اللہ تعالیٰ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام مخلوق کی طرف مبعوث فرمائے اور ان کو علم و حکمت اور نبوّت عطا فرمائی اُنہی میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے علم و معرفت اور کثیر معجزات کے ساتھ نوازا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا جس کو اللہ پاک نے قرآن مجید میں ذکر کیا ہے چُنانچہ فرمایا : وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ترجمہ کنزالعرفان: اور عیسیٰ نے کہا بیشک اللہ رب ہے میرا اور تمہارا تو اس کی بندگی کرو یہ راہ سیدھی ہے ۔(سورہ مریم آیت (36) سورت الصف آیت نمبر (14)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْۤا اَنْصَارَ اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ فَاٰمَنَتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَ كَفَرَتْ طَّآىٕفَةٌۚ-فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰى عَدُوِّهِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰهِرِیْن ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو دین خدا کے مددگار ہو جیسے عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کون ہے جو اللہ کی طرف ہو کر میری مدد کریں حواری بولے ہم دین خدا کے مددگار ہیں تو بنی اسرائیل سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک گروہ نے کفر کیا تو ہم نے ایمان والوں کو ان کے دشمنوں پر مدد دی تو غالب ہوگئے۔ (سورت المائدہ آیت نمبر112)

اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(112) ترجمۂ کنز الایمان: جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتارے کہا اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو ۔ (سورت المائدہ آیت نمبر 116)

وَ اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰهَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْۗ-بِحَقٍّ ﳳ-اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗؕ-تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَ لَاۤ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِكَؕ-اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ترجمۂ کنز الایمان: اور جب اللہ فرمائے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ کیا تو نے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو دو خدا بنالو اللہ کے سوا عرض کرے گا پاکی ہے تجھے مجھے روا نہیں کہ وہ بات کہوں جو مجھے نہیں پہونچتی اگر میں نے ایسا کہا ہو تو ضرور تجھے معلوم ہوگا تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہے بیشک تو ہی ہے سب غیبوں کا خوب جاننے والا۔ (سورت ال عمران آیت نمبر 51 )

اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ترجمۂ کنز الایمان: بیشک میرا تمہارا سب کا رب اللہ ہے تو اسی کو پوجو،یہ ہے سیدھا راستہ۔


جیساکہ ہمیں معلوم ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور حضرت عیسی علیہ السلام کا قرب قیامت والے دن نزول ہوگا  آپ علیہ السلام بغیر باپ کے حضرت مریم علیہ السلام سے پیدا ہوے حضرت عیسی علیہ السلام کی کچھ قرآنی نصیحتیں مذکور ہے۔ قران پاک میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۔ ترجمہ کنزالایمان: اور بیشک عیسیٰ قیامت کی خبر ہے تو ہرگز قیامت میں شک نہ کرنا اور میرے پیرو ہونا یہ سیدھی راہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ آپ فرما دیں : ’’حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آسمان سے دوبارہ زمین پر تشریف لانا قیامت کی علامات میں سے ہے،تو اے لوگو! ہرگز قیامت کے آنے میں شک نہ کرنا اور میری ہدایت اور شریعت کی پیروی کرنا، یہ سیدھا راستہ ہے جس کی میں تمہیں دعوت دے رہا ہوں ۔

حضرت کعب احباررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی: یَا رُوْحَ اللہ !کیا ہمارے بعد اور کوئی امت بھی ہے؟آپ نے فرمایا’’ہاں،احمد مجتبیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُمت ہے ،وہ لوگ حکمت والے ، علم والے، نیکوکار اور متقی ہوں گے اور فقہ میں انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نائب ہوں گے، اللہ تعالیٰ سے تھوڑے رزق پر راضی رہنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے تھوڑے عمل پر راضی گا۔ (خازن، الصف، تحت الآیۃ: 6، 4)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم !جس کے قبضے میں میری جان ہے،قریب ہے کہ تم میں حضرت ابنِ مریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نازل ہوں گے جو انصاف پسند ہوں گے ،صلیب کو توڑیں گے،خنزیر کو قتل کریں گے،جِزیَہ مَوقوف کر دیں گے اور مال اتنا بڑھ جائے گا کہ لینے والا کوئی نہ ہو گا۔( بخاری، کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر، 2/ 50، الحدیث: 2222)

نصیحت سے مراد:  وہ بات جس پر عمل کرنا مفید ہو اور صالحین سے ملی ہو یا ان کے واقعات سے اس بات کو اخذ کیا حضرت عیسی علیہ السلام کی نصیحتیں اور واقعات قران پاک میں کثیر جگہ ہے جن میں سے چند ملاحظہ فرمائے

(1) عقائد میں گمان کا اعتبار نہ کرو: ترجمہ کنز العرفان: اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم اللہ کے رسول کو شہید کیا حالانکہ انہوں نے نہ تواسے قتل کیا اور نہ اسے سولی دی بلکہ ان (یہودیوں ) کے لئے (عیسیٰ سے ) ملتا جلتا (ایک آدمی)بنادیا گیا اور بیشک یہ (یہودی) جو اس عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ( حقیقت یہ ہے کہ) سوائے گمان کی پیروی کے ان کواس کی کچھ بھی خبر نہیں اور بیشک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا۔

