آسٹریلیا ریجن نگران اور ملک و کابینہ سطح کی
ذمہ دار اسلامی بہنوں کا بذریعہ انٹرنیٹ مدنی مشورہ

عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے مختلف
شعبہ جات کے لئے ہونے والے سالانہ ڈونیشن کے سلسلے میں گزشتہ روز آسٹریلیا ریجن
نگران اور ملک و کابینہ سطح کی ذمہ دار اسلامی بہنوں کا بذریعہ انٹرنیٹ مدنی مشورہ
ہوا۔
افریقہ، عرب، سینٹرل ایشیاکی ریجن نگران اور ملک
و کابینہ سطح کی ذمہ داران کا آن لائن مدنی مشورہ

پچھلے دنوں دعوتِ اسلامی کے شعبہ جات کے لئے
ہونے والے سالانہ ڈونیشن کے سلسلے میں افریقہ، عرب،
سینٹرل ایشیاکی ریجن نگران اور ملک و کابینہ سطح کی ذمہ دار اسلامی بہنوں کا
آن لائن مدنی مشورہ ہوا۔

اللہ پاک کے پیارے نبی حضرت موسیٰ علیہ السّلام اِنتہائی
شان و شوکت والے نبی ہیں۔ قراٰنِ کریم کے کئی پاروں اور آیاتِ مقدَّسہ میں بڑے
شاندار انداز کے ساتھ آپ کا ذِکْرِ خیر و صفات مبارکہ بیان ہوئی ہیں۔ آپ کا نامِ
مبارک قراٰنِ کریم میں 136 بار ذِکْر کیا گیا ہے۔ آپ کو اللہ پاک کی طرف سے ایک
آسمانی کتاب تَورات عطا کی گئی۔ آپ نے اللہ پاک سے کئی مرتبہ کلام کرنے کا شرف
پایا اِسی لئے آپ کو کلیمُ اللہ بھی کہا جاتا ہے۔
مختصر تعارف: حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے والد کا نام عمران ہے۔ آپ حضرت
اِبراہیم علیہ السّلام کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام حضرت یوسف علیہ
السّلام کے وِصال سے چار سو (400) سال اور حضرت اِبراہیم علیہ السّلام سے سات
سو(700) سال بعد پیدا ہوئے۔ آپ نے ایک سو بیس (120)سال عمر پائی۔ (البدایہ
والنہایہ ، ذکر قصۃ موسی الکلیم علیہ الصلاۃ والتسلیم ، 1/326 -تفسیرِ صاوی ، الاعراف
، تحت الآیۃ : 103 ، 2/696 ، ملتقطاً)۔
(1)چنے ہوئے برگزیدہ بندے: حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السّلام اللہ
پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے نبی اور رسول تھے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک
کے پارہ 16 سورہ مریم کی آیت نمبر 51 میں ارشاد فرمایا: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ
مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا ۔(پ 16،
مریم:51)
(2️) وجاہت
والے پیغمبر: حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السّلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت
یعنی بڑے مقام والے اور مستجاب الدعوات تھے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے پارہ 22 سورۃُ
الاحزاب آیت نمبر 69 میں ارشاد فرمایا: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ
وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور موسیٰ
اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69) آیت کے اس حصے میں حضرت موسیٰ علیہ
السّلام کی شان بیان فرمائی گئی کہ آپ اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت والے تھے
یعنی بڑے مقام والے تھے اور اِس مقام میں یہ بات بھی داخل ہے کہ آپ علیہ السّلام مُسْتَجَابُ
الدَّعْوَات تھے یعنی آپ کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔(خازن، الاحزاب،
تحت الآیۃ: 69، 3/513)
️(3)
ہم کلامی کی صفت: حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے کسی واسطے کے بغیر
ہم کلام ہونے کا شرف عطا فرمایا اسی لئے آپ کو کلیمُ اللہ کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ قراٰن
مجید میں ہے: وَ كَلَّمَ اللّٰهُ
مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور
اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔(پ6،النساء:164)
وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ: اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا ۔) طور ایک
پہاڑ کا نام ہے جو مصر اور مَدْیَن کے درمیان ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو مدین
سے آتے ہوئے طور کی اس جانب سے جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے دائیں طرف تھی ایک
درخت سے ندا دی گئی: یّٰمُوْسٰۤى
اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۳۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے موسیٰ میں ہی اللہ ہوں ، تمام
جہانوں کا پالنے والا ۔
اس کے بعد اللہ پاک
نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے بلاواسطہ کلام فرمایا اور آپ علیہ السّلام کلیمُ اللہ
کے شرف سے نوازے گئے ۔آپ علیہ السّلام کو مرتبۂ قرب عطا فرمایا گیا ، حجاب اٹھا
دئیے گئے یہاں تک کہ آپ نے قلموں کے چلنے کی آواز سنی اور آپ علیہ السّلام کی
قدرو منزلت بلند کی گئی۔(صراط الجنان، 6/119)
️(4)
شرم و حیا کے پیکر: حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السّلام کی صفات میں سے ہے کہ آپ بہت
زیادہ حیا فرمانے والے تھے اللہ پاک نے آپ کو بے عیب پیدا فرمایا آپ کے بے عیب
ہونے اور شرم و حیا کی گواہی ایک پتھر سے دلوائی چنانچہ: کتاب "عجائبُ القراٰن
مع غرائب ُالقراٰن “ میں لکھا ہے : ایک ہاتھ لمبا ایک ہاتھ چوڑا چوکور پتھر تھا ،
جو ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے جھولے میں رہتا تھا۔ اُس مبارَک پتھر کے
ذریعہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے 2 معجزات کا ظُہور ہوا۔ جن کا تذکرہ قراٰنِ کریم
میں بھی ہوا ہے۔ اُس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ جو درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ
السّلام کا معجزہ تھا وہ اُس پتھر کی دانشمندانہ لمبی دوڑ ہے اور یہی مُعْجِزَہ
اُس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔ اللہ پاک نے اِس واقعہ کا ذِکْر قراٰن مجید میں اِس
طرح بیان فرمایا : یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ
اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ
ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے موسیٰ کا اس شے سے بری ہونا دکھا دیا جو
انہوں نے کہا تھا اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69) (عجائب
القراٰن مع غرائب القراٰن، ص 29)
(5) اُلُوا الْعَزْم رسول: حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السّلام کا شمار اُلُوا الْعَزْم یعنی
ہمت والے رسولوں میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ قراٰن مجید میں ہے: فَاصْبِرْ
كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ترجَمۂ
کنزُالایمان: تو تم
صبر کرو جیسا ہمت والے رسولوں نے صبر کیا۔(پ26،الاحقاق:35) صدرُا لشّریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :نبیوں کے
مختلف درجے ہیں ، بعض کو بعض پر فضیلت ہے اور سب میں افضل ہمارے آقا و مولیٰ
سیِّدُالمرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں ، حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم) کے بعد سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابراہیم خَلِیلُ اللہ علیہ السّلام کا ہے، پھر
حضرت موسیٰ علیہ السّلام، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اور حضرت نوح علیہ السّلام
کا، اِن حضرات کو مُرْسَلِیْنِ اُلُوا الْعَزْم کہتے ہیں اور یہ پانچوں حضرات باقی تمام انبیا و مُرسَلین ،اِنس و مَلک و جن
و جمیع مخلوقاتِ الٰہی سے افضل ہیں ۔( بہار شریعت، حصہ اول، 1 / 52-54)
اللہ پاک ہمیں حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السّلام اور دوسرے
تمام انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ و السّلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے اور ان سے سچی
پکی محبت رکھنے اور ان کی تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
نوٹ: انبیائے کرام علیہم الصلاۃ و السّلام کی سیرت پڑھنے کرنے کے
لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب سیرتُ الانبیاء کا مطالعہ کیجئے۔

انبیائے کرام علیہم السّلام اللہ پاک کے خاص چنے ہوئے بندے
ہیں جنہیں اللہ پاک نے اپنی مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اس دنیا میں بھیجا۔ یہ
ہستیاں انتہائی اعلی اور عمدہ اوصاف کی مالک تھیں۔ ان پاک نفوس قدسیاں میں سے ایک
ہستی حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی ہے جن کے اوصاف اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں بیان
فرمائے۔ جن میں سے چند بیان کیے جاتے ہیں۔
(1)آپ کی سب سے بڑی صفت تو یہ ہے کہ جس کثرت کے ساتھ آپ کے نام
کا ذکر قراٰنِ پاک میں موجود ہے کسی اور نبی کے نام کا اتنا ذکر قراٰنِ پاک میں
موجود نہیں۔(2)اللہ
پاک نے آپ کو تورات عطا فرمائی تو آپ ان چار برگزیدہ پیغمبروں میں سے ہیں جن کو
اللہ پاک نے آسمانی کتاب عطا فرمائی اور پہلے نبی ہیں جن کو کتاب الہی عطا ہوئی۔ ثُمَّ اٰتَیْنَا
مُوْسَى الْكِتٰبَ ترجَمۂ کنزُالایمان: پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔(پ8،الانعام:154) مفسرینِ
کرام نے اس آیتِ مبارکہ کے تحت ذکر فرمایا کہ سب سے پہلے کتابِ الہی آپ کو عطا
ہوئی آپ سے پہلے انبیاء کو صحیفے ملتے تھے۔ (قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: 154 ، 4
/ 104، الجزء السابع)
(3)آپ اولوالعزم رسل میں سے ہیں۔
فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ترجَمۂ
کنزُالایمان: تو تم
صبر کرو جیسا ہمت والے رسولوں نے صبر کیا۔(پ26،الاحقاق:35) یوں تو سب رسل اولوالعزم ہیں۔ تمام نے ہی راہِ خدا میں آنے والی تکالیف پر
صبر و ہمت سے کام لیا لیکن بطور خاص اولوالعزم ان پانچ رسولوں کو کہا جاتا ہے۔ (1)حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔(2)حضرت
ابراہیم(3)حضرت موسیٰ(4)حضرت عیسیٰ(5)حضرت نوح علیہمُ السّلام ۔ (4،5)آپ
علیہ السّلام اللہ پاک کے چنے ہوئے بندے اور نبی، رسول تھے۔ وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ
مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا ۔(پ 16،
مریم:51) اس آیت میں آپ علیہ السّلام کے دو وصف بیان کیے گئے۔ (1)چنا ہوا بندہ (2)
رسول، نبی۔
(6)اللہ پاک نے آپ علیہ
السّلام کے ساتھ براہ راست دنیا میں کلام فرمایا۔ وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى
تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور اللہ
نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔ (پ6،النساء: 164) (7)آپ کے تبرکات
کا قراٰنِ پاک میں تذکرہ موجود ہے کہ جن کے وسیلے سے بنی اسرائیل دعائیں مانگا
کرتے تھے۔ وَ بَقِیَّةٌ مِّمَّا
تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰى وَ اٰلُ هٰرُوْنَ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کچھ بچی ہوئی چیزیں معزز موسیٰ اور معزز ہارون کے ترکہ کی اٹھاتے لائیں گے۔(پ2،البقرۃ:248)
(8)آپ علیہ السّلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السّلام
کو کامل ایمان والا فرمایا: اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) ترجَمۂ کنزُالایمان:
بےشک وہ دونوں ہمارے اعلٰی درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں ۔ (پ23، الصّٰٓفّٰت :122)(9)اللہ پاک نے حضرت
موسیٰ علیہ السّلام کو نو روشن نشانیاں عطا فرمائیں۔ وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ترجَمۂ کنزُالایمان:
اور بےشک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔(پ15،بنی اسرائیل:101)
حضرت عبداللہ بن
عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا کہ
حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو جو نو نشانیاں عطا کی گئیں وہ یہ ہیں : (1) عصا، (2)
ید ِبیضا، (3) بولنے میں دِقَّت جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی زبان مبارک میں تھی
پھر اللہ پاک نے اسے دور فرما دیا، (4) دریا کا پھٹنا اور اس میں رستے بننا، (5)
طوفان، (6) ٹڈی، (7) گھن، (8) مینڈک، (9) خون۔( خازن، الاسراء، تحت الآیۃ:( 101 ،
3 / 194)
(10)آپ علیہ السّلام نے دریا پر اپنا عصا مارا تو وہ پھٹ گیا
اور اس میں راستے بن گئے۔ فَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ
الْبَحْرَؕ-فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِۚ(۶۳) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: تو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنا عصا مارو تو اچانک
وہ دریا پھٹ گیا تو ہر راستہ بڑے پہاڑ جیسا ہو گیا۔ (پ19، الشعراء : 63)
اللہ پاک ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا فیضان نصیب
فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد شبیر رضا بن محمد ضیاء (درجہ سابعہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ ،
فیصل آباد ،پاکستان)

الله تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کیلئے اپنے انبیا کو مبعوث
فرمایا، بعض کو نئی شریعت وکتاب عطا فرمائی جنہیں رسول کہا گیا پھر بعض رسل کو بعض
پر فضیلت دی جیساکہ قراٰنِ پاک میں وارد ہوا۔ تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ ترجَمۂ کنزُالایمان: یہ رسو ل ہیں کہ
ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا۔ (پ3،البقرۃ:253)
موسیٰ علیہ السّلام جن کا ذکر کیا جا رہا ہے ان 5 اولو
العزم رسل میں سے ہیں جن کو دیگر تمام انبیا و رسل پر فضیلت دی گئی۔ آپ کے اوصاف
اور واقعات کو دیگر انبیا کی نسبت کثرت سے بیان کیا گیا جن میں چند ذکر کیے جاتے
ہیں۔
(1)الله کا کلام فرمانا: موسیٰ علیہ السّلام الله کے کلیم ہیں
،آپ الله پاک سے کلام فرماتے تھے جس کا ذکر قراٰن میں موجود ہے چنانچہ فرمایا گیا۔
وَ كَلَّمَ اللّٰهُ
مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور
اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔(پ6،النساء:164)(2) کتاب کا عطا ہونا: موسیٰ علیہ السّلام ان انبیا میں سے ہیں جن کو کتاب سے
نوازا گیا۔ جیسا کہ وارد ہوا۔ ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ ترجَمۂ کنزُالایمان: پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔(پ8،الانعام:154) آپ کو عطا کی جانے والی
کتاب تورات ہے۔
(3)نو عظیم معجزات کا دیا جانا: آپ کو نو بڑے معجزات دئیے گئے
جن کا ذکر قراٰن میں متعدد مقامات پر موجود ہے۔ وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ترجَمۂ کنزُالایمان:
اور بےشک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔(پ15،بنی اسرائیل:101)(4) الله پاک کا خود انہیں اپنا بندہ کہنا: بندہ کے لئے اس سے
بڑا اعزاز کوئی نہیں کہ خود اس کا خالق و مالک اسے بندہ فرمائے۔ جیسے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سورۂ اسراء میں فرمایا
گیا۔ موسیٰ علیہ السّلام کو بھی یہ اعزاز عطا ہوئے چنانچہ ارشاد ربانی ہے: اِنَّهُمَا مِنْ
عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ دونوں ہمارے اعلٰی درجہ کے کامل الایمان بندوں
میں ہیں ۔ (پ23، الصّٰٓفّٰت :122)
(5) ان کا ذکر باقی رکھنا: وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِمَا فِی الْاٰخِرِیْنَۙ(۱۱۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور پچھلوں میں ان کی تعریف باقی رکھی۔ (پ23، الصّٰٓفّٰت :119) یہی وجہ
ہے کہ جس کثرت سے قراٰن میں موسیٰ علیہ السّلام کا ذکر موجود ہے دیگر انبیا کا
نہیں۔(6) الله کا
انہیں سلام کرنا: سَلٰمٌ عَلٰى مُوْسٰى
وَ هٰرُوْنَ(۱۲۰) ترجَمۂ کنزُالایمان:
سلام ہو موسیٰ اور ہارون پر۔(پ23، الصّٰٓفّٰت :120)
الله پاک اس میں موجود قابل حفظ باتوں کو یاد رکھنے، قابل
اعتقاد باتوں کا عقیدہ رکھنا اور قابل عمل باتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور
ہمیں انبیاء و اولیاء سے محبت رکھنے والا بنائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد اویس بن محمد رفیق(درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ ابو عطار، پاکستان)

اللہ پاک نے انسانوں کو اپنی وحدانیت کی دعوت دینے کے لئے
اس کائنات میں انبیائے کرام علیہم السّلام کو مبعوث فرمایا اور تمام انبیائے کرام
علیہم السّلام کو کئی اوصاف و کمالات کے ساتھ متصف فرمایا۔ ان انبیائے کرام علیہم السّلام
میں سے حضرت موسیٰ علیہ السّلام بھی ہیں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے کئی اوصاف قراٰن
مجید میں مذکور ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:۔(1) برگزیدہ بندہ اور رسول و نبی: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ
مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا ۔(پ 16،
مریم:51)(2) مستجاب
الدعوات: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور موسیٰ
اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69)آپ علیہ السّلام رب کریم کی
بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجاب الدعوات تھے آپ علیہ السّلام
کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی ہارون علیہ السّلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے
نوازا۔
(3) کلیمُ اللہ: وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ
نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔(پ6،النسآء:164)آپ علیہ السّلام کسی
واسطے کے بغیر الله پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔(4) کامل ایمان: اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک
وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں ۔ (پ23، الصّٰٓفّٰت :122)آپ علیہ
السّلام اعلی درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السّلام الله پاک کے انتہائی برگزیدہ
پیغمبر اور اولو العزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں الله پاک سے بلا واسطہ ہم کلام
ہونے کی سعادت پانے کے سبب کلیم الله کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں الله پاک نے پہلے
حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر 10 صحیفے نازل فرمائے پھر آپ علیہ السّلام کو کتابِ الٰہی
تورات عطا کی۔ الله پاک ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السّلام سمیت تمام انبیائے کرام
علیہم السّلام کی تعظیم و تکریم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
محمد طلحٰہ خان عطّاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
خلفائے راشدین ، راولپنڈی، پاکستان)

انبیائے کرام علیہم السّلام اللہ پاک کی جمیع مخلوقات میں
سے وہ پاک ہستیاں ہیں جن کی سیرت سے ایسی نور کی کرنیں جاری ہوتی ہیں جو گمراہوں
اور بھٹکے ہوؤں کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ یہ وہ روشن ستارے ہیں جن کی ذات اوصافِ
حمیدہ سے پُر اور ان کے روشن افکار پر عمل نحوست کے سمندر میں بھٹکے ہوئے کو کمالِ
روحانیت کے ساحل پر پہنچاتا ہے۔ یہ وہ عظیم عطار ہیں کہ جس کسی کو ان کی صحبت مل جائے
تو اسے نہ صرف زندگی بھر خوشبو دار بنا دیتے ہیں بلکہ قبر میں بھی اور قبر سے حشر
تک اور حشر سے جنت تک کے لئے خوشبوؤں کا مرکز بنا دیتے ہیں۔
انہیں اعلٰی حضرات میں سے ایک حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کی
ذاتِ بابرکت ہے کہ اللہ پاک نے انہیں بھی اعلٰی اوصافِ حمیدہ سے نوازا جن کو قراٰن
مجید میں بھی ذکر فرمایا۔ قراٰن مجید میں ذکر کردہ اوصافِ موسیٰ علیہ السّلام
مندرجہ ذیل ہیں: (1،2)
چنے ہوئے اور نبی رسول : اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی
رسول تھا ۔(پ 16، مریم:51)اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو ان صفات کے ساتھ
نوازا کے آپ کو چنا ہوا اور برگزیدہ بندہ بنایا اور صرف نبی نہیں بلکہ رسالت بھی
عطا فرمائی۔
(3,4) کلیم اللہ
اور قربِ الٰہی: وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ
الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کیلئے مقرب بنایا۔
(پ16،مریم ،52)تفسیر صراط الجنان میں ہے: اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ
السّلام سے (کوہِ طور پر) بلاواسطہ کلام فرمایا اور آپ علیہ السّلام ”
کلیمُ اللہ “ کے شرف سے نوازے گئے ۔آپ علیہ السّلام کو مرتبۂ قرب عطا فرمایا گیا
، حجاب اٹھا دئیے گئے یہاں تک کہ آپ نے قلموں کے چلنے کی آواز سنی اور آپ علیہ
السّلام کی قدر و منزلت بلند کی گئی۔(صراط الجنان، 6/119)
(5)مستجاب الدعواة: وَ وَهَبْنَا لَهٗ
مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا
جو نبی تھا۔(پ16،مریم:53) صراط الجنان میں
ہے : یعنی جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے اللہ پاک سے دعا کی کہ میرے گھر
والوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا تو اللہ پاک نے ان کی یہ دعا
قبول فرمائی اور اپنی رحمت سے حضرت ہارون علیہ السّلام کو نبوت عطا کی۔(
صراط الجنان، 6/120)
(6) وجاہت: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور موسیٰ
اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69)یعنی حضرت موسیٰ علیہ
السّلام اللہ پاک کے نزدیک بہت بلند و بالا مقام رکھتے ہیں۔ (7)کامل الایمان: اِنَّهُمَا مِنْ
عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے
بندوں میں سے ہیں ۔ (پ23، الصّٰٓفّٰت :122)حضرت موسیٰ علیہ اسلام کو یہ وصف بھی حاصل تھا کہ آپ علیہ
السّلام اور آپ کے بھائی ہارون علیہ السّلام دونوں کامل ایمان والے ہیں جو کہ سب
سے بڑی فضیلت اور سب سے بڑا شرف ہے۔
صفاتِ مذکورہ پر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ
پاک نے حضرت موسیٰ علیہ اسلام کو بہت اعلٰی و عرفہ مقام و مرتبہ عطا فرمایا اور
کیوں نہ ہو کہ وہ تو نہ صرف نبی بلکہ رسولوں میں بھی اولوالعزم رسول( بلند رتبہ
رسل) ہیں۔ یہاں کچھ صفات ایسی ذکر ہوئیں جو انبیا کے ساتھ خاص ہیں۔ جیسے اللہ پاک
کے ساتھ کلام کرنا اور کچھ ایسی صفات ہیں جو عام مؤمن اپنے درجے کے مطابق ان صفات
کا حامل ہو سکتا ہے۔ جیسے یہاں ذکر ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کامل ایمان
والے تھے اور مستجاب الدعوات، قربِ الہی پانے والے اور وجاہت والے تھے۔ ان تمام
صفات سے کا حامل شخص صرف و صرف کامل ایمان والا ہی ہو سکتا ہے۔ اسی لئے ہمیں بھی
علمِ دین سیکھتے ہوئے اور گناہوں سے بچ کر نیکیاں کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنی
چاہیے تو ان شاء اللہ ہم بھی کامل ایمان والے بن جائیں گے اور بقیہ صفات کے حامل
بھی۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں علمِ دین سیکھنے اور گناہوں سے
بچتے ہوئے نیکیوں والی زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد وسیم عطّاری (درجہ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ شیخوپورہ موڑ
گوجرانوالہ پاکستان )

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! صفات صفت کی جمع ہے صفت کا
مترادف ایک لفظ خوبی بھی ہے اور ہم اگر کسی میں کوئی ایک دو صفت، خوبی دیکھ لیں تو
ہم اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں اس کی عزت کرتے ہیں نا چاہتے ہوئے بھی اس سے محبت
کرتے ہیں اور اگر حلقہ احباب میں بھی بیٹھیں تو اس شخصیت کا ذکر کیے بغیر رہ نہیں
سکتے۔ یہ تو ایک عام انسان کی بات ہے کہ جس کی ایک دو صفت یا خصوصیت دیکھ لیں تو
اس کی تعریف کرتے ہوئے تھکتے نہیں تو پھر اللہ پاک کے باکمال انبیائے کرام علیہم السّلام
کی شان کیسی ہوگی؟
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! چونکہ یہاں حضرت موسیٰ علیہ
السّلام کا تذکرہ اور آپ کے اوصاف کا ذکر مقصود ہے۔ تو اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ
السّلام کو بے شمار اوصاف سے نوازا ہے۔
(1)حضرت موسی علیہ السّلام اللہ پاک کے برگزیدہ بندے اور (2)نبی رسول ہیں۔ جس کا ذکر
اللہ پاک نے اپنے پاکیزہ کلام قراٰنِ پاک کی سورہ مریم کی آیت نمبر 51 میں کچھ یوں
ارشاد فرمایا: وَ اذْكُرْ فِی
الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک
وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا ۔(پ 16، مریم:51)
(3) حضرت موسیٰ علیہ السّلام
اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت والے( یعنی بڑے مقام والے اور مستجاب الدعوات کے
درجے پر فائز تھے) ۔ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے اس وصف کا ذکر قراٰنِ
پاک کی سورہ احزاب کی آیت نمبر 69 میں فرمایا۔ آیت ملاحظہ فرمائیں : وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور موسیٰ
اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69)
(4تا 6) حضرت موسیٰ علیہ السّلام بغیر کسی واسطے سے اللہ پاک سے ہم
کلام ہونے کا شرف رکھتے تھے اور اللہ پاک کی بارگاہ میں قرب کے ایسے مقام پر فائز
تھے کہ آپ کی دعا کی وجہ سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السّلام کو
نبوت کا منصب عطا فرما دیا۔
اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے ان اوصاف کا ذکر
سورہ مریم کی آیت نمبر 52 اور 53 میں ارشاد فرمایا: وَ
نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے
پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کیلئے مقرب بنایا۔ (پ16،مریم ،52)
وَ وَهَبْنَا لَهٗ
مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے
اپنا راز کہنے کیلئے مقرب بنایا۔ اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی
دیا جو نبی تھا۔(پ16،مریم:53)
(7) حضرت موسیٰ علیہ السّلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ
السّلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے۔ اللہ پاک نے اس وصف کا تذکرہ
اپنے پاک کلام سورۃ الصافات آیت 122 میں ارشاد فرمایا: اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک
وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں ۔ (پ23، الصّٰٓفّٰت :122)
(8) اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو ہدایت دینے والی
اور لوگوں کے دلوں پر سے غفلت و جہالت کے پردے اٹھا دینے والی کتاب تورات نازل
فرمائی۔ اس کا احسن بیان اللہ پاک نے اپنے قراٰنِ پاک کی سورہ القصص کی آیت نمبر
43 میں ارشاد فرمایا: وَ
لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ
الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ
یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا
فرمائی اس کے بعد کہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرما دیا تھا (موسیٰ کو وہ کتاب دی)
جس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ
نصیحت حاصل کریں ۔(پ20،القصص:43)
(9) اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے بلاواسطہ کلام
فرمایا۔ اس کا بیان سورۃ النساء کی آیت نمبر 164 میں ارشاد ہوا: وَ كَلَّمَ اللّٰهُ
مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ
نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔(پ6،النسآء:164)(10) اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو ان
کے بھائی حضرت ہارون علیہ السّلام کی صورت میں وزیر عطا فرمایا۔ اس وصف کا بیان
سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 35 میں ہوا: وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنَا
مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِیْرًاۚۖ(۳۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک
ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو وزیر بنایا۔(پ19،الفرقان:35)
(11) اللہ کریم نے اپنے فضل سے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو فرقان
کی نعمت سے نوازا۔ سورۃ البقرہ آیت نمبر 53 میں ارشاد باری ہے: وَ اِذْ اٰتَیْنَا
مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳) ترجمۂ کنزالعرفان: اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب
عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔(پ1،البقرۃ:53)(12) آپ علیہ السّلام کو
روشن غلبہ اور تسلط بھی عطا فرمایا : وَ اٰتَیْنَا
مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا ترجمۂ کنز
العرفان :اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔(پ6،النساء:153)
حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی نبوت و رسالت پر دلالت کرنے
والی نو روشن نشانیاں بھی عطا کیں گئی۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 101 میں
ارشاد ہوتا ہے: وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا
مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بےشک ہم نے موسیٰ کو نو روشن
نشانیاں دیں۔(پ15،بنی اسرائیل:101)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! حضرت موسیٰ علیہ السّلام جاہ و
جلال والے برگزیدہ نبی رسول اور اللہ کے بندے ہیں۔ قراٰنِ پاک کے مختلف مقامات پر
آپ کی عزت و شان میں کئی آیات کا نزول ہوا۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ
السّلام کا اللہ کی بارگاہ میں خاص مقام ہے۔
اللہ پاک ہمیں تمام انبیائے کرام علیہم السّلام کا ادب
ملحوظ خاطر رکھنے اور ان سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

الله پاک نے
اپنی مخلوق کی رشد و ہدایت کے لئے انبیا علیہمُ
الصّلوٰۃ ُوالسّلام کو مختلف اقوام کی طرف مبعوث فرمایا جن میں سے بعض کا تفصیلی ،
بعض کا اجمالی بیان اپنے کلامِ پاک میں ذکر بھی کیا ہے ، ان سب میں افضل و اعلیٰ ،
اللہ پاک کے آخری نبی ہمارے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم ہیں ۔
انبیائے کرام علیہم السّلام پورے عالَم میں عظیم ترین ہستیاں ہیں، دنیا جہاں
میں ان کا کوئی مقابل نہ ہی ثانی ہے ، انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت اور
صورت ہر انسان سے اعلی ٰ اور عمدہ ہے ۔ مخلوق میں سے جس کا چاہے جتنا بھی وصف ا
چھا ہو انبیائے کرام علیہم السّلام ان سے کروڑوں درجے اچھے اوصاف کے حامل ہیں ۔
آج جس ہستی کا ذکر کریں گے وہ ایک نبی اور رسول ہیں ،جنہیں کثیر معجزات عطا
کئے گئے ، جن کا قراٰن مجید میں کئی بار ذکر آیا ہے ،جن کو اللہ پاک سے ہم کلام
ہونے کا شرف ملا ۔میری مرادی شخصیت وہ سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علی نبینا و علیہ
الصلاۃ و السّلام ہیں ۔آئیے آپ علیہ السّلام کے اوصاف قراٰن کی روشنی میں دیکھیں
۔
(1) کتاب والے: وَ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔(پ 15، بنی اسرائیل: 2) ( یعنی تورات شریف)(2) چنا ہوا: اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ چنا ہوا تھا۔(پ
16، مریم:51) (3) غیب بتانے والے رسول : وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
رسول تھا غیب کی خبریں بتانے والا۔(پ 16، مریم:51)
(4) آپ کی دعا کا قبول ہونا : وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ
نَبِیًّا(۵۳)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔(پ16،مریم:53)(5) غلبہ عطا ہوا : وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ دیا۔(پ6،النساء:153) تفسیر : حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو روشن غلبہ وتَسلُّط عطا فرمایا
گیا کہ جب آپ علیہ السّلام نے بنی اسرائیل کو توبہ کے لئے خود ان کے اپنے قتل کا
حکم دیا تو وہ انکار نہ کر سکے اور انہوں نے آپ علیہ السّلام کی اطاعت کی۔(تحت
الآیت ِ مذکورہ پارہ 6 سورہ النساء آیت 153، از صراط الجنان )
(6)رب سے ہم کلام : وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور
اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔(پ6،النساء:164)تفسیر: مذکورہ آیت کے تحت مفتی قاسم صاحب دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں:آیت کے اس حصے سے دو مسئلے معلوم
ہوئے :ایک یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام انبیائے بنی اسرائیل میں بہت شان والے
ہیں کہ ان کا ذکر خصوصیت سے علیحدہ ہوا۔ دوسرا یہ کہ اللہ پاک نے بعض انبیا کو خاص
عظمتیں بخشی ہیں ، ایک نبی کی خصوصیت تمام نبیوں میں ڈھونڈنا غلطی ہے جیسے ہر نبی
کلیم اللہ نہیں ۔(پارہ 6 سورہ النساء آیت 164،تحت الآیت ِ مذکورہ )
(7)آپ کا عصا مبارک : فَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ
الْبَحْرَؕ-فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِۚ(۶۳) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: تو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنا عصا مارو تو اچانک
وہ دریا پھٹ گیا تو ہر راستہ بڑے پہاڑ جیسا ہو گیا۔ (پ19، الشعراء : 63)
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَلْقِ
عَصَاكَۚ-فَاِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِكُوْنَۚ(۱۱۷) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم
نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ اپنا عصا ڈال تو ناگاہ وہ ان کی بناوٹوں کو نگلنے لگا۔(پ9،الاعراف:117) مفتی نعیم الدین مرادآبادی رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیت کے
تحت لکھتے ہیں :جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے اپنا عصا ڈالا
تو وہ ایک عظیمُ الشّان اَژدہا بن گیا ۔ ابنِ زید کا قول ہے کہ یہ اجتماع
اِسکندریہ میں ہوا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے اَژدھے کی دُم سَمُندر کے
پار پہنچ گئی تھی ، وہ جادو گَروں کی سِحر کاریوں کو ایک ایک کر کے نِگل گیا اور
تمام رَسّے و لَٹّھے جو انہوں نے جمع کئے تھے جو تین سو اُونٹ کا بار تھے سب کا
خاتِمہ کر دیا ، جب موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسّلام نے اس کو دستِ مبارَک میں لیا تو
پہلے کی طرح عصا ہو گیا اور اس کا حجم اور وَزن اپنے حال پر رہا ، یہ دیکھ کر جادو
گَروں نے پہچان لیا کہ عصائے موسیٰ سِحر نہیں اور قدرتِ بَشَری ایسا کرشمہ نہیں
دِکھا سکتی ، ضرور یہ اَمرِ سَماوی ہے ۔ یہ بات سمجھ کر وہ ’’اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ “کہتے ہوئے سجدے میں گر گئے ۔(پارہ 9 سورہ اعراف مذکورہ آیت کے تحت )
(8)نو روشن نشانیاں: وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا
مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بےشک ہم نے موسیٰ کو نو روشن
نشانیاں دیں۔(پ15،بنی اسرائیل:101)تفسیر : حضرت ابنِ عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا وہ نو 9 نشانیاں
یہ ہیں: (1) عصا (2) یدِ بیضا (3) وہ عُقدہ جو
حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی زبانِ مبارک میں تھا پھر اللہ پاک نے اس کو حل فرمایا
(4) دریاکا پھٹنا اور اس میں رستے بننا (5) طوفان (6) ٹیڑی (7)گھن (8) مینڈک (9)
خون ۔ (پارہ 15 سورہ بنی اسرائیل ، آیت 101، تحت الآیت )
(9)بڑی وجاہت والے : وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: موسیٰ اللہ کے یہاں
آبرو والا ہے ۔(پ22،الاحزاب:69)
مفتی قاسم صاحب دامت برکاتہم العالیہ اس آیت کے حصے میں فرماتے ہیں : آیت کے اس
حصے میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی شان بیان فرمائی گئی کہ آپ اللہ پاک کی
بارگاہ میں بڑی وجاہت والے تھے یعنی بڑے مقام والے تھے اور اِس مقام میں یہ بات
بھی داخل ہے کہ آپ علیہ السّلام مُسْتَجَابُ الدَّعْوَات تھے یعنی آپ کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔(پارہ 22 سورہ
الاحزاب آیت ،69،تحت الآیت )
(10)قربِ خاص: وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسے
اپنا راز کہنے کو قریب کیا۔(پ16،مریم:
52) آپ علیہ السّلام کو
مرتبۂ قرب عطا فرمایا گیا ، حجاب اٹھا دئیے گئے یہاں تک کہ آپ نے قلموں کے چلنے
کی آواز سنی اور آپ علیہ السّلام کی
قدرو منزلت بلند کی گئی۔(پارہ 16 ، سورہ مریم ، آیت 52،تحت الآیت مذکورہ از صراط
الجنان)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان صفات پر عمل پیرا ہونے کی
توفیق عطا کرے ،ان صفات کو صحیح معنی و مفہوم میں آگے پہنچانے کی توفیق دے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد شہید حسین عطاری(درجہ اولیٰ جامعۃُ
المدینہ فیضان عطار نیپال گنج، نیپال)

اللہ پاک نے دنیا میں کم
و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السّلام کو انسانوں کی ہدایت کے لئے
بھیجا۔ یہ انبیائے کرام علیہم السّلام لوگوں کو اللہ پاک کے احکام بندوں تک
پہنچاتے ہیں۔
انہیں میں اللہ پاک نے
حضرت موسی علیہ السّلام کو بھیجا آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے خواص بندوں میں سے ایک
چنندہ برگزیدہ بندے نبی اور رسول ہیں ۔ آپ علیہ السّلام پر دس صحیفے اتارے اور آپ
علیہ السّلام شرم و حیا اور جسم کو چھپا کر رکھتے اور کئی اوصاف ہیں جن میں چند یہ
ہیں :۔الله پاک قراٰن شریف میں آپ علیہ السّلام کے اوصاف کے بارے میں یوں فرماتا
ہے : وَ اذْكُرْ فِی
الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک
وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا ۔(پ 16، مریم:51)
آپ علیہ السّلام کے متعلق
ہمارے آقا و مولیٰ سرکارِ مدینہ مصطفی جانِ رحمت، شمع بزمِ ہدایت ، حضرت محمد مصطفی
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا کہ حضرت موسی علیہ السّلام بہت ہی شرم و حیا کرنے والے اور خصوصی اہتمام
کرتے اپنا جسم اقدس چھپانے میں۔ آپ علیہ السّلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑے مرتبے
والے اور مستجاب الدعوات یعنی جو دعائیں رب کے بارگاہ میں مانگتے وہ قبول و مقبول
ہو جاتی۔ قراٰن مجید میں اس کے متعلق یوں ارشاد فرمایا گیا ہے : وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: موسیٰ اللہ کے یہاں
آبرو والا ہے ۔ (پ22، الاحزاب:69)
آپ علیہ السّلام کو بغیر
کسی واسطے کے اللہ پاک سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا اور آپ علیہ السّلام بارگاہِ
الہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں۔
آپ علیہ السّلام کے دعا
شریف کی برکت سے آپ علیہ السّلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السّلام کو نبوت جیسی
عظیم الشان نعمت ملی۔ قراٰن مجید میں اس کے متعلق یوں ارشاد فرمایا گیا: وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ
قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲) وَ وَهَبْنَا لَهٗ
مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے
اپنا راز کہنے کیلئے مقرب بنایا۔ اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی
دیا جونبی تھا۔(پ16،مریم:53،52)
اس سے اللہ پاک کے پیارے
بندوں کی عظمت معلوم ہوا کہ ان کی دعا سے وہ چیزیں بھی مل جاتی ہے جو عام انسانوں کی
دعا سے نہیں ملتی۔ نبوت بہت بڑی عظیم الشان نعمت ہے۔ جو کوئی انسان عبادت و ریاضت یا
دن رات نفل نماز پڑھا کرے یا روزہ رکھا کرے یا تہجد گزار کیوں نہ ہوں مگر ایسی عظیم
الشان نعمت نہیں مل سکتی اور وہ نعمت بادشاہ کے خزانوں سے بھی نہیں مل سکتی جو
خواص بندوں کی دعا شریف کی برکت سے مل جاتی ہے۔
اور آپ اور علیہ السّلام
کے بھائی حضرت ہارون علیہ السّلام اعلیٰ درجہ کے ایمان والے تھے اس کے متعلق اللہ پاک
نے قراٰن مجید میں یوں ارشاد فرمایا ہے : اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک
وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں ۔ (پ23، الصّٰٓفّٰت :122)
آپ علیہ السّلام کو اللہ پاک
نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔
محمد عدنان احمد(درجہ رابعہ جامعۃُ المدينہ فیضانِ مخدوم لاہوری موڈاسہ گجرات
ہند)

اللہ پاک نے یک بعد دیگرے لوگوں کی ہدایت کے لئے کئی انبیائے
کرام علیہم السّلام کو مبعوث فرمایا اور ایک امت جس میں کئی انبیا و رسل مبعوث کئے
گئے جس کو قراٰن نے بنی اسرائیل کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی امت میں ایک مشہور
نبی رسول کو مبعوث کیا گیا جن کا نام موسیٰ بن عمران علیہ السّلام تھا۔ تو آیئے
ہم حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے اوصاف قراٰن سے سنتے ہیں۔ الله پاک قراٰنِ پاک کے
پارہ 16 سورۂ مریم کی آیت نمبر 51، 53،52 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی
الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) وَ نَادَیْنٰهُ
مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲) وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ
نَبِیًّا(۵۳)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا
اور وہ نبی رسول تھا ۔ اور ہم نے
اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کیلئے مقرب بنایا۔
اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جونبی تھا۔(پ16،مریم:53،52،51)
ان تین آیاتِ مذکورہ میں موسیٰ علیہ السّلام کی پانچ صفات بیان
کی گئی۔(1) آپ علیہ السّلام
اللہ پاک کے چنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔ (2) آپ علیہ السّلام رسول نبی تھے۔ (3) آپ علیہ السّلام سے اللہ
پاک نے کلام کیا۔(4) آپ
علیہ السّلام کو اللہ پاک نے اپنا قرب بخشا۔(5) آپ علیہ السّلام کی خواہش پر آپ کے بھائی حضرت
ہارون علیہ السّلام کو نبوت عطا کی ۔
رب کریم حضرت موسیٰ
علیہ السّلام کی ایک اور صفت بیان کرتے ہوئے سورۂ احزاب ایت نمبر 69 میں ارشاد
فرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا
قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ ہونا
جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے موسیٰ کا اس شے سے بری ہونا دکھا دیا جو انہوں
نے کہا تھا اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69)اس آیت
سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں حضرت موسی علیہ السّلام کا مقام بہت بلند
ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ علیہ السّلام مستجاب الدعوات تھے۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو
اللہ پاک کی بارگاہ میں قرب کا ایسا مقام حاصل ہے کہ اللہ پاک نے ان کی دعا کے
صدقے ان کے بھائی ہارون علیہ السّلام کو نبوت عطا فرمادی۔ اس سے اللہ پاک کے اولیاء
عظام کی عظمت کا پتہ لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے خزانوں میں
نہ ہو۔ تو اگر ان کی دعا سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں مل جائیں تو کیا بعید
ہے۔الله پاک موسیٰ علیہ السّلام کے صدقے ہمیں دونوں جہان کی بھلائیاں نصیب فرمائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد کیف عطّاری (درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان
حسن خطیب چشتی دھولکہ ہند)

انسان کی شخصیت اوصاف و
اخلاق سے جانی جاتی ہے اور بعد اس کے مرنے کے بھی اس کو اس کے اوصاف و اخلاق سے
یاد کیا جاتا ہے اور انسانوں میں سب سے افضل انبیائے کرام ہیں جن کو اللہ پاک نے
ہدایت کی راہ دوسروں کو چلانے اور لوگوں کی نیکی کی دعوت دینے اور برائیوں سے
روکنے کے لئے پیدا کیا اور مختلف کمالات و اوصاف اور معجزات نوازا انہیں انبیائے
کرام علیہم السّلام میں سے ایک اولو العزم رسول حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ
الصلوٰۃ و السّلام ہیں جن کو اللہ پاک نے بہت کمالات و اوصاف اور معجزات سے نوازا
ہے اور ان کو اپنا برگزیدہ بندہ بنا کر ان کے بعد آنے والی تمام امتوں کے لئے مشعل
راہ بنایا ہے ۔
آئیے قراٰن شریف کی روشنی
میں موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السّلام کے اوصاف و کمالات جانتے ہیں تاکہ خواص کے ساتھ
ساتھ عوام بھی ان کے بارے جانیں اور بہت کچھ سیکھیں ۔(1) حضرت موسیٰ علیہ السّلام اللہ پاک کے
چنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے۔ ارشاد باری ہے : وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ
مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا ۔(پ 16،
مریم:51) (2) آپ علیہ السّلام رب کریم کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے
مقام والے اور مستجاب الدعوات تھے۔ ارشاد باری ہے: وَ
كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور موسیٰ
اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69)
(3) آپ علیہ السّلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہو
نے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ کی
دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی ہارون علیہ السّلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے
نوازاقراٰنِ پاک میں ہے: وَ نَادَیْنٰهُ
مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲) وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ
نَبِیًّا(۵۳)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کیلئے مقرب بنایا۔
اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جونبی تھا۔(پ16،مریم:53،52)
اس سے اللہ پاک کے پیارے بندوں کی عظمت کا پتا لگا کے انہیں کی دعا سے وہ نعمتیں
ملتی ہیں جو بادشاہوں کے خزانوں سے نہ مل سکے تو اگر ان کی دعا سے اولاد یا دنیا
کی دیگر نعمتیں مل جائے تو کیا مشکل ہے البتہ نبوت کا باب جو چونکہ بند ہو چکا ہے۔
اس لئے اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی ۔
(4) آپ علیہ السّلام اور آپ
کے بھائی حضرت ہارون علیہ السّلام کامل ایمان والے بندے تھے۔ فرمان باری ہے: اِنَّهُمَا مِنْ
عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے
بندوں میں سے ہیں ۔ (پ23، الصّٰٓفّٰت :122)(5) آپ علیہ السّلام کو نبوت
و رسالت پر دلالت کرنے والی روشن نشانیاں عطا کی ۔فرمان باری ہے: وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا
مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بےشک ہم نے موسیٰ کو نو روشن
نشانیاں دیں۔(پ15،بنی اسرائیل:101)
دیکھا قارئیں جیسا کہ آپ
نے پڑھا اور ملاحظہ کیا کہ اللہ پاک نے حضرت سیدنا موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السّلام
کو کتنا بڑا مقام عطا فرمایا تھا کہ آپ کو بغیر کسی واسطے کے ہم کلام ہونے کا شرف
عطا فرمایا اور آپ اتنے پائے کے مستجاب الدعوات تھے کہ آپ کی دعا سے آپ کے بھائی
حضرت سیدنا ہارون علیہ السّلام کو نبوت سے سرفراز فرمایا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ان کے
نقشِ قدم پر چل کر اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑا مقام حاصل کریں اللہ پاک ان کے صدقے
ہمیں چنے ہوئے برگزیدہ بندوں میں شامل فرمائے اور ہمیں کامل ایمان والوں میں شامل
فرمائے اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