الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اور ایک شخص کا مسلمان ہونا اس سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ اس کا طرز زندگی سنت نبوی کے مطابق ہو اور ہمارے پیارے آقا ﷺ کی ایک پیاری پیاری سنت درخت لگانا بھی ہے۔ یہ نہ صرف سنت نبوی ہے بلکہ ثواب جاریہ پانے کا ذریعہ بھی ہے۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ مسلمان جو کچھ اگائے پھر اس میں سے کوئی انسان یا جانور یا پرندہ کھائے تو وہ اس کے لئے قیامت تک صدقہ ہوگا۔ (بخاری، 2/ 85، حدیث: 2320)

درخت کی ضرورت و فوائد: درخت لگاناجہاں کار ثواب ہے وہیں یہ ہماری ضرورت بھی ہیں کہ یہ ہمارے لیے (معاشی، معاشرتی، طبی،طبعی) ہر لحاظ سے فائدہ مند ہیں، درخت کے کثیر فوائد میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

درخت آکسیجن کی فراہمی کا ذریعہ اور خوشبودار ماحول کا سبب ہیں، درخت ایندھن کی فراہمی اور بجلی کی بچت کا ذریعہ ہیں، غذائی ضروریات کے حصول کا ذریعہ اور زمین کی زرخیزی میں اضافے کا سبب ہے، ماہرین کے مطابق درختوں کے درمیان رہنے والے انسان کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی بنا پر شہری علاقوں میں قائم تعلیمی اداروں کے گرد زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جاتے ہیں تاکہ طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں میں خوب اضافہ ہو۔

بہر حال درختوں کے بہت سے فوائد ہیں جنہیں پانے کے لیے خوب خوب درخت لگانے کی حاجت وضرورت ہے۔

حفاظتی اقدامات: ہمارا مقصد صرف پودوں کو لگا کر چھوڑ دینا نہیں ہے بلکہ ہمارا مقصد تو یہ ہے کہ پودا لگانا ہے درخت بنانا ہے۔ہمارے یہاں عموماً دیکھا جاتا ہے کہ پودے لگانے کے بعد ان کے معاملے میں احتیاط نہیں کی جاتی جس کی بناء پر وہ چند ہی دنوں میں مرجھا کر ختم ہو جاتے ہیں یا پھر کسی جانور کی غذا بن جاتے ہیں۔ یاد رکھیے! پودے کی مثال چھوٹے بچے کی طرح ہے، جس طرح والدین چھوٹے بچے کی ہر چیز کا خیال رکھتے ہیں اور خوب تن دہی سے اس کی پرورش کرتے ہیں، اگر تھوڑی سی بے توجہی ہو جائے تو بچہ کئی بیماریوں کی زد میں آسکتا ہے، اسی طرح پودوں کا بھی معاملہ ہے کہ اگر ان کی درست انداز میں آبیاری نہ کی گئی اور انہیں ایسے ہی لگا کر چھوڑ دیا گیا تو یہ درخت بننے سے پہلے ہی مرجھا جائیں گے۔ (درخت لگائیے ثواب کمائیے، ص 7)

پودوں کی حفاظت کیلئے درج ذیل ہدایات پر عمل مفید ہے:

(1)وقت پر آبیاری کی جائے،(2) پودے خریدنے میں نرسری والوں کے دھوکوں سے بچیں۔ جب بھی کسی درخت، بیل یا جھاڑی کے پودے کا انتخاب کریں تو دیکھ بھال کر ایسا پودا خریدیں جو ذرا سی بھی خراب حالت میں نہ ہو، جس پر کیڑوں یا بیماری کے نشانات نہ ہوں یا جس کی آہستہ Growth نہ ہو(3) پودا لینے میں یہ احتیاط لازمی کریں کہ اسکی عمر کم از کم چھ ماہ ضرور ہو (4) درخت، بیل یا جھاڑی خریدنے سے پہلے اس بات کی مکمل معلومات حاصل کر لیں کہ مکمل بڑے ہونے پر وہ کتنی اونچائی، چوڑائی اور پھیلاؤ حاصل کریں گے۔ یہ ضروری بات میں ذہن میں رکھیں کہ زمین کے نیچے درختوں کی جڑوں (Roots) کا پھیلاؤ ان کے زمین سے اوپر موجود تنے سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ (5)ان پودوں کیلئے درست جگہ کا انتخاب کیا جائے۔

امید ہے کہ اگر ان نکات کو مد نظر رکھا جائے تو ایک پودا مضبوط درخت کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔

شجر کاری مہم میں دعوت اسلامی کا کردار: جہاں دعوت اسلامی دیگر دینی و فلاحی کاموں میں اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہے وہیں اس کا ایک شعبہ (FGRF) شجر کاری مہم میں بھی اپنا کردار نبھا رہا ہے اور الحمد للہ اس شعبے کے تحت دعوت اسلامی اب تک (2025) کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 30,00,000 (تیس لاکھ) درخت لگا چکی ہے آپ بھی اس نیک کام میں اپنا حصہ ملائیے اور ثواب جاریہ کے حقدار بن جایئے اور نیت فرمالیجیے کہ پودا صرف لگانا نہیں ہے بلکہ پودا لگانا ہے اور درخت بنانا ہے۔

اللہ پاک اس شجر کاری کو ہمارے لیے صدقہ جاریہ بنائے اور ہمیں ہمارے مقصد میں کامیابی نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

موضوع ہے پودا لگانا ہے درخت بنانا ہے اس کا مطلب شجرکاری کرنی ہے انسان اور درخت کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ درست ہے کہ دونوں کی بقا ایک دوسرے کے لیے ناممکن ہے انسان کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے یہ آکسیجن پودے فراہم کرتے ہیں اسی طرح پودوں کو زندہ رہنے کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ گیس پودوں کی خوراک بنانے کا بہترین جزو ہے اور یہ گیس انسان اور دوسرے جانور ہی مہیا کرتے ہیں درخت نہ صرف ہمیں اکسیجن دیتے ہیں بلکہ خوراک،رہائش کا سامان، ادویات،فرنیچر اور دوسری بہت سی اشیاء بھی فراہم کرتے ہیں۔

اگر روۓ زمین پر درخت اور ہریالی نہ ہو تو ہماری زندگی بہت مشکل ہو جائے گی یہ درخت ہی تو ہے جو انسان کے ہاتھوں پیدا ہونے والی فضائی آلودگی اور زمینی آلودگی کو کنٹرول کرتے ہیں درخت ہی پرندوں اور جانوروں کا گھر،ان کا مسکن اور خوراک کا ذریعہ ہے زمین پر پھیلے ہوئے جنگل اور درخت بنی نوع انسان کے لیے قدرت کا انمول تحفہ ہے درخت نہ صرف سایہ فراہم کرتے ہیں بلکہ آلودگی کو کم کرتے ہیں درختوں کے نہ صرف دنیاوی فائدے ہیں بلکہ اس کے اخروی فائدے بھی موجود ہیں دینی فائدے نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں درخت لگانے کو صدقہ شمار کیا ہے مرنے کے بعد بھی اگر قبر پر پودے لگائے جائے تو اس سے مردے کو انسیت حاصل ہوتی ہے۔

