہ نے ان سے محبت کی وہ اللہ سے راضی ہوئے اور اللہ ان سے راضی ہوا چنانچہ فرمایا: رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ انھیں جنت کی بشارت دی چنانچہ فرمایا: جَزَآؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ

(2) ان کی فضیلت و افضلیت کا یقین : حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث جس میں رسولُ اللہ نے صحابۂ کرام کو تمام لوگوں سے افضل قرار دیا۔ چنانچہ میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔( مشکوٰۃ المصابیح ،2/413،حدیث: 6012)

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو ہدایت کے درخشاں ستارے قرار دیا ارشاد فرمایا : اصحابی کالنجوم فبأيهم اقتديتم اهتديتم ۔ترجمہ : میر ے صحابہ ہدایت کے درخشاں ستارے ہیں ،تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پالوگے ۔ (زجاجۃ المصابیح ،5/ 334)

(3) ان کی عدالت کا یقین : جیسا کہ شریعت کے بہت سارے نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں بلکہ اہلِ علم کی ایک جماعت نے اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ ( التمھید لابن عبد البر : 22/47 )

(4) ان کے تعلق سے اپنے دل کو صاف رکھنا اور جو کچھ صحابہ کے مابین مشاجرات رونما ہوئے ان پر گفتگو سے گریز کرنا : جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠(۱۰) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اُن کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے رب ہمارے بےشک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے۔ ( پ28، الحشر : 10 ) اس آیت کے تحت مفتی محمد قاسم عطّاری اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں فرماتے ہیں: یعنی مہاجرین اور انصار کے بعد آنے والے عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کیلئے کوئی کینہ(malice) نہ رکھ، اے ہمارے رب! بیشک تو نہایت مہربان، رحمت والا ہے اور تو اپنی مہربانی اور رحم کے صدقے ہماری ا س دعا کو قبول فرما۔(روح البیان، الحشر، تحت الآیۃ: 10، 9 / 436-437)

یاد رہے کہ مہاجرین و انصار کے بعد آنے والوں میں قیامت تک پیدا ہونے والے تمام مسلمان داخل ہیں اور ان سے پہلے ایمان لانے والوں میں تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم داخل ہیں (صراط الجنان)

(5) ان کی شان میں گستاخی نہ کی جائے اور نہ ہی ان کو سب وشتم کیا جائے : صحابہ لوگوں میں سب سے بہتر اور دین اسلام کے محافظ(protecter) ہیں ان پر سب و شتم دینا دراصل ان کے تعلق سے اللہ پاک کے دئیے گئے رضامندی کے مژدہ پر عیب لگانا ، اللہ کے نبی کو تکلیف پہنچانا ہے ۔

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تم لوگ میرے صحابہ کو سب و شتم نہ کرو ، اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے مثل سونا خرچ کرکے ان کے ایک میں سیر آدھے سیر (half kg) کے ( ثواب کو ) پہنچنا چاہے تو نہیں پہنچ سکتا ۔ ( بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ،حدیث: 3673 )

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : تم سب کسی صحابی رسول کو گالی نہ دو ، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ان کی ایک لمحہ کی ہم نشینی (Cohabitation) تمہاری پوری زندگی کے عمل سے افضل ہے ۔( فضائل الصحابہ ، لأحمد ، 1/57، ناشر دار ابن جوزیہ )

امام مالک رحمۃُ اللہ علیہ کہتے ہیں : جو صحابہ کو سب و شتم بکتا ہو اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ۔( السنہ للخلال ، 3/493، ناشر دارالرایۃ للنشر والتوزیع )

صحابۂ کرام کے متعلق ہمارا عقیدہ: صحابہ کے تعلق سے افراط وتفریط (Inflation and deflation) سے پاک منہج اختیار کرنا ضروری ہے جیسا کہ امام الطحاوی رحمۃُ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے : ہم تمام صحابہ سے محبت کرتے ہیں ، کسی سے برأت (لا تعلقی) کا اظہار نہیں کرتے ، ہم ان لوگوں سے بغض رکھتے ہیں جو صحابہ سے بغض یا ان کا ناحق تذکرہ کرتے ہیں ، ہم تمام صحابہ کا ذکرِ جمیل کرتے ہیں۔ (العقیدۃ الطحاویہ مع الشرح، 2/689 )

علماء اہلسنت صحابہ کے مابین مشاجرات کو ان کے اجتہادات پر مبنی قرار دیتے ہیں جس پر ہر حال میں وہ ثواب کے مستحق ہیں ۔ اگر ان کا اجتہاد صحیح ہوا تو دو ثواب اور اگر ان سے اجتہادی غلطی ہوئی تو ایک ثواب ۔

محبت خدا و رسول و دین ، اور ہدایت کاملہ انہیں حضرات کی محبت اور ان کے نقش قدم پر چلنے میں ہے اور ان سے بغض بد مذہبی منافقت اور سرکشی کا پیش خیمہ ہے۔ الله کریم ہم سب کو صحابۂ کرام کے منہج کو اختیار کرنے کی توفیق دے، تمام صحابہ و اہل بیت کی محبت سے ہمارے دلوں کو سرشار رکھے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


صحابۂ کرام وہ مقدس ہستیاں ہیں جنہوں نے نبی رحمت، شفیع امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حسن و جمال کو ایمانی نظروں سے دیکھا ،صحبتِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے فیض یاب ہو کر جنت اعلی کے مستحق ہوئے۔     کوئی بھی ولی، صحابی کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا، ان کی عزت و توقیر ہر مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے۔ چنانچہ اسی اہمیت کے تحت صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے امتِ مسلمہ پر 5 حقوق وجود سطور میں لانے کی سعادت حاصل کرتا ہوں:

(1) صحابی رسول، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کو برا نہ کہو ! کیونکہ اگر تم میں کا کوئی احد(پہاڑ)بھر سونا خیرات کرے تو ان کے ایک کے نہ مد کو پہنچے نہ آدھے ۔(صحیح البخاری،ص:903، حدیث:3673،مطبع:دار ابن کثیر، بیروت) شرحِ حدیث: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرات صحابہ کا ذکر ہمیشہ خیر سے ہی کرنا چاہیے کسی صحابی کو ہلکے لفظ سے یاد نہ کرو۔ یہ حضرات وہ ہیں جنہیں رب نے اپنے محبوب کی صحبت کے لیے چنا، مہربان باپ اپنے بیٹے کو بروں کی صحبت میں نہیں رہنے دیتا تو مہربان رب نے اپنے نبی کو بروں کی صحبت میں رہنا کیسے پسند فرمایا۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:8،حدیث:6007،ناشر: نعیمی کتب خانہ، گجرات،ملتقطا)

