بشیر عطاری ( درجہ سادسہ جامعۃُ المدينہ فیضانِ اوليا احمدآباد، گجرات، ہند)

ہمارے معاشرے(society) میں پائی جانے والی برائیوں میں سے ایک برائی وعدہ خلافی (وعدہ پورا
نہ کرنا) بھی ہے۔ قراٰن و حدیث میں جہاں وعدہ(promise)پورا کرنے والوں کے انعامات بیان
کیے گئے ہیں تو وعدہ خلافی کرنے والوں کی
مذمت بھی بیان کی گئی ہے۔ آئیے ہم وعدہ پورا کرنے کے فوائد اور وعدہ خلافی
کرنے کے نقصانات کو حدیث پاک کی روشنی میں
ملاحظہ کرتے ہیں۔
(1) حضرت عائشہ رضی اللہُ
عنہا فرماتی ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز میں دعا مانگتے تھے کہتے تھے: الٰہی میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں مسیح دجال کے فتنہ سے
اور تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فِتنوں سے الٰہی میں تیری پناہ مانگتا
ہوں گناہ اور قرض سے۔ کسی نے عرض کیا حضور قرض سے اتنی زیادہ پناہ مانگتے ہیں تو
فرمایا کہ آدمی جب مقروض(یعنی جس پر قرض) ہوتا ہے بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے
اور وعدہ کرتا ہے تو پورا نہیں کرتا۔ یعنی قرض بہت سے گناہوں کا ذریعہ ہے عُمومًا
مَقروض قرض خواہ (قرض دینے والے)کے تقاضے کے وقت جھوٹ بھی بولتے ہیں کہ گھر میں
چُھپ کر کِہلوا دیتا ہے کہ وہ گھر پر نہیں اور اگر پکڑے گئے تو کہہ دیا ہمارا مال
آنے والا ہے جلدی دیں گے، وعدہ خلافی بھی کرتے ہیں کہ کَل لے جانا مگر دیتے نہیں۔(مرآۃ
المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،جلد:2 حدیث:939 بالتصرف )
(2)جس میں چار عیوب(بُرائیاں) ہوں وہ نِرا (pure)منافق ہے اور جس میں ایک عیب(بُرائی)ہو اُن میں سے اُس میں
مُنَافَقت کا عیب ہوگا جب تک کہ اُسے چھوڑ
نہ دے۔ جب اَمانت دی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو
اس وعدہ کو پورا نہ کرے، جب لڑے تو گالیاں بکے مُنافق سے مراد منافق عَمَلِی یعنی
منافقوں کو جیسے کام کرنے والا ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:1 حدیث:56 بالتصرف)
(3) حضرت عبادہ بن صامت سے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا: کہ تم لوگ اپنے نفس کی طرف سے میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن(Guarantor)بن جاؤ میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں جب بات کرو سچ
کہو، جب وعدہ کرو تو پورا کرو، جب امین بنائے جاؤ تو ادا کرو، اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو، اپنی نگاہیں نیچے رکھو، اپنے
ہاتھ روکو۔ شرح: وَعْدَہ سے مراد جائز وعدہ ہے وعدہ کا پورا
کرنا ضروری ہے مسلمان سے وعدہ کرو یا کافر سے عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے استاذ
،شیخ، نبی، اللہ پاک سے کیے ہوئے تمام وعدے پورے کرو، ہاں اگر کسی سے حرام کام کا
وعدہ کیا ہے اسے ہرگز پورا نہ کرے حتی کہ حرام کام کی نَذر (مَنَّت) پوری کرنا
حرام ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،جلد:6 حدیث:4870 ،بالتصرف)
(4) جب کوئی شخص اپنے بھائی سے وعدہ کرے اور اس کی نِیَّت پورا
کرنے کی ہو پھر پورا نہ کر سکے وعدہ پر نہ آسکے تو اُس پر گناہ نہیں۔ شرح: اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا اِرادہ
رکھتا ہو مگر کسی عُذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کرسکے تو وہ گُنہگار نہیں، یوں
ہی اگر کسی کی نیت وعدہ خلافی کی ہو مگر اتفاقًا پورا کردے تو گنہگار ہے اس
بَدنِیَّتِی کی وجہ سے ہر وعدہ میں نِیَّت کو بڑا دخل ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح
مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 حدیث:4881 ،بالتصرف)
(5)اپنے بھائی سے نہ جھگڑا کرو نہ اس کا مذاق اُڑاؤ نہ اس سے
کوئی وعدہ کرو جو خلاف کرو۔(یعنی ایسا وعدہ نہ کرو جس کو تم پورا نہ کر سکو) اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا کہ وہ ہمیں جائز
وعدوں کو پور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
بجاہِ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد مختار الحیدری (درجہ
دورۂ حدیث جامعۃُ المدينہ فیضان اولیا احمدآباد، ہند)

اسلام امن وسلامتی کا دین ہے۔ کیوں کہ اسلام کا معنی ہی امن سلامتی و خیرو
عافیت کے ہیں لہٰذا اپنے معنی کے اعتبار سے ہی اسلام ایک ایسا دین ہے جو خود بھی
سراپا سلامتی ہے اور دوسروں کو بھی امن و سلامتی، محبت و رواداری، اعتدال و توازن
اور صبر و تحمل کی تعلیم دیتا ہے۔ اس وجہ سے اپنے مطیع و فرمانبرداروں سے معلومات
زندگی میں کسی قسم کی کوتاہی و غلفت برداشت نہیں کرتا ہے۔ خصوصاً جب معاملہ حقوقُ
العباد کا ہو تو اس وقت اہمیت و حساسیت اور بڑھ جاتی ہے۔ اسلام اپنی تعلیمات
میں انسانی اعلی اقدار اور قابل قدر صفات
کو ترجیح دیتا ہے اسلام ہی وہ دین ہے جس میں اعلی قدر کی صفات اپنے دامن میں سمایا
ہوا ہے۔ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس میں بے شمار خوبیاں پائی جاتی ہے۔ اس کی بے
شمار صفات میں ایک صفت ایفائے عہد و وعدے کی پابندی بھی ہے ۔ اس کا تعلق حقوق اللہ
و حقوق العباد دنوں سے ہیں۔ اگر کوئی اس صفت سے متصف ہوتا ہے تو معاشرے میں اس کی
عزت و احترام بڑھ جاتی ہے۔ لیکن اگر کوئی اس صفت خالی ہوتا ہے تو وہ انسانیت کے
شرف سے ہی عاری سمجھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے
ایفائے عہد پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ قراٰن
و احادیث میں بکثرت حکم ملتا ہے وعدہ کرو تو پورا کرو۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: وَ اَوْفُوْا
بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) ترجمۂ کنزالایمان: اور عہد پورا کرو بےشک عہد سے سوال ہونا ہے۔(پ15، بنٓی اسرآءیل:34)
بد عہدی کی تعریف: معاہدہ کرنے کے بعد اس کے خلاف ورزی کرنا غدر یعنی بد عہدی
کہلاتا ہے۔( باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 170)
بد عہدی کا حکم: عہد کی پاسداری کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور غدر یعنی بد
عہدی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ( باطنی بیماریوں کی معلومات، ص
172)
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے ارشادات
کے ذریعے بھی ایفائے عہد کی اہمیت اور وعدہ خلافی کی بُرائی کو بیان فرمایا ہے۔ (1) چنانچہ ارشاد
فرمایا: چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس کے
اندر ان میں سے کوئی ایک ہو تو اس
میں نفاق کا ایک حصہ ہے یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے(1)جب اسے امانت سپرد کی جائے
تو خیانت کرے۔(2)جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔(3) جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔(4)جب
جھگڑا کرے تو بیہودہ بکے۔( بخاری، کتاب الایمان، باب علامۃ المنافق، 1/ 10 ، حدیث:
34 ،مکتبہ فیصل)
(2)حضرت علی المرتضیٰ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا
: مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے، جو کسی مسلمان کا عہد توڑے تو اس پر اللہ پاک ،فرشتوں
اور تمام انسانوں کی لعنت ہے، نہ ا س کی کوئی فرض عبادت قبول کی جائے گی اور نہ
نفل۔(بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب حرم المدینۃ، 1/ 251 ، حدیث:1870 )
(3)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن
تین شخصوں کا مدِّ مقابل ہوں گا، ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی
کرے ۔دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے ۔ تیسرا وہ شخص جو مزدور
سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے۔(بخاری، کتاب البیوع، باب اثم من باع
حرًّا، 1/ 297 ، حدیث:2227)
(4)وعَنْ
أَنَسٍ قَالَ: قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَالَ: «لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهٗ وَلَا
دِيْنَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ» روایت ہے حضرت انس
سے کہ یہ بہت کم تھا کہ حضور ہمیں اس کے بغیر وعظ فرمائیں کہ جو امین نہیں اس کا
ایمان نہیں جو پابند وعدہ نہیں اس کا دین نہیں ( مشكوٰة المصابيح كتاب الايمان ،ص
15 ،مجلس البركات)
(5) ان لكل غادر لواء يوم القيامة بقدر غدرته في الدنيا ولا غدر اكبر من غدر امير العامة
يغرز لواوه عند استه » قیامت کے روز ہر دغا باز کے لیے اس کی دنیاوی دغا بازی کے
مطابق جھنڈا ہوگا اور حاکم کی عام دغا بازی سے بڑھ کر کوئی دغا بازی نہیں اس کا
جھنڈا اس کے پاخانے کی جگہ کے پاس گاڑا جائے گا۔( مرآۃ المناجیح ، جلد:6 ،حدیث : 5145) اس حدیث پاک کے تحت
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: دنیا میں جو بھی
شخص دھوکہ بازی اور خیانت کرے گا قیامت کے دن سب کے سامنے ذلیل و رسوا ہوگا، حکمرانوں
اور بڑے بڑے افسروں کو خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔ ( مرآۃ المناجیح
شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:6 ،حدیث : 5145)

اللہ پاک کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان
بنایا اور پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دامنِ اطہر ہمارے ہاتھوں
میں دیا۔ پیارے اسلامی بھائیوں ہر بالغ مسلمان مرد و عورت شریعت کا مکلف و پابند
ہے۔ جس طرح شریعتِ محمدیہ میں نماز ، روزہ ، زکوٰۃ وغیرہ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے
اسی طرح شریعتِ محمدیہ میں وعدہ پورا کرنے کو بھی بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ قراٰن و حدیث میں جگہ جگہ وعدہ پورا کرنے کی
فضیلتیں اور وعدہ خلافی کرنے کی مذمتیں وارد ہے۔ وعدے کی اہمیت کو جاننے اور وعدہ
خلافی سے بچنے کیلئے چند احادیث پیش خدمت ہے تاکہ مسلمان انہیں پڑھے اور ان پر عمل
کریں۔
(1) آخری نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اپنے
بھائی سے نہ جھگڑا کرو، نہ اس کا مذاق اڑاؤ ،نہ اس سے کوئی وعدہ کرو جو خلاف کرو ۔
شرح: یہاں وعدے سے وہ
وعدہ مراد ہے جو جائز ہو،بعض فقہاء کے نزدیک ایسا وعدہ پورا کرنا واجب ہے، اکثر کے
ہاں مستحب ہے اگر وعدہ کے وقت ان شاء الله کہہ دیا جاوے تو سب کے نزدیک اس کا پورا کرنا
مستحب ہے۔(مرآۃالمناجیح شرح مشکوٰۃ ج
:6 حدیث :4892)
(2) نور والے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اللہ
تعالٰی فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مدمقابل ہوں گا ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد
شکنی کرے ۲؎ دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے
پھر اس کی قیمت کھائے تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ
دے ۔شرح: یعنی سخت سزا دوں گا جیسے کوئی دشمن اپنے دشمن
پر قابو پائے تو اس کی کوئی رعایت نہیں کرتا، ایسے ہی میں انکی رعایت و رحم نہ
کروں گا لہذا یہ حدیث واضح ہے۔ اس کی بہت صورتیں ہیں:کسی کو خدا کا نام لے کر امان
دی پھر موقعہ پاکر اسے قتل کردیا،کسی سے رب کی قسم کھا کر کوئی وعدہ کیا پھر پورا
نہ کیا،عورت سے رب تعالٰی کا نام لے کر بہت سے وعدوں پر نکاح کیا،پھر وہ ادا نہ
کیے۔(مرآۃالمناجیح ، ج:4 ،حدیث :2984)
(3) غیب داں نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ
تم لوگ اپنے نفس کی طرف سے میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن بن جاؤ میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں جب بات کرو سچ
کہو، جب وعدہ کرو تو پورا کرو،جب امین بنائے جاؤ تو ادا کرو، اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو، اپنی نگاہیں نیچے رکھو، اپنے ہاتھ روکو ۔شرح: ۲؎ وعدہ سے مراد جائز وعدہ ہے وعدہ کا پورا کرنا ضروری ہے مسلمان سے وعدہ کرو
یا کافر سے عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے استاذ،شیخ،نبی،الله تعالٰی سے کیے ہوئے تمام وعدے پورے کرو، ہاں اگر
کسی سے حرام کام کا وعدہ کیا ہے اسے ہرگز پورا نہ کرے حتی کہ حرام کام کی نذر پوری
کرنا حرام ہے۔(مرآۃالمناجیح ، ج :6 ،حدیث :4870)
(4) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول الله صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز میں دعا مانگتے تھے کہتے تھے الٰہی میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے اور
تیری پناہ مانگتا ہوں مسیح دجال کے فتنہ سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور
موت کے فتنوں سے الہی میں تیری پناہ مانگتا ہوں گناہ اور قرض سے کسی نے عرض کیا
حضور قرض سے اتنی زیادہ پناہ مانگتے ہیں تو فرمایا کہ آدمی جب مقروض ہوتا ہے بات
کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے تو خلاف کرتا ہےشرح: یعنی قرض بہت سے گناہوں
کا ذریعہ ہے عمومًا مقروض قرض خواہ کے تقاضے کے وقت جھوٹ بھی بولتے ہیں کہ گھر میں
چھپ کر کہلوا دیتا ہے کہ وہ گھر پر نہیں اور اگر پکڑے گئے تو کہہ دیا ہمارا مال
آنے والا ہے جلدی دیں گے، وعدہ خلافی بھی کرتے ہیں کہ کل لے جانا مگر دیتے نہیں۔(مرآۃالمناجیح
، ج:2 حدیث :939)
(5) روایت ہے حضرت انس سے کہ یہ بہت کم تھا کہ حضور ہمیں اس کے
بغیر وعظ فرمائیں کہ جو امین نہیں اس کا ایمان نہیں جو پابند وعدہ نہیں اس کا دین
نہیں۔ شرح: یعنی امانت
داری اور پابندی وعدہ کے بغیر ایمان اور دین کامل نہیں۔(مرآۃالمناجیح ، ج:1 حدیث :35)
فیضان رضا(درجہ دورۂ حدیث جامعۃُ المدینہ فیضان اولیا
احمدآباد، ہند، ہند)

پیارے اسلامی بھائیوں! آج اس پر فتن دور میں جہاں ظاہری گناہوں کا
بازار گرم ہے ایسے ہی قلبی گناہوں کا بھی دور دورا ہے ان ہی باطنی گناہوں میں سے
ایک وعدہ خلافی ہے کہ ہر شخص کوئی نہ کوئی وعدہ کرتا ہے لیکن اس کو پورا کرنے کی
طرف نظر بھی نہیں گھماتا۔ یوں ہی ہم قرض لیتے وقت جلد ہی ادا کرنے کا وعدہ کرتے
ہیں مگر وہ تاریخ جانے کے سالوں بعد بھی وہ آپ کے گھروں کے چکر کاٹتا رہتا ہے تو
پیارے بھائیوں! آئیے وعدہ خلافی کی تعریف ، حکم اور اس کی مذمت پر چند احادیث پیش کرتا ہوں تاکہ اس
میں غور و فکر کر کے ہم وعدہ خلافی بچ پائیں:۔
تعریف: معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا غدر یعنی بد عہدی کہلاتی ہے (باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص 170) حکم: خلف وعدہ جس کی تین صورتیں
ہیں اگر وعدہ سرے سے صرف زبانی بطور دنیا سازی کیا اور اُسی وقت دل میں تھا کہ
وفا(پورا) نہ کریں گے تو بے ضرورتِ شرعی وحالتِ مجبوری سخت گناہ و حرام ہے ایسے ہی
خلافِ وعدہ کو حدیث میں علاماتِ نفاق سے شمار کیا اور اگر وعدہ سچے دل سے کیا پھر
کوئی عذر مقبول وسبب معقول پیدا ہوا تو وفا نہ کرنے میں کچھ حرج کیا ادنٰی کراہت بھی نہیں اور اگر کوئی عذر و مصلحت نہیں
بلاوجہ نسبت چھڑائی جاتی ہے تو یہ صورت مکروہ تنزیہی ہے۔(فتاوی رضویہ ،12/ 281 تا
283)
(1) حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس کے
اندر ان میں سے کوئی ایک ہو تو اس
میں نفاق کا ایک حصہ ہے یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے۔(1) جب اسے امانت سپرد کی
جائے تو خیانت کرے۔(2) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔(3) جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔(4)
جب جھگڑا کرے تو بیہودہ بکے۔( بخاری، کتاب الایمان، باب علامۃ المنافق، 1/16،
حدیث: 33)
( 2) حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: اللہ پاک فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مدِّ مقابل ہوں
گا، ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے۔ دوسرا وہ شخص جو آزاد کو
بیچے پھر اس کی قیمت کھائے ۔ تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی
مزدوری نہ دے۔(بخاری، کتاب البیوع، باب اثم من باع حرًّا،3/ 82 ،حدیث: 2227)
(3) روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ہمیں خطبہ دیتے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے:
جو امین نہیں اس کا ایمان نہیں جو پابند وعدہ نہیں اس کا دین نہیں۔ (شعب الایمان
للبیہقی الایمان، 6/ 196 ،حدیث : 4045)شرح حدیث : یعنی امانت داری
اور پابندی وعدہ کے بغیر ایمان اور دین کامل نہیں۔ عہد میں میثاق کے دن رب سے عہد،
بیعت کے وقت شیخ سے عہد، نکاح کے وقت خاوند یا بیوی سے عہد، جو جائز وعدہ دوست سے
کیا جائے یہ سب داخل ہیں۔ ان سب کا پورا کرنا لازم و ناجائز وعدہ توڑنا ضروری اگر
کسی سے زنا، چوری، حرام خوری یا کفر کا وعدہ کیا تو اسے ہرگز پورا نہ کرے کہ یہ رب
کے عہد کے مقابلے میں ہے۔ الله رسول سے وعدہ کیا ہے ان سے بچنے کا اسے پورا کرے۔
(مرآۃ المناجیح، 1/ 51)
(4)حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے، جو کسی مسلمان کا عہد
توڑے تو اس پر اللہ پاک ،فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے، نہ ا س کی کوئی فرض
عبادت قبول کی جائے گی اور نہ نفل۔(بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب حرم المدینۃ، 3/20، حدیث: 1870)
(5) رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ بدعہد کے لیے قیامت کے دن جھنڈا گاڑھا جائے
گا تو کہا جائے گا کہ یہ فلاں ابن فلاں کی بدعہدی ہے۔ (مسلم شریف، 3/ 1360 ،حدیث :
1735)
اویس رضا عطاری (درجہ دورۂ حدیث جامعۃُ المدینہ فیضانِ اولیا احمدآباد ، ہند)

شریعت اسلامیہ نے مسلمانوں کو جن احکامات اور اصولوں کا
پابند بنایا ہے جن کے سبب اسلامی معاشرے
میں سکون اور اطمینان کی خوشگوار فضا قائم ہوتی ہے اور معاشرہ پر امن بنتا ہے انہی
احکامات میں سے ایک حکم افائے عہد یعنی (وعدہ پورا کرنا ) بھی ہے چونکہ انسان جب تک اس فانی دنیا میں اپنی زندگی
گزارتا ہے تو اُسے اپنی زندگی میں مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس میں انسان ایک
دوسرے سے لین دین کا محتاج ہوتا ہے ، اس لین دین میں اکثر عہد و پیمان کی نوبت آتی
ہے اور وعده کرنے والے پر دوسرا شخص بھروسہ اور اعتماد کرتا ہے اور بعض دفعہ اسی
اعتماد پر بہت سارے معاملات طے کیے جاتے ہیں اسی لیے وعدے کی بڑی اہمیت ہے اسی لئے
اسلام میں بڑی تاکید کے ساتھ عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور عہد شکنی کی
مذمت کی گئی ہے چنانچہ اللہ رب العزّت قراٰن کریم میں فرماتا ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ
مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) تَرجَمۂ کنزُ الایمان: اور عہد پورا کرو بےشک عہد سے سوال ہونا ہے ۔(پ15، بنی
اسرائیل:34)
فرمانِ مصطفےٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: تمہارے بہترین لوگ وہ ہیں جو وعدہ پورا کرتے ہیں۔(مسند
ابی یعلیٰ،1/451،حدیث:1047)اسی طرح کئی احادیث و آیات قراٰنی بھی ہے جس سے پتہ
چلتا ہے کہ وعدہ پورا کرنا بندے اور معاشرے پر کتنا ضروری ہے۔سید ی اعلیٰ حضرت
امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ وعدہ خلافی کے متعلق حکم ارشاد فرماتے ہیں کہ : (1) اگر وعدہ سرے سے صرف زبانی بطور دنیا سازی
کیا اور اس وقت دل میں تھا کہ وفا نہ کرے گا تو بے ضرورت شرعی و حالتِ مجبوری سخت
گناہ و حرام ہے اسی خلاف وعدہ کو حدیث میں علامات نفاق سے شمار کیا گیا ہے۔( فتاوی
رضویہ، 12/281 تا 283، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
آئیے وعدہ خلافی کی
مذمت پر 5 احادیث ملاحظہ کریں :(1) حضرت علی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان
عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے، اس پر اللہ پاک اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت
ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہو گا نہ نفل۔ ( بخاری، 2/370، حدیث: 3179)(2) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: منافق کی
تین علامتیں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس
کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔(صحيح البخاري، كتاب الإيمان ،
باب: علامۃ المنافق، حديث:33)
(3) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے کہ
اللہ پاک نے فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں جن کا میں قیامت کے دن خصم بنوں گا (یعنی
ان کے خلاف مقدمہ کھڑا کروں گا)۔ان میں ایک وہ ہے جس نے میرا واسطہ دے کر کوئی
معاہدہ کیا اور پھر اسے توڑ دیا۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب اثم من باع حُرّاً،
حديث:2227) (4)حضرت
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے سنا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا: ہر عہد شکن کے لئے قیامت کے دن ایک نیزہ گاڑا جائے گا۔(جامع ترمذی، باب
جہاد، حديث:1584)
(5) حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جو
بدعہد ہے اس کا کوئی دین نہیں۔( معجم الكبير،10/227 ، حديث:10553)(مطلب یہ ہے کہ
امانت میں خیانت کرنے والا کامل مؤمن نہیں ہو سکتا اور جو بدعہدی کرے، عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے
اس کا کوئی دین نہیں۔ (یعنی مذہبِ اسلام اور شریعتِ اسلامیہ سے اس کا کوئی تعلق
نہیں)
المختصر یہ کہ وعدہ پورا کرنا اہلِ ایمان کا امتیازی وصف
ہے۔ اس سے ان کی شناخت بنتی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ وعدہ خلافی مؤمن کی شان کے
خلاف ہے۔ اگر وعدہ کسی سے کیا جائے تو اس کا پورا کرنا بلا شبہ قراٰن و حدیث کی
رُو سے لازمی ہے۔ اس کی خلاف ورزی ایک بد ترین خصلت ہے اور عند اللہ انتہائی
ناپسندیدہ عمل ہے ۔ یہ برائی دنیا میں موجبِ وبال ہے اور آخرت میں باعثِ ذلت و رسوائی ہوگی۔
محمد طارق رضا عطاری (درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضان امام احمد رضا حیدرآباد،ہند)

حضرت انس رضی اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ایسا بہت کم ہوتا
تھا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں اس کے بغیر وعظ فرمائیں کہ جو
امین نہیں اس کا ایمان نہیں جو پابند وعدہ نہیں اس کا دین نہیں۔
اس حدیث
کی شرح میں مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ
فرماتے ہیں کہ امانت داری اور پابندی وعدہ کے بغیر ایمان اور دین کامل نہیں، امانت
میں مال و زر لوگوں کی عزت و آبرو ریزی حتی کہ عورت کی اپنی عفت سب داخل ہیں، بلکہ
سارے اعمال صالحہ بھی اللہ پاک کی امانتیں
ہیں۔ حضور سے عشق و محبّت حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امانت ہے، رب
فرماتا ہے۔ " اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ "الخ۔ عہد میں میثاق کے دن رب سے عہد، بیعت کے وقت
شیخ سے عہد، نکاح کے وقت خاوند یا بیوی سے عہد، جو جائز وعدہ دوست سے کیا جائے یہ
سب داخل ہیں۔ ان سب کا پورا کرنا لازم اور ناجائز وعدہ توڑنا ضروری اگر کسی سے
زنا، چوری، حرام خوری یا کفر کا وعدہ کیا تو اسے ہرگز پورا نہ کرے کہ یہ رب کے عہد
کے مقابلے میں ہے۔ الله رسول سے وعدہ کیا
ہے ان سے بچنے کا، اسے پورا کرے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، 1/45، حدیث:
35،نعیمی کتب خانہ گجرات )
ایک اور
حدیث پاک میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ منافق کی نشانیاں تین ہیں: جب بات کرے جھوٹ بولے ،جب وعدہ کرے وعدہ خلافی
کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ۔
اس حدیث کی
شرح کرتے ہوئے فقیہ اعظم ہند مفتی شریف الحق امجدی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں منافق کی تین ایسی علامتیں بیان
کی گئیں جن کا تعلق قول عمل نیت میں سے ایک ایک سے ہے، کذب فسادِ قول ہے ،خیانت