احادیث مبارکہ میں پودے لگانے کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں

اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کوئی درخت لگایا اور اس کی حفاظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دینے لگا تو اس میں کھایا جانے والا ہر پھل اللہ پاک کے نزدیک اس کے لیے صدقہ ہے۔ (مسند امام احمد، 5/574، حدیث: 18586)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پاک میں ہے: سات چیزیں جن کا ثواب انسان کو مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے ان میں سے ایک درخت گانا ہے۔ (مجمع الزوائد، 1/408، حدیث: 769)

شجرکاری کے فائدے: درختوں کے بے شمار فائدے ہیں ان میں سے چند فائدے درج ذیل ہیں:

درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے، درخت زمین پر زندگی کو برقرار رکھنے کی بنیاد ہے، درخت ہمیں سایہ فراہم کرتا ہے، درختوں سے ہمیں مختلف قسم کے پھل حاصل ہوتے ہیں، درختوں سے ہمیں پھول حاصل ہوتے ہیں جن کو خوشبو اور سجاوٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں، درختوں سے لکڑی حاصل ہوتی ہے جس سے گھر،کاغذ، ربڑ، دروازے وغیرہ بنائے جاتے ہیں، ہم درختوں سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں، درختوں سے آلودگی میں کمی ہوتی ہے، درختوں کے باعث زمینی سیلابوں سے حفاظت رہتی ہے۔

سائنسی تحقیق کے مطابق بھی شجرکاری کے بڑے فائدے ہیں درخت اور پودے کاربن ڈائی اکسائیڈ لیتے اور آکسیجن فراہم کرتے ہیں آکسیجن انسانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے اس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اللہ پاک نے درختوں اور پودوں کو انسان کی خدمت کے لیے بنایا ہوا ہے یہ گندی ہوا لے کر اپنی پاکیزہ ہوا دیتے ہیں درجہ حرارت کو بڑھنے نہیں دیتے درخت اور پودے فضائی آلودگی میں کمی کرتے ہیں درخت اور پودے کی کثرت سے ماحول ٹھنڈا اور خوشگوار رہتا ہے اس سے بجلی کی بھی بچت ہوتی ہے کیونکہ جو الات گرمی دور کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں ان کی ضرورت میں کمی ہوجاتی ہے یا بالکل ہی چھٹکارا مل جاتا ہے۔

یوں ہی درخت اور پودے گلوبل وارمنگ میں بھی کمی کا سبب بنتے ہیں عالمی ماحول کے درجہ حرارت میں خطرناک حد تک اضافہ گلوبل وارمنگ کہلاتا ہے جس کی وجوہات میں درختوں کا کاٹنا، صنعتوں کا تیزی سے قیام میں لانا اور گاڑیوں کا بے تحاشہ دھواں شامل ہے اگر درختوں کی حفاظت کی جائے تو ان خطرات و نقصانات سے بچنے کا بھی سامان ہو سکتا ہے۔

پودے زمین پر نہ صرف انسانی بلکہ ہر جاندار کی زندگی کا اہم حصہ ہیں۔ یہ صرف ہمارے ماحول کو خوبصورت اور خوشگوار ہی نہیں بناتے بلکہ انسانی صحت اور زندگی لیے بھی بےشمار فوائد فراہم کرتے ہیں۔ اللہ پاک نے پودوں کے اندر ایسے وٹامنز، معدنیات اور دیگر اہم اجزارکھے ہیں جوجسم کی نشو نما اور صحت کے لیے ضروری ہیں۔

شجر کاری کرنا یعنی پودا لگانے کا کام کرنا سنت رسول ﷺ بھی ہے۔ تقریبا ہر فرد پودالگاتو لیتا ہے مگر اس کی دیکھ بھال پر دھیان نہیں دے پاتا جس کی وجہ سے وہ مرجھا جاتا ہےاور اس کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کے کل رقبے کا 25 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے. جب ہم پودا لگا کر اس کی حفاظت ہی نہیں کریں گے تو کس طرح وہ درخت بن کر ہمیں فائدہ پہنچا سکیں گے. درخت جو کہ ہمیں آکسیجن فراہم کرتا ہے دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ درخت کی زیادہ سے زیادہ پیداوار بھی بہت ضروری ہے کیونکہ انسان اکسیجن کو اپنے اندر لیتا ہے۔

پیڑ بنی نوع انسان کے لیے اللہ پاک کی قدرت کا انمول تحفہ ہے اگر یہ ختم ہو جائیں گے تو آنے والی نسلوں کے لیے بہت سےمسائل سامنے کھڑے ہونگے

شجر کاری پر فضائل: نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کوئی درخت لگایا اور اس کی حفاظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دینے لگا تو اس میں سے کھایا جانے والا ہر پھل اللہ پاک کے نزدیک اس کے لئے صدقہ ہے۔ (مسند امام احمد، 5/574، حدیث: 18586)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پاک میں وہ سات چیزیں جن کا ثواب انسان کو مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے ان میں سے ایک درخت لگانا بھی ہے۔

حضرت محمد مصطفی ﷺ نےارشاد فرمایا: جو مسلمان درخت لگائے یا فصل بوئے پھر اس میں جو پرنده یا انسان کھائے تو وہ اسکی طرف سے صدقہ شمار ہوگا۔ (مسلم، ص 840، حدیث:1553)

درخت کے فوائد: پودالگا کر اس کی دیکھ بھال بھی کی جائے یہاں تک وہ ایک مفید درخت بن جائے کیوں کہ درخت کے بہت سے فوائد ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

پودے آکسیجن پیدا کرتے ہیں، جو کہ زندگی کے لیے ضروری ہے۔ درخت مختلف قسم کے جانداروں کے لیے رہائش فراہم کرتے ہیں اور بہت سے پرندے درخت میں اپنا گھونسلہ بنا کر رہتے ہیں، پودوں سے انسانوں کے لیے خوراک حاصل ہوتی ہے جیسے: پھل، سبزیاں اور اناج وغیره۔ پودے طبی فوائد کے لیےبھی استعمال ہوتے ہیں جیسے: ہلدی، ادرک اور پودینے۔ درخت کی لکڑی سے گھروں کی سجاوٹ کے لیے فرنیچر، کرسی، میز اور دوسری بہت سے چیزیں بنائی جاتی ہیں۔

ہمیں چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر اس عالمی سطح پر ہونے والی خرابیوں (جیسے: درختوں کٹاؤ، گاڑیوں کا بے تحاشا دھواں، زہریلی گیس وغیرہ) سے اپنے ماحول کو محفوظ رکھیں۔

درخت لگانا چونکہ صدقہ جاریہ بھی ہے تو آئیے ہم بھی ثواب حاصل کرنے کی نیت سے پودا لگائیں اور اس کی دیکھ بھال کر کے درخت بنائیں اور اپنے ارد گرد کے ماحول اور لوگوں کو نفع پہنچائیں. اس میں اپنی دعوت اسلامی کا ساتھ دیجئے اور اس مہم پودا لگانا ہے درخت بنانا ہے میں شامل ہو جائیے۔