(2) میرے صحابہ کے متعلق اللہ سے ڈرو! اللہ سے ڈرو! میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو! اللہ سے ڈرو! میرے بعد انہیں نشانہ نہ بناؤ؛ کیونکہ جس نے اِن سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے اِنہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اُسے پکڑے۔(سنن الترمذی ،ص:1094، حدیث:3888،ناشر: دار الفکر، بیروت)یعنی صحابۂ کرام میں سے کسی کو ستانا درحقیقت مجھے ستانا ہے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ صحابہ کو برا کہنے والا قتل کا مستحق ہے کہ اس کا یہ عمل عداوت رسول کی دلیل ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:8 ،حدیث:6014، ناشر: نعیمی کتب خانہ ، گجرات )

(3) حضرت عمر رضی اللہُ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو؛ کیونکہ وہ تمہارے بہترین لوگ ہیں ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:8، حدیث:6012، مطبوعہ:نعیمی کتب خانہ،گجرات)

(4) حضرت عمر ابن خطاب سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ میں نے اپنے رب سے اپنے صحابہ کے اختلاف کے متعلق سوال کیا جو میرے بعد ہوگا تو مجھے وحی فرمائی کہ اے محمد! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمہارے صحابہ میرے نزدیک آسمان کے تاروں کی طرح ہیں کہ ان کے بعض بعض سے قوی ہیں اور سب میں نور ہے تو جس نے ان کے اختلاف میں سے کچھ حصہ لیا جس پر وہ ہیں تو وہ میرے نزدیک ہدایت پر ہے۔ ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:8، حدیث:6018،ناشر: ایضاً) یہاں اختلاف سے مراد فقہی مسائل کے عِلمی و عَمَلی اختلاف ہے جو شخص کسی صحابی کے فتویٰ پر عمل کرے گا نجات پاجاوے گا، ائمہ دین جیسے امام اعظم اور امام شافعی وغیرہم صحابہ ہی کے مقلد ہیں، امام اعظم حضرت عبداللہ ابن مسعود کے اور امام شافعی حضرت عبداللہ ابن عباس کے اکثر مسائل میں تابع ہیں دونوں ہدایت پر ہیں۔(ایضاً)

(5) تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اہلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل، ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔ (بہار شریعت،1/252،ناشر:مکتبۃ المدینہ)

یقیناً صحابۂ کرام کی شان بہت ارفع و اعلیٰ ہے ، ان نفوسِ قدسیہ پر اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ ان بلند مرتبہ ہستیوں کی محبت دل میں بساتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چل کر دونوں جہاں کی کامیابی حاصل کریں اور جو کسی بھی صحابی کے بارے میں ادنیٰ سی بھی زبان درازی کرے اس سے فوراً الگ ہو جائیں۔

اللہ پاک ہمیں صحابۂ کرام کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق بخشے اور انہیں کی محبت میں جینا مرنا نصیب فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

دینِ اسلام میں حضرات صحابۂ کرام علیہم الرضوان کا بہت بڑا مقام و مرتبہ بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اس کا اندازہ ان احادیثِ کریمہ سے لگایا جاسکتا ہے اس سے پہلے صحابی کہتے کسے ہیں اس کو سمجھ لیتے۔ صحابی کی تعریف بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جن خوش نصیبوں نے ایمان کی حالت میں نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم‌ سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی پر ان کا انتقال ہوا، اُن خوش نصیبوں کو صحابی کہتے ہیں۔(تاریخ ابنِ عساکر ،حسین ابنِ علی،حدیث:3492)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے راوی فرمایا اس مسلمان کو آگ نہ چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے کو دیکھا۔(ترمذی) یعنی جس نے بحالت ایمان مجھے دیکھا اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوا وہ دوزخ سے محفوظ رہے گا۔(مرآۃالمناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:8 حدیث:6013)

روایت کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں کا کوئی اُحد(پہاڑ) بھر سونا خیرات کرے تو ان کے ایک کے نہ مد کو پہنچے نہ آدھے کو۔(مسلم،بخاری)۔ چار مد کا ایک صاع ہوتا ہے اور ایک صاع ساڑھے چار سیر کا تو مد ایک سیر آدھ پاؤ ہوا یعنی میرا صحابی قریباً سوا سیر جو خیرات کرے اور ان کے علاوہ کوئی مسلمان خواہ غوث و قطب ہو یا عام مسلمان‌ پہاڑ بھر سونا خیرات کرے تو اس کا سونا قرب الٰہی اور قبولیت میں صحابی کے سوا سیر کو نہیں پہنچ سکتا، یہی حال روزہ نماز اور ساری عبادات کا ہے۔(مرآةالمناجيح شرح مشكٰوةالمصابيح جلد:8 حديث:6007)اسی طرح کوئی ولی، کوئی غوث، کوئی قُطب چاہے کتنی ہی عبادت کرلے مرتبہ میں کسی صحابی کے برابر نہیں ہو سکتا۔

اکابِر محدثین کے مطابق صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی تعداد ایک لاکھ سے سوا لاکھ کے درمیان تھی۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تمام صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے نام معلوم نہیں، جن کی معلوم ہیں (ان کی تعداد تقریباً)سات ہزار ہے۔(ملفوظاتِ اعلی حضرت ص400)

صحابۂ کرام علیہم الرضوان کا مقام و مرتبہ بیان ہونے کے بعد اب امّت پر صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے کچھ حقوق بھی بیان کیے جائیں گے۔

(1) پہلا حق ہے کہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے عقیدت و محبت رکھنا: جو شخص میرے صحابہ، ازواج اہل بیت سے عقیدت رکھتا ہے اور ان میں سے کسی پر طعن نہیں کرتا(یعنی برا بھلا نہیں کہتا) اور ان کی محبت پر دنیا سے انتقال کرتا ہے وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجے میں ہوگا۔(جمع الجوامع، 8/414، حدیث:30236)

(2) دوسرا حق ہے کہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے بارے میں جرأت کرنے سے بچنا۔ بے شک میری اُمّت کے بد ترین لوگ وہ ہیں جو میرے صحابہ پر جرأت کرنے والے ہیں۔(الکامل فی ضعفاء الرجال لا بن عدی، 9/199)

(3) تیسرا حق ہے کہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے معاملے میں سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا لحاظ کرنا۔ میرے صحابہ کے معاملے میں میرا لحاظ کرنا کیونکہ وہ میری امّت کے بہترین لوگ ہیں۔(مسند الشھاب، 1/418، حدیث:720)

