پودا
لگانا ہے درخت بنانا ہے از بنت رانا محمد شہباز، جامعۃ المدینہ مظفرپورہ سیالکوٹ

میں نے ایک
دفعہ چڑیا پالی اور میں اسے دانہ کھلاتی رہی کچھ دنوں بعد چڑیا اڑ گئی پھر میں نے
کبوتر پالا کچھ دنوں کے بعد وہ بھی اڑ گیا پھر میں نے گلہری پالی اس کو بھی دانہ
کھلاتی رہی کچھ دنوں کے بعد وہ بھی بھاگ گئی پھر میں نے درخت لگایا تو یہ تینوں
واپس آگئے تو معلوم ہوا کہ درخت قدرت کی سب سے قریب قریب چیزوں میں سے ایک ہے آج
کل ہمارے ملکوں کا درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ رہا ہے گرمی بڑھ رہی ہے ٹمپریچر اتنا
بڑھ رہا ہے کہ ہم اس کو نارمل کرنے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں اگر ہم درخت نہیں
لگائیں گے تو ہمارے ٹمپریچر میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اس لیے پودا لگائیں اور
درخت بنائیں ہم پودے تو لگاتے ہیں لیکن شاید ہم ان پودوں کی کیئر نہیں کرتے کچھ
دنوں کے بعد پانی نہ دینے کی وجہ سے یا مناسب طریقے سے خیال نہ رکھنے کی وجہ سے وہ
ختم ہو جاتے ہیں تو یہ ذہن بنائیں کہ پودا لگائیں درخت بنائیں ان کی حفاظت کریں یہ
ہمارے لیے صدقہ جاریہ بھی ہوگا اور درخت لگانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ درخت
ہمیں چھاؤں دیتے ہیں آج ہم چھاؤں میں کھڑا پسند کرتے ہیں یا گاڑی کو بائیک کو
چھاؤں میں کھڑا کرنا پسند کرتے ہیں لیکن درخت لگانا پسند نہیں کرتے تو لہذا یہ ذہن
بنائیں کہ پودا لگانا ہے درخت بنانا ہے۔
ہمارے پیارے
نبی ﷺ کا فرمان ہے: جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے اگر کوئی مسلمان کوئی پودا لگاتا ہے
اور اس پودے سے کوئی انسان یا جانور کھاتا ہے تو لگانے والے کے لیے وہ صدقہ جاریہ
ہوگا۔
ہمارے پیارے
نبی ﷺ کا ایک اور فرمان ہے: جس نے کوئی درخت لگایا اور پھر اس کی حفاظت کی اور اس
کی دیکھ بھال کی پھر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دینے لگا اور اس میں سے کھایا جانے
والا ہر پھل اس کے لیے صدقہ شمار کیا جائے گا۔
درخت لگانے کے
اور بھی بہت سے فوائد ہیں جیسے درخت پرندوں کا گھر ہے۔ درخت فضائی آلودگی کو
کنٹرول کرتے ہیں۔ جنگلات کے کٹائی پودوں جانوروں اور انسانوں کو متاثر کرتی ہیں۔
اس لیے ہمیں درختوں کو کاٹنا نہیں چاہیئے۔ درخت ہمارے لیے قدرت کا بہترین تحفہ ہے۔
درخت ماحول کو خوبصورت اور صاف ستھرا بناتے ہیں۔ شجرکاری بڑی نیکی کا کام ہے۔
نبی پاک ﷺ کی
سنت بھی ہے ہمارے وطن کو ضرورت بھی ہے اس دنیا میں اس وقت جو گلوبل وارمنگ ہے اس
کی ایک وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ درخت کاٹے جا رہے ہیں موسم بڑی تیزی سے تبدیل ہو
رہا ہے الحمدللہ اس ضرورت کو محسوس کیا گیا اور اس وقت پاکستان میں کم و بیش 30
لاکھ پودے FGRF
کی طرف سے لگائے جا چکے ہیں ہمارا نعرہ ہے پودا لگانا ہے درخت بنانا ہے کئی پودے
تو درخت بن بھی چکے ہیں۔
پودا
لگانا ہے درخت بنانا ہے از بنت محمود حسین،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

درخت ہماری
زندگی اور ماحولیاتی تبدیلی کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں موجودہ دور میں جو
ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان سے بچنے کا واحد حل زیادہ سے زیادہ درخت
لگانے کی ضرورت ہے۔ ماحول دوست پودے زمین کا زیور اور آکسیجن کی فراہمی کا بڑا
ذریعہ ہے۔ درخت خوراک، پناہ گاہ، آکسیجن، لکڑی اور دیگر بے شمار فوائد فراہم کرتے
ہیں۔ درخت ہوا کو صاف اور ٹھنڈک پیدا کرتے ہیں مٹی کے کٹاؤ اور لینڈ سلائیڈنگ کو
روکتے ہیں دماغی صحت اور ماحول کو بہتر بناتے ہیں۔
درخت بڑھتی
ہوئی سموگ، شدید گرمی اور قدرتی آفات کو روکتے ہیں درختوں سے انسانوں کے ساتھ
جانور اور پرندے بھی سایہ، پھل اور پناہ گاہ حاصل کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے سرکاری
سطح پر کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو ٹاسک دیا جائے اپنے اپنے علاقوں کے
بڑے زمینداروں، نمبرداروں اور بلدیاتی نمائندوں کو فری پودے دیئے جائیں اور وہ
اپنے اپنے حلقوں میں محفوظ جگہ پر لگوائیں جہاں انکی دیکھ بھال بھی ہو سکے، شہر سے
تمام چکوں کو جانے والے روڈز اور نہروں کے دونوں اطراف پودے لگائیں۔
حکومت کی طرف
سے کسان حضرات کیلئے پالیسی بنا دی جائے جس کھال سے زمین (زرعی رقبے) کو پانی
لگایا جاتا ہے ہر کھال کے ساتھ ساتھ ہر 20 سے 30 فٹ کے فاصلے پر درخت لگائے جائیں،
جس سے انسان، جانور اور پرندے مستفید ہونے کے ساتھ ماحول بہتر اور خوشگوار ہوگا۔
حکومتی اداروں
کے ساتھ عوام الناس بھی ہر وہ این جی اوز اور سماجی کارکنوں کی حوصلہ افزائی کریں