ہمارا یہ مضمون بہت ہی پیارا ہے کہ پودا لگانا ہے درخت بنانا ہے اسکے معانی و مفہوم بہت ہی وسیع ہیں اگر ہم اس جملے کی تشریح کریں کہ پودا لگانا ہے درخت بنانا ہے یعنی ہم نے پودا لگا تو دیا لیکن لگانے کے بعد اسکی کیا حالت ہوئی آیا وہ درخت بنا بھی ہوگا یا نہیں ہمیں صرف پودا لگانا ہی نہیں ہے بلکہ اسے پایہ تکمیل تک بھی پہنچانا ہے یعنی اسکے درخت بننے تک اسکی حفاظت بھی کرنی ہے اسے پانی دینا اسکی مقدار کے مطابق دھوپ دینا اگر زیادہ دھوپ ہو تو کوئی سایہ دینے والی چیز جیسے کوئی کپڑا وغیرہ باندھنا کہ زیادہ دھوپ کی وجہ سے چھوٹے پودے وغیرہ جل جاتے ہیں اگر بچوں کے اکھاڑ دینے کا اندیشہ ہو تو لکڑی وغیرہ کا جال وغیرہ بنانا اور اسکے علاوہ جانور وغیرہ جیسے بلی کتا اور ان جیسے دیگر جانور بھی پودے اکھاڑ ڈالتے ہیں تو اسکی بھی ذمہ داری آپکی ہے کہ آپ انکی حفاظت کی ہر ممکن کوشش کریں۔

ہو سکتا ہے کہ آپکو ایک پودے کو درخت بنانے تک کے مراحل میں یا اسکی حفاظت کرنے میں مشکلات، پریشانی دشواری کا سامنا کرنا پڑے مگر آپ بھی پختہ ارادہ و عظم مصمم کر لیجیے کہ میں نے اس پودے کو درخت بنا کرہی چھوڑنا ہے آپکی یہ چند مہینوں کی محنت نہ جانے کتنے انسان پرندوں جانداروں کی اچھی زندگی گزارنے کا سبب بن سکتی ہے آپکو شاید معلوم بھی نہ ہو آپ کے ارد گرد کتنے لوگ ایسے ہونگے جن کو آکسیجن کی پریشانی ہوگی، کتنے ہی پرندے ایسے ہونگے جو چھاؤں یا سایہ کی تلاش میں کیسی کے گھر اترے ہونگے اور بے چارے قیدی بن کر رہ گئے ہونگے ان کو یہ معلوم بھی نہیں ہو گا کہ سایہ ہماری قید کا سبب بنے گا ہاں اگر ہم تھوڑی سی مشقت اٹھاکر پودے کو درخت بنا دیتے ہیں تو وہ مریض جو آکسیجن کی پریشانی میں مبتلا ہے یا وہ پرندے جو گرمی کی شدت کی وجہ سے سائبان چاہتے تو شاید ہماری وجہ سے کتنی زندگی بچ جائے ہماری وجہ سے کسی کو سائبان مل جائے اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کیا پتا کہ ہمارا یہ عمل ہی ہمارے جنت میں داخلے کا سب بن جائے۔

درخت لگانا صرف دنیاوی عمل نہیں ہے بلکہ دینی اور باعث اجر و ثواب بھی ہے حضور اکرم ﷺ نہ صرف انسانوں کے لیے رحمت بن کر آئے حیوانات و نباتات کے لیے بھی رحمت بنا کر بھیجے گئے آئیے احادیث مبارکہ کی روشنی میں پودا لگانے کے فضائل جانتے ہیں۔

فرمان مصطفی ﷺ ہے: جو مسلمان درخت لگائے یا فصل بوئے پھر اس میں سے جو پرندہ یا انسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس کی طرف سے صدقہ شمار ہوگا۔ (بخاری، 2/85، حدیث 3220)

معلوم ہوا کہ درخت لگانا صرف دنیاوی عمل نہیں بلکہ اسکے ساتھ ساتھ آخرت کے لیے بھی ثواب کا کثیر خزانہ ہاتھ آتا ہے تو پھر ہم کس بات کا انتظار کر رہے ہیں نہ جانے کب ہم اس فانی دنیا سے کوچ کر جائیں تو جلدی کیجیے اور اپنے وطن کو سرسبز و شاداب بنانے میں اپنا حصہ بھی ملا ئیے اگر آپ کے گھر کے ارد گرد پودے یا درخت وغیرہ لگے ہوئے ہیں تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ ایسی جگہ تلاش کریں کہ جہاں واقعی پودے لگانے کی ضرورت ہو اور اگر آپ کو ایسی جگہ نہ ملے تو پریشانی کسں بات کی ہے بس آپ کا ارادہ پختہ ہونا چاہیے کہ میرے ذریعے بھی پودا لگے آپکی دعوت اسلامی جو اس کام میں بھی الحمد اللہ جی جان لگا کر کوشش کر رہی ہے تو اگر آپ پودا لگا کر اسکی ذمہ داری اٹھا نہیں سکتے یا آپ کے ارد گرد جگہ نہیں ہے تو آپ دعوت اسلامی میں اپنے پودے کی رقم جمع کروا دیں پھر صرف آپ کے شہر آپکے ملک ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں جہاں بھی ضرورت محسوس ہوگی وہاں پودا لگادیا جائے گا اور اب تک دعوت اسلامی بےشمار پودے لگا چکی ہے۔

اللہ پاک ہمیں بھی پودے لگانے کی توفیق عطا فر مائے ساتھ ہی اسکی حفاظت کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور ہماری دعوت اسلامی کو بھی ترقی و عروج عطا فرمائے۔ آمین

محترم قارئین وطن پاکستان اللہ کریم کی بہت بڑی نعمت ہیکہ جس میں ہم کھل کر آزادانہ اس کی عبادت کر سکیں جہاں ہمیں کسی جانی نقصان کا خوف نہیں جہاں ہم اپنی آزادی کا فخریہ اعلان کرتے ہیں یہ وطن عزیز یہ یقینا کئی قربانیوں سے حاصل ہوا اور ابھی بھی اس کے استحکام کیلئے جدو جہد جاری ہے مگر کہتے ہیں نا کہ نعمت کی قدر تب ہوتی ہے جب وہ نعمت چھن جاتی ہے جب اس پر سوائے افسوس اور ندامت کے اور کوئی حل نہیں ہوتا۔

جہاں آج ہم یہ کہتی پھر رہی ہیں کہ پاکستان میں کیا رکھا ہے اس ملک نے ہمیں دیا ہی کیا ہے وہیں یہاں رہ کر اس کو قدرتی طور پر بھی کافی حد تک نقصان پہنچا رہی ہیں ماحولیاتی آلودگی اور گرمی کی شدت تو آپ تمام کے سامنے ہی ہے ضرورت اس بات کی ہیکہ ہم جانیں کہ ہم ان نعمتوں کی قدر کیسے کر سکتے ہیں ہم اس میں اپنا کردار ادا کیسے کر سکتے ہیں تو آئیے آج انہی مسائل کے حل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے ان شاءاللہ الکریم۔