فسادِ عمل ہے اور وعدہ خلافی فسادِ نیت ہے۔جو منافق ہوگا اس میں یہ تین باتیں ضرور
ہوں گی لیکن یہ ضروری نہیں کہ جس میں یہ تین باتیں پائی جائیں وہ منافق بھی ضرور
ہو جیسے کفار ومشرکین اس لیے اگر کسی مسلمان میں یہ باتیں پائی جائیں اسے منافق
کہنا جائز نہیں ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں نفاق کی علامت ہے ۔ (نزہۃ القاری،1/348)
علامہ قرطبی نے فرمایا کہ نفاق کی دو قسمیں ہیں : ایک نفاق
فی الاعتقاد کہ جو زبان سے اپنے آپ کو مسلمان کہے اور دل میں کفر رکھے۔ دوسر سے
نفاق فی العمل، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کام کرے جو مسلمانوں کے شایان شان نہ
ہو منافقین کے کرتوت ہوں جیسے یہ تینوں عیوب، جو مسلمان اس کا مر تکب ہو، وہ نفاق
فی العمل کا مرتکب ہے۔ (نزھۃالقاری شرح صحیح البخاری، 1/348،حدیث: 31، فرید بک
سٹال لاہور)
حضرت حذیفہ
بن یمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگِ بدر میں میرے شامل نہ ہونے کی وجہ صرف
یہ تھی کہ میں اور میرے والد حسیل رضی اللہ عنہ (جو یمان کے لقب سے معروف تھے)
دونوں نکلے تو ہمیں کفار قریش نے پکڑلیا اور کہا : تم محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے پاس جانے کا ارادہ کر رہے ہو؟ ہم نے کہا : ان کے پاس جانے کا ارادہ نہیں
کرتے، ہم تو صرف مدینہ منورہ جانے کا ارادہ کر رہے ہیں ۔ انہوں نے ہم سے اللہ کے
نام پر یہ عہد اور میثاق لیا کہ ہم مدینہ جائیں گے لیکن آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے ساتھ مل کر جنگ نہیں کر یں گے ، ہم نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو یہ خبر دی ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا : تم دونوں لوٹ جاؤ، ہم
ان سے کیا ہوا عہد پورا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ پاک سے مدد مانگیں گے۔ (مسلم،
5/481، حدیث: 4636)
نوید اختر عطّاری (دورۂ حدیث مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضان
ِمدینہ فیصل آباد پاکستان)

اللہ ربُّ العزت مؤمنین سے ارشاد فرماتا ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا
اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ-﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے
ایمان والو اپنے قول (عہد) پورے کرو۔(پ6، المآئدۃ:1)
عُقود کے معنی ہےعہد یعنی وعدہ اور اقرار، انہیں پورا کرنے کا حکم دیا گیا
ہے۔ اس سے مراد کون سے عہد ہیں؟ اس بارے میں مفسرین کے چند اقوال ہیں جن میں سے دو
قول یہاں پر ذکر کئے جاتے ہیں:(1)حضرت عبداللہ بن عباس رضی
اللہُ عنہما نے فرمایا کہ ان عقود یعنی عہدوں سے مراد ایمان اور وہ عہد ہیں
جو حرام و حلال کے متعلق قراٰنِ پاک میں بیان کئے گئے۔(2)بعض مفسرین کا قول ہے کہ
اس میں مؤمنین کے باہمی معاہدے مراد ہیں۔(خازن، المآئدۃ،
تحت الآیۃ:1، 1/458)
وعدے کی تعریف اور حکم وعدے کا لغوی
معنی اقرار، قول و قرار،عہد، پیمان وغیرہ
ہےاور اصطلاح میں کسی چیز کی امید دلانے کو وعدہ کہتے ہیں۔جیسے میں تم کو کچھ دوں گا ”وعدہ“ ہے۔(مراٰۃ
المناجیح، 6/ 488 ملتقطاً) حکیمُ الامّت
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: وعدہ کا پورا کرنا ضروری ہے۔ مسلمان سے وعدہ کرو یا کافر سے،
عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے، اُستاذ،
شیخ، نبی، اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے تمام وعدے پورے کرو۔ اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ
رکھتا ہو مگر کسی عُذر یا
مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کرسکے تو وہ گنہگار نہیں۔(مراٰۃ المناجیح، 6/483،
492) فتاویٰ رضویہ میں الاشباہ و النظائر کے حوالے سے لکھاہے: خُلْفُ الْوَعْدِ حَرَامٌ یعنی وعدہ جھوٹا کرنا حرام ہے۔ (فتاویٰ رضویہ،25/69) وعدہ کیلئے لفظِ وعدہ کہنا ضروری نہیں بلکہ انداز و الفاظ سے اپنی بات کی
تاکید ظاہر کی مثلاً وعدے کے طور پر طے کیا کہ
”فُلاں کام کروں گا یا فُلاں کام نہیں کروں گا“ وعدہ ہوجائے گا۔(غیبت کی تباہ کاریاں،
ص461 ملخصاً)
وعدہ خلافی کیا ہے؟ وعدہ
خلافی یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت اسے پورا کرنے کی نہ ہو ۔ (فتاویٰ
رضویہ ،10/273)
وعدہ خلافی کی مذمت احادیث کی روشنی میں وعدے کا پورا کرنا بندے کی عزّت و
وقار میں اضافے کا سبب ہے جبکہ قول و اقرار سے رُوگردانی اور عہد (وعدہ) کی خلاف ورزی بندے کو دوسروں
کی نظروں سے گرا دیتی ہے۔ وعدہ خلافی کی
مذمت کے حوالے سے 3 فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھئے:
(1)اللہ پاک کے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: چار علامتیں جس شخص میں
ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا اور ان میں سے ایک علامت بھی جس میں ہوئی تو اس شخص میں
نفاق کی ایک علامت پائی گئی یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: (۱)جب امانت دی جائے تو
خیانت کرے (۲)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۳)جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے (۴)جب
جھگڑا کرے تو گالی بکے۔(بخاری،1/25،حدیث:34)
(2)حُضور نبیِّ کریم، رؤفُ رَّحیم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:جس قوم نے وعدہ خلافی کی ان کے درمیان قتل و غارت عام ہو گئی اور جس
قوم میں بُرائی ظاہر ہوئی اللہ پاک نے اُن پر موت کو مسلَّط کر دیا اور جس قوم نے
زکوٰۃ روکی اللہ پاک نے اُن سے بارش روک لی۔(مستدرک،2/461،حدیث:2623)
(3)رسولِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ معظَّم ہے: جس نے کسی عہد والے پر
ظلم کیا یا اس کا عہد توڑا یا اسے طاقت سے زیادہ کام کا پابند کیا یا اس کی خوشی
کے بغیر اس سے کوئی چیز لے لی تو میں قیامت کے
دن اُس سے جھگڑا کروں گا۔ (ابوداؤد،3/230،حدیث:3052)
محمد اریب
(درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
کنز الایمان ، کراچی پاکستان)

حقیقت یہ ہے کہ اگر قرآن کو بنظر
ایمان دیکھا جائے تو اس میں اول سے آخر تک
نعت سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم معلوم ہوتی ہے ۔ حمد الہی ہو یا بیان عقائد، گزشتہ انبیا ء کرام علیہم
السلام اور ان کی امتوں کے واقعات ہوں یا احکام ، غرض قراٰنِ کریم کا ہر موضوع اپنے
محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے محامد اور اوصاف کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے
۔ صحابۂ کرام ، اہل بیت عظام کے مناقب، مکہ مکر مہ مدینہ منورہ کے فضائل جو قراٰنِ کریم میں ارشاد ہوئے۔ وہ حقیقت میں نعتِ
مصطفی ہے۔بادشاہ کے غلاموں کی تعریف، اس کے
تخت و تاج کی مدحت در حقیقت بادشاہ کی ثناخوانی ہے ۔ کفار کی برائیاں ، بت پرستوں
کی مذمت بھی اسی شہنشاہ کی نعت ہے ۔
تخت ہے ان کا تاج ہے ان کا دونوں جہاں میں راج ہے ان کا
جن و ملک ہیں ان کے سپاہی رب کی خدائی میں ان کی شاہی
لیکن اس مختصر مضمون میں رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
صفات پر مشتمل دو آیات پیش کی جائیں گی۔
(1تا 5) اول ،آخر، ظاہر، باطن اور علیم:۔ هُوَ الْاَوَّلُ وَ
الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: وہی
اوّل وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن اور وہی سب کچھ جانتا ہے۔(پ 27 ، الحدید :3)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہ
علیہ نے مدارج النبوۃ کے خطبہ میں ارشاد فرمایا: یہ آیت کریمہ حمدِ الہی بھی ہے اور نعت مصطفی بھی۔
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے
اول اس طرح کہ سب سے پہلے آپ کا نور پیدا ہوا۔ سب سے پہلے نبوت آپ کو عطا ہوئی، بروز قیامت سب سے پہلے آپ کی
قبر کھولی جائے گی، آپ کو سب سے پہلے سجدے کا حکم ملے گا ، سب سے پہلے شفاعت فرمائیں گے، جنت میں تشریف لے جائیں گے۔ غرض کہ ہر جگہ اولیت کا سہرا ان ہی کے سرپر ہے۔( شان حبیب الرحمٰن)
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے آخر اس طرح کہ سب سے آخر حضور کا ظہور ہوا ۔ خاتم
النبیین آپ کا لقب ہوا، سب سے آخر حضور کو
کتاب ملی اور سب سے آخر حضور ہی کا دین ہے ۔
(6 تا 10) شاهد ،مبشر، نذیر ، داعی الی اللہ اور سرا جا منیرا : یٰۤاَیُّهَا
النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) وَّ
دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں
بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر
سناتا۔ اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکا دینے والا آفتاب۔ ( پ22،
الاحزاب:45،46 )
حضور شاھد اس طرح ہیں کہ دنیا میں خلق کے سامنے خالق، جنت، دوزخ اور تمام غیبی
خبروں کے گواہ ہیں اور آخرت میں خالق کے سامنے خلق کہ گواہ ہوں گے۔ (شان حبیب
الرحمن )
مبشر، نذیر ، داعی
الی اللہ اگرچہ پہلے انبیائے کرام بھی تھے
مگر ان میں اور حضور میں 3 فرق ہیں: پہلا
وہ سن کر یہ فرائض انجام دیتے تھے جبکہ حضور دیکھ کر ۔ دوسرا وہ خاص
جماعتوں کے لیے تھے۔ جبکہ حضور تمام عالم
کے لئے ۔ تیسرا وہ خاص وقتوں کے لئے تھے جبکہ حضور قیامت تک کے لئے ۔
حسن شہباز عطاری (درجۂ دورہ ٔ حدیث
جامعۃُ المدینہ فیضان مدینہ گوجرانوالہ پاکستان)

اللہ پاک قراٰن کریم میں ارشاد فرماتا ہے : وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے تم پر یہ
قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے ۔(پ14، النحل : 89)اعلیٰ حضرت امام
احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : شی ہر موجود کو کہا جاتا ہے جس کا
مطلب ہوا کہ فرش سے لیکر عرش تک ، مشرق سے
لیکر مغرب تک ، دلوں کے خطرات اور ارادے اور ان کے علاوہ اور بھی جو کچھ ہے سب اس
میں داخل ہے (یعنی ٰ اس قراٰن پاک میں ہر چیز کا بیان ہے روشن طریقے سے مذکور ہے )
( صراط الجنان، النحل آیۃ 89)یہی قراٰن پاک جہا ں ہمیں دوسری چیزوں کا بیان کرتا ہے
اسی طرح یہ سرکارِ مدینہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
شان پاک بھی بیان فرماتا ہے ۔
قراٰن پاک میں 10اوصاف مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
اللہ پاک نے قراٰن پاک میں ارشاد فرمایا کہ :لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ
مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)ترجَمۂ کنزُالایمان:بےشک تمہارے
پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری
بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان (پ 10، التوبۃ: 128) اس آیۃ مبارکہ میں اللہ پاک نے حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے چند اوصاف کا بیان فرمایا ہے :(1) عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ: جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے۔ تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کے تحت لکھا ہے یعنی تمہارا مشقت
میں پڑنا ان پر بہت بھاری گزرتا ہے اور مشقت کو دور کرنے میں سب سے اہم اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دور کرنا ہے اورنبئ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسی مشقت کو دور کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں ۔( صراط
الجنان التوبہ الآیۃ 128)
(2) حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ: تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے۔ تفسیرصراط الجنان میں ہے کہ : اس
سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ تو اپنی اور اپنی اولاد کے حریص ہوتے ہیں مگر یہ
رسول رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی
امت کی خیر خواہی اور بھلائی پر حریص ہیں اب امت پر ان کی حرص اور شفقت کی ملاحظہ
ہو ۔
حضرت زید بن خالد جُہنی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور
پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اگر مجھے اپنی امت پر
دشوار نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا اور عشاء کی
نماز کو تہائی رات تک مؤخر کر دیتا ۔
مسلم شریف کی حدیث مبارکہ ہے کہ آخری نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خطبہ میں جس میں حج فرض ہونے کا بیان فرمایا اس پر ایک شخص نے عرض کی: کیا ہر سال حج
فرض ہے اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سکوت (خاموشی )
اختیار فرمایا۔ سوال کرنے والے نے سوال کی تکرار کی تو ارشاد فرمایا: جو میں بیان
نہ کروں اس کے درپے نہ ہو اگر میں ہاں کہ دیتا تو ہر سال حج فرض ہو جاتا اور تم نہ
کر سکتے ۔
(3) بِالْمُؤْمِنِیْنَ
رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ: مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان
اس آیت میں اللہ پاک نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنے دو ناموں
سے مشرف فرمایا یہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کمال تکریم ہے کہ سرکار صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دنیا میں بھی رؤف و رحیم ہیں اور آخرت میں بھی ۔نبی پاک
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رحمت و رافت کے متعلق دو احادیث ملاحظہ فرمائیں
۔
(۱)حضرت عبد اللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قراٰن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے اس قول کی تلاوت فرمائی: رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ
كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ-فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۚ-وَ مَنْ
عَصَانِیْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۶)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے میرے رب بےشک بتوں نے بہت لوگ
بہکادئیے تو جس نے میرا ساتھ دیا وہ تو میرا ہے اور جس نے میرا کہا نہ مانا تو
بےشک تو بخشنے والا مہربان ہے ۔(پ13، ابراھیم: 36)اور وہ تلاوت فرمائی جس میں حضرت
یحی ٰ علیہ السّلام کا یہ قول ہے: اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ
اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۱۱۸) ترجَمۂ کنزُالایمان:اگر تو انہیں عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو
انہیں بخش دے تو بے شک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔(پ 7، المائدۃ: 118)تو حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر گریہ طاری ہو گیا اور اپنے دستِ اقدس اٹھا کر دعا
فرمائی اے اللہ پاک میری امت میری امت
اللہ پاک نے جبرئیل علیہ السّلام سے فرما یا میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی بارگاہ میں جاؤ اور ان سے پوچھو حالانکہ تمہارا رب خوب جانتا ہے مگر ان
سے پوچھو کہ انہیں کیا چیز رلائی ہے حضرت
جبرئیل علیہ السّلام حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے
اور پوچھا تو انہیں رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی عرض معروض کی
خبردی اللہ پاک نے حضرت جبرئیل سے فرمایا تم میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ ( إنا سنرضيك في أمتك
ولا نسوءك)کہ آپ کی امت کے معاملے میں ہم
آپ کو راضی کردیں گے اور آپ کو غمگین نہ کریں گے ۔
(۲) حضرت انس بن مالک فر ماتے ہیں میں نے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے قیامت کے دن اپنی شفاعت کا سوال کیا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں کروں گا۔ میں نے عرض نے کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں آپ کو کہاں تلاش کروں گا؟ ارشاد فرمایا سب سے پہلے مجھے
پل صراط پر تلاش کرنا میں نے عرض کی اگر پل صراط پر نہ پاؤں تو (کہاں تلاش کروں
) ارشاد فرما یا :مجھے میزان کے پاس تلاش
کرنا میں نے عرض کی اگر میں میزان کے پاس بھی آپ کو نہ پاؤں تو ارشاد فرما یا: پھر مجھے حوضِ کوثر
کے پاس ڈھونڈنا کیونکہ میں ان 3 مقامات سے
ادھر ادھر نہ ہوں گا۔
مولانا حامد رضا خان صاحب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
کبھی وہ گرتوں کو تھام لیں گے
کبھی وہ پیا سوں کو جام دیں گے
صراط و میزان حوض کوثر
یہیں وہ عالی مقام ہوگا
کل 3 اوصاف
بیان ہوچکے ۔
ایک اور جگہ قراٰن پاک میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اوصاف کا
بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ
نَذِیْرًاۙ(۴۵) ترجَمۂ کنزُالایمان:اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا
حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا (پ 22 ،الاحزاب: 45)اس آیت میں قراٰن کریم نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی چند اوصاف بیان کی ہیں جن میں سے
(5)یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ
اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی)
بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور
خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔(پ 22 ،الاحزاب: 45)تفسیر صراط الجنان میں شاہد کا ایک
معنیٰ ہوتا ہے حاضر و ناظر یعنی مشاہدہ کر نے والا اور ایک معنی یہ ہوتا ہے گواہ ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ نے یہاں حاضر و ناظر ترجمہ
فرمایا ہے اس کے بارے میں مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادی فرماتے ہیں شاہد کا
ترجمہ حاضر و ناظر بہت بہترین ہے اگر اس کا مطلب گواہی بھی کیا جائے پھر بھی وہ معنی
مراد ہوگا جو اعلیٰ حضرت نے کیا ہے کیونکہ گواہ کے لئے بھی شاہد ہونا ضروری ہوتا ہے ، چونکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام عالم کی طرف نبی بنا
کر بھیجے گئے ہیں اس لئے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قیامت تک ساری مخلوق
کے شاہد ہیں اور ان کے سارے اعمال و افعال و احوال کا مشاہدہ فرماتے ہیں ۔
(6) وصف بیان فرمایا (مُبَشِّرًا )یعنی خوشخبری دینے والا یعنی اللہ پاک اپنے حبیب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا ہے ۔(صراط الجنان، پ 22 ، الاحزاب الآیۃ 45،46)
(7) فرمایا ( نَذِیْرًاۙ) یعنی ڈر سنانے والا ۔ صراط الجنان
میں ہے کہ کافروں کی طرف حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جہنم کے عذاب کا
ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ۔( صراط
الجنان، پ 22 ، الاحزاب الآیۃ 45،46)
(8) ( دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ) اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا ۔
اس حصہ میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا چوتھا وصف بیان فرمایا گیا ہے کہ اے حبیب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ کو خدا کے حکم سے لوگوں کی خدا کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔حوالہ ( ایضا )
(9) اس آیت میں ارشاد فرما یا ( سِرَاجًا مُّنِیْرًا) اور چمکا دینے والا آفتاب ۔
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کیسے چمکا دینے والے آفتاب ہیں کہ حضرت
مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حقیقت میں
ہزاروں آفتابوں ( سورج ) کو روشنی آپ کے نورِ نبوت نے پہنچائی ہے اور کفر و شرک
کے اندھیروں کو اپنے نور سے آپ نے دور
فرما دیا۔ گمراہ لوگوں نے آپ کے نورِ
نبوت سے روشنی پائی اور صراط مستقیم کی طرف آگئے ۔ حقیقت میں آپ کا وجودِ مبارک
ایسا آفتاب عالم ہے جس نے ہزار ہا آفتاب بنادئیے ( صراط الجنان، الاحزاب الآیۃ
45،46)
(10)قراٰن پاک میں ایک اور جگہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وصف بیان
کیا گیا ہے ۔
اللہ پاک ارشاد فرما تاہے ( مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ)ترجَمۂ کنزُالایمان: محمد اللہ کے رسول ہیں ۔(پ26،الفتح:29)
صراط الجنان میں ہے کہ حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ
پاک نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بہت سارے اوصاف میں سے اس کا ذکر
کیوں فرمایا اور کلمہ شریف میں بھی اسی وصف رسالت کو ذکر کیوں فرمایا؟ فرماتے ہیں
اس کی دو وجہ ہیں : (۱)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا تعلق رب تعالیٰ کے
ساتھ بھی ہے اور مخلوق کے ساتھ بھی ہے اور لفظ رسول میں ان دونوں کا تذکرہ ہے یعنی
خدا کے بھیجے ہوئے اور مخلوق کی طرف بھیجے گئے ۔(۲)دوسرا اس پے کہ جس طرح ایک شہر
کا ڈاکیہ اور پورا ایک شعبہ ڈاک کا بنا
ہوتا ہے اگر یہ نہ ہو تو شہر اور ملک کٹ
جاویں یعنی یہ ڈاک کا شعبہ دو ملکوں دو شہروں کو ملا کر رکھتا ہے اسی طرح خالق و
مخلوق کے درمیان تعلق پیدا کرنے کے لئے رسول آتے ہیں اگر درمیان میں ان کا واسطہ
نہ ہو تو پھر خالق و مخلوق میں کوئی تعلق
ہی نہ رہے۔( صراط الجنان، سورۃ الفتح
الآیۃ 29)
(11)اللہ پاک نے قراٰن پاک میں حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بہت پیارا وصف بیان فرمایا کہ وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔ (پ 29،القلم: 4)
یعنی اے محبوب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عظیم اخلاق پر ہیں ۔
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاقِ کریمہ کیسے تھے احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں :
(۱)ایک مرد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی ام المؤ منین حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاقِ کریمہ کیسے تھے آپ نے ارشاد فرمایا: کیا
تم قراٰنِ کریم نہیں پڑھتے اس نے عرض کی کیوں کہ آپ نے ارشاد
فرمایا کہ ان کا اخلاق کریمہ قراٰن ہی ہیں۔
(۲)حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک نے اخلاق کے درجات مکمل کرنے اور اچھے اعمال
کے کمالات پورےکرنے کےلئے مجھ کو بھیجا ہے۔ (صراط الجنان، القلم الآیۃ 4)
تیرے خلق کو حق نے عظیم کہا تیرے
خلق کو حق نے جمیل کیا
محمد وقار
یونس عطاری (درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان غوث اعظم ولیکا کراچی پاکستان)

تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری
حیران ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
صفات "صفت" کی جمع ہے جس کے معنی ہیں خوبی ، کمال ۔ جس کے اندر جتنی
زیادہ صفا ت ہوتی ہیں اتنا ہی اس کا مرتبہ
بلند ہوتا ہے اور جو کوئی ذات عام دنیاوی مرتبے والی نہیں بلکہ کل کائنات کی سردار
ہو ، شافع محشر ہو ، جو وجہ تخلیق کائنات ہو ، ان کی صفات کا اندازہ کون کر سکتا ہے
، بقولِ شاعر :
صدیاں گزر گئیں اور قلم ٹوٹ گئے
تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورانہ ہوا
آئیے اب پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی وہ صفات جو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رب تعالیٰ نے
اپنے کلام پاک میں ذکر فرمائی ہیں، ان میں سے چند سنتے ہیں :
(1) سب سے آخری نبی : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک نے سب
سے آخری نبی بنا کر بھیجا ، یہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سب سے بڑی
صفت ہے یہاں تک آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اس صفت کو ماننا ضروریات دین
میں سے ہے کہ اس کو نہ ماننے والا یا اس
میں زرہ برابر شک کرنے والا اسلام سے خارج
اور کافر و مرتد ہے ۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اس صفت کو اللہ پاک نے
قراٰن کریم میں یوں ذکر کیا ہے : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ
اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجمۂ کنز الایمان: محمّد تمہارے
مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ
سب کچھ جانتا ہے۔( پ 22، الاحزاب : 40)
(2)تمام جہانوں کے لئے رحمت : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ایک صفت
یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ۔ چنانچہ
ارشاد فرمایا : وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا
رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)ترجمۂ کنز الایمان: اور
ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔ (پ 17، الانبیا: 107)
(3)علم غیب جاننے والے : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا علم غیب
جاننے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کو روزِ اول سے روزِ آخرت تک کا علم عطا فرمایا ہے ( دس اسلامی
عقیدے ، ص41، مکتبۃ المدینہ ) چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ
تَعْلَمُؕترجمۂ کنز الایمان : اور تمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے۔(پ 5،النسا:
113)مفسر قراٰن مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں : ثابت
ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تمام کائنات کے
علوم عطا فرمائے ہیں۔ (خزائن العرفان )
(4)حاضر و ناظر : حاضر و ناظرکا معنیٰ یہ ہے کہ
"قوت قدسیہ والا ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالم کو اپنے کف دست( ہتھیلی) کی طرح
دیکھے اور دور و قریب کی آوازیں سنے یا ایک آن میں تمام عالم کی سیر کرے صدہا
کوس (بہت دور) ہر حاجت مندوں کی حاجت روائی کرے۔(جاء الحق، ص116) آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے یہ
صفت قراٰن کریم سے ثابت ہے ۔ چنا نچہ ارشاد ہوتا ہے : یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ
مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) ترجمۂ کنزالایمان : اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں
بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔(پ 22 ، الاحزاب: 45)
(5،6)خوشخبری و ڈر سنانے والا : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی ایک صفت یہ بھی ہے آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ایمان والوں کو جنت کی خوشخبری دیتے ہیں جیسا کہ کثیر احادیثِ
مبارکہ سے ثابت ہے۔ اسی طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافروں کو جہنم کا
ڈر سنایا کرتے تھے ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ان دونوں صفات کا تذکرہ
قراٰن پاک میں موجود ہے جیسا کہ ماقبل ( پچھلی ) آیتِ کریمہ میں گزا ہے۔ مزید ایک اور جگہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا
مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۘ(۱۰۵)ترجمۂ کنز الایمان : اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر خوشی اور ڈر سناتا۔(پ 15،
بنی اسرائیل:105)
(7)اعلیٰ اخلاق والا:جس طرح آپ کی ذات بابرکت تمام
انسانوں سے افضل و اعلیٰ ہے اسی طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاق
بھی سب سے بلند و بالا ہیں جس کی گواہی خود ذات باری نے دی ہے ، ارشاد ہوتا ہے :وَ اِنَّكَ لَعَلٰى
خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴)ترجمہ ٔ کنز
الایمان :اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی
ہے۔(پ 29، القلم: 4)
(8)نرم دل : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہایت نرم دل تھے یہاں
تک کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جانوروں پر بھی شفقت فرماتے تھے ۔ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نرم دلی قراٰن کریم میں اس طرح بیان ہوئی ہے :فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ
لِنْتَ لَهُمْۚ ترجمۂ کنزا لایمان : تو
کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لیے نرم دل ہوئے۔(پ 4سورہ آل
عمران آیۃ 159)
(9)حیا: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ کریمہ جہاں
اتنی صفات میں کامل ہے وہیں حیا کی دولت میں بھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم درجہ کمال پر فائز ہیں ،آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیا کا تذکرہ
قراٰن کریم میں کچھ اس طرح ہے : اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘ ترجمہ ٔ کنز الایمان : بےشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ
فرماتے تھے ۔(پ 22،
الاحزاب: 53)
(10)سخاوت : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سخاوت کو قراٰن کریم
میں اس طرح بیان کیا گیا ہے :اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖۚترجمہ ٔ کنز الایمان: یہی نہ کہ
اللہ و رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔( پ 10، التوبۃ: 74)
تمہارے در کے ٹکروں سے پڑا پلتا ہے
اک عالم
گزارا سب کا ہوتا ہے اسی محتاج
خانے سے
علی حسن بن غلام مصطفیٰ (جامعۃُ المدینہ فیضان غوث اعظم
ولیکا ، کراچی پاکستان)

محبت دل کی قلبی میلان کو کہتے ہیں اور اس قلبی میلان کی
وجہ وہ خوبیاں ہیں جو محبوب کے اندر پائی جاتی ہے اور جس کے اندر جتنی خوبیاں
زیادہ ہوں دل اس کی طرف مائل ہوتا ہے اور وہ ذات جن کی وجہ سے رب نے پوری کائنات بنائی ، جن کو اپنا محبوب
بنایا ان کی صفات کا اندازہ کون کر سکتا
ہے اور وہ ذات کوئی اور نہیں بلکہ تمام نبیوں کے سر ور حبیب اکبر محمد صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات ہے۔
آئیے
اب ہم قراٰنِ کریم آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی دس صفات کو سن کر اپنے دلوں میں پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے عشق کی شمع کو روشن کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
(1) تمام مخلوقات کے رسول : تمام
انبیا علیہمُ السّلام مخصوص قوموں کی طرف مبعوث کیے گئے اور ہمارے
نبی مصطفیٰ جانِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام مخلوقات کے رسول ہیں ۔
اللہ پاک پیارے آقا صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے فرماتا ہے : مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ
لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(۲۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اے محبوب ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو
تمام آدمیوں کو گھیرنے والی ہے خوشخبری دیتا اور ڈر سناتالیکن بہت لوگ نہیں جانتے ۔ (پ 22،سبا : 28)
(2)سراپا معجزہ بن کر تشریف لائے :
ہر نبی کچھ نہ کچھ معجزات لے کر
آیا ، کوئی کم کوئی زیادہ مگر حضور سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی باری آئی تو رب کریم نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ معجزہ یا یہ معجزات لے کر
آئے بلکہ فرمایا : یٰاٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے لوگو بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی۔( پ 6، النساء :174)
(3) چہرہ مبارک چاشت : اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الضُّحٰىۙ(۱) وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰىۙ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: چاشت کی قسم اور رات کی جب پردہ ڈالے ۔(پ 30 ، الضحی : 1،2)بعض مفسرین فرمایا کہ چاشت سے اشارہ ہے۔
نورِ جمال مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف اور شب کنایہ ہے آپ کے
گیسوئے کی عنبرین سے ۔ ( خزائن العرفان ، تحت الآیۃ مذکورہ )
(4) سب سے اولیٰ و اعلیٰ : اللہ پاک نے ارشاد فرماتا ہے : وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا
رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے
تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔( پ 17 ، الانبیاء:107)
امام فخر الدین رازی رحمۃُ اللہ علیہ
اس آیۃ کے تحت لکھا کہ جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام عالم کے لیے
رحمت ہیں واجب ہوا کہ تمام ماسوا اللہ سے
افضل ہوں ۔
(5) تیرے شہر و کلام و بقا کی قسم
: اللہ پاک اپنے حبیب سے فرماتا ہے : لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ(۷۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے محبوب
تمہاری جان کی قسم بےشک وہ اپنے نشہ میں
بھٹک رہے ہیں۔( پ 14، الحجر : 72)
لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ
بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲) ترجَمۂ
کنزُالایمان: مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرما ہو ۔( پ 30، البلد: 1،2)
اللہ ارشاد فرماتا ہے : وَ قِیْلِهٖ یٰرَبِّ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَۘ(۸۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: مجھے رسول کے اس کہنے کی قسم کہ اے
میرے رب یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔( پ 25، الزخرف :88)
بریلی کے امام نے لکھا :
وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ
کسی کو ملے نہ کسی کو ملا
کہ کلام مجید نے کھائی شاہ تیرے
شہر و کلام و بقا کی قسم
سب سے آخری نبی : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک
نے سب سے آخری نبی بنا کر بھیجا ، اس کو
ماننا ضروری ہے اگر نہ مانے تو بندہ اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھے گا ۔
قراٰن پاک میں آیا ہے : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ
اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰)ترجَمۂ کنزُالایمان:محمّد تمہارے
مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے ۔اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔(پ 22،الاحزاب: 40)
اعلیٰ اخلاق والا : جس طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی ذات بابرکت تمام انسانوں سے
افضل و اعلیٰ ہیں اسی طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاق بھی سب سے
بلند و با لا ہیں ۔ جس کی گواہی خود ذات
باری نے دی ہے ، ارشاد ہوتا ہے : وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بیشک
تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔(
پ 29، القلم : 4)
نور والے مصطفی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم اللہ کا نور ہیں اور تمام مخلوق حضور کے نور سے ہے ۔اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے : قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ
نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک تمہارے پاس اللہ
کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔(
پ 6 ، المائدۃ: 15)
غیب دان نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :اللہ پاک اپنے پسندیدہ بندوں کو غیب پر مطلع فرماتا ہے اور پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اللہ پاک کے وہ پسندیدہ و محبوب ہیں کہ جن کی خاطر اللہ پاک نے کائنات بنائی، اللہ
پاک نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی غیب عطا فرمایا ہے ، اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے :وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ
عَظِیْمًا ترجَمۂ کنزُالایمان: اور تمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ
کا تم پر بڑا فضل ہے ۔( پ5،
النساء: 113)
حاضر و ناظر نبی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم : اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے جسم اقدس کے ساتھ روضۂ انور میں تشریف فرما ہیں اور
تمام کائنات آپ کے سامنے حاضر ہے آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں آپ جب چاہیں جہاں
چاہیں تشریف لے جا سکتے ہیں ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ
اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی)
بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔(پ22، الاحزاب: 46)
محمد زبیر (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان عبد اللہ
شاہ غازی کراچی پاکستان)

ہمارے آقا و مولا حضرت محمد
مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک نے کئی صفات سے نوازا ہے۔ ان صفاتِ عظیمہ میں سے فقیر دس کو ذکر کرنے،
اللہ پاک کے نزدیک ثواب پانے کی امید کرتا ہوں ۔اللہ رب العالمین حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو رحمۃ العالمین کی صفت عطا کرتے ہوئے فرماتا ہے:
(1)وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ
اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے تمہیں نہ
بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔( پ17،الانبیا ء : 107)
(2) اللہ پاک حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کو مقامِ محمود کی نعمت عطا فرماتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ
مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ترجَمۂ کنزُالایمان: قریب ہے کہ
تمہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں۔(پ 15، بنی اسرائیل : 79)
(3) اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ
مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے
پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔( پ 26 ، الحجرات : 4)
(4) اللہ رب العزت فرماتا ہے : وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ
كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ
لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى
ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ
مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ(۸۱) ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب
اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے
تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا فرمایا کیوں تم نے
اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا فرمایا تو
ایک دوسرے پر گواہ ہو جاؤ اور میں آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔( پ 3،آل عمران :
81)
(5) اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى۪(۷) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور تمہیں اپنی محبّت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف
راہ دی۔( پ 30،الضحی : 7)
(6) اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کوئی وہ
ہے جسے سب پر درجوں بلند کیا۔(پ 3 ، البقرۃ:
253) تفسیر جلالین میں ہے کہ بعض سے مراد حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں ۔
(7) وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا
مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ
ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَلَهُمُ
الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس
لیے کہ اللہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں
تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی
شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(پ5، النساء :
64)
(8)اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : اَعْطَیْنٰكَ
الْكَوْثَرَؕ(۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے محبوب بے
شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں۔(پ 30، الکوثر : 2)
(9) اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸)
ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ہم نے
تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر
سناتا۔ (پ 26 ، الفتح : 8)
(10) اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے بیعت
کرتے ہیں۔(پ 26 ، الفتح : 10)