جو بڑھ چڑھ کر شجر کاری مہم میں حصہ لیتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ پودے لگاتے ہیں۔
درخت لگائیں
زندگیاں بچائیں اور پاکستان کو سر سبز بنائیں۔ اگر آپ کا زمین کا گھر ہے اور گلی
ایسی چوڑی ہے کہ پودا لگایا جاتا ہے(قانونی یا عرفی طور پر ممانعت نہیں ہے) تو آپ اپنے گھر کے باہر پودا ضرور لگائیں پھر اس
کی نگہداشت کر تے ہوئے اسے درخت بھی بنائیں بڑے شہروں میں فلیٹ میں رہنے والے اتنے
مواقع نہیں پاتے لیکن آپ دعوت اسلامی کے فلاحی ادارے FGRF
کے تحت مختلف پارکوں اور عوامی مقامات پر پودے لگا سکتے ہیں اس کے لئے FGRFکے
مقامی ذمہ داران سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
پودا لگانا ہے
درخت بنانا ہے۔ ان شاء اللہ
پودا
لگانا ہے درخت بنانا ہے از بنت سجاد حسین مدنیہ،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

پودا لگانا
ماحول اور انسانیت دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ ہر شہر کی آب وہوا مختلف ہوتی
ہے،اسی کے مطابق پودے لگائے جائیں تو زیادہ فائدہ حاصل ہوگا۔ پودے لگانے سے پہلے
ان کے ماہرین مثلا باغبان وغیرہ سے مشاورت کر لی جائے کیونکہ بعض پودوں کے لگانے
کا طریقہ مختلف ہوتا ہے،ان کے لیے مخصوص پیمائش پر گھڑے کی کھدائی اور اس گھڑے میں
مخصوص پانی کی مقدار رکھنا بھی ضروری ہوتی ہے۔
ماہرین سے
مشاورت کے بعد پودے لگائیں گے تو ان شاء اللہ کثیر فوائد حاصل ہوں گے اور دیکھتے
ہی دیکھتے ساری دنیا میں ہریالی ہوگی،بالخصوص وطن عزیز پاکستان کی ہر گلی محلے میں
درختوں اور پودوں کی یہ ہریالی دیکھ کر عشاقانِ مدینہ گنبد خضرا کی یاد تازہ کریں
گے۔
پودے لگانا
ہمارے پیارے آقا ﷺ کی سنت مبارکہ بھی ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی پودے لگانے کی
ترغیب اور فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ پودے لگانے کے فضائل پر تین فرامین آخری نبی ﷺ ملا
خظہ کیجئے۔
1۔ جو مسلمان
درخت لگائے یا فصل بوئے پھر اس میں سے جو پرندہ یا انسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس
کی طرف سے صدقہ شمار ہوگا۔ (بخاری، 2/ 85، حدیث: 2320)
2۔ جس نے کوئی
درخت لگایا اور اس کی حفاظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دینے لگا
تو اس میں سے کھایا جانے والا ہر پھل اللہ پاک کے نزدیک اس(لگانے والے)کے لیے صدقہ
ہے۔ (مسند امام احمد، 5/574، حدیث:16586)
3۔ جس نے کسی
ظلم و زیادتی کے بغیر کوئی گھر بنایا یا ظلم و زیادتی کے بغیر کوئی درخت اگایا،جب تک اللہ پاک کی مخلوق میں سے کوئی ایک
بھی اس میں سے نفع اٹھاتا رہے گا تو،اس (لگانے والے کو)ثواب ملتا رہے گا۔ (مسند امام
محمد، 5/309،حدیث 15616)
ان احادیث سے
ثابت ہوا کہ درخت لگانا بہت اجرو ثواب کا کام ہے۔
شجر
کاری کے معاشی اور معاشرتی فوائد: شجر کاری (یعنی درخت لگانے)کے ذریعے
بہت سے معاشی اور معاشرتی فوائد حاصل ہوتے ہیں، مثلا درخت لکڑی کے حصول کا ذریعہ ہیں اور لکڑی کا انسانی
ضروریات کو پوری کرنے میں کلیدی کردار ہے،فرنیچر، کھڑکیاں، دروازے، وغیرہ بنانے کے
لیے اب بھی لکڑی کا ہی استعمال ہوتا ہے۔
انسانی صحت کے
لیے پھلوں اور میوہ جات کی اہمیت کا بھی کوئی سمجھ بوجھ رکھنے والا انکار نہیں کر
سکتا اور یہ درخت ہی ہیں جو انسان کو
انواع واقسام کے پھل اور میوے مہیا کرتے ہیں بلکہ کئی پرندے اور جانور بھی ان
پھلوں کو کھا کر ہی جیتے ہیں۔
مسواک کرنا
ہمارے پیارے آقا ﷺ کی سنت ہے،اس سنت کی ادائیگی کے لیے بھی شجر کاری کرنی ہو گی
کیونکہ مسواک بھی درختوں سے ہی حاصل ہوتی ہے۔
پودے
لگانے کی احتیاطیں: پودے لگانے کے بعد انکی نگہداشت رکھنا،ان کو وقت پر
پانی دینا اور ان کے درخت بن جانے تک خوب احتیاط کرنا ضروری ہے۔اگر ایسا نہ کیا
گیا تو یہ پودے چند ہی دنوں میں مرجھا کر ختم ہو جائیں گےیا پھر کسی جانور کی غذا
بن جائیں گے۔
یاد
رکھیں!پودے کی مثال چھوٹے بچے کی طرح ہے جس طرح والدین چھوٹے بچے کی ہر چیز کا
خیال رکھتے ہیں اور خوب تن دہی سے اس کی پرورش کرتے ہیں، اگر تھوڑی سی بےتوجہی ہو
جائے تو بچہ کئی بیماریوں کی زد میں آسکتاہے، اسی طرح پودوں کا بھی معاملہ ہے کہ
انکی درست انداز میں آبیاری نہ کی گئی اور انہیں ایسے ہی لگ کر چھوڑ دیا گیا تو یہ
درخت بننے سے پہلے ہی مرجھا جائے گے۔
البتہ جب یہ
پودے تن آور درخت بن جائیں تو پھر انہیں خاص توجہ کی حاجت نہیں رہتی بلکہ درخت بن
جانے کے بعد یہ از خو د باقی رہ سکتے ہیں۔
نیز پودے لگا
نے کے بعد انکی صفائی ستھرائی اور کانٹ چھانٹ کا بھی خیال رکھنا ضروری ہےتاکہ کسی