آج ہمارا وطن عزیز جن قدرتی آفات (natural disasters) سے گھرا ہوا ہے ان میں سے گرمی کی شدت،سیلاب،زلزلے،سموگ وغیرہ گلوبل وارمنگ کے سبب ہوتے ہیں۔اور کہا جاتا ہیکہ گلوبل وارمنگ میں جو ممالک متاثر ہوئے ہیں ان میں پاکستان ساتویں نمبر پر ہے۔

محترم قارئین! گلوبل وارمنگ سے بچنے کا ایک حل شجر کاری بھی ہے دعوت اسلامی جہاں ہماری زندگی کے مختلف مراحل میں رہنمائی کرتی ہے وہیں امت کا درد رکھنی والی یہ پیاری تحریک اللہ کریم کی نعمتوں کی قدر کرنا بھی سکھاتی ہے چنانچہ دنیا میں بڑھتی گلوبل وارمنگ کے تحت دعوت اسلامی نے ایک مہم چلائی اور وہ شجر کاری مہم ہے جی ہاں اسی مہم کے تحت عاشقان رسول ہر سال کئی پودے لگاتے ہیں 2025 کی اپڈیٹ معلومات کے مطابق دعوت اسلامی صرف پاکستان میں تقریباً 30 لاکھ پودے لگا چکی ہے۔ بانی دعوت اسلامی، شیخ طریقت، امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: 27رمضان المبارک کو پاکستان آزاد ہوا تھا تو کیا ایسا ہو سکتا ہیکہ ہر پاکستانی اسی مناسبت سے کم از کم 27 پودے لگائے۔

سبحان اللہ! کیا شان ہے میرے مرشد کریم کی! اگر واقعی ہر پاکستانی اس فرمان پر لبیک کرے تو یقیناً ماحول میں کافی سدھار آجائے۔

شجر کاری کے فوائد کے علاؤہ فضائل بھی ہیں چنانچہ شجر کاری کرنا ہمارے پیارے آقا ﷺ کی مبارک سنت بھی ہے اور پیارے آقا ﷺ نے اس پر بشارتیں بھی عنایت فرمائی ہیں۔

شجر کاری کے فضائل پر دو فرامین مصطفیٰ پیش خدمت ہیں:

1۔جو مسلمان درخت لگائے یا فصل بوئے پھر اس میں جو پرندہ یا انسان یا چوپایا کھائے تو اس کی طرف سے صدقہ شمار ہوگا۔

2۔جس نے کوئی درخت لگایا اور اس کی حفاظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دینے لگا تو اس میں سے کھایا جانے والا ہر پھل اللہ پاک کے نزدیک اس (لگانے والے) کیلئے صدقہ ہے۔ (رسالہ درخت لگائیے ثواب کمائیے،ص 6)

درخت لگانے کے سائنسی فوائد: پودے کاربن ڈائی آکسائڈ لیتے اور آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ درجہ حرارت کم کرتے ہیں۔ لینڈ سلائڈنگ کی روک تھام کا بھی باعث بنتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ کی کمی کا باعث بنتے ہیں۔

اس کے علاوہ بھی کافی سارے فوائد ہیں چنانچہ درختوں سے پھل، پھول، لکڑی وغیرہ حاصل ہوتی ہیں اور پودوں سے چھاؤں حاصل ہوتی ہے آپ نے اندازہ لگایا ہوگا کہ جہاں درخت نہیں ہوتے وہاں ماحول گرم گرم لگ رہا ہوتا ہے اور جہاں درخت باغات ہوں وہاں ماحول ٹھنڈا اور راحت بخش لگتا ہے درختوں سے پرندوں کو گھر ملتا ہے پودوں سے عالمی سطح پر وباؤں کا مقابلہ ہوتا ہے ایک درخت 18 انسانوں کی ہوا کی ضرورت پوری کرسکتا ہے ایکدرخت سے ایک لاکھ تیس ہزار پنسلیں بنائی جاتی ہیں وغیرہ

پودے لگانے سے پہلے کسی ماہر سے مشورہ بھی کیجئے کہ بعض اوقات پودے لگا تو لیتے ہیں لیکن خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا بعض پودے ایسے ہوتے ہیں جو ماحول میں ایسی گیس چھوڑتے ہیں کہ جن سے سانس لینے میں آزمائش ہوتی ہے اور بعض ایسے ہوتے ہیکہ کہ پھول ہوتے ہیں لیکن نا پرندے گھر بنا سکتے ہیں نا چھاؤں ملتی ہے اور نا ان پھولوں میں کوئی خوشبو ہوتی ہے۔

لہذٰا ایسے پودے لگائیں کہ جو درخت بننے کے بعد فائدہ دیں نا کہ نقصان یا فائدہ تو دیں لیکن اتنا نہیں جتنا اس سے حاصل کرنا چاہئے کراچی میں آلودگی زیادہ ہوتی ہے لہٰذا یہاں نیم،گل مہر،سانجھنا وغیرہ۔ پودے لگائیں جائیں۔

لہذا نیت کر لیجئے کہ پودا لگانا ہے درخت بنانا ہے اور اس پودے کا کما حقہ حق بھی ادا کرنا ہے ایسا نہیں کہ لگا کہ چھوڑ دیا بلکہ پانی دھوپ وغیرہ کا بھی مناسب خیال رکھنا ہے۔اس 14 اگست پر اپنے گھروں کو سبز جھنڈوں کے ساتھ ساتھ اپنے وطن عزیز کو سبز درختوں سے بھی سجائیں۔

اللہ کریم ہمارے وطن عزیز کو کامیابیاں و عروج نصیب فرمائے اور اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

اگرچہ آنکھ، کان، دل جانوروں کو بھی عطا ہوئے مگرانسان کے یہ اعضا بہت اشرف ہیں کیوں کہ انسان آنکھ، کان سے آیاتِ الٰہیہ، دیکھتا سنتا ہے اور اس کا دل یار کی تجلّیِ گاہ (یعنی زیارت کا مقام) ہےجس سے وہ تمام مخلوق سے اشرف ہے۔(تفسیر نور العرفان، ص 826)

اس طرح کےاور بھی مدنی پھولوں سے لوگوں کی تربیت و رہنمائی کرنے اور انہیں علمِ دین سکھانے کے لئے اس ہفتے شیخِ طریقت، امیرِ اَہلِ سنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے 17 صفحات کا رسالہ ”تفسیر نور العرفان سے 95 مدنی پھول (قسط: 6) پڑھنے / سننے کی ترغیب دلائی ہے اور پڑھنے / سننے والوں کو اپنی دعاؤں سے نوازا ہے۔

دعائے عطار

یااللہ پاک! جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ: ”تفسیر نور العرفان سے 95 مدنی پھول (قسط: 6) پڑھ یا سُن لے اُسے قراٰنِ کریم کی تعلیمات پر عمل کی توفیق دے اور اس کو ماں باپ اور خاندان سمیت جنّت الفردوس میں بےحساب داخلہ نصیب فرما۔اللّٰہمّ آمین۔