(4) چوتھا حق ہے کہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان پر طعن نہ کرنا۔ میرے بعد میرے اصحاب سے کچھ لغزش ہوگی، اللہ پاک انہیں میری صحبت کے سبب معاف فرما دے گا اور ان کے بعد کچھ لوگ آئیں گے جن کو اللہ پاک منہ کے بل دوزخ میں ڈال دے گا۔

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ نے اُن بعد والوں کے متعلق فرمایا: یہ وہ ہیں جو ان لغزشوں کے سبب صحابہ پر طعن کریں گے۔(فتاویٰ رضویہ، 29/336)

(5) پانچواں حق ہے کہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی برائی نہ سننا۔ جب تم لوگوں کو دیکھو کہ میرے صحابہ کو برا کہتے ہیں تو کہو: اللہ پاک کی لعنت ہو تمہارے شر پر۔ حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: یعنی صحابۂ کرام تو خیر ہی خیر ہیں تم ان کو برا کہتے ہو تو وہ برائی خود تمہاری طرف ہی لوٹتی ہے اور اس کا وبال تم پر ہی پڑتا ہے۔(مرآۃالمناجیح ،8/344)‌

اللہ پاک ہمیں صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے سچی محبت اور سچے دل سے ادب کرنا نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

محترم قارئین! یقیناً صحابۂ کرام علیہم الرضوان وہ  ہستیاں ہے جو امتِ محمدیہ میں پیارے مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد سب سے افضل و اعلیٰ ہے، صحابۂ کرام وہ عظیم ہستیاں ہے جن کو مصطفیٰ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت میسر آئی، ہاں ہاں! یہ وہی عظمت والا گروہ ہے جو رسولِ اعظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تربیت کے شاہکار ہے، یہ وہی اعلیٰ جماعت ہے جن کو اللہ پاک نے دنیا ہی میں اپنی رضا و خوشنودی کا پروانہ دے دیا، یہ وہ دمکتے چمکتے ستارے ہیں جو وحی الٰہی کے اوّلین پاسبان ہیں، خدامِ حدیث میں پہلا نام انہی کا ہے، جنہوں نے اپنی جان مال اہل والوں کی پرواہ کئے بغیر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر سب کچھ قربان کردیا، اور یقیناً یہ بہت عظمت والی جماعت ہے کیونکہ وہ لوگ ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھی ہیں ، ان کا تعلق دنیا کے سب سے بہتر زمانہ سے ہے ، اللہ پاک نے انہیں کے ذریعہ اسلامی فتوحات اور تبلیغ کی ابتدا کی ، وہ لوگ امانت و دیانت اور اچھے خلق کے جس مقام پر فائز تھے کوئی دوسرا وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ کوئی ولی کتنے ہی اونچے مرتبہ کو پہنچ جائے مگر کسی صحابی کے برابر نہیں ہو سکتا، صحابۂ کرام کے بے شمار حقوق ہے یہاں پانچ ذکر کیئے جاتے ہیں۔

(1) ان سے محبت کی جائے: اس لئے کہ جب اللہ پاک و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں بھی ان سے محبت ہونی چاہیے، ان کا ذکر ِخیر کیا جائے، ان کے اعراس منایا جائے، ان سے محبت کی علامت یہ بھی ہے کہ ان کے نقشِ قدم پر چلا جائے۔

(2) ان کو تمام لوگوں سے بہتر اور افضل مانا جائے، ان کے جو فضائل بیان کیئے گئے ہیں۔ ان پر یقین رکھا جائے۔

(3)ان کی تعظیم و توقیر کی جائے: ان کی دل و جان سے تعظیم و تکریم کی جائے کیونکہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اکرموا اصحابی فانہم خیارکم ترجمہ میرے صحابہ کا احترام کرو کیونکہ وہ تم میں سب سے افضل ہیں۔( النسائی الکبری ، مصنف عبد الرزاق)

(4)ان کو گالیاں نہ دی جائے، انہیں برا بھلا نہ کہا جائے، ان کی شان میں ذرہ برابر بھی گستاخی نہ کی جائے، ان میں عیب نہ نکالے جائے اس لئے کہ ان کو ایذا پہچانا اللہ و رسول کو ایذا پہچانا ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: لا تسبوا اصحابی ، لعن اللہ من سب اصحابی ۔ { الطبرانی الاوسط عن عائشۃ } میرے صحابہ کو بر بھلا نہ کہو ، اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہے۔

(5) ان کے آپسی معاملات میں نہ پڑا جائے، ان میں سے ہر ایک کی تعظیم کی جائے، ان کے آپسی معاملات کی بناء پر ان پر معاذاللہ لعن طعن نا کیا جائے۔

اللہ پاک ہمیں صحابۂ کرام سے سچی محبت عطا فرمائے اور ان کے صدقے ہماری اور ہمارے والدین کی مغفرت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

پیارے اسلامی بھائیوں! ایک مسلمان کے لئے سب سے بڑھ‌کر محبت و اطاعت کا مدار اللہ پاک کی ذات ہے، اس کے فرمان کے باعث تمام مخلوق سے بڑھ کر محبت، عقیدت اور اطاعت اللہ پاک کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہونی چاہیے۔ لہذا حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد جس سے بھی محبت کی جائے گی وہ اللہ پاک اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تعلق اور نسبت کی بناء پر ہوگی، اس لئے ایک مسلمان کے نزدیک اللہ پاک اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد سب سے مقدس ہستیاں صحابۂ کرام ہیں۔ جیسا کہ‌ حبیبِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کیوں کہ‌ وہ تم میں بہترین لوگ ہیں۔(مشکوۃ المصابیح ،2/413، حدیث:6012)

بعدِ خدا و مصطفیٰ صحابہ سے محبت زیادہ ہونا ان کے حقوق کو بھی اتنا ہی ثابت کرتا ہے۔ چنانچہ آئیے آج صحابۂ کرام کے بعض حقوق کو جانتے ہیں۔

(1)صحابۂ کرام سےسچی محبت رکھنا، ان کی فضیلت، عدالت، امت میں سب سے بہترین ہونے اور ہر طرح کا ان کے بارے میں اچھا اعتقاد رکھنا۔ چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے: وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو(پیروی کرنے والے) ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔(پ11،التوبۃ:100)

پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: انصار سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے اور ان سےبغض رکھنا نفاق کی علامت ہے۔(البخاري، كتاب مناقب الأنصار، باب الأنصار من الإيمان، 3/ 39، حدیث: 3784)

مہاجرین صحابہ انصار سے افضل ہیں لہذا تمام صحابہ سے محبت علامتِ ایمان ہوئی۔

(2)صحابہ کی فضیلت میں ترتیب کا اعتقاد رکھنا: ہم اہل سنت کے نزدیک یہ بات یقینی طور پر ثابت ہے کہ تمام صحابہ فضیلت میں شریک ہیں لیکن درجے میں مختلف ہیں بعض بعض سے افضل ہیں۔

حضرت ابن عمر نے سے روایت ہے کہ ہم رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں لوگوں کو ایک دوسرے پر فضیلت دیتے تھے۔ سب سے افضل حضرت ابو بکر کو مانتے تھے پھر حضرت عمر کو اور پھر حضرت عثمان کو۔(البخاري، باب فضل ابی بکر بعد النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، 4/5، حدیث: 3655)

ان میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق پھر حضرت عمر فاروق حضرت عثمان غنی حضرت علی المرتضیٰ اس کے بعد بقیہ عشرۂ مبشَّرہ وحضرات حسنین واصحابِ بدر واصحابِ بیعۃ الرضوان کےلیے افضلیت ہے اور یہ سب قطعی جنتی ہیں۔(شرح المسلم للنووي، کتاب فضائل الصحابۃ، ص 272)

ہر صحابیِ نبی! جنتی جنتی

(3)اچھے طریقے سے صحابہ کا ذکر، ان کی تعریف کرنا اور ان‌کی خوبیاں بیان کرنا۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو میرے صحابہ کو بُرا کہے اس پر اللہ کی لعنت اور جو ان کی عزت کی حفاظت کرے میں قیامت کے دن اس کی حفاظت کروں گا۔ (ابن عساکر، 44/ 222)

مسئلہ: تمام صحابۂ کرام اہلِ خیر وصلاح ہیں اور عادل، ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔(بہار شریعت، 1/252)

(4)صحابہ کی پیروی کرنا، ان کے لئے بخشش کی دعا کرنا اور ان کے ساتھ رضی اللہ عنہ لگانا ۔ فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا کروگے ہدایت پاجاؤ گے۔(مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث:6018)

وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اُن کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے ۔(پ28،الحشر: 10)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا نے فرمایا: لوگوں کو حکم تو یہ دیا گیا کہ صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کیلئے اِستغفار کریں اور کرتے یہ ہیں کہ انہیں گالیاں دیتے ہیں۔(مسلم، کتاب التفسیر، ص1611، حدیث: 3022)

(5)صحابہ کے آپسی مشاجرات و معاملات میں خاموش رہنا، اور ان کو برا بھلا کہنے والوں سے دور رہنا ان سے قطع تعلقی کرنا۔ پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میرے صحابہ کے متعلق اللہ سے ڈرو ،اللہ سے ڈرو، میرے بعد انہیں نشانہ نہ بناؤ کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا۔(ترمذی، ابواب المناقب، باب فیمن سبّ اصحاب النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، 5/302، حدیث: 3864)

یا اللہ پاک ہمیں صحابۂ کرام کے حقوق صحیح معنوں میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اٰمین بجاہ‌ النبی‌ الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

دینِ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے  ہر شخص کے جُدا جدا اُس کے مرتبے(Status) کے مطابق اس کے حقوق (rights)بیان کئے ہے۔ جیسے اللہ پاک کا تمام انسانوں پر یہ حق ہے کہ وہ اللہ پاک اور اس کے رسول محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لائے اور اسی طرح اللہ کے آخری نبی محمّد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صَحَابۂ کِرام رضی اللہُ عنہم کا تمام مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ وہ ان کی تعظیم و تکریم کریں۔ آیئے اب ہم صَحَابَۂ کِرام رضی اللہُ عنہم کے حقوق جو اُمّتِ مسلِمہ پر ہے ان میں سے پانچ حقوق کو قراٰن و حدیث کی روشنی میں ملاحظہ کرتے ہیں :۔

(1)صَحَابَۂ کِرام کو بُرا کہنے سے بچو : إِذَا ذُكِرَ اَصْحَابِیْ فَاَمْسِكُوْا یعنی جب میرے اَصْحاب کا ذِکْر آئے تو باز رہو (یعنی بُرا کہنے سے بچو۔ (معجم کبیر ،2/96، حدیث: 1427)

حضرت علّامہ علی قاری رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں یعنی صَحَابۂ کِرام عَلَیھِمُ الرِّضْوَان کو بُرا بَھلا کہنے سے بچو۔ کیونکہ قراٰن کریم میں ان کے لئے رضائے الہی کا مُژدہ (یعنی خوشخبری) بیان ہو چکی ہے لہٰذا ضُرور اُن کا اَنْجام (یعنی ٹھکانہ ) پرہیزگاری اور رضائے الہی کے ساتھ جَنَّت میں ہوگا۔ اور یہ وہ حُقُوق ہیں جو اُمّت کے ذِمّے باقی ہیں لہٰذا جب بھی اُن کا ذِکْر ہوتو صِرْف و صِرْف بَھلائی اور اُن کے لئے نیک دُعاؤں کے ساتھ ہو۔ (مرقات، 1/282)

(2) صَحَابۂ کِرام کی بُرائی کرنے والوں کا عَمَلی(practical) بائیکاٹ: بے شک اللہ پاک نے مجھے مُنْتَخَب(Select) فرمایا اور میرے لئے صحابہ مُنْتَخَب فرمائے ، اور عنقریب ایسی قوم آئے گی جو ان کی شان گھٹائے گی ، انہیں عیب لگائے گی اور گالی دے گی لہذا تم نہ ان کے ساتھ بیٹھنا، نہ ان کے ساتھ کھانا، نہ پینا، نہ ان کے ساتھ نماز پڑھنا اور نہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھنا ۔ (الجامع لاخلاق الراوي للخطيب البغدادی، 2/118، حدیث: 1353)