اس آیت کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں عقائد میں گمان یا ظن کا اعتبار نہیں ہوتا اس میں علم یقینی ہونا چاہیے۔ (پارہ چھ تفسیر نعیمی جلد نمبر چھ سورۃ النساء آیت نمبر 157)

2 ۔ بزرگوں کی بددعا سے بچو: ترجمہ کنز العرفان: بنی اسرائیل میں سے کفر کرنے والوں پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان پرسے لعنت کی گئی۔ یہ لعنت اس وجہ سے تھی کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ سرکشی کرتے رہتے تھے۔

اس آیت کے تحت مفتی صاحب فرماتے ہیں بزرگوں کی بددعا بڑی ہی خطرناک ہے اس سے قوم تباہ ہو گئیں عذاب الہی ہمیشہ اللہ والوں کی بددعا سے آئے۔

3 بدکاروں کے حالات کو ضرور جاننا: اسی آیت کے تحت ہی مفتی صاحب فرماتے ہیں بدکاروں مجرموں کے تاریخی حالات جاننا یاد رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ ان سے ہم عبرت حاصل کریں ان کے اعمال سے بچیں ۔ (پارہ چھ تفسیر نعیمی جلد نمبر چھ سورۃ المائدہ آیت نمبر 78)

4 ۔ انبیاء کرام پر جھوٹے الزام لگانے سے بچنا: ترجمہ کنز العرفان : اور جب اللہ فرمائے گا: اے مریم کے بیٹے عیسیٰ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود بنالو؟ تووہ عرض کریں گے: (اے اللہ !) تو پاک ہے۔ میرے لئے ہرگز جائز نہیں کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں ۔اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی توتجھے ضرور معلوم ہوتی۔تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہے۔ بیشک تو ہی سب غیبوں کا خوب جاننے والا ہے۔

اس آیت کے تحت مفتی صاحب فرماتے ہیں انبیاء کرام علیہم السلام کو جھوٹے الزام لگانا وہ جرم ہے جو کافر انسان کے سوا کوئی مخلوق نہیں کرتی نہ جن نہ کوئی اور اگر انسان سیدھا رہے تو فرشتوں سے بڑھ کر کام کر لیتا ہے اگر ٹیرھا جلے تو شیطان سے بدتر حرکات کر لیتا ہے۔ (پارہ سات تفسیر نعیمی جلد نمبر سات سورۃ المائدہ آیت نمبر 116)

5 ۔ بری صحبت سے بچو : ترجمہ کنز العرفان : یہ ہے عیسیٰ مریم کا بیٹا۔ سچی بات جس میں یہ شک کررہے ہیں ۔ اس آیت کے تحت مفتی صاحب فرماتے ہیں دنیاوی زندگی میں سب سے زیادہ خطرناک زہر قاتل صحبت بد اور عیار دشمن ہے کہ یہ دین دنیا تباہ کر دیتے ہیں ان سے بچنا ہر مسلمان کو ضروری ہے۔ (پارہ 16 تفسیر نعیمی جلد نمبر 16 سورۃ مریم آیت نمبر 34)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو نصیحتوں پر عمل کرنے کے بہت فوائد ہیں اللہ پاک ہمیں نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


قرآن مجید اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا ہے اور قرآن مجید میں ان انبیاء کرام علیہم السلام کی صفات اور واقعات بیان فرمائے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی قرآن مجید میں ذکر فرمایا اور صفات بیان فرمائی ہیں آئیے ان میں سے چند آیتیں مبارکہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

(1)۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قیامت کی خبر ہونا: وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(61) ترجمۂ کنز الایمان: اور بیشک عیسیٰ قیامت کی خبر ہے تو ہرگز قیامت میں شک نہ کرنا اور میرے پیرو ہونا یہ سیدھی راہ ہے۔( حوالہ سورتہ الزخرف آیت نمبر 61)

تفسیر : {وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ: اور بیشک عیسیٰ ضرورقیامت کی ایک خبر ہے۔} اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ آپ فرما دیں : ’’حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آسمان سے دوبارہ زمین پر تشریف لانا قیامت کی علامات میں سے ہے،تو اے لوگو! ہرگز قیامت کے آنے میں شک نہ کرنا اور میری ہدایت اور شریعت کی پیروی کرنا، یہ سیدھا راستہ ہے جس کی میں تمہیں دعوت دے رہا ہوں

2۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کہنا کہ اللہ تعالیٰ میرا اور تیرا رب ہے:وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(36) ترجمۂ کنز الایمان:اور عیسیٰ نے کہا بیشک اللہ رب ہے میرا اور تمہارا تو اس کی بندگی کرو یہ راہ سیدھی ہے۔( حوالہ سورتہ مریم آیت نمبر 36)

تفسیر :

{وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ:اور بیشک اللہ میرا اور تمہارا رب ہے۔} اس آیت میں مذکور کلام حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے، چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نےفرمایا: بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ میرا اور تمہارارب ہے، اس کے سوا اور کوئی رب نہیں ، تو تم صرف اسی کی عبادت کرو اور اللہ تعالیٰ کے جو اَحکامات میں نے تم تک پہنچائے یہ ایسا سیدھا راستہ ہے جو جنت کی طرف لے کر جاتا ہے

3۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اگر ایمان لائے ہو تو:اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(112) ترجمۂ کنز الایمان: جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتارے کہا اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔( حوالہ سورتہ المائدہ آیت نمبر 112)