یہ رسالہ آڈیو میں سننے اور اردو سمیت کئی زبانوں میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کیجئے:

Download


مرکز الاقتصاد الاسلامی (Islamic Economics Centre) کے زیرِ اہتمام عالمی مدنی مرکزفیضان مدینہ کراچی میں اسلامک فنانس کے حوالے سے ایک سالہ ڈپلومہ جاری و ساری ہے۔ اس ایک سالہ ڈپلومہ میں مختلف بینکوں کے شرعی ایڈوائزرز اور دیگر سینئر مفتیانِ کرام و علمائے کرام شریعتِ مطہرہ کی روشنی میں شرعی اصولوں کے مطابق اسلامک بینکنگ کے اہم امور پر شرکا کی رہنمائی کر تے ہیں۔

جاری ایک سالہ ڈپلومہ برائے اسلامی فائنانس کے تحت حال ہی میں ایک بصیرت افروز علمی نشست منعقد کی گئی جس میں ماہر امور تجارت مفتی علی اصغر نے ”شریعہ اسٹینڈرڈ نمبر 04: قرضوں کی باہمی تقاص کے ذریعے ادائیگی“ کے موضوع پر خصوصی لیکچر دیا۔

لیکچر کے دوران مفتی صاحب نے قرضوں کے تقاص (Set-off) کے شرعی اصول، اس کے اطلاق اور جدید مالیاتی نظام میں اس کے استعمال پر مفصل روشنی ڈالی۔ انہوں نے شرکا کو مختلف فقہی آراء، عملی مثالوں اور Accounting and Auditing Organization for Islamic Financial Institutions کے مقرر کردہ معیارات کی روشنی میں اس اہم موضوع کو سمجھایا۔

شرکاء نے اس علمی نشست کو بے حد مفید قرار دیتے ہوئے مفتی صاحب کے اندازِ بیان اور گہرے فہم کو سراہا۔ اس لیکچر نے طلبہ کو اسلامی مالیاتی اصولوں کے ایک نہایت اہم پہلو سے روشناس کرایا۔


صومالیہ سے آئے  علماءکرام شیخ محمود عبد الباری حفظہ اللہ (رئیس مجلس العام الصومال) نے شیخ آدم حفظہ اللہ (رئیس مجلس الاعلی لعلماء الصومال) اور شیخ استاد نور حفظہ اللہ (جنرل سیکرٹری مجلس الاعلی لعلماء الصومال و لیکچرار طہ یونیورسٹی موغا دیشو صومالیہ) کے ہمراہ دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی کا خصوصی دورہ کیا۔ مدنی مرکز آمد پر نگران شوریٰ مولانا حاجی محمد عمران عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی نے مہمانوں کوخوش ا ٓمدید کہا اس موقع پر اراکین شوریٰ مولانا حاجی عبدالحبیب عطاری اور حاجی محمد رفیع عطاری بھی موجود تھے۔ نگران شوریٰ نے مہمانوں کو بین الاقوامی سطح پر ہونے والے دینی و فلاحی کاموں سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ دعوت اسلامی کے تحت دنیا بھر میں جامعۃ المدینہ و مدارس المدینہ کے تحت درس و تدریس ودیگر دینی خدمات کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے جس سے لاکھوں افراد فیض حاصل کر رہے ہیں۔ ملاقات کے دوران رواں سال بارہ ربیع الاول میں دعوتِ اسلامی کے تحت عالمی سطح پر 1500 واں جشن ولادت مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم منانے سے بھی آگاہ کیا گیا۔ جس پر علمائے کرام نے خوشی کا اظہا کرتے ہوئے صومالیہ میں بھی دھوم دھام سے جشن ولادت منانے کے عزم کا اظہار کیا۔

شعبہ رابطہ برائے بالعلماء کے اسلامی بھائی نے صومالیہ سے آئے ہوئے مہمانوں کو دعوت اسلامی کے مختلف شعبہ جات پر بنی Documentary دکھائی اور مدنی مرکز فیضان مدینہ میں قائم دارلافتاء اہل سنت ،اسلامک ریسرچ سینٹر، آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ، روحانی علاج، ٹرانسلیشن ڈیپارٹمنٹ، فیضان آن لائن اکیڈمی ، عربک ڈیپارٹمنٹ اور مکتبۃ المدینہ العربیہ سمیت مدنی چینل کے مختلف شعبہ جات کا وزٹ کراویا مدنی چینل کی نشریات کے حوالے سے آگاہی دی۔ اس دوران مفتی محمد سجاد عطاری مدنی سے بھی ملاقات ہوئی۔

علمائے کرام نے دعوت اسلامی کے تحت دھوراجی میں قائم دارالافتاء اہلِ سنت، جامعۃ المدینہ، مدرستہ المدینہ کا بھی دورہ کیا اس دوران مفتی حسان عطاری مدنی سے فقہی مسائل پر گفتگو ہوئی نیز دارالافتاء اہل سنت کے ساتھ باہمی فقہی رابطہ اور تعاون کیلئے خواہش کا اظہار کیا۔

اسی طرح صومالیہ کے علمائے کرام نے کراچی کے بعد مدنی مراکز فیضان مدینہ گجرات اور گوجرانوالہ، جامعات المدینہ گجرات اور گکھڑ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے اراکین شوریٰ مولانا حاجی محمد اسد عطاری مدنی ، حاجی محمد اظہر عطاری، جامعۃ المدینہ کے اساتذۂ کرام اور طلبہ سے ملاقاتیں کیں۔ علمائے کرام نے جامعۃالمدینہ کے اساتذہ و طلبائے کرام کو اپنے ملفوظات سے نوازا اور ان کی تربیت کرتے ہوئے مختلف امور پر رہنمائی کی۔


اسلام ایسا دین ہے جو فطرت سے ہم آہنگی اور ماحول کی حفاظت کی تعلیم دیتا ہے،قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں زمین کو آباد کرنے اور سرسبز و شاداب بنانے اور اس سے رزق حاصل کرنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ارشاد باری ہے: فَاَنْۢبَتْنَا فِیْهَا حَبًّاۙ(۲۷) وَّ عِنَبًا وَّ قَضْبًاۙ(۲۸) وَّ زَیْتُوْنًا وَّ نَخْلًاۙ(۲۹) وَّ حَدَآىٕقَ غُلْبًاۙ(۳۰) وَّ فَاكِهَةً وَّ اَبًّاۙ(۳۱) مَّتَاعًا لَّكُمْ وَ لِاَنْعَامِكُمْؕ(۳۲) (پ 20، عبس: 27-32) ترجمہ: پھر ہم نے اس میں اناج اگایا، اور انگور اور ترکاری، اور زیتون اور کھجوریں، اور گھنے باغ، اور میوے اور چارہ، یہ سب تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدے کے لیے ہے۔

اس آیہ مبارکہ میں اللہ نےزمین سے مختلف قسم کی نباتات اگانے کا ذکر فرمایا ہے جو جانداروں کے لئے رزق کا ذریعہ ہیں، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زمین کو بنجر چھوڑنے کے بجائے اسے آباد کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا مطلوب ہے۔ زمین، ہمارا گھر، ایک وسیع و عریض باغ ہے جس میں قدرت نے بیشمار رنگ اور خوشبوئیں بکھیر رکھی ہیں۔ اس باغ کو مزید دلکش اور مفید بنانے کیلئے انسان ہمیشہ سے کوشاں رہا ہے۔ پودا لگانا اور درخت بنانا اسی کوشش کا اہم حصہ ہے، یہ محض ایک عمل نہیں بلکہ ایک ایسا سفر ہے جو ایک ننھے سے بیج یا پودے سے شروع ہو کر ایک تناور درخت کی صورت میں مکمل ہوتا ہے۔ یہ سفر نہ صرف زمین کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے بلکہ ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

درخت زمین کی سانس ہیں، یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن خارج کرتے ہیں جس سے ہوا صاف اور تازہ رہتی ہے، یہ فضائی آلودگی کو کم کرتے ہیں اور ہمارے سیارے کو گرم ہونے سے بچاتے ہیں۔ انکی جڑیں مٹی کو مضبوطی سے پکڑے رکھتی ہیں جس سے زمین کا کٹاو رک جاتا ہے اور سیلاب کے خطرات کم ہو جاتے ہیں۔درخت بارش برسانے کا بھی ذریعہ ہیں کیونکہ ان کے پتے بخارات خارج کرتے ہیں جو بادل بنانے میں مدد دیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ درخت حیاتیاتی تنوع کا بھی خزانہ ہیں، یہ بیشمار پرندوں، کیڑے مکوڑوں اور جانوروں کے لئے گھر اور خوراک کا ذریعہ ہیں۔

ایک تناور درخت اپنے اردگرد ایک مکمل ماحولیاتی نظام بنالیتا ہے جہاں زندگی مختلف روپوں میں پروان چڑھتی ہے۔ انسانوں کے لئے بھی درختوں کی اہمیت ڈھکی چھپی نہیں، ان سے لکڑی حاصل ہوتی ہے جو ہمارے گھروں، فرنیچر اور دیگر ضروریات کو پورا کرتی ہے، درختوں سے ہمیں تازہ سبزیاں اور صحت بخش پھل ملتے ہیں جو ہماری زندگی کا اہم حصہ ہیں۔ حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس نے کوئی درخت لگایا اور وہ بڑا ہوا،یہاں تک کہ اس میں پھل آیا تو اللہ اس کے لئے اس پھل کے برابر ثواب لکھتا ہے۔ گویا پودا لگانا اور درخت بنانا عظیم سنت نبوی ﷺ اور اقوال صالحین کی روشنی میں نہایت با برکت عمل ہے۔ اس میں دنیوی اور اخروی دونوں طرح کے فوائد مضمر ہیں۔

یہ صدقہ جاریہ، باعث اجر عظیم اور ماحول کی حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اس سنت کو زندہ رکھتے ہوئے اپنی استطاعت کے مطابق پودے لگانے اور درخت بنانے میں حصہ لیں۔

ایک بار مدینے کے تاجدار ﷺکہیں تشریف لے جا رہے تھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوملاحظہ فرمایا کہ ایک پودا لگا رہے ہیں۔ استفسار فرمایا: کیا کر رہے ہو ؟عرض کی: درخت لگا رہا ہوں۔ فرمایا: میں بہترین درخت لگا نے کا طریقہ بتا دوں! سبحٰن اللہ والحمد للہ ولا الٰہ الّا اللہ واللہ اکبر پڑھنے سے ہر کلمہ کے عوض (یعنی بدلے) جنّت میں ایک درخت لگ جاتا ہے۔ (1) اس روایت سے معلوم ہوا کہ پودے لگانا صحابۂ کرام علیہم الرضوان کا بھی عمل مبارک رہا ہے۔

اللہ پاک نے درختوں اور پودوں کو انسان کى خدمت کے لیے لگایا ہوا ہے پودا لگانے یعنی شجر کاری کرنے کے بےانتہا فوائد بھی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

سائنسی فوائد: سائنسى تحقیق کے مطابق درخت اور پودے گندى ہوا(کاربن ڈائى آکسائیڈ) لے کر اپنى پاکیزہ ہوا (آکسیجن) فراہم کرتے ہیں، درجہ حرارت کو بڑھنے نہىں دیتے، درخت اور پودے فضائى آلودگی میں کمى کرتے ہیں، درخت اور پودوں کی کثرت سے ماحول ٹھنڈا اور خوشگوار رہتا ہے، درخت لینڈ سلائڈنگ(یعنی مٹی یا چٹان کے تودے کا پھسل کر اونچی جگہ سے گرنے) کی روک تھام کا بھی باعث بنتے ہیں،یوں ہی درخت اور پودے گلوبل وارمنگ مىں بھی کمى کا سبب بنتے ہیں۔

معاشی و معاشرتی فوائد:شجر کارى کے ذریعے بہت سے معاشى اور معاشرتى فوائد حاصل ہوتے ہیں مثلاً درخت لکڑى کے حصول کا ذریعہ ہیں اور لکڑی کا انسانی ضروریات کو پوری کرنے میں کلیدی کردار ہے۔

یہ درخت ہی ہیں جو انسان کو انواع واقسام کے پھل اور میوے مہیا کرتے ہیں بلکہ کئی پرندے اور جانور بھی ان پھلوں کو ہی کھا کر جیتے ہیں۔

بیماری سے محفوظ رہنے یا بیماری سے جان چھڑانے کے لیے جڑی بوٹیوں کا استعمال انسانی تاریخ کا حصّہ ہے اور یہ بات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ جڑی بوٹیاں درختوں اور پودوں سے ہی حاصل کی جاتی ہیں۔

مسواک کرنا ہمارے پیارے آقا ﷺکی میٹھی میٹھی سنّت ہے، اس سنّت کی ادائیگی کے لیے بھی شجرکاری کرنی ہو گی کیونکہ مسواک درختوں سے ہی حاصل ہوتی ہے۔

شور شرابا انسان کے لیے بے سکونی اور ذہنی تناؤ کا سبب بنتا ہے۔ نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ درخت شور شرابے کو اپنے اندر جذب کر کے پرسکون ماحول فراہم کرتے ہیں۔

کپڑا انسان کی بنیادی ضرورت ہے اس کے بغیر زندگی گزارنا بھی انتہائی دشوار ہے ہماری اس ضرورت کو پورا کرنے کا سہرا بھی درختوں کے سر ہے اس لیے کہ کپڑا کپاس (Cotton) کے پودے سے حاصل ہوتا ہے۔

طبعی فوائد: درختوں اور پودوں کے طبعى فوائد بھى کم نہیں مثلاً اولاد کى پىدائش میں معاون قوّت کے لیے بھى درخت مفید ہوتے ہىں۔ ماہرین کے مطابق درختوں کے درمىان رہنے والے انسان کى تخلیقى صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ بہرحال درختوں کے بہت سے فوائد ہیں جنہیں پانے کے لیے خوب خوب درخت لگانے کی حاجت و ضرورت ہے۔

پودا لگانے کی احتیاطیں:جہاں اچھی نیّت سے پودا لگانا كار ثواب ہے وہیں اس میں کچھ بےاحتیاطی گناہ کا بھی سبب بن جاتی ہے لہٰذا پودا لگاتے وقت نہایت محتاط رہیئے تاکہ بدمزگی اور گناہ سے بچا جا سکے۔ مثلاً حکومت کى زمین پر جہاں قانوناً منع ہو وہاں نہ لگائیے،

کسى کى ذاتى زمین پر مالک کی اجازت کے بغیر پودا نہ لگائیں، وقف کی جگہوں مثلاً مساجد، مدارس اور جامعات وغیرہ میں درخت لگانے سے پہلے دار الافتا اہلسنّت سے شرعی راہ نمائی لے لی جائے۔

پودے لگانے کے بعد ان کی نگہداشت رکھنا، ان کو وقت پر پانی دینا اور ان کے درخت بن جانے تک خوب احتیاط کرنا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ پودے چند ہی دنوں میں مرجھا کر ختم ہو جائیں گے یا پھر کسی جانور کی غذا بن جائیں گے۔اگر ان کی درست انداز میں آبیاری نہ کی گئی اور انہیں ایسے ہی لگاکر چھوڑ دیا گیا تو یہ درخت بننے سے پہلے ہی مرجھا جائیں گے۔لہٰذا جب بھی پودا لگائیں تو یہی مقصد پیش نظر رکھیں کہ فقط پودا نہیں لگانا بلکہ پودا لگانا ہے اور اسے درخت بنانا ہے،کیونکہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ جس نے کوئى درخت لگایا اور اس کى حفاظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دىنے لگا تو اس مىں سے کھایا جانے والا ہر پھل اللہ پاک کے نزدیک اس(لگانے والے) کے لىے صدقہ ہے (2)

اللہ کریم ہم سب کو ہر کام شریعت کے تقاضوں کے مطابق بجا لانے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

(1) ابن ماجہ، 4/ 252، حدیث: 3807

(2) مسند امام احمد، 5/ 574، حدیث: 16586


پاکستان میں بھی ہر سال شجر کاری مہم کا آغاز زور و شور سے ہوتا ہے محکمہ جنگلات درختوں اور پودوں کی اہمیت سے آگاہی کے سلسلے میں زبر دست مہم بھی چلاتے ہیں سیمینارز کے علاوہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھی اس کی تشہیر کی جاتی ہے اسی طرح شاہراہوں پر بھی بڑے بڑے بینر آویزاں کئے جاتے ہیں جن پر درختوں اور پودوں کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ درخت اور پودے انسانی زندگی کا لازمی جزو ہیں اور آج اس کی اہمیت زیادہ محسوس ہوتی ہے اسی لئے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ کم از کم ایک پودا ضرور لگائے تاکہ آنے والے دور میں وہ ایک تناور درخت بن کر کھڑا ہو۔

پودے لگانا سنت نبوی ہے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کیلئے ہر فرد کو کم از کم ایک پودا اپنے حصے کا ضرورلگانا چاہیے۔

فرمان مصطفی: درخت لگانا ایسی نیکی ہے جو بندے کی موت کے بعد بھی جاری رہتی ہے جبکہ وہ اپنی قبر میں ہوتا ہے۔ (مجمع الزوائد، 1/308، حديث: 719)

درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی مسلمان کسی درخت کا پودا لگاتا ہے اور درخت سے کوئی انسان یا جانور کھاتا ہے تو لگانے والے کیلئے وہ صدقہ ہوتا ہے۔ (بخاری، 2/ 85، حدیث: 2320)

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: جس نے کوئی درخت لگایا اور اس کی حفاظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دینے لگا تو اس میں سے کھایا جانے والا ہر پھل اللہ پاک کے نزدیک اس کے لئے صدقہ ہے۔ (مسند امام احمد، 5/572، حدیث:16586)

صدقہ روز محشر کا ٹھنڈا سایہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (قیامت کے دن) لوگوں کے درمیان فیصلہ ہونے تک ہر شخص اپنے صدقے کے سائے میں ہو گا۔ (مسند امام احمد، 28/568، حدیث: 17333)

پودے لگانا کیوں ضروری ہے؟ درخت پانی اور مٹی سے کیمیکلز اور دیگر آلودگیوں کو فلٹر کرتے ہیں۔ درخت بارش کو روکتے ہیں، جو سیلاب سے بچاتا ہے اور زمینی پانی کو دوبارہ چارج کرتا ہے۔ درختوں کو لان کے مقابلے میں کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ ہوا میں جو نمی چھوڑتے ہیں وہ دیگر زمین کی تزئین کی پودوں کی پانی کی ضروریات کو نمایاں طور پر کم کر سکتے ہیں۔

پودوں کی ہماری زندگی میں کیا اہمیت ہے؟ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ممکنہ طور پر نقصان دہ گیسز جیسے سلفر ڈائی آکسائیڈ کاربن مونو آکسائیڈ کو جذب کر کے آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ ایک بڑا درخت 4 افراد کے لیے ایک دن کی آکسیجن پیدا کرتا ہے۔ آب و ہوا کی بحالی، ہوا کے معیار میں بہتری مٹی کا تحفظ اور جنگلی زندگی کی بقا کے لیے درخت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

پودوں سے ہمیں کیا حاصل ہوتا ہے؟ درخت بارش کے پانی کو جذب اور ذخیرہ کرتے ہیں، جس سے زمین کے نیچے صاف پانی کو ذخیرہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ ندیوں میں کیمیکلز کی نقل و حمل اور سیلاب کو روکتے ہیں۔ درخت سے گرے ہوئے پتے بہترین کھاد بناتے ہیں جو مٹی کو افزودہ کرتے ہیں۔ درختوں نے انسانی وجود کی ابتدا سے لے کر اب تک اسے سہارا دیا ہوا ہے۔

درختوں کے فائدے: درخت لگانے کے بہت سارے فوائد ہیں۔ درخت اور پودے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن مہیا کرتے ہیں۔ آکسیجن انسانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے اس کے بغیر انسان زندہ نہیں ره سکتا۔ درخت درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکتے ہیں، درخت اور پودے لگانے سے ما حول ٹھنڈا اور خوشگوار رہتا ہے۔

درخت نہ لگانے کے نقصانات: صفائی کی کمی اور ٹریفک و کارخانوں کا دھواں فضا کو آلودہ بنا رہا ہے جو کہ دمہ، کینسر، دل کے امراض، فالج، شوگر اور آنکھوں کی جلن جیسی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔

آپ کو اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ کی شجر کاری کا بڑا پیارا واقعہ سناتی ہوں جو یقیناً آپ ﷺ کا معجزہ بھی تھا۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ پہلے ایک یہودی کے غلام تھے جس نے ان کی آزادی کی ایک شرط یہ بھی رکھی کہ تین سو کھجور کے پودے لگاؤ اور ان کی دیکھ بھال کرو جب وہ بڑے ہو کر پھل دینے لگیں گے تو تم آزاد ہو جاؤ گے۔

نبی اکرم ﷺ کو پتا چلا تو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ساری تیاری کر کے مجھے بتا دینا میں پودے خود لگاؤں گا۔ چنانچہ نبی پاک ﷺ تشریف لائے اور سارے پودے اپنے ہاتھ مبارک سے لگائے سوائے ایک پودے کے وہ کسی اور صحابی نے لگا دیا تھا، پھر پتا ہے کیا ہوا؟ اس ایک پودے کے علاوہ سارے پودوں پر ایک سال میں ہی پھل آگیا۔

جب حضور ﷺ کو اس ایک پودے پتا چلا تو آپ نے اسے خود دوبارہ لگا دیا اور وہ بھی ایک سال میں پھل دار ہوگیا۔ (تاریخ دمشق، 21/395)

آؤ لو گو سب ملکر اک شجر لگاتے ہیں سر پہ ٹھنڈی چھت والا ایک گھر بناتے ہیں


پودے اور درخت ہماری زندگی کا بہت اہم جز ہے پودوں کے بغیر زمین پر زندگی بسر کرنا دشوار ہے کیونکہ درختوں اور پودوں کے ذریعے انسان سانس لیتا ہے پودوں سے کاربن ڈائی آکسائڈ حاصل ہوتی ہے پودے لگانا ایک ثواب جاریہ کا ذریعہ ہے۔

پودے لگانا ہمارے پىارے آقا ﷺ سے ثابت ہے۔ جیسا کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو آزاد کروانے کے لیے 300 کھجور کے درخت آقا کریم ﷺ نے اپنے دست اقدس سے زمین میں لگائے جو کہ بہت جلد بارآور ہوگئے۔ (مسند امام احمد، 9/189، حدیث: 23798)

ایک بار مدینے کے تاجدار ﷺ کہیں تشریف لے جا رہے تھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوملاحظہ فرمایا کہ ایک پودا لگا رہے ہیں۔ استفسار فرمایا: کیا کر رہے ہو ؟عرض کی: درخت لگا رہا ہوں۔ فرمایا: میں بہترین درخت لگا نے کا طریقہ بتا دوں! سبحٰن اللہ والحمد للہ ولا الٰہ الّا اللہ واللہ اکبر پڑھنے سے ہر کلمہ کے عوض (یعنی بدلے) جنّت میں ایک درخت لگ جاتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/ 252، حدیث: 3807)

پودے لگانے کے فضائل پر دو فرامین مصطفے ٰ ﷺ ملاحظہ کیجیے:

جو مسلمان درخت لگائے ىا فصل بوئے پھر اس مىں سے جو پرندہ ىا انسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس کى طرف سے صدقہ شمار ہو گا۔ (بخاری، 2 / 85، حدیث: 2320)

2۔ جس نے کسى ظلم و زىادتى کے بغىر کوئى گھر بناىا ىا ظلم و زىادتى کے بغىر کوئى درخت اگایا، جب تک اللہ پاک کى مخلوق مىں سے کوئى اىک بھى اس مىں سے نفع اٹھاتا رہے گا تو اس(لگانے والے) کو ثواب ملتا رہے گا۔ (مسندامام احمد، 5/ 309، حدیث: 15616 )

شجر کاری کے فوائد: موجودہ دور میں کاغذ بھی انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت کا روپ دھار چکا ہے۔ پرنٹنگ پریس، اسٹیشنری اور دیگر کئی شعبے کاغذ کے بوتے پر ہی قائم ہیں۔ اگر درخت ختم ہوجائیں تو کاغذ سے وابستہ سارے شعبے بھی بند ہو جائیں اس لیے کہ کاغذ کا حصول درختوں کی ہی مرہون منّت ہے۔ انسانی صحت کے لیے پھلوں اور میوہ جات کی اہمیت کا بھی کوئی سمجھ بوجھ رکھنے والا انکار نہیں کر سکتا اور یہ درخت ہی ہیں جو انسان کو انواع واقسام کے پھل اور میوے مہیا کرتے ہیں بلکہ کئی پرندے اور جانور بھی ان پھلوں کو کھا کر ہی جیتے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشرے میں بہت سے افراد کی معیشت باغبانی اور پھل فروشی سے جڑی ہوئی ہے۔ بیماری سے محفوظ رہنے یا بیماری سے جان چھڑانے کے لیے جڑی بوٹیوں کا استعمال انسانی تاریخ کا حصّہ ہے اور یہ بات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ جڑی بوٹیاں درختوں اور پودوں سے ہی حاصل کی جاتی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ جو دوا درخت یا پودے کی جڑ سے حاصل ہو اسے جڑی اور جو اوپر اگی ہو اسے بوٹی کہتے ہیں۔ مسواک کرنا ہمارے پیارے آقا ﷺ کی میٹھی میٹھی سنّت ہے، اس سنّت کی ادائیگی کے لیے بھی شجرکاری کرنی ہو گی کیونکہ مسواک درختوں سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ قحط سالى یعنی بارشوں کا بند ہوجانا انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندوں، جانوروں اور حشرات الارض کی سانسوں کی ڈوری ٹوٹنے کا بھی پیغام ہے۔ بارش ہوتی ہے تو اناج اور سبزہ اگتا ہے اور جاندار اپنی اپنی غذائیں کھاکر زندگی کی شمع روشن رکھتے ہیں۔ تو ان بارشوں کو برسانے میں بھی درختوں کا کردار ہے اس لیے کہ درخت اپنى جڑوں مىں جذب شدہ پانى کو ہوا مىں خارج کرتے ہىں جس سے فضا میں نمی پیدا ہوتی ہے۔ پھر ىہ نمى بادل بناتی ہے اور وہ بادل رم جھم رم جھم برسنا شروع ہوجاتے ہیں۔ زمىن زرخىز ہوکر اناج، پھل اور سبزیاں اگاتی ہے۔ درخت اپنی جڑوں میں پانی محفوظ کرلیتے ہیں اور پھر قحط سالی کے ایّام میں زمىن کو پانى فراہم کر کے بنجر ہونے سے بچاتے ہیں۔ اگر درخت نہ ہوں تو بارشیں بھی نہ ہوں لہٰذا زندہ رہنے کے لیے شجرکاری ضروری ہے۔

سبزے کی طرف دیکھنے سے بینائی تیز ہوتی ہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: چار چیزیں آنکھوں کی (بینائی کی) تقویّت کا باعث ہیں: (1) قبلہ رخ بیٹھنا(2) سوتے وقت سرمہ لگانا (3) سبزے کی طرف نظر کرنا اور (4) لباس کو پاک و صاف رکھنا۔ (احیاء العلوم، 2/ 27(

الحمدللہ ہم نے درخت لگانے کے فضائل اور اسکے فوائد بھی ملاحظہ فرمائے ماہ اگست میں امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ اپنے مریدین کو پودے لگانے کے حوالے سے حکم ارشاد فرماتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی بہت ہی میٹھی دعاؤں سے بھی نوازتے ہیں۔ آئیے عزم کرتے ہیں پودے لگانے ہیں اور درخت بنانے ہیں۔ ان شاء اللہ

اللہ پاک ہمارے مرشد امیر اہل سنت کو درازی بالخیر عمر عطا فرمائے۔ آمین