(3) اُمَّت کے بدترین لوگ: بے شک میری امت کے بدترین لوگ وہ ہیں جو میرے صحابہ پر جَرْأَت کرنے والے ہیں۔ (الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدی ،9/199) یعنی وہ لوگ جو صحابۂ کرام عَلَیھِمُ الرِّضْوَان کو بُرا بَھلا کہتے ہیں اور ان کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں جو ان کی شان و مَنْصَب کے لائِق نہیں ،ایسا کرنا سخت ترین حرام کام ہے صحابۂ کرام عَلَیھِمُ الرِّضْوَان کو بُرا بَھلا کہنا بُرائی پر جَری (یعنی جُرأت کرنے والا) ہونے کی علامت(نِشانی) ہے اور ان کی عِزَّت واِحْترام کرنا اچھا ہونے کی علامت ہے اور حق ( یعنی صحیح) بات یہ ہے کہ تمام صَحَابۂ کِرام عَلَیھِمُ الرِّضْوَان کی تعظیم کی جائے اور ان کو بُرا کہنے سے زبان کو روکا جائے ، چاہے وہ صَحَابۂ کِرام مُہاجِرین میں سے ہوں یا اَنصار میں سے (فيض القدير، 2/575، تحت الحدیث: 2281)

اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو(پیروی کرنے والے) ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔(پ11،التوبۃ:100)

(4) تمام صَحَابۂ کِرام سے مَحَبَّت کرو : میرے تمام صَحابہ سے جو مَحَبَّت کرے، اُن کی مدد کرے اور اُن کے لئے اِسْتِغْفَار (یعنی دعائے مَغفرِت کرے) تو اللہ پاک اُسے قیامت کے دن جَنَّت میں میرے صَحابہ کا ساتھ نصیب فرمائے گا۔

(5)لَغْزِشوں کے سبب صَحابہ پر طَعْن کرنے والے جَہنّمی :میرے بعد میرے اَصْحاب سے کچھ لَغْزِش ہوگی ،اللہ پاک انہیں میری صُحْبت کے سبب مُعاف فرمادے گا اور اُن کے بعد کچھ لوگ آئیں گے جن کو اللہ پاک مُنہ کے بَل دوزخ میں ڈال دے گا ۔(معجم اوسط، 2/360، حدیث: 3219)

اَعْلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ نے اُن بعد والوں کے مُتَعَلِّق فرمایا: یہ وہ ہیں جو اُن لَغْزِشوں کے سبب صَحابہ پر طَعْن (بُرائی) کریں گے۔(فتویٰ رضویہ ،ج29/ 336)

پیارے مُحْتَرم اسلامی بھائیو! اوپر بیان کی گئی احادیث مبارکہ سے یہ درس (Lesson) ملا کہ تمام صَحَابۂ کِرام عَلَیھِمُ الرِّضْوَان سے مَحبّت کی جائے اور جب بھی کسی بھی صحابی کے بارے میں گفتگو کی جائے تو اچھائی کے ساتھ ہی ہو اور کسی ایک صحابی کی بھی بُرائی کرنے والوں سے دُور رہا جائے اور ان کا عَمَلی بائیکاٹ کیا جائے اور دیگر مسلمانوں کو بھی اُن ناپاکوں کی صُحْبَت سے بچایا جائے اللہ پاک ہمیں ان پاکیزہ ہستیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہِ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: اس مضمون میں موجود اکثر مواد رسالہ ہر صحابی نبی جنتی جنتی کے صفحہ 10 تا 20 سے کچھ تبدیلی کے ساتھ لیا گیا ہے۔

ایک دوسری کی مدد کے بغیر دنیا میں زندگی  گزارنا بہت مشکل ہے ، اس معاونت میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے قدم قدم پر یقین دہانی کی ضرورت پڑتی ہے اس یقین دہانی کا ایک ذریعہ وعدہ بھی ہے، مستحکم تعلقات ،لین دین میں آسانی ، معاشرے میں امن اور باہمی فضا قائم ہونا وعدہ پورا کرنے کے ذریعہ میں ممکن ہے ، اسی لئے اسلام نے ایفائے عہد ( وعدہ پورا کرنے ) پر بہت زور دیا ہے اور وعدہ خلافی نہ کرنے کی بہت تاکید کی ہے ۔ آئیے سب سے پہلے وعدہ کی تعریف اور اس کا حکم جانتے ہیں۔

وعدہ کی تعریف : وہ بات( یا کام) جسے پورا کرنا کوئی شخص خود پر لازم کرلے " وعدہ " کہلاتا ہے۔ ( معجم وسیط ، 2 / 1007)

وعدے کا حکم : حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وعد ہ کا پورا کرنا ضروری ہے مسلمان سے وعدہ کرے یا کافر سے عزیز سے وعدہ کرے یا غیر سے ۔، استاد ، شیخ ، نبی ۔ اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے تمام وعدے پورے کرو، اگر وعدہ پورا کرنے والا وعدہ پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کر سکے تو وہ گناہگار نہیں ۔( مرآۃ المناجيح،6 /492،483)

فرمانِ باری تعالیٰ : پارہ 14 سورۃ النحل آیت نمبر 91 میں ارشاد فرمایا ترجمۂ کنز الایمان : اور اللہ کا عہد پورا کرو جب قول باندھو اور قسمیں مضبوط کرکے نہ توڑو اور تم اللہ کو اپنے اوپر ضامن کرچکے ہو بےشک اللہ تمہارے کام جانتا ہے۔

اسی طرح احادیث میں بھی بکثرت یہ حکم ملتا ہے کہ وعدہ پورا کرو نیز وعدہ خلافی سے بچنے کا حکم بھی ملتا ہے ۔ آئیے وعدہ خلافی مذمت پر چند فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتے ہیں ۔

بہترین لوگ : پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے :تمہارے بہترین لوگ وہ ہیں جو وعدہ پورا کرتے ہیں ( مسند ابی یعلیٰ ، 1 / 451 ،حدیث: 1047)

خالص منافق : حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : چار باتین جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس کے اندر ان میں سے کوئی ایک ہو تو اس میں نفاق کا ایک حصہ ہے یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے (1) جب اسے امانت سپرد کی جائے تو خیانت کرے (2) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (3) جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے (4) جب جھگڑا کرے تو بے ہودہ بکے ( گالی بکے )( بخاری کتاب الایمان ، باب علامۃ المنافق ، 1/25 ،حدیث: 34)

ایک جھنڈا ہوگا: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن ہے عہد شکن( وعدہ توڑنے والے ) کے لئے ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعے وہ پہچانا جائے گا۔( بخاری ،4/394 ،حدیث: 6966)

تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے ۔( بخاری کتاب البیوع باب اثم من باع حرا ،2/52 ،حدیث: 2227)

تمام انسانوں کی لعنت: حضرت علی المرتضی ٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے ،جو کسی مسلمان کا عہد توڑے تو اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ، نہ اس کی کوئی فرض عبادت قبول کی جائے گی اور نہ ہی نفل ۔( بخاری کتاب البیوع کتاب فضائل مدینہ باب حرم المدینۃ، 1/616 ،حدیث: 1870)

نوٹ: وعدہ کے لئے لفظ وعدہ کہنا ضروری نہیں بلکہ انداز و الفاظ سے اس بات کی تاکید ظاہر کی مثلاً : وعدہ کے طور پر طے کیا کہ فلاں کام کروں گا یا فلاں کام نہیں کروں گا وعدہ ہوجائے گا۔ ( غیبت کی تباہ کریاں، ص 461)

اللہ پاک ہمیں عہد کی پاسداری کرنے کی توفیق عطاکرے۔ اٰمین

وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ کا عہد پورا کرو جب قول باندھو۔(پ 14، النحل : 91)

قراٰنِ کریم میں بہت سے مقام پر وعدہ کی پابندی پر زور دیا گیا ہے جو شخص وعدہ کی پابندی کرتا ہے تو اللہ پاک اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس سے خوش ہوتے ہیں کیونکہ جو شخص وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے یعنی اس کو پورا نہیں کرتا تو دوسرے لوگ اس پر اعتماد نہیں کرتے ۔

وعدہ خلافی کی تعریف : صدر الشریعہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وعدہ کیا مگر اس کو پورا کرنے میں کوئی شرعی قباحت ( یعنی شرعی برائی ) تھی اس وجہ سے پورا نہیں کیا جائے گا اور وعدہ خلافی کا جو گناہ ہے اس صورت میں نہیں ہوگا ۔ اگرچہ وعدہ کرتے وقت ا س نے استثنا ء کیا ہو ، یہاں شریعت کی طرف سے استثناء موجود ہے ۔ اس کو زبان سے کہنے کی ضرورت نہیں مثلاً وعدہ کیا تھا کہ میں فلاں جگہ پر آوں گا اور وہاں بیٹھ کر تمہارا انتظار کروں گا " مگر جب گیا تو دیکھتا ہے کہ ناچ رنگ اور شرا ب نوشی وغیرہ میں لوگ مصروف ہیں لہذا وہاں سے چلا آیا تو یہ وعدہ خلافی نہیں ۔ یا اس کے انتظار کرنے کا وعدہ کیا اور انتظار کر رہا تھا کہ نماز کا وقت آگیا یہ چلا گیا یہ وعدہ کے خلاف نہیں ہوا ۔( بہار شریعت )

وعدہ کی مذمت احادیث کی روشنی میں :(1) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان مبارک ہے :جس شخص میں یہ چار خصلتیں پائی جائیں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک عادت پائی جائے تو اس میں نفاق کی ایک علامت پائی جائے گی یہاں تک کہ وہ اس کو چھوڑ دے ۔ اور وہ خصلتیں یہ ہیں ۔(1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2) جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے (3)جب عہد کرے تو دھوکہ دے (4)جب کسی سے جھگڑے تو گالی گلو چ بکے ۔(بخاری شریف کتا ب الایمان)

(2)آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن ہر خائن (کی پہچان) کے لئے ایک جھنڈا ہوگا یہ فلاں کی خیانت ہے ۔

(3)دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے کی ایک کتاب ہے جو 207 صفحات پر مشتمل ہے جس کا نام " جہنم کے خطرات" سے یہ روایتیں ملاحظہ فرمائیں : جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ پاک اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل ۔( بخاری شریف )

(4) ہر عہد شکنی کرنے والے کی سرین یعنی ( بدن کا وہ حصہ جس کے بل انسان بیٹھتا ہے ) کے پاس قیامت میں ا س کی عہد شکنی کا جھنڈا ہوگا( مسلم شریف )

(5) لوگ اس وقت تک ہلاک نہیں ہو گے جب تک وہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں گے۔ ( سنن ابو داؤ د ) جھوٹا وعدہ کرنا حرام :ہمارے امام اہلسنت بریلی کے تاجدر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد نمبر25 صفحہ نمبر 69 پر لکھتے ہیں اشباہ والنظائر میں ہے : خلف الوعد حرام۔ یعنی جھوٹا وعدہ کرنا حرام ہے (الاشباہ و النظائر، ص 288 ،فتاویٰ رضویہ )

(6) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں وعدہ خلافی یہ نہیں کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت اسے پورا کرنے کی بھی ہو بلکہ وعدہ خلافی یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت اسے پورا کرنے کی نہ ہو ۔( الجامع لاخلاق الروای للخطیب البغدادی )

(7)ایک اور حدیث پاک میں ارشاد فرمایا کہ جب کوئی شخص اپنے بھائی سے وعدہ کرے اور اس کی نیت پورا کرنے کی ہو پھر پورا نہ کر سکے ، وعدہ پر نہ آسکے تو اس پر گناہ نہیں ۔( سنن ابو داؤد )حدیث پاک کی شرح : مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں مگر کسی مجبوری یا عذر کی وجہ سے پورا نہ کر سکے تو وہ گناہگار نہیں ۔ یوں ہی اگر کسی کی نیت وعدہ خلافی کی ہو مگر اتفاقا پورا کردے تو گناہگار ہے اس بد نیتی کی وجہ سے ۔ ہر وعدہ میں نیت کا بڑا دخل ہے۔ (مرآۃ المناجيح، 6 /492)

ایفائے عہد ایک نظر میں : وعدہ پورا کرنا اسلامی اخلاق کا ایک اہم جز ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیشہ وعدہ پورا فرماتے خواہ وہ مسلمان سے کیا ہوتا یا کسی اور کا فر سے ۔ اور اپنے پرائے سب اس حقیقت کے معترف تھے یہی وجہ ہے کہ ابو سفیان نے ہرقل روم کے دربار میں یہ گواہی دی کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کبھی عہد شکنی نہیں کرتے ۔

شیخ الحدیث سید تراب الحق شاہ صاحب اپنی کتاب " جمال مصطفیٰ " میں چند باتیں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وعدہ پورا کرنے کے متعلق فرماتے ہیں جن میں سے ہم چند احادیث کا یہاں تذکرہ کرتے ہیں ۔

(8) حضرت عبد اللہ بن ابی الحمساء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اعلان نبوت سے قبل آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے خرید و فروخت کی اور آپ کا کچھ بقایا رہ گیا میں نے وعدہ کیا کہ میں اسی جگہ وہ چیز لے کر آتاہوں پھر میں بھول گیا ، تین دن بعد مجھے یاد آیا اور وہاں پہنچا تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس جگہ پر پایا آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تم نے مجھے پر مشقت ڈال دی میں تین دن سے یہاں تمہارا انتظار کر رہا ہوں ۔( ابو داؤد )

(9)حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ قبول اسلام سے پہلے قریش کے سفیر بن کر مدینہ منورہ آئے نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ کفر سے نفرت ہو گئی بارگاہِ نبوی میں عرض کی یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں اب واپس مکہ نہیں جاؤں گا تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میں عہد شکنی نہیں کرتا اور نہ ہی قاصدوں کو اپنے پاس روکتا ہوں اب تم واپس جاؤ بعد میں چاہو تو آجانا ۔چنانچہ ابو رافع رضی اللہ عنہ واپس مدینہ چلے گئے اور دوبارہ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور قبولِ اسلام کیا ( ابو داؤد )

ان تمام احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کس قدر وعدہ کی پابندی کرتے تھے اور اپنے غلاموں کو بھی وعدہ کی پابندی کا حکم دیتے تھے ۔ دیکھو حدیث واضح ہے تین دن بعد بھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس جگہ پر موجود تھے یہ صرف اور صرف اپنی امت کو بھی اس میں درس دیا ہے کہ وعدہ کی پابندی ضرور کیا کریں کیونکہ وعدہ کی خلاف ورزی بہت بڑا گناہ ہے ۔

عرش حق ہے مسند رفعت رسول اللہ کی

دیکھنی ہے حشر میں عزت رسول اللہ کی


کسی چیز کا وعدہ کرکے توڑ دینا وعدہ خلافی کہلاتا ہے ، وعدہ خلافی ایک عملی جھوٹ ہے ۔ اس لئے حضو ر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے  اپنی اخلاقی زندگی میں وعدہ خلافی سے بچنے اور ہمیشہ وعدہ پورا کرنے کی سخت تاکید فرمائی ہے ، قراٰن کریم میں اللہ پاک نے مومنو ں کی نشانی بیان کرتے ہوئی فرمایا : وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنا قول پورا کرنے والے جب عہد کریں۔(پ2،البقرۃ:177)

وعدہ پور ا کرنا اچھے اخلاق میں سے ہے ، جو لوگ وعدہ پورا کرتے ہیں اللہ پاک انہیں جنت کی خوشخبری سے نوازتا ہے اس زمانہ میں تو وعدہ خلافی کا دور دورہ بڑھتا جا رہا ہے اور لوگ وعدہ خلافی کو وعدہ خلافی تصور ہی نہیں کرتے ۔ یاد رکھنا قیامت کے دن وعدہ خلافی کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا ، رب فرماتا ہے : وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا ترجَمۂ کنزُالایمان: اور عہد پورا کرو بےشک عہد سے سوال ہونا ہے۔( پ 15 ، بنی اسرائیل: 34)

وعدہ خلافی پر کچھ احادیث ملاحظہ فرمائیے ۔منافق کی علامت:(1)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی کے اندر ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ بھی منافق ہے جب تک کہ اسے چھوڑ نہ دے :(1)جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے ۔(2) بات کرے جھوٹ بولے (3) اور جب وعدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے (4) لڑے تو گالیاں دے ۔( صحیح البخاری ، کتاب ایمان ، حدیث 34)(2) زید بن ارقم سے رایت ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اذا وعد الرجل و ینوی ان یف بہ فلا جناح علیہ ترجمہ:جب آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت یہ ہو کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے گا لیکن وہ اسے پورا نہ کرسکا تو کوئی حرج نہیں ۔(سنن الترمذی ، کتا ب ایمان ، حدیث: 2775)(3) عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : العد ۃ دین۔ وعدہ ایک قرض ہے۔ (معارف الحدیث ، جراب الاخلاق قبل ایفائے ، حدیث: 356)

(4) حضرت عبد اللہ بن ابو حمسا ء سے روایت ہے کہ میں نے رسو لِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بعثت سے پہلے آپ سے خریدو فروخت کا معاملہ کیا اور کچھ ادا کرنا باقی رہ گیا ۔ تو میں نے آپ سے وعدہ کیا کہ میں اسی جگہ لے کر آتا ہوں پھر میں بھول گیا اور تین دن کے بعد مجھے یاد آیا ، تو دیکھا کہ آپ اسی جگہ موجو د ہیں آپ نے فرمایا کہ تم نے مجھے بڑی مشکل میں ڈالا اور بڑی زحمت دی ۔ میں تمہارے انتظار میں تین دن سے یہاں ہوں ۔اسے ابو داؤد نے بھی روایت کیا ہے ۔(معارف الحدیث ، کتاب الاخلاق فصل ایفائے عہد ،حدیث: 357)(5) روایت میں ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : لا ایمان لمن لا امانۃ لہ و لا دین لمن لا عھد لہ ترجمہ: جس شخص میں امانت نہیں اس کا ایمان نہیں اور جس شخص کا عہد نہیں اس کا کوئی دین ہی نہیں۔(مشکوۃ المصابیح ، کتاب االایمان ، حدیث 35)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں دیکھا آپ نے کتب احادیث میں وعدہ خلافی کی کتنی مذمت کی گئی ہے ۔ کاروباری ، نکاح اور قرض وغیرہ کے معاملات اسی وعدہ خلافی میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں ۔ وعدہ خلافی کی وجہ سے لوگوں کا ایک دوسروں سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ اگر کوئی کسی کو قرض دیتا ہے تو اس پر پہلے اعتماد تو کرنا مشکل ہوتا ہے ۔اگر اعتماد رکھ بھی لے تو دوسرا اسے قرض مقررہ وقت پر نہیں لوٹاتا۔ وعدہ خلافی سے بچنے کا درس آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دیا ہے ، اور اگر خود وعدہ کی پابندی کرکے بھی دکھایا ہے ، اس کی ایک نظیر یہ ہے کہ ایک واقعہ ہے۔ جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کفارِ مکہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کرلیا ، اس کے بعد ایک صحابی کفار سے بھا گ کر آئے تو آپ نے معاہدہ پر عمل کرتے ہوئے ان کو واپس کفار قریش کے حوالہ کردیا ، حالانکہ اور صحابی آپ کو روک رہے تھے ۔ یہ آپ کے وعدہ کی مثال ہے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وعدہ پورا کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری دی ہے ۔ فرمایا: تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو اپنی طرف سے میں تمہیں جنت کی ضمانت دوں گا۔ ان میں سے ایک وعدہ کی پاسداری بھی ہے۔ یاد رکھنا کہ جو وعدہ خلافی کرتا ہے قیامت کے دن اس سے اس کے بارے ( وعدہ خلافی ) میں سوال کیا جائے گا ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں تاحیات وعدہ پورا کرنے والا اور ہمدردی کرنے والا بنائے ۔اٰمین