کو بھی ان کی شاخوں اور ان سے جھڑنے والے پتوں وغیرہ سے ایذا نہ ہو۔
اہل
فارس کی طویل عمر ہونے کی وجہ: حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فارسی
کے رہنےوالے تھے۔فارس کے رہنے والے لوگوں کی عمریں طویل ہوتی تھی، اس کی وجہ بیان
کرتے ہوے مفسرین کرام فرماتے ہیں:فارس کے بادشاہ نہروں کی کھدائی اور شجر کاری میں
بہت رغبت رکھتے تھے،اسی وجہ سےان کی عمریں بھی لمبی ہوا کرتی تھیں۔
ایک نبی علیہ
السلام نے فارس کے لوگوں کی لمبی عمر سے متعلق اللہ پاک کی بارگاہ میں استفسار کیا
تو،اللہ پاک نے انکی طرف وحی فرمائی کہ یہ لوگ میرے شہر کو آباد کرتے ہیں، اسی وجہ
سے یہ دنیا میں زیادہ عرصہ زندہ رہتے ہیں۔
حضرت امیر
معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی آخری عمر میں کھیتی باڑی کا کام شروع کر دیا تھا۔ (تفسیر
کبیر، 6/367)

پودا لگانا
ایک نہایت اہم اور برکتوں سے بھرپور عمل ہے جو نہ صرف ماحول کو بہتر بناتا ہے ہے
بلکہ انسانیت کے لئے بھی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ اسلام میں درخت لگانے کی بہت
زیادہ ترغیب دی گئی ہے کیونکہ یہ عمل نہ صرف زندگی کو بڑھاتا ہے بلکہ ثواب کا باعث
بھی بنتا ہے اس طرح پودا لگانے سے نہ صرف دنیاوی فائدے حاصل ہوتے ہیں بلکہ یہ ایک
نیک عمل کے طور پر آخرت میں بھی اجر و ثواب کا باعث بنتا ہے۔
احادیث مبارکہ
میں بھی پودے لگانے کی ترغیب اور فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ نیز پودے لگانے کے فضائل
پر 3 فرامین مصطفیٰ ﷺ ملاحظہ کیجئے:
1۔ جو مسلمان
درخت لگائے یا فصل بوئے پھر اس میں سے جو پرندہ یا انسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس
کی طرف سے صدقہ شمار ہوگا۔ (بخاری، 2/ 85، حدیث: 2320)
2۔ جس نے کوئی
درخت لگایا اور اس کی حفاظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دینے لگا
تو اس میں سے کھایا جانے والا ہر پھل الله کے نزدیک اس (لگانے والے) کے لئے صدقہ ہے۔ (مسند امام احمد، 5/ 574، حدیث:
16586)
3۔ جس نے کسی
ظلم و زیادتی کے بغیر کوئی درخت اگایا جب تک الله کی مخلوق میں سے کوئی ایک بھی اس
میں سے نفع اٹھاتا رہے گا تو اس (لگانے
والے) کو ثواب ملتا رہے گا۔ (مسند امام احمد، 5/ 309، حدیث: 15616) ان احادیث
مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ درخت یا پودا لگانا اسلام میں نہایت پسندیدہ عمل ہے اور
یہ انسان کے لیے صدقہ جاریہ بن سکتا ہے اگر کوئی جانور، پرندہ یا انسان بھی اس سے
فائدہ اٹھائے تو الله اس پر اجر عطا فرماتا ہے۔
اہل
فارس کی طویل عمر ہونے کی وجہ: حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ فارس کے
رہنے والے تھے۔ فارس کے رہنے والوں کی عمریں طویل ہوتی تھی اس کی وجہ بیان کرتے
ہوئے مفسرین کرام فرماتے ہیں: فارس کے بادشاہ شجر کاری میں بہت رغبت رکھتے تھے اسی
وجہ سے ان کی عمریں بھی لمبی ہوا کرتی تھیں۔ ایک نبی علیہ السلام نے فارس کے لوگوں
کی لمبی عمر سے متعلق الله کی بارگاہ میں استفسار کیا تو الله نے ان کی طرف وحی
فرمائی کہ یہ لوگ میرے شہر کو آباد رکھتے ہیں اسی وجہ سے یہ دنیا میں زیادہ عرصہ
زندہ رہتے ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے بھی اپنی آخری عمر میں کھیتی
باڑی کا کام شروع کر دیا تھا۔ (تفسیر کبیر، 6/ 367)
ایک بار مدینے
کے تاجدار ﷺ کہیں تشریف لے جا رہے تھےحضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کو ملاحظہ
فرمایا کہ ایک پودا لگا رہے ہیں۔ استفسار فرمایا: کہ کیا کر رہے ہو؟ عرض کی: درخت
لگا رہا ہوں۔ فرمایا: بہترین درخت لگانے کا طریقہ بتا دوں! سبحٰن الله والحمدلله و
لا الٰہ الّا الله و الله اکبر پڑھنے سے ہر کلمہ کے عوض (یعنی بدلے) جنّت میں ایک
درخت لگ جاتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/ 252، حدیث: 3807)
اس سے جہاں یہ
معلوم ہوا کہ پودے لگانا صحابہ کرام کا بھی طریقہ ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ ان
مذکورہ کلمات کو پڑھنے سے ہر ہر کلمے کے بدلے جنّت میں ایک ایک درخت لگا دیا جاتا
ہے۔
درخت
لگانے کی اچھی اچھی نیتیں: درخت لگانے کے لئے بہت سی اچھی اچھی
نیتیں کی جا سکتی ہیں مثلاً:
1: درخت لگا
کر آقا جان ﷺ کی ادا کو ادا کروں گا، کیوں کہ درخت لگانا آپ ﷺ سے ثابت ہے۔
2: صحابہ کرام
علیہم الرضوان نے بھی درخت لگائے اور کھیتی باڑی کی، لہذا شجر کاری کر کے ان کی
ادا کو ادا کروں گا۔
3: درخت لگا
کر ماحولیاتی آلودگی کو کم کروں گا، تا کہ مسلمانوں کے لئے راحت و سکون کا سامان
ہو۔
4: درخت لگا
کر صدقہ کا ثواب کماؤں گا، اس طرح کہ درخت آکسیجن پیدا کرتے ہیں جو انسان اور
جانوروں کے لئے یکساں مفید ہے۔
اس کے علاوہ
بھی حسب حال اچھی اچھی نیتیں کی جا سکتی ہیں۔
اہم
بات! پودے
لگانے کے بعد ان کا خیال رکھنا، ان کو وقت پر پانی دینا اور ان کے درخت بن جانے تک
ان کی خوب احتیاط کرنا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پودے چند دنوں میں مرجھا
کر ختم ہو جائیں گے یا پھر کسی جانور کی غذا بن جائیں گے۔
یاد رکھیے! پودے
کی مثال چھوٹے بچے کی طرح ہے کہ جس طرح والدین چھوٹے بچے کی ہر چیز کا خیال رکھتے
ہیں کہ اگر تھوڑی سی بے توجہی ہو جائے تو بچہ کئی بیماریوں کی زد میں آ سکتا ہے،
اسی طرح پودوں کا بھی معاملہ ہے کہ اگر ان کی درست انداز میں آبیاری نہ کی جائے انہیں
لگا کر ایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو یہ درخت بننے سے پہلے ہی مرجھا جائیں گے۔ نیز
پودے لگانے کے بعد ان کی صفائی ستھرائی اور کانٹ چھانٹ کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔
پودا
لگانا ہے درخت بنانا ہے از بنت محمد اشرف،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

دعوت اسلامی
کے شعبہ فیضان گلوبل ریلیف فاؤنڈیشن (FGRF) نے پودا لگانا ہے درخت بناناہے کے مقصد سے
30 جولائی 2021 میں اس مہم کا آغاز کیا جس میں شیخ طریقت امیر اہلسنّت بانی دعوت
اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ اوردعوت
اسلامی کے ہر سطح کے ذمہ داران اور اسلامی بھائیوں نے بھرپور حصہ لیا اورFGRF
کی جانب سے ملنے والی رپورٹ کے مطابق جنوری 2021ء سے اب تک ملک وبیرون میں ہزاروں
مقامات پر 2ملین (یعنی 20لاکھ)سے زائد پودےلگائے جاچکے ہیں۔اس کے علاوہ مزید پودے
لگانے اور لگائے گئے پودوں کی نگہداشت کا کام بھی بحسن خوبی انجام دیا جارہا ہے۔
شجرکاری جو اس
وقت ایک اہم ایشو ہے، مقامی اور عالمی طور پر کانفرنسز سمینارز ہورہے ہیں،تشہیری
مہمیں چلائی جارہی ہیں لوگوں کو درخت لگانے کی ترغیبیں دلائی جارہی ہیں، ہمارا
پیارا دین اسلام جو کہ انسان کے وجود وبقاء کا ضامن دین فطرت ہے، اس میں ظاہری
وباطنی اور انفرادی و اجتماعی نظافت وپاکیزگی پر بہت زور دیا گیا ہے، اس نے
تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے شجرکاری کی اہمیت بتائی چنانچہ:
اللہ پاک کے آخری
نبی محمد عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے کوئی درخت لگا یا اور اس کی حفا ظت اور
دیکھ بھال پر صبر کیا یہا ں تک کہ وہ پھل دینے لگا تو اس میں سے کھایا جانے والا
ہرپھل اللہ پاک کے نزدیک اس کے لئے صدقہ ہے۔ (مسند امام احمد،5/574، حدیث: 18586)
نبی کریم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: جومسلمان درخت لگا ئے یا فصل بوئے پھر اس میں سے جوپرند ہ یا انسا ن
کھا ئے تو وہ اسکی طر ف سے صدقہ شما ر ہوگا۔ (مسلم،ص 840، حدیث: 1553)
دوسری روایت
میں ہے کہ مسلمان جو کچھ اگائے پھر اس میں سے کوئی انسان یا جانور یا پرند ہ کھائے
تو وہ اس کے لئے قیامت تک صدقہ ہوگا۔ (مسلم، ص 839، حدیث:1552)
حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے مروی حدیث پاک میں وہ سات چیزیں جن کا ثواب انسان کو مرنے کے بعد بھی
ملتا رہتا ہے ان میں سے ایک درخت لگانا بھی ہے۔ (مجمع الزوائد، 1/ 408، حدیث: 769)
مشہور صحابی
رسول حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں دمشق میں ایک جگہ کھیتی بورہا
تھا، ایک شخص میرے قریب سے گزرا تو اس نے مجھ سے کہا کہ آپ صحا بئی رسول جیسا منصب
حاصل ہونے کے باوجود یہ کام کررہے ہیں! تو میں نے اس سے کہا میرے بارے میں رائے
قائم کرنے میں جلد بازی مت کرو کیونکہ میں نے رسول پاک ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
جس نے فصل بوئی تو اس فصل میں سے آدمی یا مخلوق میں سے جو بھی کھائے گا وہ اس کے
لئے صدقہ شمار ہو گا۔ (مسند امام احمد،10/ 421، حدیث: 27576)
درخت
لگانے کے طبعی اور طبی فوائد:
آکسیجن
کی فراہمی کا ذریعہ: یہ آکسیجن خارج کرتے ہیں اور آکسیجن کی انسانی
زندگی میں ضرورت سے ہر شخص آگاہ ہے۔
خوشگوار
ماحول کا سبب: یہ
کاربن ڈائی اکسائیڈ کو جذب کرکے ماحول کو خوشگوار بنانے میں اپنا اہم کردار
اداکرتے ہیں۔
ادویات
کے حصول کا ذریعہ: مختلف اقسام کی ادویات کے بنانے میں درختوں کی جڑیں
اورپتے وغیرہ استعمال ہوتے ہیں، تحقیق کے مطابق پودوں اور جڑی بوٹیوں پر مشتمل
ادویات کے کاروبار کا حجم دنیا بھر میں تقریباً 83 ارب ڈالر ہے۔
ذہنی
تناؤ اور ڈپریشن میں کمی اور انسانی صحت کا ضامن: درختوں کی
موجودگی کو خوشگوارصحت مند زندگی کی ضامن بھی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ انہیں
دیکھنے اور اس کے درمیان رہنے سے لوگوں کو ذہنی و جسمانی طور پرخوشگوار تازگی کا
احساس ہوتا ہے جونہ صرف ذہنی طور پر بلکہ کئی جسمانی امراض سے محفوظ رکھتے ہوئے
انہیں صحت مند بناتی ہے جبکہ درختوں کے درمیان رہنے سے ان کی تخلیقی کارکردگی میں
بھی اضافہ ہوتا ہے۔
صوتی
آلودگی میں کمی: ماہرین
کے مطابق اربن پلاننگ میں اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کے ارد گرد
اور زیادہ شور شرابے والے مقامات جیسے فیکٹریوں اور کارخانوں کے قریب زیادہ سے
زیادہ درخت لگانے سے ماحول کوپرسکون بنایاجاسکتا ہے۔ آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے
کہ ہمیں بھی اس عظیم مہم میں حصہ لینے کی کوشش عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین
پودا
لگانا ہے درخت بنانا ہے از بنت عبدالمجید،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

ماحولیاتی
آلودگی کی روک تھام اور فضا کو سانس لینے کے قابل بنانے کے لیے درخت لگانے کی بہت
زیادہ ضرورت ہے۔ درخت اور پودے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن
مہیا کرتے ہیں۔ آکسیجن انسانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر انسان
زندہ نہیں رہ سکتا۔جن علاقوں میں بڑی تعداد میں درخت موجود ہوتے ہیں اس علاقے کو
سیلاب کا خطرہ بے حد کم ہوتا ہے۔
درخت کی جڑیں
نہ صرف خود اضافی پانی کو جذب کرتی ہیں بلکہ مٹی کو بھی پانی جذب کرنے میں مدد
دیتی ہیں جس کے باعث پانی جمع ہو کر سیلاب کی شکل اختیار نہیں کرتا۔شدید گرمی کی
صورت میں درخت درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکتے ہیں۔
درخت لگانے کی
وجہ سے زمینی کٹاؤ سے بھی حفاظت ہوتی ہے،درختوں کی موجودگی تناؤ اور ڈپریشن کو کم
کرکے لوگوں کو ذہنی و جسمانی طور پر صحت مند بناتی ہے جبکہ درختوں کے درمیان رہنے
سے ان کی تخلیقی کارکردگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور انسان کے دل و دماغ کو سکون
ملتا ہے۔
درخت لگانے کی
اہمیت کا اندازہ حضور نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔
چنانچہ ہمارے پیارےنبی محمد عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے کوئی درخت لگا یا اور اس
کی حفاظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہا ں تک کہ وہ پھل دینے لگا تو اس میں سے
کھایا جانے والا ہرپھل اللہ پاک کے نزدیک اس کے لئے صدقہ ہے۔ (مسند امام احمد، 5/ 574،
حدیث: 18586)
مشہور صحابی
رسول حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں دمشق میں ایک جگہ کھیتی بورہا
تھا، ایک شخص میرے قریب سے گزرا تو اس نے مجھ سے کہا کہ آپ صحا بئی رسول جیسا منصب
حاصل ہونے کے باوجود یہ کام کررہے ہیں! تو میں نے اس سے کہا میرے بارے میں رائے
قائم کرنے میں جلد بازی مت کرو کیونکہ میں نے رسول پاک ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
جس نے فصل بوئی تو اس فصل میں سے آدمی یا مخلوق میں سے جو بھی کھائے گا وہ اس کے
لئے صدقہ شمار ہو گا۔ (مسند امام احمد،10/ 421، حدیث: 27576)
زیادہ سے
زیادہ پودے لگائیں اور اپنی ذہنیت کو سکون دیں اس سے مثبت اثرات پیدا ہوتے ہیں اگر
ہم چھوٹا سا پودا لگاتے ہیں تو وہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے درخت بنے گا۔
ایک تحقیق کے
مطابق اگر آنے والے زمانے میں درخت نہ رہیں تو سانس لینا بھی دشوار ہوگا ہمیں
زیادہ سے زیادہ درخت لگانے چاہیے۔
رکن شوریٰ حاجی یعفور رضا عطاری مدنی چینل پر ہفتہ
وار اجتماع میں بیان فرمائیں گے

دعوت
اسلامی کے زیر اہتمام آج مؤرخہ 31جولائی 2024ء بروز جمعرات دنیا
بھر میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کا انعقادکیا جائے گا جن میں اراکین شوریٰ و
مبلغینِ دعوتِ اسلامی سنتوں بھرے بیانات فرمائیں گے۔اجتماعات میں بیانات کے ساتھ
ساتھ تلاوت و نعت، ذکر و اذکار، دعا اور
صلوۃ و سلام کا سلسلہ ہوگا۔
آج
رات مدنی چینل پر براہ راست نشر ہونے والے ہفتہ وار اجتماع میں رکن شوریٰ حاجی یعفور
رضا عطاری ٹھاکرہ اسٹیڈیم مانسہرہK.P.K سے سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔
تفصیلات
کے مطابق عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں نگران پاکستان مشاورت حاجی محمد
شاہد عطاری، مدنی مرکز فیضان مدینہ کولو روڈ حافظ آباد میں رکن شوریٰ عبد الوہاب
عطاری، فیضان اسلام مسجد DHA PH7 کراچی میں رکن
شوریٰ حاجی محمد علی عطاری، فیضان رمضان مسجد دہی والا سارا ننکا روڈکولمبو سری
لنکا میں رکن شوریٰ حاجی محمد امین عطاری اور جامع مسجد فیض مدینہ نیوکراچی کریلا
اسٹاپ میں نگران ویلز یوکے حاجی سید فضیل رضا عطاری سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔
تمام
عاشقانِ رسول سے ہفتہ وار اجتماع میں بھرپور شرکت کی درخواست ہے۔

ایک وقت تھا
جب کسی کی پلک لرزتی تھی تو دل دھڑک جاتے تھے۔ کسی کا لہجہ بجھتا تھا تو محفلیں
خاموش ہو جاتی تھیں۔ انسان، انسان کے دکھ کا مترجم تھا۔ لیکن اب؟ اب ہر چہرہ جیسے
ایک مقفل صندوق ہے، جس میں جذبے قید ہیں اور زبان پر زنگ آلود تالے۔
یہ جو معاشرہ
ہے پتھروں کا جنگل یہاں بے مروتی ایک عام
شجر کی طرح اگتی ہے، جس کی جڑیں دلوں میں پیوست اور شاخیں تعلقات کو نوچتی ہیں۔
تعریف:
بے
مروتی کا لغوی مفہوم ہے: نرمی، محبت، لحاظ اور ہمدردی کا فقدان۔ یہ رویّہ وہ تیشہ
ہے جو رشتوں کی جڑ کاٹتا ہے، اور وہ دھواں ہے جو دلوں کے آئینے کو دھندلا دیتا ہے۔
بے مروتی ایک
خشک دریا ہے، جس پر خوش گفتاری، دلجوئی اور لحاظ کے قافلے کبھی نہیں گزرتے۔ یہ وہ
زہر ہے جو رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے، مگر احساس کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔
قرآن
و حدیث کی روشنی میں مذمت: اسلام نے حسن سلوک، عفو، اور نرم
گفتاری کو اعلیٰ مقام دیا ہے۔ بے مروتی، اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اللہ
تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (پ 1، البقرۃ:83)
ترجمہ: اور لوگوں سے نرمی اور حسن اخلاق سے بات کرو۔
نبی کریم ﷺ نے
فرمایا: جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جائے گا۔ (بخاری، 4/ 100، حدیث: 5997)
اور ایک اور
جگہ فرمایا: مومن نرم خو ہوتا ہے، نرم دل ہوتا ہے، جیسے نرم اونٹ کہ جہاں بٹھایا
جائے بیٹھ جائے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 3/88، حدیث:5086)
یہ تعلیمات
واضح کرتی ہیں کہ مروّت اور نرمی صرف اخلاقی فیشن نہیں بلکہ دینی فریضہ ہیں۔ بے
مروتی، درحقیقت، اس اخلاقی نظام کی پامالی ہے جو قرآن و سنت نے تعمیر کیا۔
بے مروتی پیدا
کیوں ہوتی ہے؟ اس کی چند وجوہات یہ ہو سکتی ہیں:
1۔
نفس پرستی: انسان
جب خود کو کائنات کا مرکز سمجھنے لگے تو دوسرے محض پس منظر میں رہ جاتے ہیں۔
2۔
مادیت پرستی: مفادات
کی دوڑ میں انسان رشتوں کو ایک ’سودا‘ سمجھنے لگتا ہے، اور سودے میں جذبات کی
گنجائش نہیں ہوتی۔
3۔
دل کا سخت ہو جانا: قرآن کہتا ہے: ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ (پ 1البقرۃ:
74) ترجمہ: پھر تمہارے دل سخت ہو گئے۔
4۔
ادب و تہذیب سے دوری: جب تعلیم صرف ڈگریوں تک محدود ہو جائے اور تربیت کا
سورج غروب ہو جائے تو معاشرہ بے مروتی کی رات میں جاگتا ہے۔
5۔
نفسیاتی زخم: کچھ
لوگ بے مروت اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ وہ خود بے رحم سلوک کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں۔
وہ اپنی شکست کا بدلہ معاشرے کی نرمی سے لیتے ہیں۔
تدارک:
بے
مروتی کا علاج محض اخلاقی نصیحتوں سے ممکن نہیں۔ یہ روح کا زخم ہے، جس پر رحمت
الٰہی کی مرہم درکار ہے۔
1۔
خود احتسابی: ہر
رات خود سے سوال کریں: کیا میں نے کسی دل کو آج ٹھیس دی؟ یہی سوال آپ کو مروّت کی
دہلیز تک لے آئے گا۔
2۔
حسن خلق کو اپنانا: نبی ﷺ کا سب سے بڑا وصف حسن خلق تھا۔ فرمایا گیا: مجھے
مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا۔ (نوادر الاصول،1/1107،
حدیث:1425)
3۔
دوسروں کی جگہ خود کو رکھنا: جب ہم دوسرے کے جوتے میں چل کر دیکھتے
ہیں تو زمین کی سختی کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہی احساس انسان کو نرم کرتا ہے۔

بے مروتی ایک
ایسی منفی سماجی کیفیت ہے جس میں انسان دوسروں کے جذبات، ضرورتوں، اور حقوق کو نظر
انداز کرتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف انفرادی تعلقات کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ پورے
معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو کمزور کر دیتا ہے۔ بے مروتی دراصل مروّت، حسن سلوک،
اور انسانی ہمدردی کے فقدان کا نام ہے۔
بے
مروتی کی اقسام اور مظاہر: بے مروتی کے مختلف مظاہر ہمیں روزمرہ
زندگی میں نظر آتے ہیں۔ جیسے: بزرگوں کی بے ادبی اور نافرمانی، غریبوں، یتیموں اور
محتاجوں کو نظر انداز کرنا، جھوٹ، فریب اور دھوکہ دہی، دوسروں کی عزت نفس کو مجروح
کرنا۔ یہ سب مظاہر اس بات کی علامت ہیں کہ ہم اجتماعی طور پر ایک اخلاقی بحران سے
گزر رہے ہیں۔
اسلامی
تعلیمات اور مروّت: اسلام نے معاشرتی حسن سلوک اور مروّت کو بڑی اہمیت
دی ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبوی میں دوسروں کے ساتھ حسن سلوک، رحم دلی اور عدل و
انصاف کا حکم دیا گیا ہے۔
ارشاد باری
ہے: وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ
حُسْنًا (پ
1، البقرۃ:83) ترجمہ: اور لوگوں سے نرمی اور حسن اخلاق سے بات کرو۔
رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ (بخاری، 4/100، حدیث: 5997)
ایک اور حدیث
میں فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (بخاری، 1/15، حدیث: 10)
بے
مروتی کے نقصانات: بے مروتی سے نہ صرف افراد کے درمیان محبت ختم ہوتی
ہے بلکہ معاشرتی انتشار، دلوں میں نفرت، اور باہمی بد اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ یہ
رویہ خاندانوں، اداروں اور معاشروں کے بکھرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
اصلاحی
پہلو: بے
مروتی کا علاج حسن اخلاق، نرم دلی، اور اسلامی تعلیمات پر عمل ہے۔ ہمیں اپنے بچوں
کو ادب و اخلاق سکھانا چاہیے، معاشرتی ذمہ داری کا شعور دینا چاہیے، اور دوسروں کی
عزت و احساسات کا خیال رکھنے کی تربیت دینی چاہیے۔
بے مروتی
معاشرتی اخلاقیات کے لیے زہر قاتل ہے۔ اس کا خاتمہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم
اسلام کی تعلیمات کو اپنائیں، ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھیں اور مروّت و خلوص
کے جذبے کو فروغ دیں۔

دین اسلام ایک
ضابطہ حیات ہے۔ محمد مصطفی ﷺ دینِ اسلام کے ذریعے ہماری مکمل رہنمائی کرتے ہیں۔
اگر ہم محمد مصطفی کے بتائے ہوئے راستے اور آپ کی سیرت پر چلتے ہیں تو آخرت میں
کامیابی سے ہم کنار ہو سکتے ہیں۔ اب یہ تعین کرنا ہوگا کہ کونسے کام کو اپنا کر
دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے اور کونسے کام کا ارتکاب کرنے سے ذلت
و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں بھی بہت سے گناہ عام
ہوتے جا رہے ہیں آئیے بے مروتی کے بارے میں چند معلومات ملاحظہ فرمائیں۔
تعریف:
بے
مروتی کا مطلب ہے کہ کسی کے ناراض ہونے کی پرواہ نہ کرنا۔انسانی معاشرت کا مزاج ہی
ایسا ہے کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے بعض ایسے مطالبات بھی رکھتے ہیں جنہیں پورا
کرنا شرعاً ضروری ہوتا ہے نہ ممنوع۔ اس طرح کے مطالبات طاقت رکھنے کے باوجود پورے
نہ کرنا بے مروتی ہے۔
بے مروتی کا
اظہار چونکہ متعین صورتوں میں نہیں ہوتا، اس لیے ہم نمونے کے طور پر اس کے چند
مظاہر کا ذکر کرتے ہیں:
مراتب
کا پاس نہ کرنا: بعض
مراتب معاشرتی سطح پر اہمیت کے حامل گردانے جاتے ہیں اور ان کی یہ اہمیت صرف
معاشرت میں پائی جانے والی صورت کی حد تک ہی نہیں ہوتی بلکہ خود شریعت میں بھی یہ
قابل قبول ہوتی ہے۔ اس معاملے میں معاشرتی اقدارکو نظر انداز کرنا بے مروتی ہے
مثلاً استاد کا ایک مرتبہ ہے اور اس کی فضیلت خود شریعت سے بھی ثابت ہے تاہم استاد
کے ادب کی تقریباً تمام صورتیں معاشرے کے مجموعی مزاج سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگر وہ
صورتیں شریعت کی مخالفت پر مبنی نہ ہوں تو ان کی پابندی کرنا ایک صحت مند نفسیات
کے لیے ضروری ہے اور یہی مروت ہے۔
سچ
کو خوامخواہ درشت اور کڑوا بنا کر پیش کرنا: اچھے اچھے دین
دار لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ سچائی کو بدتمیزی اور دل آزاری کی حد تک پہنچا
دیتے ہیں۔ یہ بے مروتی کی وہ قسم ہے جو شرعاً بھی مذموم ہے۔
اپنے خود
ساختہ اصولوں کی ایسی پاسداری کرنا کہ کسی مستحق کی مدد یا کسی دوست کی مدارت میں
خلل پڑ جائے۔ ایسے آدمی سے عموماً اس طرح کی باتیں سرزد ہوتی ہیں:میں تین بجے کے
بعد کسی سے نہیں ملتا خواہ کچھ ہوجائے۔چار بجے میری یہ مصروفیت ہوتی ہے جسے میں
کسی بھی قیمت پر ترک نہیں کرتا وغیرہ۔ اس طرح کی ضابطہ پرستی بھی عین بے مروتی ہے۔
کسی سے ذہنی یا طبعی مناسبت نہ ہو تو اس پر اپنی بیزاری ظاہر کردینا اور یہ سمجھنا
کہ اس طرح میں نے ایک تومعاملات کی صفائی کا حق ادا کردیا اور دوسرے اپنے وقت کے
ضیاع کا دروازہ بند کردیا۔یہ بے مروتی تو ہے ہی انسانیت میں کمی کی بھی دلیل ہے۔
لوگ کوئی کام
کہیں تو صاف انکار کردینا۔ دوستوں یا تعلق والوں سے اگر کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو
اس پر غضبناک ہوجانا یا ترک تعلق کا فیصلہ کرلینا۔مختصر یہ کہ بے مروتی کا سب سے
بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان کا مادہ کم ہوجاتا ہے۔ یہ ایسا ضرر ہے جس کی موجودگی میں
آدمی اچھا بندہ بننے کی صلاحیت سے محروم ہوسکتا ہے۔ تاہم یہ خیال رہے کہ بامروتی
مداہنت اور دکھاوا نہیں ہے۔ انسان کی زندگی میں ایسے مواقع آتے رہتے ہیں جن میں وہ
سختی اور مضبوطی اختیار کرنے کا مکلف ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر معاشرتی معانی میں
مروت کا مظاہرہ دراصل مروت نہیں۔ صاحب مروت آدمی کی بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ بلاوجہ
دل آزاری سے بچتا ہے ا ور اپنا حرج کرکے دوسروں کے کام آتا ہے یعنی خوش خلق اور
ایثار والا ہوتا ہے۔بے مروتی کا واحد علاج خدمت خلق ہے۔ لوگوں کے کاموں میں مستعدی
کے ساتھ شریک رہنے سے مروت کا وصف اپنے حقیقی معنوں میں پیدا ہوجاتا ہے۔
ایک مسلمان کو
کس حد تک بامروت ہوناچاہیے؟ اس کا نمونہ ہمیں اسوۂ حسنہ سے ملتا ہے۔ جس کی ایک
مثال یہ ہے کہ لوگ آپﷺ سے ملنے آتے یا دعوت پر آتے تو بعد میں دیر تک بیٹھے رہتے
اس سے آپﷺ کو تکلیف ہوتی لیکن آپﷺ مروت کے مارے خاموش رہتے اور برداشت کرتے یہاں
تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بارے میں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ پیغمبر
تو مارے مروت کے خاموش رہتے ہیں تمہیں خود اس کا خیال رکھناچاہیے کہ نبی کی ایذا
کا سبب نہ بنو۔ (پ 22، الاحزاب:53)

زندگی کی حسین
وادی میں محبت، خلوص اور مروت ایسے پھول ہیں جو انسانیت کے باغ کو مہکاتے ہیں۔
لیکن جب یہی پھول مرجھا جائیں تو اس کی جگہ بے مروتی، سخت دلی اور خود غرضی جیسے
کانٹے اگ آتے ہیں۔ بے مروتی ایک ایسی منفی صفت ہے جو انسانی رشتوں کو کھوکھلا کر
دیتی ہے اور معاشرے کو انتشار کی طرف دھکیلتی ہے۔
بے مروتی کا
مطلب ہے دوسروں کے جذبات کا احساس نہ کرنا، ان کے ساتھ رواداری، شفقت اور ہمدردی
سے پیش نہ آنا۔ یہ صفت صرف ظاہری رویوں تک محدود نہیں، بلکہ انسان کے باطن کی سختی
اور خود پسندی کی غماز ہوتی ہے۔ کبھی یہ سخت لفظوں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، تو
کبھی نظر انداز کر دینے، بے نیازی برتنے یا ضرورت کے وقت منہ موڑ لینے میں۔
ہمارا دین
اسلام، جو سراپا رحمت اور اخلاق کا پیغام ہے، مروت اور نرمی کا درس دیتا ہے۔ رسول
اکرم ﷺ نے فرمایا:جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ اس پر رحم نہیں کرتا۔ (بخاری، 4/100، حدیث: 5997)
آپ ﷺ کی زندگی
محبت، مروت اور شفقت سے لبریز تھی۔ دشمنوں سے بھی خندہ پیشانی سے پیش آنا، یتیموں
کے سر پر ہاتھ رکھنا، غلاموں کے ساتھ نرمی برتنا — سب آپ کی سیرت کے روشن پہلو
ہیں۔ اس کے برعکس، بے مروتی نہ صرف دوسروں کا دل دکھاتی ہے بلکہ انسان کو اللہ کے
قرب سے بھی دور کر دیتی ہے۔
آج کے دور میں
بے مروتی ایک عام مرض بنتی جا رہی ہے۔ سڑک پر پڑا زخمی انسان بے یار و مددگار پڑا
ہوتا ہے اور لوگ بنا پروا کیے گزر جاتے ہیں۔ دوستوں میں خود غرضی آ گئی ہے، رشتہ
داروں میں مروت کی جگہ مفاد نے لے لی ہے، اور معاشرہ ایک ایسی بھاگ دوڑ میں لگ گیا
ہے جہاں کسی کے آنسو دکھائی نہیں دیتے۔
ادب میں بھی
بے مروتی کے خلاف شدید آواز بلند کی گئی ہے۔ غالب کا ایک شعر ہے:
کعبہ
کس منہ سے جاؤ گے غالب شرم تم کو
مگر نہیں آتی
یہ شعر بے
مروتی اور بے شرمی کی انتہائی صورت پر طنز ہے۔ اسی طرح حالی، اقبال، اور دیگر شعرا
و ادبا نے معاشرتی بے حسی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
بے مروتی کا
علاج احساس، ہمدردی، اور دل کی نرمی سے ہوتا ہے۔ اگر ہم دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ
سمجھیں، ان کی خوشی کو اپنی خوشی جانیں، تو بے مروتی ختم ہو سکتی ہے۔ ہمیں چاہیئے
کہ ہم بچوں، بوڑھوں، غریبوں، اور کمزوروں کے ساتھ مروت سے پیش آئیں اور ان کے لیے
دل میں جگہ بنائیں۔
آخر میں، یاد
رکھیے کہ مروت ایک چراغ ہے جو صرف دوسروں کے لیے نہیں، بلکہ خود ہمارے دل کے
اندھیرے دور کرتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرہ بہتر ہو، رشتے مضبوط ہوں اور
زندگی خوبصورت بنے تو ہمیں بے مروتی کو خیر باد کہنا ہوگا۔ محبت، خلوص اور مروت ہی
وہ اقدار ہیں جو ہمیں انسان بناتی ہیں۔
لاڑکانہ شہر میں شعبہ معاونت برائے اسلامی بہنیں کے ذمہ داران کا
مدنی مشورہ

صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ میں قائم دعوتِ اسلامی
کے مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں شعبہ معاونت برائے اسلامی بہنیں کے تحت 24 جولائی
2025ء کو مدنی مشورہ ہوا جس میں ڈویژن نگران اور دیگر ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے
شرکت کی۔
مدنی مشورے میں صوبائی ذمہ دار محمد شفیق عطاری
نے ذمہ دار اسلامی بھائیوں کو گلی گلی مدرسۃالمدینہ اور فیضانِ صحابیات کا آغاز کرنے نیز ہفتہ وار
اجتماعات شروع کروانے کے حوالے سے گفتگو کی۔