تفسیر :

{ اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ : جب حواریوں نے کہا۔} حواریوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی کہ کیا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا رب عَزَّوَجَلَّ ہم پر آسمان سے نعمتوں سے بھرپور دسترخوان اتارے گا۔ ان کی مراد یہ تھی کہ کیا اللہ تعالیٰ اس بارے میں آپ کی دعا قبول فرمائے گا؟ یہ مراد نہیں تھی کہ کیا آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ایسا کرسکتا ہے یا نہیں ؟ کیونکہ وہ حضرات اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان رکھتے تھے۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ اگر ایمان رکھتے ہو تو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ یہ مراد حاصل ہو جائے۔ بعض مفسرین نے کہا: اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ تمام اُمتوں سے نرالا سوال کرنے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو یا یہ معنی ہیں کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کمالِ قدرت پر ایمان رکھتے ہو تو ایسے سوال نہ کرو جن سے تَرَدُّد کا شبہ گزر سکتا ہو

4۔ فرشتوں کا حضرت مریم رحمۃ اللہ تعالیٰ کو ایک کلمہ کی بشارت دینا :اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُۙ-اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ(45) ترجمۂ کنز الایمان: اور یاد کرو جب فرشتو ں نے مریم سے کہا، اے مریم اللہ تجھے بشارت دیتا ہے اپنے پاس سے ایک کلمہ کی جس کا نام ہے مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا رُو دار ہوگا دنیا اور آخرت میں اور قرب والا۔ ( حوالہ سورتہ آل عمران آیت نمبر 45)

تفسیر :

{اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ: بیشک اللہ تجھے بشارت دیتا ہے۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کلمۃُ اللہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسم شریف کی پیدائش کلمہ’’ کُن‘‘ سے ہوئی، باپ اور ماں کے نطفہ سے نہ ہوئی۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(آل عمران:۵۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بےشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے۔ اُسے مٹی سے پیدا کیا پھر اسے فرمایا ’’ہوجا‘‘ تو وہ ہوگیا۔

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے بارے میں فرمایا کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلمہ ہیں ، نام مبارک عیسیٰ ہے، لقب مسیح ہے کیونکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مَس کرکے یعنی چھو کر شفا دیتے تھے، دنیا و آخرت میں عزت و وجاہت والے ہیں اور رب کریم عَزَّوَجَلَّ کے مقرب بندے ہیں۔ اس آیت میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نسبت باپ کی بجائے ماں کی طرف کی گئی ،اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام بغیر باپ کے صر ف ماں سے پیدا ہوئے ہیں کیونکہ اگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کوئی باپ ہوتاتو یہاں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نسبت ماں کی طرف نہ ہوتی بلکہ باپ کی طرف ہوتی ۔جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ

اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ(احزاب: ۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان:لوگوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے نزدیک انصاف کے زیادہ قریب ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ جو کچھ پڑھا اس پر عمل کرنے اور انبیاء کرام علیہم السلام کی صفات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


حضرت سیدنا امام فخرالدین رازی رحمۃ  اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :       "وأما الموعظة فهي الكلام الذي يفيد الزجر عما لا ينبغي في طريق الدين. یعنی نصیحت وہ کلام ہےجو راہ راست میں ناروا اور نامناسب باتوں سے روکے"(1)"۔(تفسیر کبیر،سورہ آل عمران تحت الآیہ 138 ج 3 ص 37)   وعظ و نصیحت کی اہمیت و افادیت ایک مسلّمہ حقیقت ہے ۔ہر دور میں اس کی ضرورت پیش آئی ہے ۔اس کے فوائد و ثمرات بے شمار ہیں۔ رب العالمین قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ (سورہ نخل آیت نمبر 125) ترجمۂ کنز الایمان: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو "

وعظ و نصیحت حضرات انبیاء کرام ومرسلین عظام(على نبينا وعليهم الصلاة والسلام) کی عظیم سنت ہے ۔ان برگزیدہ ہستیوں کو اللہ پاک نے انسانیت کی ھدایت کے لئے بھیجا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ان میں سے ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔آپ نے اس سنت کو کمال کی بلندیوں تک پہنچایا۔کیوں نہ ہو کہ اللہ پاک نے آپ کو جوامع الکلم عطا فرمائے یعنی ایسے کلمات جو عبارت کے لحاظ سے مختصر اور معانی و مطالب کے لحاظ سے جامع ہوں۔قرآن کریم کی روشنی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اپنی قوم کو کی جانے والی چند نصیحتیں پیش کرتا ہوں آئیے پڑھیئے اور آپ بھی نصیحت حاصل کیجئے۔

1.میں اللہ کا بندہ ہوں: حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کے بعد حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا انہیں  اُٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں  ، جب لوگوں  نے حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کو دیکھا کہ ان کی گود میں  بچہ ہے تو وہ روئے اور غمگین ہوئے ، کیونکہ وہ صالحین کے گھرانے کے لوگ تھے اور کہنے لگے : اے مریم! بیشک تم بہت ہی عجیب و غریب چیز لائی ہو۔ اے ہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ عمران کوئی برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں  حنہ بدکار عورت تھی تو پھر تیرے ہاں  یہ بچہ کہاں  سے ہو گیا۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: 27،28)

اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی ماں کی برأت کی گواہی دی اور فرمایا جسے اللہ پاک نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا:قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ ﳴ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا۔ وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۪-وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا(سورہ مریم،آیت نمبر 31،30) ترجمۂ کنز الایمان:"بچہ نے فرمایا میں ہوں اللہ کا بندہ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے غیب کی خبریں بتانے والا (نبی) کیا۔اور اس نے مجھے مبارک کیا میں کہیں ہوں اور مجھے نماز و زکوٰۃ کی تاکید فرمائی جب تک جیوں" ۔

2.میں اللہ کی طرف سے بھیجا گیا رسول ہوں: اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قوم بنی اسرائیل کی طرف بھیجا۔ انہوں نے بنی اسرائیل کی طرف اپنی نبوت اور معجزات کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا جسے قرآن پاک میں کچھ اس طرح ذکر کیا گیا: وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَ كْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(سورہ آل عمران ،آیت نمبر 49)

ترجمۂ کنز الایمان:اور رسول ہوگا بنی اسرائیل کی طرف یہ فرماتا ہوا کہ میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہوجاتی ہے اللہ کے حکم سے اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سپید داغ والے کو اور میں مُردے جِلاتا ہوں اللہ کے حکم سے اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو"۔

3.میں اپنے بعد تمہیں ایک نبی کی خوشخبری سناتا ہوں: حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو نبئ کریم صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلم کے آنے کی بشارت دی۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(سورہ صف، آیت نمبر 6) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے اُن کا نام احمد ہے پھر جب احمد ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے بولے یہ کھلا جادو ہے"۔

  4. ایک رب کی عبادت کرو اور شرک نہ کرو: حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو ایک رب  کی عبادت کرنے کا حکم دیا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے سے بھی منع فرمایا ۔قرآن مجید میں ہے: لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَؕ-وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُؕ-وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ(سورۃالمآئدہ،آیت نمبر72)

ترجمۂ کنز الایمان:"بیشک کافر ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ اللہ وہی مسیح مریم کا بیٹا ہے اور مسیح نے تو یہ کہا تھا اے بنی اسرائیل اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب اور تمہارا رب بیشک جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو اللہ نے اس پر جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں"۔

5.صراط مستقیم:ایک اور مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب کر کے فرمایا جسے اللہ تبارک وتعالیٰ نےاس طرح  نقل فرمایا ہے کہ: ”اِنَّ اللہَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْم“(سورہ آل عمران ،آیت نمبر 51) ترجمۂ کنز الایمان: بلا شبہ، اللہ ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے، تو اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔“

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ فرمانا اپنی عَبْدِیَّت یعنی بندہ ہونے کا اقرار اور اپنی ربوبیت یعنی رب ہونے کا انکار ہے اس میں عیسائیوں کا رد ہے۔ گویا فرمایا کہ  میں اتنی قدرتوں اور علم کے باوجودبھی خدا نہیں بلکہ خدا کا بندہ ہوں۔

اللہ پاک ہمیں بھی ان تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الکریم ۔


اللہ پاک نے اپنی مخلوق کو تخلیق فرمایا اور پھر انکو مختلف قوموں میں تقسیم فرمایا اور انکی  ہدایت اور تربیت کیلئے مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کو بھیجا تاکہ انکو نصیحت فرمائیں اور انکی تربیت فرمائیں ان نصیحتوں کو اللہ پاک نے قرآن پاک میں ذکر فرمایا چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو نصیحتیں فرمائی۔آئیے حضرت عیسی علیہ السلام کی قرآنی نصیحتیں پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

(1)اللہ سے ڈرو : اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(المائدہ112) ترجمۂ کنز العرفان : یاد کروجب حواریوں نے کہا: اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک دستر خوان اُتار دے ؟ فرمایا :اللہ سے ڈرو، اگر ایمان رکھتے ہو۔

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ اگر ایمان رکھتے ہو تو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ یہ مراد حاصل ہو جائے۔ بعض مفسرین نے کہا: اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ تمام اُمتوں سے نرالہ سوال کرنے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو یا یہ معنی ہیں کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کمالِ قدرت پر ایمان رکھتے ہو تو ایسے سوال نہ کرو جن سے تَرَدُّد کا شبہ گزر سکتا ہوے۔

(2)یہ سیدھا راستہ ہے: وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(مریم36) ترجمۂ کنز العرفان: اور عیسیٰ نے کہا بیشک اللہ میرا اور تمہارارب ہے تو اس کی عبادت کرو۔ یہ سیدھا راستہ ہے۔ تفسیر صراط الجنان: {وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ:اور بیشک اللہ میرا اور تمہارا رب ہے۔} اس آیت میں مذکور کلام حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے، چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نےفرمایا: بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ میرا اور تمہارارب ہے، اس کے سوا اور کوئی رب نہیں ، تو تم صرف اسی کی عبادت کرو اور اللہ تعالیٰ کے جو اَحکامات میں نے تم تک پہنچائے یہ ایسا سیدھا راستہ ہے جو جنت کی طرف لے کر جاتا ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۲۳۵)

(3)میرا حکم مانو: وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(63)اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(64)زخرف ترجمۂ کنز العرفان: اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا تواس نے فرمایا: میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیاہوں اور میں اس لئے (آیا ہوں ) تاکہ میں تم سے بعض وہ باتیں بیان کردوں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ بیشک اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے تو اس کی عبادت کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔

تفسیر صراط الجنان: {وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ: اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معجزات لے کر آئے تو انہوں نے فرمایا: ’’میں تمہارے پاس نبوت اور انجیل کے احکام لے کر آیا ہوں تاکہ تم ان احکام پر عمل کرو اور میں اس لئے آیا ہوں تاکہ میں تم سے توریت کے احکام میں سے وہ تمام باتیں بیان کردوں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو،لہٰذا تم میری مخالفت کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو اَحکام تمہیں پہنچا رہا ہوں ان میں میرا حکم مانو کیونکہ میری اطاعت حق کی اطاعت ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے تو تم صرف اسی کی عبادت کرو اورا س کی وحدانیّت کا اقرار کرو، یہ سیدھا راستہ ہے کہ اس پر چلنے والا گمراہ نہیں ہو سکتا۔(جلالین ، الزّخرف ، تحت الآیۃ : ۶۳ - ۶۴ ، ص۴۰۹ ، روح البیان، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۳-۶۴، ۸ / ۳۸۵-۳۸۶، ملتقطاً)

(4)تصدیق کرنے والا ہوں: وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(الصف6) ترجمۂ کنز العرفان: اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے فرمایا:اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے پھر جب وہ ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے توانہوں نے کہا: یہ کھلا جادوہے۔

(5)ہرگز قیامت میں شک نہ کرنا: وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ (61) ترجمۂ کنز العرفان: اور بیشک عیسیٰ ضرورقیامت کی ایک خبر ہے تو ہرگز قیامت میں شک نہ کرنا اور میری پیروی کرنا۔ یہ سیدھا راستہ ہے۔

تفسیر صراط الجنان: {وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ: اور بیشک عیسیٰ ضرورقیامت کی ایک خبر ہے۔} اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ آپ فرما دیں : ’’حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آسمان سے دوبارہ زمین پر تشریف لانا قیامت کی علامات میں سے ہے،تو اے لوگو! ہرگز قیامت کے آنے میں شک نہ کرنا اور میری ہدایت اور شریعت کی پیروی کرنا، یہ سیدھا راستہ ہے جس کی میں تمہیں دعوت دے رہا ہوں ۔(مدارک، الزّخرف، تحت الآیۃ: ۶۱، ص۱۱۰۴، ملخصاً)

اللہ پاک ہمیں انبیاء کرام علیھم السلام کی نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں امین


قرآن حکیم اللہ رب العزت کی طرف سے نازل کردہ فرمودہ ایسی عدیم  المثال کتاب مبین ہے جس میں انسان کی دنیاوی اور اخروی کامیابی کے اصول و ضوابط بیان فرمائے گئے ہیں اس لاریب کتاب کے ذریعے لوگوں کو صراط مستقیم دکھانے کے لیے اللہ تعالی نے انبیاء صالحین متقین اور اولیاء کے اوصاف ان کے واقعات ان کی دلفریب نصیحتیں بیان فرمائی انبیاء کی نصیحتوں میں جناب عیسی کی نصیحتیں بھی شامل ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔

1 اللہ تبارک و تعالی سے ڈرنے کے بارے میں نصیحت: آىت مبارکہ ؛ اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (112) ترجمۂ کنز الایمان جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتارے کہا اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔

(2) اللہ رب العزت کی اطاعت کے بارے میں نصیحت:آىت مبارکہوَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(36) ترجمہ کنزالایماناور عیسیٰ نے کہا بیشک اللہ رب ہے میرا اور تمہارا تو اس کی بندگی کرو یہ راہ سیدھی ہے

(3) حضرت عیسی علیہ السلام کا لوگوں کو اپنی اطاعت کرنے کے بارے میں نصیحت: وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(63)اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(64)  ترجمۂ کنز الایمان اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا اس نے فرمایا میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا اور اس لیے میں تم سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ بیشک اللہ میرا رب اور تمہارا رب تو اسے پوجو یہ سیدھی راہ ہے.

(4) حواریوں کو مدد کرنے کے بارے مىں نصیحت: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْۤا اَنْصَارَ اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ فَاٰمَنَتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَ كَفَرَتْ طَّآىٕفَةٌۚ-فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰى عَدُوِّهِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰهِرِیْنَ(14) ترجمہ کنزالایماناے ایمان والو دین خدا کے مددگار ہو جیسے عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کون ہے جو اللہ کی طرف ہو کر میری مدد کریں حواری بولے ہم دین خدا کے مددگار ہیں تو بنی اسرائیل سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک گروہ نے کفر کیا تو ہم نے ایمان والوں کو ان کے دشمنوں پر مدد دی تو غالب ہوگئے۔

اللہ عزوجل کی پاک بارگاہ میں دعا ہے کہ خالق رب العزت ہمیں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی نصیحتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین


اللہ تعالی نے مخلوق کی اصلاح کے لیے نبی اولیاء اور رسول بھیجے اور نبیوں کو معجزات اور اولیاء کرام کو کرامات بھی عطا کی اور نبیوں نے اپنی اپنی قوموں کو نصیحتیں بھی کی ہیں انبیاء کرام میں سے حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام ہیں انہوں نے اپنی قوم کو کئی جگہ قرآن میں نصیحتیں کی ہیں :