کچھ ظاہری گناہ ہوتے ہیں اور کچھ باطنی گناہ ہوتے ہیں ۔ ظاہری گناہوں میں سے ایک وعدہ خلافی بھی ہے۔ وعدہ کرنے میں ہر نیک عہد جائز ہیں ۔مگر افسوس عدہ پورا کرنے میں بھی ہمارا کچھ حا ل اچھا نہیں  ، بلکہ وعدہ خلافی کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے ۔ لیڈر قوم سے عہد کر کے توڑ دیتے ہیں اور لوگ ایک دوسروں سے عہد کر کے توڑ دیتے ہیں اور یہ مزاج (رواج ) ہماری قوم میں بھڑتا جا رہا ہیں ۔

اللہ پاک قراٰن کریم میں ارشاد فرماتا ہے : وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا ترجَمۂ کنزُالایمان: اور عہد پورا کرو بےشک عہد سے سوال ہونا ہے۔(پ15 ، بنی اسرائیل: 34)

آئیے وعدہ خلافی کی مذمت دیکھئے احادیث کی روشنی میں :۔(1)اللہ اور فرشتوں کی لعنت : حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے جو کسی مسلمان کا عہد توڑے تو اس پر اللہ اور فرشتوں کی لعنت ہے نہ اس کا کوئی فرض عبادت قبول کی جائے گی اور نہ نفل۔ ( بخاری ،10/616 ،حدیث: 187)(2) اس کا دین نہیں : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ بہت کم تھا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں اس کے بغیر وعظ فرمائیں کہ جو امین نہیں اس کا ایمان نہیں جو پابند وعدہ نہیں اس کا دین نہیں ۔( مراۃ المناجيح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد 1 ،حدیث:35)

(3) عذاب کا مستحق : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک فرمایا ہے کہ میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا ایک وہ جو میرے نام پر وعدہ کرے پھر عہد شکنی کرے ، دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھالے تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدور ی نہ دے ۔( بخاری ، کتاب البیوع ، باب اثم من باع حرا ، 2/52، حدیث :6667)(4)ہر عہد شکن کے لئے ایک جھنڈا ہوگا : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن ہر عہد شکن کے لئے ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعے وہ پہچانا جائے گا۔ (بخاری ، کتاب الحیل ، باب اذا غصب جا ریۃ فزعم انہا ماتت ۔۔۔ الخ ،4/394، حدیث :6966)(5) منافق کی نشانی : فرمانِ مصطفی ٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرے جھوٹ بولے ۔جب وعدہ کرے وعدہ خلافی کرے ۔اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ ( بخاری ، کتاب بدع الایمان ، باب علامۃ المنافق ۔ ص 79، حدیث: 133)

وعدہ خلا فی سے محفوظ رہنے کے لئے: (1) آخرت کو کثرت سے یاد کیجئے تاکہ دنیا اور اس کے ساز و سامان کی محبت دل سے نکلے اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے کا ذہن بنے ۔ (2) وعدہ کو معمولی مت جانئے ، اسلام اور معاشرے میں اس کی اہمیت کو سمجھئے کہ وعدہ پورا کرنا اسلام میں بھی پسندیدہ عمل ہے اور لوگ بھی اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کی بات پر اعتماد بھی کرتے ہیں ۔ (3)نیک لوگو ں کی صحبت اختیار کیجئے جن کے پاس بیٹھنے سے اخلاق اچھے ہوتے ہیں۔

اللہ پاک آپ کو اور مجھے وعدہ خلافی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔


وعدہ  کا پاس رکھنا اور اسے پورا کرنا یعنی ایفائے عہد کرنا انبیائے کرام و رسل عظام کی صفات میں سے ہے اور متقی پرہیز گاروں کی نشانیوں میں سے ہے وعدہ کو پورا کرنا اعلیٰ اخلاقی وصف، بلند پایہ اسلامی رویہ ہے۔مسلمان اپنے عہد کی حفاظت کرتا ہے اور اسے پورا کرتا ہے خواہ وہ لکھا گیا ہو یا زبانی ہو اور ایک دوسری کی مدد کے بغیر دنیا میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہے اس معاونت میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے قدم قدم پر یقین دہانی کی ضرورت پڑتی ہے اس یقین دہانی کا ایک ذریعہ وعدہ ہے۔ مستحکم تعلقات لین دین میں آسانی معاشرے میں امن اور باہمی اعتماد کی فضا قائم ہونا وعدہ پورا کرنے سے ممکن ہے اسی لئے اسلام نے ایفائے عہد پر بہت زور دیا ہے ، قراٰن و حدیث میں بکثرت یہ حکم ملتا ہے جب وعدہ کرو تو پورا کرو ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا ترجَمۂ کنزُالایمان: اور عہد پورا کرو بےشک عہد سے سوال ہونا ہے۔

اور وعدہ خلافی کی قراٰن حدیث میں بہت مذمت بیا ن ہوئی ہے ۔

وعدہ خلافی کی تعریف :معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا غدر یعنی بد عہدی ( خلاف ورزی ) کہلاتا ہے۔ ( باطنی بیماریوں کی معلومات، ص170)

وعدہ خلافی کا حکم : عہد کی پاسداری کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور غدر یعنی بد عہدی کرنا حرام و جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ ( باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 172)

وعدہ خلافی کرنے والا ملعون : حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان عہد شکنی کرے اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانو ں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ ہی نفل۔

وعدہ خلافی کرنے والا بد دین : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب بھی خطبہ ارشاد فرماتے تو ضرور فرماتے : جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں اور جو عہد کی پابندی نہ کرے اس کا کوئی دین نہیں ۔( مسند احمد ،حدیث:12109)

منافق کی نشانیاں : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے رایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے وعدہ خلافی کرے اور جب امانت دیا جائے تو خیانت کرے ۔( صحیح بخاری ،حدیث: 33)

وعدہ پورا کرنے کی اہمیت بندے کو دوسروں کی نظروں میں عزت و وقار میں اضافہ کا سبب ہے جبکہ قول و قرار سے روگردانی اور عہد کی خلاف ورزی بندے کو دوسروں کی نظروں میں گرا دیتی ہے اور دنیا و آخرت میں ذلت و شرمندگی کا سبب ہے لہذا جب بندہ وعدہ کرے تو اسے پورا کرے اور یہ وعدہ جائز کاموں کا ہو ۔اللہ پاک ہمیں وعدہ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین