صلح
کروانا افضل عبادت ہے، اگر کوئی بھی مسلمان کسی معاملے میں دوسرے مسلمان سے لڑ پڑے
یا ناراض ہو جائے تو دیگر مسلمانوں کو ان میں صلح کروانے کا حکم دیتا ہے، تاکہ
مسلمان متحد ہو کر رہیں اور متفرق نہ ہوں، صلح کروانا مسلمانوں کی باہمی محبت اور
الفت کا سبب ہے، مسلمانوں میں صلح کروانے والوں کے لئے قرآن و حدیث میں جابجا فضائل
بیان کئے گئے ہیں، چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ ترجمہ:"مسلمان،
مسلمان بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کرو۔"(پ26، حجرات:9)
ایک
اور مقام پر ارشاد فرمایا:
وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا
بَيْنَهُمَا١ۚ ترجمہ
کنزالایمان:"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح
کراؤ۔"(پارہ 26، سورہ حجرات، آیت نمبر 10)
شانِ
نزول:
اس آیت
کریمہ کا شان نزول بیان کرتے صدر الفاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین
مرادآبادی علی رحمۃ اللہ علیہ نے خزائن العرفان میں فرماتے ہیں:"نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم دراز گوش پر تشریف لے جا رہے تھے، انصار کی مجلس پر گزرے، جہاں
تھوڑا سا توقف فرمایا،اس جگہ درازگوش نے پیشاب کیا تو ابن ابئی نے اپنی ناک بند کر
لی،حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
دراز گوش کا پیشاب تیرے مشک سے بہتر خوشبو ہے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے
گئے، ان دونوں میں بات بڑھ گئی، اور ان دونوں کی قومیں آپس میں لڑ گئیں اور ہاتھا
پائی تک نوبت پہنچی،آقا صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے،ان میں صلح کرا دی، اس معاملہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔
احادیث
مبارکہ میں صلح کروانے کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں، چنانچہ حضرت سیدنا حضرت
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ ذیشان صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مغفرت
نشان ہے:"جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا، اللہ عزوجل اس کا معاملہ درست
فرمائے گا اور ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب
وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔"(الترغیب
والتر ہیب، کتاب الادب وغیرہا، الترغیب فی الاصلاح بین الناس، جلد 3/321، حدیث9، دار الکتب العلمیہ
بیروت)
ایک
اور حدیث مبارکہ میں تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ فضیلت
نشان ہے:"کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتائیے،ارشاد
فرمایا:وہ عمل جو آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دیتا ہے، کیونکہ روٹھنے والوں
میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات
البین، جلد 4/325، حدیث4919، دار احیاء التراث العربی بیروت)
اللہ
عزوجل ہمیں نرمی اپنا نے، ایک دوسرے کو منانے اور لڑائی جھگڑے سے خود کو بچانے کی
توفیق عطا فرمائے۔آمین