(1)دین خدا کے مددگار:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْۤا اَنْصَارَ اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ فَاٰمَنَتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَ كَفَرَتْ طَّآىٕفَةٌۚ-فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰى عَدُوِّهِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰهِرِیْن ترجمۂ کنز الایمان :اے ایمان والو دین خدا کے مددگار ہو جیسے عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کون ہے جو اللہ کی طرف ہو کر میری مدد کریں حواری بولے ہم دین خدا کے مددگار ہیں تو بنی اسرائیل سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک گروہ نے کفر کیا تو ہم نے ایمان والوں کو ان کے دشمنوں پر مدد دی تو غالب ہوگئ۔ (سورۃ الصف آیت نمبر14)

(2) سیدھا رستہ:اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ترجمۂ کنز الایمان :بیشک میرا تمہارا سب کا رب اللہ ہے تو اسی کو پوجو،یہ ہے سیدھا راستہ۔ (سورۃ مریم آیت نمبر 36)

(3)رزق دے؛قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَۚ-وَ ارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(114) ترجمۂ کنز العرفان:عیسیٰ بن مریم نے عرض کی: اے اللہ ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک دسترخوان اُتار دے جو ہمارے لئے اور ہمارے بعد میں آنے والوں کے لئے عید اور تیری طرف سے ایک نشانی ہوجائے اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔(سورۃ مائدہ آیت نمبر 114)

(4)غیبوں کو خوب جاننے والا :وَ اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰهَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْۗ-بِحَقٍّ ﳳ-اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗؕ-تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَ لَاۤ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِكَؕ-اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ترجمۂ کنز الایمان: اور جب اللہ فرمائے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ کیا تو نے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو دو خدا بنالو اللہ کے سوا عرض کرے گا پاکی ہے تجھے مجھے روا نہیں کہ وہ بات کہوں جو مجھے نہیں پہونچتی اگر میں نے ایسا کہا ہو تو ضرور تجھے معلوم ہوگا تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہے بیشک تو ہی ہے سب غیبوں کا خوب جاننے والا۔(سورۃ مائدہ آیت نمبر 116)

(5) اللہ سے ڈرو:اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ترجمۂ کنز العرفان:یاد کروجب حواریوں نے کہا: اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک دستر خوان اُتار دے ؟ فرمایا :اللہ سے ڈرو، اگر ایمان رکھتے ہو۔ (سورۃ مائدہ آیت نمبر 112)


اللہ تعالی نے بندوں کی اصلاح کے لیے دنیا میں انبیاء کرام بھیجے اور انبیاء کرام کو صفات اور معجزات بھی عطا فرمائے اور القاب بھی عطا فرمائے کسی نبی کو کلیم اللہ کا لقب کسی کا روح اللہ کا لقب عطا فرمایا اور انبیاء کے ذریعے لوگوں نصیحتیں بھی فرمائی ان انبیاء میں سے حضرت عیسی علیہ السلام بھی ہیں ان کی نصیحتیں قران پاک میں بھی موجود ہیں۔ آئیے ان کی نصیحتیں پڑھتے ہیں:

(1) وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ۔ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ (سورت الزخرف آیت نمبر 63..64) ترجمۂ کنز الایمان اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا اس نے فرمایا میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا اور اس لیے میں تم سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ بیشک اللہ میرا رب اور تمہارا رب تو اسے پوجو یہ سیدھی راہ ہے۔

(2) وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ (سورت مریم آیت نمبر 36) ترجمۂ کنز الایمان اور عیسیٰ نے کہا بیشک اللہ رب ہے میرا اور تمہارا تو اس کی بندگی کرو یہ راہ سیدھی ہے۔

(3) اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (سورت المائدہ آیت نمبر 112 ) ترجمۂ کنز الایمان جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتارے کہا اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔

(4) اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ (سورت آل عمران آیت نمبر 51) ترجمۂ کنز الایمان: بیشک میرا تمہارا سب کا رب اللہ ہے تو اسی کو پوجو،یہ ہے سیدھا راستہ۔

(5) فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِۚ-اٰمَنَّا بِاللّٰهِۚ-وَ اشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ (سورت آل عمران آیت نمبر 52.53) ترجمۂ کنز الایمان:پھر جب عیسیٰ نے ان سے کفر پایا بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف، حَواریوں نے کہا ہم دینِ خدا کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے، اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ اے رب ہمارے ہم اس پر ایمان لائے جو تو نے اتارا اور رسول کے تابع ہوئے تو ہمیں حق پر گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں انبیاء کرام علیھم السّلام کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین


انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا تذکرہ ، ان کے احوال واقعات کا بیان قرآن مجید فرقان حمید کا اہم ترین حصہ ہے۔ اللہ عز و جل نے اپنے حبیب لبیب کو بھی انبیائے کرام علیہ اسلام کا ذکر فرمانے کا حکم دیا تا کہ انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہو جائے اور یہ ذکر سن کر لوگ ان نفوس قدسیہ کی پاک خصلتوں سے نیکیوں کا ذوق وشوق حاصل کریں۔ قرآن کریم میں انبیائے کرام علیہم السلام کے تصرف و اختیار اور معجزات و کمالات کا بیان ہے جس سے کفار کے باطل نظریات کار د ہوتا ہے نیز ثابت ہوتا ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام بے مثل بحر میں ان کی طاقت و قدرت اور شان و عظمت عام انسانوں سے کہیں بلند و بالا ہے۔ اور ان انبیاء کرام علیہم السلام میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔ اللہ عزوجل نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں کئی مقامات پر فرمایا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نصیحتوں کا ذکر فرمایا ہے

(1) بندگی کرنا :اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے :وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌترجمہ کنز الایمان:اور عیسیٰ نے کہا بیشک اللہ رب ہے میرا اور تمہارا تو اس کی بندگی کرو یہ راہ سیدھی ہے۔

وَ إِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَ رَبُّكُمْ اور بیشک اللہ میرا اور تمہارا رب ہے۔ اس آیت میں مذکور کلام حضرت عیسیٰ عَلَيْہ الصَّلوةُ وَالسَّلَام کا ہے، چنانچہ آپ عَلَيْهِ الصَّلُوةُ وَالسَّلَام نے فرمایا: بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ میرا اور تمہارا رب ہے، اس کے سوا اور کوئی رب نہیں ، تو تم صرف اسی کی عبادت کرو اور اللہ تعالیٰ کے جو احکامات میں نے تم تک پہنچائے یہ ایسا سیدھا راستہ ہے جو جنت کی طرف  لے کر جاتا ہے۔(پاره 16 سورت مریم آیت 36 تفسير صراط الجنان )

2)سیدھی راہ:اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(63)اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ

ترجمۂ کنز الایمان:اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا اس نے فرمایا میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا اور اس لیے میں تم سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ بیشک اللہ میرا رب اور تمہارا رب تو اسے پوجو یہ سیدھی راہ ہے۔(پارہ 25 سورت الزخرف آیت 63 64 )

3)اللہ عزوجل سے ڈرو :اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ترجمۂ کنز الایمان:جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتارے کہا اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔

بعض مفسرین نے کہا: اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ تمام اُمتوں سے نرالا سوال کرنے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو یا یہ معنی ہیں کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کمالِ قدرت پر ایمان رکھتے ہو تو ایسے سوال نہ کرو جن سے تَرَدُّد کا شبہ گزر سکتا ہو۔(پارہ 7 سورت المائدہ آیت 112 تفسیر صراط الجنان )

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نصیحت اور توریت کی تصدیق :اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۔ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَ كْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.   وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ لِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْكُمْ وَ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۫-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ

ترجمہ کنزالایمان :میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہوجاتی ہے اللہ کے حکم سے اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سپید داغ والے کو اور میں مُردے جِلاتا ہوں اللہ کے حکم سے اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔اور تصدیق کرتا آیا ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی اور اس لئے کہ حلال کروں تمہارے لئے کچھ وہ چیزیں جو تم پر حرام تھیں اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لایا ہوں ، تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔(پارہ 3 سورت آل عمران آیت 49 تا 50)

اللہ عزوجل کو پوجو :اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ترجمۂ کنز الایمان:بیشک میرا تمہارا سب کا رب اللہ ہے تو اسی کو پوجو،یہ ہے سیدھا راستہ۔

{اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ: بیشک اللہ میرااور تمہارا سب کا رب ہے۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ فرمانا اپنی عَبْدِیَّت یعنی بندہ ہونے کا اقرار اور اپنی ربوبیت یعنی رب ہونے کا انکار ہے اس میں عیسائیوں کا رد ہے۔ گویا فرمایا کہ  میں اتنی قدرتوں اور علم کے باوجودبھی خدا نہیں بلکہ خدا کا بندہ ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء واولیاء کے معجزات یا کرامات ماننا شرک نہیں اوراس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم نے انہیں رب مان لیا۔ اس سے مسلمانوں کو مشرک کہنے والوں کو عبرت پکڑنی چاہیے۔(پارہ 3 سورت آل عمران آیت 51 تفسیر صراط الجنان) 


لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ قَفَّیۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ بِالرُّسُلِ ۫ وَ اٰتَیۡنَا عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ الۡبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدۡنٰہُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ؕ اَفَکُلَّمَا جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌۢ بِمَا لَا تَہۡوٰۤی اَنۡفُسُکُمُ اسۡتَکۡبَرۡتُمۡ ۚ  فَفَرِیۡقًا کَذَّبۡتُمۡ ۫ وَ فَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ ﴿۸۷﴾بقرہ ترجمۂ کنز الایمان:اور بے شک ہم نے موسٰی کو کتاب عطا کی اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا فرمائیں اور پاک روح سے اس کی مدد کی تو کیا جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ لے کر آئے جو تمہارے نفس کی خواہش نہیں تکبر کرتے ہوتو ان میں ایک گروہ کو تم جھٹلاتے اور ایک گروہ کو شہید کرتے ہو۔

وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ لِاُحِلَّ لَکُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ حُرِّمَ عَلَیۡکُمۡ وَ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ﴿۵۰﴾آل عمران اور تصدیق کرتا آیا ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی اور اس لئے کہ حلال کروں تمہارے لئے کچھ وہ چیزیں جو تم پر حرام تھیں اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لایا ہوں ، تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔

اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ ﴿۵۱﴾آل عمران بیشک میرا تمہارا سب کا رب اللہ ہے تو اسی کو پوجو،یہ ہے سیدھا راستہ۔

اَلۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُنۡ مِّنَ الۡمُمۡتَرِیۡنَ ﴿۶۰﴾ ترجمۂ کنز الایمان:اے سننے والے یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے تو شک والوں میں نہ ہونا۔

قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ ہَلۡ یَسۡتَطِیۡعُ رَبُّکَ اَنۡ یُّنَزِّلَ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ ؕ قَالَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۱۲﴾مائده۔ ترجمۂ کنز الایمان:جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتارے کہا اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔

قَالَ اللّٰہُ اِنِّیۡ مُنَزِّلُہَا عَلَیۡکُمۡ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بَعۡدُ مِنۡکُمۡ فَاِنِّیۡۤ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُہٗۤ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۱۵﴾ مائده ترجمۂ کنز الایمان:اللہ نے فرمایا کہ میں اسے تم پر اُتارتا ہوں پھر اب جو تم میں کفر کرے گا تو بیشک میں اسے وہ عذاب دوں گا کہ سارے جہان میں کسی پر نہ کروں گا۔

قَالَ الله: اللہ نے فرمایا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی درخواست کے بعد اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ میں وہ دسترخوان اتارتا ہوں لیکن اس کے نازل ہونے کے بعدجو کفر کرے گا تو بیشک میں اسے وہ عذاب دوں گا کہ سارے جہان میں کسی کو نہ دوں گا،چنانچہ آسمان سے خوان نازل ہوا ،اس کے بعد جنہوں نے ان میں سے کفر کیا وہ صورتیں مَسخ کرکے خنزیر بنادیئے گئے اور تین روز میں سب ہلاک ہوگئے۔( تفسیر بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۲ / ۶۶)

حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں احسان وہ نہیں کہ تو بھلائی کے عوض بھلائی کر دے یہ تو بدلہ چکانا ہے احسان یہ ہے کہ جو تیرے ساتھ برائی کریں تو ان کے ساتھ بھلائی کر۔ (تفسیر کبیر سورہ آل عمرآن تحت آیت134)

وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِیْ وَ قَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْؕ-فَلَمَّا زَاغُوْۤا اَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(5سورة الصف) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم مجھے کیوں ستاتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں پھر جب وہ ٹیڑھے ہوئے اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کردئیے اور فاسق لوگوں کو اللہ راہ نہیں دیتا۔

یعنی اے حبیب ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنی قوم کے سامنے وہ واقعہ بیان کریں جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا، اے میری قوم! آیات کا انکار کرکے اور میرے اوپر جھوٹی تہمتیں لگا کر مجھے کیوں ستاتے ہو حالانکہ تم یقین کے ساتھ جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور رسول کی تعظیم واجب ، ان کی توقیر اور احترام لازم ہے اور انہیں ایذا دینا سخت حرام اور انتہا درجہ کی بدنصیبی ہے۔ پھر جب وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایذا دے کر راہ ِحق سے مُنْحَرِف اورٹیڑھے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اِتّباعِ حق کی توفیق سے محروم کرکے ان کے دل ٹیڑھے کردئیے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا جو اس کے علم میں نافرمان ہیں ( تفسير صراط الجنان تحت الآيۃ)

وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(سورة الصف6) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے اُن کا نام احمد ہے پھر جب احمد ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے بولے یہ کھلا جادو ہے۔


آپ علیہ السّلام کا مبارک نام "عیسٰی" اور آپ کا نسب حضرت داؤد علیہ السّلام سے جا ملتا ہے حضرت عیسٰی علیہ السّلام الله تعالی کے مقبول بندے،برگزیدہ نبی اور اولوالعزم یعنی عزت ہمت والے رسول ہیں آپ علیہ السّلام نے خیرخواہی کا جزبہ رکھتے ہوئے  اپنی قوم کو مختلف نصیحتیں فرمائیں جن میں سے کچھ پڑھتے ہیں۔

1.2..خوفِ خُدا اختیار کرنے اور اپنی اطاعت کرنے کی نصیحت:حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے لوگوں کو الله پاک سے ڈرنے کی نصیحت فرمائ اور بحیثیت نبی اپنی اطاعت کی نصیحت فرمائ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ (پ3،آل عمران50)ترجمۂ کنزالعرفان: اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

3....الله پاک کی عبادت کرو اور یہی سیدھا رستہ ہے۔حضرتِ عیسٰی علیہ السّلام نے اپنی قوم کو معبودِ برحق، الله ربُّ العزت کی عبادت کرنے کی نصیحت فرمائی اور سمجھایا کہ یہی سیدھا راستہ ہے اس پر چلنے سے تم گراہ نہیں ہو سکتے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:-اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ[پ3،آل عمران51]ترجمۂ کنز العرفان:- بیشک اللہ میرااور تمہارا سب کا رب ہے تو اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔

4....الله جلّ شانہ سب کا ربّ ہے۔آپ علیہ السّلام نے شرک کی جڑ کاٹتے ہوئے اپنی قوم کو صریح الفاظ کیساتھ نصیحت فرمائی کہ ربوبیت صرف اللّٰه پاک کیساتھ متّصف ہے الله پاک ہی سب کا ربّ ہے جیسا کہ قرآن پاک میں اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ[پ3،آل عمران51]ترجمۂ کنز العرفان: بیشک اللہ میرااور تمہارا سب کا رب ہےالله پاک ہمیں انبیاء کرام علیھم السّلام کے مبارک احوالِ زندگی پڑھنے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النّبیّین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم