ابو ولی صفی الرحمٰن عطّاری
(درجۂ سادسہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
مہمان نوازی
نہ صرف ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سُنّت ِمُبارکہ ہے بلکہ دیگر انبیائے کِرام علٰی نَبِیِّنا وعلیہم الصلٰوۃ و السَّلَام کاطریقہ بھی
ہےچنانچہ ابوالضَّیفان حضرتِ سیِّدُنا اِبراہیم خلیلُ اللہ علیہ السَّلام بہت ہی
مہمان نواز تھےاور بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے(یعنی نہ کھاتے) تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مہمانوں کا ذکر
قرآن پاک میں بھی ہے۔ چناچہ اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ
الْمُكْرَمِیْنَ ترجمہ کنز الایمان:
اے محبوب کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی۔ (الذّٰریٰت آیت نمبر 24) ایک اور مقام میں فرمایا۔
وَ نَبِّئْهُمْ عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ ترجمہ کنز الایمان: اور انہیں احوال سناؤ ابراہیم کے مہمانوں کا۔ (الحِجر: آیت نمبر 51)
مفسرین فرماتے
ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت ہی مہمان نواز تھے اور
بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے ،اس وقت ایسا اتفاق ہوا کہ پندرہ روز سے
کوئی مہمان نہ آیا تھا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کا غم تھا اور
جب ان مہمانوں کو دیکھا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے لئے کھانا
لانے میں جلدی فرمائی، چونکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے یہاں
گائے بکثرت تھیں اس لئے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت سامنے لایا گیا ۔ (روح البیان،
ہود، تحت الآیۃ: ۶۹، ۴ / ۱۶۱، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶۹، ۲ / ۳۶۰-۳۶۱،
ملتقطاً)
مہمان کی تعریف: مہمان وہ ہے جو
ہم سے ملاقات کے لیے باہر سے آئے خواہ اس سے ہماری واقفیت پہلے سے ہو یا نہ ہو۔
جو ہمارے اپنے ہی محلہ یا اپنے شہر میں سے ہم سے ملنے آئے دوچار منٹ کے لیے وہ
ملاقاتی ہے مہمان نہیں اس کی خاطر تو کرو مگر اس کی دعوت نہیں ہے اور جو ناواقف
شخص اپنے کام کے لیے ہمارے پاس آئے وہ مہمان نہیں جیسے حاکم یا مفتی کے پاس مقدمہ
والے یا فتویٰ والے آتے ہیں یہ حاکم کے مہمان نہیں۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ
المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4244)
مہمان کے حقوق احادیث کی روشنی میں: مہمان نوازی ایک فطری و احسن عمل ہے اور متعدد
احادیث میں مہمانوں کے حقوق اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ترغیب دی گئی ہے جن میں
سے کچھ فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کئے جاتے ہیں:-
(1)۔۔۔۔ جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو
برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے.(ابن
ماجہ،ج4،ص51، حدیث:3356)
(2)۔۔۔۔ جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو
اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے
جانے کا سبب ہوتا ہے۔(کشف الخفاء،ج2،ص33، حدیث:1641)
(3)۔۔۔۔ جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتاہو
وہ اپنے مہمان کا احترام کرے اس کی مہمانی ایک دن رات ہے اور دعوت تین دن ہے اس کے بعد وہ صدقہ ہے مہمان
کو یہ حلال نہیں کہ اس کے پاس ٹھہرا رہے حتی کہ اسے تنگ کردے۔(کتاب:مرآۃ المناجیح
شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث
نمبر:4244)
(4)۔۔۔۔ مہمان نوازی کرنے والے کو عرش کا سایہ
نصیب ہوگا۔ (تمہید الفرش،ص18)
(5)۔۔۔۔ آدمی جب اللہ پاک کی رِضا کے لئے اپنے
بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ
پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورےایک سال تک اللہ پاک کی تسبیح
و تہلیل اورتکبیر پڑھتےاور اس بندے ( مہمان نواز )کے لئے مغفِرت کی دُعا کرتے رہتے
ہیں اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے
نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے ذمّۂ کرم پر ہےکہ اس کو
جنّت کی پاکیزہ غذائیں، ”جَنّۃُ الْخُلْد“اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔
(کنزالعمّال، جز9،ج 5،ص110، حدیث:25878)
(6)۔۔۔۔ جوشخص اللہ عَزَّوَجَلَّ اور قِیامت کے
دن پراِیمان رکھتا ہےاسے چاہیے کہ وہ دستور کے مطابق اپنے مہمان کی خاطر تواضع
کرے۔عرض کی گئی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!
دستور کیاہے؟فرمایا:’’ایک دن اور ایک رات اور ضِیافت(مہمانی) تین دن ہےاورتین دن
کے بعد صَدَقہ ہے۔‘‘اورمُسْلِم کی رِوآیت میں ہے:کسی مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ اپنے
مسلمان بھائی کے یہاں اِتنا عرصہ ٹھہرے کہ
اُسے گُناہ میں مبتلا کر دے۔صحابہ ٔکِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عَرْض کی: یارسولَ
اللّٰہ!وہ اُس کو کیسے گُناہ میں مبتلا کرے گا؟اِرشاد فرمایا:’’وہ اُس شخص کے یہاں اِتنے وقت تک ٹھہرے کہ اُس کے
پاس مہمان نوازی کے لیے کچھ نہ رہے۔(کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:6 , حدیث نمبر:707)
مہمان نوازی کی مُدّت: عَلَّامَہ خَطَّابِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں:میزبان ایک دن رات
مہمان کے لیے(کھانے پینے کی چیزوں میں) تکلُّف کرےاور اُس کے ساتھ زِیادہ نیکی کرےاور بعد کے دو دن میں(بِلا تکلُّف
واِہْتِمام) اُس کے سامنے جو حاضِر ہو(یعنی گھر میں جو کھانا بنا ہو) پیش کردے اور
جب تین دن گزرجائیں تو مہمان کا حق گزر گیا اور جب اِس سے زِیادہ اُس کی ضِیافت
کرے گاتو وہ صَدَقہ ہوگی۔مرآۃ المناجیح میں ہے:پہلے دن مہمان کے لیے کھانے میں
تکلُّف کر،پھردو دن درمیانہ کھانا پیش کر،تین دن کی بھی مہمانی ہوتی ہے، بعد میں
صَدَقہ ہے۔(کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:6 , حدیث نمبر:707)
(7)۔۔۔۔ جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان
رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4243)
مہمان کے احترام سے مراد:- مفسّر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی
رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں:مہمان کا احترام یہ ہے کہ اس سے
خندہ پیشانی سے ملے اس کے لیے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتی الامکان
اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے،بعض حضرات خود مہمان کے آگے دسترخوان بچھاتے اس کے
ہاتھ دھلاتے ہیں یہ اسی حدیث پر عمل ہے،بعض لوگ مہمان کے لیے بقدر طاقت اچھا کھانا
پکاتے ہیں وہ بھی اس عمل پر ہے جسے کہتے ہیں مہمان کی خاطر تواضع۔اس حدیث کا مطلب یہ
نہیں کہ جو مہمان کی خدمت نہ کرے وہ کافر ہے ۔مطلب یہ ہے کہ مہمان کی خاطر تقاضاء ایمان ہے جیسے باپ اپنے بیٹے سے کہے کہ
اگر تو میرا بیٹا ہے تو میری خدمت کر،مہمان کی خاطر مؤمن کی علامت ہے۔خیال رہے کہ
پہلے دن مہمان کے لیے کھانے میں تکلف کر،پھردو دن درمیانہ کھانا پیش کر،تین دن کی
بھی مہمانی ہوتی ہے بعد میں صدقہ ہے۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4243) احادیثِ مذکورہ اور ان
کی وضاحت سے ملنے والے10مدنی پھول:-
(1) مہمان
کی عزت و اِحتِرام اور اِس کی خاطِر تواضُع کرنا اَنبیائے کِرام عَلَیْہِمُ
السَّلَام کی سُنَّت ہے۔
(2) اسلام
میں مہمانوں کی مہمان نوازی کاحکم دیا گیاہے۔
(3) مہمان
آتا ہے تو اپنا رِزْق بھی اپنے ساتھ لاتا ہے۔
(4) حضرت
اِبراہیم عَلَیْہِ السَّلَام بہت ہی مہمان نواز تھے، بِغیر مہمان کے کھانا تَناوُل
نہ فرماتے ۔
(5) مہمان
وہ ہے جو مُلاقات کے لیے باہَر سے آئے خَواہ اُس سے ہماری جان پہچان پہلے سے ہو یا نہ ہو۔
(6) مہمان
کا اکرام یہ ہے کہ اُس سے خَنْدہ پَیشانی سے ملے،اُس کیلئےکھانے وغیرہ کا اہتمام
کرے۔
(7) ایک
دن رات مہمان کیلئے کھانے میں تکلُّف اُس
کے ساتھ زِیادہ نیکی کرےاور بعد کے دو دن میں بِلا تکلُّف اُس کے سامنے جو کھانا
حاضِر ہو پیش کردے ۔
(8) مہمان
کو چاہیے کہ وہ میزبان کے پاس تین دن سے
زِیادہ نہ ٹھہرے ۔
(9) میزبان
کی خواہش پرتین دن سے زِیادہ ٹھہرنے میں حرج نہیں۔
(10) مہمان کورخصت کرتے وَقت کچھ دُور پہنچانے جانا سُنَّت ہے۔
اب یہاں ضمنًا
مہمان و میزبان کے لئے کچھ آداب بیان کیے جاتے ہیں:-
"مہمان کے لیےآداب"
صَدْرُالشَّرِیْعَہ
بَدرُالطَّرِیْقَہ حضرتِ علامہ مولانامفتی محمدامجدعلی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’مہمان کو چار باتیں
ضَروری ہیں:(1)جہاں بِٹھایا جائے وہیں بیٹھے۔(2) جو کچھ اُس کے سامنے پیش کیا جائے
اُس پر خوش ہو،یہ نہ ہو کہ کہنے لگے: اِس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا
ہوں یا اِسی قِسْم کے دُوسرے اَلفاظ جیسا کہ آج کل اکثر دعوتوں میں لوگ آپَس میں
کہا کرتے ہیں۔(3) بِغیر اِجازتِ صاحِبِ خانہ وہاں سے نہ اُٹھے۔(4)اور جب وہاں سے
جائے تو اُس کے لیے دُعا کرے۔ (بہارشریعت،ج3،ص394ملخصاً)
"میزبان کے لئے آداب"
(1)کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے (2)کھانے میں
اگر پھل (Fruit) بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ
طِبّی لحاظ (Medical Point of View) سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے (3)مختلف اقسام کے کھانے
ہوں تو عُمدہ اور لذیذ (Delicious)کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے
کھالے (4)جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اُٹھایاجائے(5)مہمانوں
کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور
ضَرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔ (احیاء العلوم ،ج 2،ص21 تا 23
ملخصاً)
(6) سنت یہ ہے
کہ آدمی مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے۔
(ابن ماجہ کتاب الطعمۃ، باب الضیافۃ، الحدیث
3358 ،ج 4 ،ص 52)
اللہ عَزَّوَجَلَّ
ہمیں اخلاص کے ساتھ مہمانوں کے حقوق ادا کرنے کی سعادت و توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
محمد ابو بکر عطّاری(درجۂ سابعہ جامعۃُ المدینہ
فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور)
اسلام ایک
مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں اللہ ربُّ العزت نے زندگی گزارنے کے تمام تر معاملات میں
انسان کی راہنمائی فرمائی اور جہاں دیگر کثیر احکام بیان فرمائے وہیں مہمان نوازی
کو بھی ایک بنیادی وصف اور اعلیٰ خلق کے طور پر بتایا گیا ہے اور مہمان کی تعظیم،
خدمت اور ضیافت وغیرہ کا اہتمام میزبان پر اس کی حیثیت کے مطابق لازم قرار دیا۔ ذیل
میں انہیں حقوق میں سے پانچ حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے:
(1)خندہ پیشانی کے ساتھ استقبال کرنا: مہمان کے حقوق میں
سے ہے کہ ان کا پرتپاک استقبال کیا جائے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم مختلف قبائل سے آنے والے وفود کے اِستقبال اور ان کی ملاقات کا خاص طورپر
اہتمام فرمایا کرتے تھے اور ہر وفد کے آنے پر آپ علیہ السّلام نہایت ہی عمدہ
پوشاک زیب ِتن فرما کر کاشانۂ اقدس سے نکلتے اور اپنے خصوصی اصحاب رضی اللہُ عنہم
کو بھی حکم دیتے تھے کہ بہترین لباس پہن کر آئیں۔(صراط الجنان، 7/498)
(2)عزت و احترام سے پیش آنا: مہمان کے حقوق میں یہ بھی
شامل ہے کہ ان کے ساتھ عزت و احترام والا معاملہ کیا جائے۔ جیسا کہ رسول اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: جو اللہ پاک اور آخرت کے دن
پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ مہمان کا احترام کرے۔(بخاری، 4/136، حدیث: 6136)
اس حدیث
مبارکہ کا مطلب یہ نہیں کہ جو مہمان کی خدمت نہ کرے وہ کافر ہے۔مطلب یہ ہے کہ
مہمان کی خاطر تواضع کرنا ایمان کا تقاضا اور مؤمن کی علامت ہے۔ (دیکھئے: مراٰۃ
المناجیح، 6/52)
(3)اچھا کھانا کھلانا:مہمان کے بنیادی حقوق میں سے ایک یہ
بھی ہے کہ میزبان ان کے لئے اپنی حیثیت کے مطابق عمدہ و لذیذ کھانے کا اہتمام
کرے۔ قراٰنِ پاک میں جلیل القدر پیغمبر حضرت سیدنا ابراہیم خلیلُ اللہ علیہ
السّلام کا اسی (ضیافت)کے ساتھ وصف بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ جب آپ علیہ السّلام
کے پاس فرشتے بصورتِ انسان تشریف لائے تو آپ نے بچھڑے کے بھنے ہوئے گوشت سے ان کی
ضیافت فرمائی۔ (صراط الجنان، 4/464)
(4)مہمان نوازی میں خود مشغول ہو اور کھانے میں شامل ہو:
بہار شریعت میں ہے: میزبان کو چاہئے کہ مہمان کی خاطر داری میں خود مشغول ہو،
خادموں کے ذمہ اس کو نہ چھوڑے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سنت ہے اگر
مہمان تھوڑے ہوں تو میزبان ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ جائے کہ یہی تقاضائے مُروت
ہے اور بہت سے مہمان ہوں تو ان کے ساتھ نہ بیٹھے بلکہ ان کی خدمت اور کھلانے میں
مشغول ہو۔(بہار شریعت، 3/394)
(5)رخصت کرنے کے لئے دروازے تک چھوڑنا: میزبان کو چاہئے
کہ وہ اپنے مہمانوں کو رخصت کرنے کیلئے دروازے تک چھوڑنے آئے۔ اللہ پاک کے آخری
نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا یہ سنت سے ہے کہ انسان اپنے
مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے۔(ابن ماجہ،4/52، حديث: 3358)
مہمان کو
دروازے تک پہنچانے میں اس کا احترام ہے، پڑوسیوں کا اطمینان کہ وہ جان لیں گے کہ
ان کا دوست عزیز آیا ہے کوئی اجنبی نہیں آیا۔ اس میں اور بہت حکمتیں ہیں: آنے
والے کی کبھی محبت میں کھڑا ہوجانا بھی سنت ہے۔(دیکھئے:مراٰۃ المناجیح، 6/67)
دعا ہے کہ
اللہ پاک ہمیں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں پر عمل کرتے ہوئے
ہمیشہ مہمانوں کی تعظیم کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ابو ثوبان عبدالرحمن عطّاری (دورۂ حدیث مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
معاشرےکےافرادکےظاہروباطن کو بُری خصلتوں سے پاک کرکےاچّھے
اوصاف سے مزیّن کرنا اور انہیں معاشرے کا ایک باکردار فرد بنانا بہت بڑا کام اور
انبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃ و السَّلام کا طریقہ ہے۔ جن میں ہمارے
آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
زندگی کے جس گوشے پر بھی نظر ڈالیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامل ومکمل
نظرآئیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مربیانہ زندگی پر نظر کریں تو دنیا کے
تمام ہی معلّمین آپ کے خوشہ چین نظر آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
ازدواجی زندگی کا جائزہ لیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے لیے بہترین شوہر ہیں، آپ کی
مجاہدانہ وسپاہیانہ زندگی پر نظر کریں تو دنیا کے بہادر آپ سے کوسوں دور ہوں گے،
اسی طرح بچوں کے ساتھ آپ کے حسنِ سلوک کا جائزہ لیں تو آپ بہترین مربی بھی ہیں،جس
طرح پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے
افعال وکردار سے تربیت فرمائی اسی طرح اپنے فرامین سے بھی تربیت فرمائی۔آیئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اقوال جن سے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو چیزوں کے ذریعے تربیت فرمائی ملاحظہ فرمائیے۔
دو چیزیں جوان رہتی
ہیں : فرمان
آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم : يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَيَشِبُّ مِنْهُ
اثْنَانِ: الْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ، وَالْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ ترجمہ: انسان بوڑھا ہوجاتا ہے اور اس کی دو چیزیں جوان رہتی ہیں (01) مال کی حرص اور(02) عمر کی حرص (صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 2405)
مومن کے لئے بہتر ہے:فرمان
آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم : اثْنَتَانِ يَكْرَهُهُمَا
ابْنُ آدَمَ: يَكْرَهُ الْمَوْتَ وَالْمَوْتُ خَيْرٌ لِلْمُؤْمِنِ مِنَ
الْفِتْنَةِ، وَيَكْرَهُ قِلَّةَ الْمَالِ وَقِلَّةُ الْمَالِ أَقَلُّ لِلْحِسَابِ. ترجمہ:دو
چیزیں ہیں جنہیں انسان ناپسند کرتا ہے،وہ موت کو ناپسند کرتا ہے حالانکہ موت
مؤمن کے لیے فتنے سے بہتر ہے اور مال کی
کمی کو ناپسند کرتا ہے حالانکہ مال کی کمی حساب کو کم کردے گی(مشکوۃ
المصابیح:5251)
کس کو اختیار کریں اور کس کو چھوڑیں: حضرت سیِّدُنا ابو محمد حسن بن علی رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں:
میں نےرسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سے
سن کر)یہ بات یاد کی کہ ’’جو چیز تجھے شک میں ڈالے اسے چھوڑ کر وہ اختیار کر جو
تجھے شک میں نہ ڈالے۔‘‘(ترمذی، كتاب صفة القیامة والرقائق والورع، 4/232،
حدیث:2526)
گمراہی سے بچانے والی دو چیزیں: فرمان
آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم : تَرَكْتُ فِيكُمْ
أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ الله
وَسُنَّةَرَسُولِه ترجمہ:میں نے تم میں دو چیزیں وہ
چھوڑی ہیں جب تک انہیں مضبوط تھامے رہو گے گمراہ نہ ہوگےاللہ کی کتاب اور اس کے
پیغمبرکی سنت (مشکوۃ المصابیح:66)
عورت کو حکم:فرمان آخری نبی صلی اللہ
علیہ وسلم : لَوْ کُنْتُ آمِرًا
اَحَدًا اَنْ یَّسْجُدَ لِاَحَدٍ لَاَمَرْتُ المَرْاَۃَ اَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِہَا ترجمہ:اگر میں کسی کو کسی کے لئے سجدہ کا حکم
دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی،ج2، ص386، حدیث: 1162) شرح حدیث: اس حدیثِ پاک میں دو چیزوں کا
بیان ہے:
(1)اگر مخلوق میں سے
کسی کو سجدۂ تعظیمی کرنے کی اجازت ہوتی تو عورت کو حکم دیا جاتا کہ وہ اپنے
شوہر کو سجدہ کرے کیونکہ بیوی پر شوہر کے کثیر حُقوق ہیں جن کی ادائیگی سے
وہ عاجز ہے۔ اس حدیثِ پاک میں عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت کرنے کے وُجوب
میں انتہائی مبالغہ ہے۔
(2)اللہ پاک کے علاوہ کسی کو
سجدہ کرنا حلال نہیں۔(مرقاۃ المفاتیح،ج 6،ص401، تحت الحدیث:3255)
اللہ پاک ہمیں آخری نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کے مبارک
فرامین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
اور ان کے صدقے نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں
فیضانِ انبیاء سے مالا مال فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عبد الرحمن (درجۂ خامسہ جامعۃ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
اللہ عزوجل
اپنے بندوں کی ہدایت اور
رہنمائی کے لیے وقتا فوقتا اپنے مقدس انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرماتا رہا اور
سب سے آخر میں اس نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم کو مبعوث
فرمایا جو عرب و عجم میں بے مثل اور اصل و نسل ، حسب و نسب میں سب سے زیادہ پاکیزہ
ہیں ، عقل و فراست و دانائی اور بردباری میں فزوں تر، علم و بصیرت میں سب سے برتر
، یقین محکم اور عزم راسخ میں سب سے قوی تر ، رحم و کرم میں سب سے زیادہ رحیم و شفیق
ہیں۔ اللہ عزوجل نے ان کے روح و جسم کو مصفی اور عیب و نقص سے ان کو منزہ رکھا، ایسی
حکمت و دانائی سے ان کو نوازا کہ جس نے اندھی آنکھوں ، غافل دلوں اور بہرے کانوں
کو کھول دیا الغرض آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو ایسے فضائل و محاسن
اورمناقب کے ساتھ مخصوص کیا ہے جس کا احاطہ ممکن نہیں۔
نیز نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ وہ سیرت طیبہ ہے جو بنی نوع اِنسان کے لیے ہر معاملے میں
مشعلہ راہ ہے۔ کہ انسان حضور صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و تربیت کو اپناتے ہوئے اپنی زندگی کو خوبصورت
بنائے ۔اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو دو چیزوں کے بیان پر تربیت فرمائی آئیے اسے حدیث مبارکہ کی روشنی میں سنتے ہیں:۔
(1) کبھی گمراہ نہ ہوگے :حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہ سے مرسل روایت ہے فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : میں نے تم میں دو چیزیں وہ چھوڑی ہیں جب تک انہیں مضبوط تھامے
رہو گے گمراہ نہ ہو گے، اللہ کی کتاب، اس
کے پیغمبر کی سنت۔(مرات المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد 1، حدیث نمبر : 186)
(2)
دو نعمتوں سے کبھی دھوکا نہ کھانا :حضرت
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کہ حضور
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تندرستی اور فراغت دو نعمتیں ایسی
ہیں کہ اکثر لوگ ان کی وجہ سے خسارہ اٹھاتے ہیں یا ان سے دھوکا کھاتے ہیں.
اس حدیث پاک کی شرح میں علامہ
حافظ ابن حجر عسقلانی قدس سرہ النورانی فرماتے ہیں : اس حدیث پاک کا حاصل ہے کہ دنیا
آخرت کی کھیتی ہےاس میں کی گئی تجارت کا نفع آخرت میں ظاہر ہوگا تو جس نے صحت و
فراغت میں احکام خداوندی کی پیروی کی وہ قابل رشک و خوس نصیب ہے(فیضانِ ریاض
الصالحین ،جلد:2،حدیث نمبر:97)
(3) دو افراد پر شک جائز ہے :- حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: دو کے سوا کسی میں رشک جائز نہیں ایک وہ شخص جسے اللہ
مال دے تو اسے اچھی جگہ خرچ پر لگا دے
دوسرا وہ شخص جسے اللہ علم دے تو وہ اس سے
فیصلے کرے اور لوگوں کو سکھائے(مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ، جلد 1 ، حدیث
نمبر 202)
(4) دو گروہوں کو بیان فرمانا:حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : میری امت کے دو گروہ ہیں
جن کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں مرجیہ اور قدریہ۔
اس حدیثِ پاک
کی شرح میں فرماتے ہیں:قدریہ کا عقیدہ ہے کہ تقدیر کوئی چیز نہیں ہم اپنے اعمال کے
خالق اور مختار ہیں اورمرجیہ کہتے ہیں جیسے کافر کو کوئی نیکی مفید نہیں ایسے ہی
مسلمان کو کوئی گناہ مضر نہیں جو چاہے کرے ،اس زمانے کے دتہ شاہی فقیر اور بعض
روافض ان کی یادگار ہے ۔اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں فرقے گمراہ ہیں ۔ (مآخذ اذ مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،جلد :1،حدیث نمبر :105)
(5) دو چیزیں لازم کرنے والی ہیں: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: دو چیزیں لازم کرنے والی ہیں کسی نے عرض کیا یارسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم لازم کرنے والی کیا ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: جو اللہ کا شریک مانتا ہوا مرگیا وہ آگ میں جائے گا اور جو اس طرح مرا کہ کسی کو اللہ کا شریک نہیں مانتا وہ
جنت میں جائے گا ۔( مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،جلد :1،حدیث نمبر
:38)
جو بھی نبی
پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و تربیت پر عمل کرے گا یقیناً وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوگا اور جنت
اس کا ٹھکانہ ہوگا ۔
اللہ پاک ہم
سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سیدعمرگیلانی (درجۂ سادسہ مرکزی
جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
تعلیم و تربیت
کا عمل قابل توجہ اور نہآیت صبر کا حامل
ہے اور یہ بہت ضروری بھی ہے انسانیت کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کے لئے اللہ نے
آسمانی کتاب اور اپنے پیغمبروں کو بھیجا ان پاک ہستیوں نے انسانوں کی تعلیم و تربیت
کی یہاں تک کہ ہمارے آخری نبی حضرت محمد صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کااسوہ تا
قیامت تک ہمارے لئے مشعل راہ ہےآپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا تربیت کا انداز
موقع و محل کی مناسب سے ہوتا الفاظ جامع و مختصر ہوتےکہ اکتاہٹ کا شائبہ تک نہ ہو۔
حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا پہننے اور کھانے کے متعلق تربیت
فرمانا: کھانا پینا اور لباس زیب تن کرنا یہ
انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے اور انسانی فطرت ہے کہ وہ ہر شے عمدہ و اعلیٰ
چاہتا ہےحضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے اسکے متعلق تربیت فرمائی
چنانچہ حضرت ابن عباس سے روایت ہے
"فرمایا جو چاہو کھاؤ اور جوچاہو پہنوجب کہ دو چیزیں تم سے الگ رہیں فضول خرچی
اور تکبر"
یعنی اعلٰی سے
اعلٰی مباح کھانا کھا ؤ اور بڑھیا سے بڑھیامباح
لباس پہنو،الله نے اعلیٰ لباس اور
الله نے کھانے تمہارے ہی لیے بنائے ہیں،حلال
کھانے چھوڑنے کا نام تقویٰ نہیں حرام خصلتیں چھوڑنے کا نام تقویٰ ہے۔
کھانے پینے کی
مقدار میں حد سے بڑھ جانا اسراف و فضول خرچی ہے۔کیفیت میں حد سے بڑھ جانا مخیلہ یا
تکبر ہے اسی لیے علماء فرماتے ہیں "لاخیر فی اسرفاولا اسرف فی الخیر"یعنی اسراف میں بھلائی نہیں اور بھلائی میں
اسراف نہیں۔بعض حضرات فرماتے ہیں کہ دل و نفس کی ہر خواہش پوری کرنا اسراف ہے کہ
جو دل چاہے وہ کتاب:(مرآۃ المناجیح شرح
مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4380)
موت
اور مال کی کمی کے متعلق فرمان محبوب خدا: موت برحق ہے لیکن دنیا کی محبت جس
کے دل میں راسخ ہو جائے تو زندہ رہنے کی خواہش بڑھ جاتی ہے اور موت بری لگتی ہے اسی
طرح مال کی خواہش رکھنے والا شخص غفلت کا شکار بھی ہوجاتا ہے.حضرت محمود ابن لبید
سے روایت ہےکہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نےفرمایا:"دو چیزیں ہیں جنہیں انسان ناپسند کرتا ہے،وہ موت کو ناپسند کرتا ہے
حالانکہ موت مؤمن کے لیے فتنے سے بہتر ہے
اور مال کی کمی کو ناپسند کرتا ہے حالانکہ مال کی کمی حساب کو کم کردے گی."
زندگی وہ اچھی
ہے جو رب تعالٰی کی اطاعت میں صرف ہو،کفروطغیان و عصیان کی زندگی سے موت بہتر
ہے.فتنہ سے مراد ہے گناہ و غفلت وغیرہ۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ایک دعا مانگتے تھے جس کے آخر میں یہ تھا"اذا اردت بعبادك فتنۃ فاقبضنی الیك
غیر مفتون مولٰی" جب تو اپنے
بندوں کو فتنہ میں مبتلا کرے تو مجھے بغیر مبتلا کیے ہوئے موت دیدے۔کتاب:(مرآۃ
المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 ,حدیث نمبر:4380)
دوعظیم
چیزیں کے متعلق نصیحت: 1 قرآن پاک
ایک عظیم بابرکت اور جامع کتاب ہے اہل علم و اولوالارباب کے لئے راہ ہدایت ہے جو اسے مظبوطی سے تھام لے (عمل پیرا ہو ) تو
اسکی دنیا و آخرت سنور گئی 2 اہل بیت سے محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے اور ان
سے بغض بد بختی و باعث ہلاکت ہے ان دونوں کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی۔
روایت ہے حضرت
زید ابن ارقم سے:فرماتے ہیں کہ رسول الله صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک دن ہم
میں خطیب کھڑے ہوئے اس پانی پر جسے خم کہا جاتا ہے حمدوثناء کی اور وعظ و نصیحت
فرمائی پھر فرمایا" قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد میرے پاس آجائے میں تم میں دو
عظیم چیزیں چھوڑتا ہون جن میں سے پہلی تو الله کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہےتم الله کی کتاب لو اسے مضبوط پکڑو
پھر کتاب الله پر ابھارا اس کی رغبت دی پھر فرمایا اور میرے اہل بیت میں تم کو
اپنے اہل بیت کے متعلق الله سے ڈراتا ہوں." ( کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ
المصابیح جلد:8 , حدیث نمبر:6140)
ابو شہیر تنویر احمد عطاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھوکی لاہور،پاکستان)
(1)عربی حدیث مبارکہ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كُلْ مَا شِئْتَ
وَالْبَسْ مَا شِئْتَ مَا أَخْطَأَتْكَ اثْنَتَانِ: سَرَفٌ وَمَخِيلَةٌ. رَوَاهُ
البُخَارِيُّ فِي تَرْجَمَةِ بَابٍ
۔ ترجمہ حدیث مبارکہ ۔ روایت ہے حضرت
ابن عباس سے فرمایا جو چاہو کھا ؤ اور جوچاہو پہنو جب کہ دو چیزیں تم سے الگ رہیں فضول خرچی اور
تکبر۔ (بخاری ترجمہ باب) ( کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4380 )
(2)عربی حدیث
مبارکہ ۔وَعَنْ
مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ أَنَّ النَّبِيَّ -صلى اللَّه عليه وسلم- قَالَ:
اثْنَتَانِ يَكْرَهُهُمَا ابْنُ آدَمَ: يَكْرَهُ الْمَوْتَ وَالْمَوْتُ خَيْرٌ
لِلْمُؤْمِنِ مِنَ الْفِتْنَةِ، وَيَكْرَهُ قِلَّةَ الْمَالِ وَقِلَّةُ الْمَالِ
أَقَلُّ لِلْحِسَابِ. رَوَاهُ
أَحْمَدُ. ترجمہ حدیث مبارکہ ۔ روایت ہے حضرت محمود ابن لبید سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو چیزیں ہیں جنہیں
انسان ناپسند کرتا ہے،وہ موت کو ناپسند کرتا ہے حالانکہ موت مؤمن کے لیے فتنے سے بہتر ہے اور مال کی کمی کو ناپسند کرتا ہے حالانکہ مال کی
کمی حساب کو کم کردے گی۔ (احمد)
زندگی وہ اچھی
ہے جو رب تعالٰی کی اطاعت میں صرف ہو،کفروطغیان و عصیان کی زندگی سے موت بہتر ہے یہاں
یہ ہی مراد ہے۔فتنہ سے مراد ہے گناہ و غفلت وغیرہ۔حضورصلی الله علیہ وسلم ایک دعا
مانگتے تھے جس کے آخر میں یہ تھاو اذا اردت بعبادك فتنۃ فاقبضنی الیك غیر مفتون مولٰی جب تو اپنے بندوں کو فتنہ میں مبتلا کرے تو
مجھے بغیر مبتلا کیے ہوئے موت دیدے۔( کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:7 , حدیث نمبر:5251 )
(3)عربی حدیث
مبارکہ ۔ وَعَنْ
أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا
يَتَفَرَّقَنَّ اثْنَانِ إِلَّا عَنْ تَرَاضٍ» رَوَاهُ أَبُو ترجمہ حدیث مبارکہ ۔ روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے راوی ہیں کہ آپ نے فرمایا
دو شخص ایک دوسرے کو راضی کئے بغیر الگ نہ ہوں ۔ (ابوداؤد)
اثنان سے مراد
تاجر خریدار ہیں یعنی ایجاب و قبول کے بعد بھی تاجر و خریدار ایک دوسرے کو چیز و قیمت
سے مطمئن کرکے وہاں سے ہٹیں،دھوکا دے کر بھاگنے کی کوشش نہ کر یں اس سے بھی خیار
مجلس ثابت نہیں ہوتا۔اس حدیث کی تائید اس آیت سے ہے " اِلَّاۤ اَنْ
تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ "ایجاب و قبول کے بعد بھی ایک دوسرے کو مطمئن کردینا
ضروری ہے کہ اگر کسی کو اطمینان نہ ہو تو چیز واپس کردی جائے۔( کتاب:مرآۃ المناجیح
شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 , حدیث نمبر:2805 )
(4)عربی حدیث
مبارکہ ۔ النَّبِيُّ
-صلى اللَّه عليه وسلم-:يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَيَشِبُّ مِنْهُ اثْنَانِ:
الْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ، وَالْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. ترجمہ حدیث مبارکہ ۔ روایت ہے انہیں سے فرماتے ہیں فرمایا نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کہ انسان بوڑھا ہوجاتا ہے اور اس کی دو چیزیں جوان رہتی ہیں مال کی حرص اور عمر کی حرص ۔ (مسلم،بخاری) ( کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:7 , حدیث نمبر:5270)
(5)عربی حدیث
مبارکہ ۔ وَعَنِ
ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا
يَزَالُ هٰذَاالْأَمْرُ فِي قُرَيْشٍ مَا بَقِيَ مِنْهُمُ اثْنَانِ» . (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ) ترجمہ حدیث مبارکہ ۔ روایت ہے حضرت ابن عمر سے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم
نے فرمایا کہ یہ چیز قریش میں ہے جب تک کہ ان میں سے دو بھی رہیں ۔ (مسلم،بخاری)
خلافت وہ سلطنت ہے جس میں نیابت رسول بھی ہو۔یہاں
ھذا الامر سے مراد خلافت اسلامیہ ہے اور یہ خبر بمعنی امر ہے یعنی اگر دنیا میں دو
قریشی بھی رہ جائیں تب بھی خلیفۃ المسلمین قریشی ہی ہونا چاہیے کہ ایک قریشی خلیفہ
ہو اور دوسرا قرشی اور باقی لوگ اس کی رعایا لہذا حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ آج تو
عرصہ سے حکومت قریشیوں سے نکل چکی ہے۔خیال رہے کہ خلیفہ صرف قرشی ہی ہوسکتا ہے مگر
سلطان اسلام ہر مسلمان ہوسکتا ہے۔خلافت اور ملوکیت میں یہ فرق ہے کہ خلافت قریش کے
ساتھ خاص ہے ملوکیت و سلطنت عام،پھر خلافت دو قسم کی ہے: خلافت راشدہ اور غیر
راشدہ۔خلافت راشدہ خلفاء اربعہ ابو بکر صدیق،عمر فاروق،عثمان غنی اور حضرت علی
پرختم ہوگئی۔اس کے چھ ماہ حضرت امام حسن نے پورے کیے،بعد میں خلافت غیر راشدہ یا
ملوکیت ہوئی۔بعض شارحین نے فرمایا کہ یہ خبر ہی ہے مگر اس میں عدل و انصاف کی قید
ہے جیساکہ اگلی حدیث میں آرہا ہے کہ اگر قریش عادل و منصف رہیں تو خلافت ان ہی میں
رہے گی اگرچہ دو قرشی ہوں جب کہ ان میں انصاف نہ رہا تو ان سے خلافت نکل جاوے گی
تب بھی حدیث ظاہر ہے۔ ( کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:8 , حدیث نمبر:5981 )
مبشر حسین عطّاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی
لاہور،پاکستان)
حضرت سیدنا
حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ
فرماتے سنا " کہ میں تمہیں جنتی لوگوں کی خبر نہ دوں ؟ ہر کمزور جسے کمزور
سمجھا جائے اگر وہ اللہ عزوجل (کے کرم) پر (اعتماد کرتے ہوئے) قسم کھالے تو الله
عز وجل اس کی قسم کو ضرور پورا کر دے گا کیا میں تمہیں جہنمی لوگوں کی خبر نہ دوں
؟ ہر وہ شخص جو سخت مزاج ، بخیل اور خود کو بڑا سمجھنے والا ہو ۔
1
: ظلم اور بخل سے بچو : حضرت سیدنا
جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ
تاجدار رسالت ، شہنشاہ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ظلم سے بچو! کیونکہ
ظلم قیامت کے اندھیروں میں سے ہے اور بخل سے بچو کیونکہ بخل ہی نے تم سے پہلے
لوگوں کو ہلاک کیا۔ اور انہیں اس بات پر ابھارا کہ وہ ایک دوسرے کا خون بہائیں ۔
اور محرمات (یعنی حرام کیے گئے کاموں) کو حلال سمجھیں ۔
2
ہلاکت: حضرت سیدنا عبداللہ بن
مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ہلاکت دو چیزوں میں ہے مایوسی اور خود پسندی یہ
کہ انسان اپنے رب کی رحمت سے ناامید ہو جائے اور یہ کہ وہ اپنے حاصل کردہ کام یا
نفع پر اترائے ۔ ( الزواجر عن اقتراف الکبائر
: 121/1)
(3)دو
پسندیدہ خصلتیں : حضرت سیدنا عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
حضور نبی کریم روف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اشحج عبد القیس رضی اللہ عنہ
سے فرمایا : تجھ میں دو خصلتیں ایسی ہیں
جنہیں اللہ عزوجل پسند فرماتا ہے : حلم اور اطمینان۔ (فیضان ریاض الصالحین جلد 5
صفحہ نمبر 535 مکتبۃ المدینہ)
:4
دو آدمیوں پر رشک جائز:حضرت سیدنا
عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو آدمیوں کے علاوہ کسی پر حسد (یعنی
رشک) کرنا جائز نہیں : (1) وہ شخص جسے اللہ عزوجل نے مال عطا فرمایا اور اسے صحیح
راستے میں خرچ کرنے کی قدرت عطا فرمائی (2) وہ مرد جسے الله تعالیٰ نے (دین کا)
علم عطا کیا تو وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے اور اس کی تعلیم دے۔ (فیضان ریاض الصالحین
جلد 5 صفحہ نمبر 189مكتبۃ المدينہ )
سلمان علی (درجۂ سادسہ جامعۃ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
اللہ تعالی نے
قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا :وَ مَنْ أَحْيَاهَا فَكَانَمَا أَحْيَا
النَّاسَ جَمِيعًا جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا انسانوں کو
زندہ کیا ۔امام جعفر صادق اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ زندہ کرنے سے مراد
ظاہری حیات و زندگی نہیں ہے بلکہ یہاں زندہ کرنے سے مراد تربیت انسان ہے ایک مردہ
انسان کو زندہ کرنے کا مقصد اسے گمراہی سے ہدایت کی طرف لے آنا اور اس کی تربیت کرنا اسی وجہ سے
اللہ تعالی نے انبیاء کی بعثت کا مقصد انسانوں کی تربیت اور ھدآیت قرار دیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم
میں ارشاد فرمایا :-
كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ
يَتْلُوا عَلَيْكُمْ ايْتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ
وَالْحِكْمَةَ وَ يُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ :-ترجمہ کنز العرفان :- جیسا کہ ہم نے تمہارے درمیان تم میں سے ایک رسول بھیجا
جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور تمہیں کتاب اور پختہ
علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جو تمہیں معلوم نہیں تھا : نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کی تربیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
(1)
انسان دو نفع مند چیزیں ناپسند کرتا ہے :وَعَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ أَنَّ النَّبِيَّ
صلى الله عليه وسلم قَالَ : اثْنَتَانِ يَكْرَهُهُمَا ابْنُ آدَمَ : يَكْرَهُ
الْمَوْتَ وَالْمَوْتُ خَيْرٌ لِلْمُؤْمِنِ مِنَ الْفِتْنَةِ، وَيَكْرَهُ قِلَّةَ
الْمَالِ وَقِلَّةُ الْمَالِ أَقَلُّ لِلْحِسَابِ :-
حضرت محمود
ابن لبید سے روایت ہے کہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو چیزیں ہیں جنہیں انسان ناپسند کرتا ہے ،
وہ موت کو نا پسند کرتا ہے حالانکہ موت مؤمن کے لیے فتنے سے بہتر ہے اور مال کی کمی
کو نا پسند کرتا ہے حالانکہ مال کی کمی حساب کو کم کر دے گی ۔ مرآۃ المناجیح شرح مشكوة المصابیح ج(7) حدیث
(5251)
(2)
حرص سے اجتناب :-وَعَنْ
انس قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم : "يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَيَشِبُّ
مِنْهُ اثْنَانِ : الْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ، وَالْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ :-حضرت انس رضي اللّہ عنہٗ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
انسان بوڑھا ہو جاتا ہے اور اس کی دو چیزیں جو ان رہتی ہیں مال کی حرص اور عمر کی
حرص ۔ مرآۃ المناجیح شرح مشكوة المصابیح ج(7) حدیث (5270)
(3)
دو چیزوں کو الگ رکھو : وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : كُلْ مَا شِئْتَ وَالْبَسُ مَا شِئْتَ
مَا أَخْطَأَتُكَ اثْنَتَانِ : سَرَفٌ وَمَخِيلَةٌ.
حضرت ابن عباس
رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے فرمایا
جو چاہو کھاؤ اور جو چاہو پہنو ا جب کہ دو چیزیں تم سے الگ رہیں ، فضول خرچی اور
تکبر (مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ج(6)حدیث (4380)
(4)فضول
خرچی اور تکبر : آسانی پیدا کرنے
اور خوشخبری سنانے کا حکم :- عن انس قال رسول صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :
يَتِرُوا وَلَا تُعَدِّى وَ اوَبَشِّهُوا وَلَا تُنفِرُوا :-حضرت انس رضی اللّہ عنہٗ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
آسانی کر و سختی نہ کرو، خوشخبری سناؤ نفرت نہ دلاؤ۔“ (صحیح بُخاری، کتاب العلم حدیث
(69) :
عبدالحنان (درجۂ سادسہ جامعۃ
المدینہ گلزار حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
معاشرے کے
افراد کی اصلاح اور ان کو بری خصلتوں سے پاک کر کے اچھی عادات سے مزین کرنا ایک
بہت بڑا امر ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا طریقہ ہے۔ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منصب کر فرائض میں سے ایک اہم فریضہ یہ بھی تھا کہ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نوع انسانی کی تربیت فرمائیں اسی وجہ سے اللہ پاک نے آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کو نوع انسانی کے لئے کامل نمونہ بنا کر بھیجا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تربیت کا طریقہ مختلف انداز میں رہا اور ہر
طریقہ و انداز ہی ایک الگ مثال رکھتا ہے۔
قارئین کرام!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت کے انداز میں سے یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لفظ "دو"
ذکر کر کے مختلف موضوعات پر تربیت فرماتے جن میں سے چند ملاحظہ کیجئے ۔
1۔
دو چیزیں جوان رہتی ہیں۔حضرت انس
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا! کہ انسان بوڑھا
ہوجاتا ہے اور اس کی دو چیزیں جوان رہتی ہیں مال کی حرص اور عمر کی حرص۔(صحیح
مسلم، کتاب الزکاۃ، باب من جمع الصدقة و اعمال البر، ج3، ص99، حدیث1047،
دارالطباعة العامرة-ترکیا)
2۔
دو کلمے زبان پر ہلکے میزان پر بھاری۔حضرت
ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا! کہ دو کلمے رحمن کو بہت زیادہ محبوب ہیں یہ زبان پر بہت ہی ہلکے اور میزانِ عمل میں بہت ہی بھاری ہیں(وہ دو کلمے یہ ہیں ) سُبْحَانَ اللہ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہ الْعَظِیْمِ۔(صحیح البخاری، کتاب التوحید، باب من قول اللہ تعالیٰ:{ونضع
الموازین القسط}۔۔۔الخ ج2، ص2749، حدیث 7124، دار ابنِ کثیر، دمشق)
3۔
گمراہ نہ ہوں گے۔ حضرت مالک ابن
انس سے روایت ہے
فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا! کہ میں نے تم میں دو چیزیں وہ چھوڑی ہیں جب تک انہیں
مضبوط تھامے رہو گے گمراہ نہ ہوگے (وہ دو چیزیں یہ ہیں) اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبرکی
سنت۔(موطأ مالک، کتاب القدر، باب النھی عن القول بالقدر، ج2، ص899، حدیث3، دار احیاء
التراث العربی بیروت)
4۔
دو عظیم نعمتیں۔حضرت عبداللہ بن
عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے ارشاد فرمایا! تندرستی اور فراغت دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ اُن کی وجہ سے خسارہ اٹھاتے ہیں یا ان سے دھوکا
کھاتے ہیں۔(مسند احمد، مسند عثمان بن عفان، من اخبار عثمان، ج4 ص177، حدیث2340،
مؤسسة الرسالة)
5۔
دو چیزیں لازم کرنے والی ہیں۔ حضرت
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! دو چیزیں لازم کرنے والی ہیں کسی نے عرض کیا یارسول الله لازم کرنے والی کیا ہیں فرمایا جو الله کا شریک
مانتا ہوا مرگیا وہ آگ میں جائے گا اور جو اس طرح مرا کہ کسی کو الله کا شریک نہیں مانتا وہ جنت میں جائے۔(جامع
الاصول، حرف الفاء، فی فضل الایمان والاسلام، ج9 ص365، حدیث7009، مکتبة الحلوانی-
مکتبةدارالبیان)
قرآن پاک میں
اللہ رب العزت نے ہمیں ایک بہترین امت کے
خطاب سے پکارا ہے کیونکہ یہ امت نیکی کا
حکم دیگی اور برے کام سے منع کرے گی معاشرے
کے افراد کی اصلاح اور ان کو بری خصلتوں سے پاک کر کے اچھی عادات سے مزین کرنا یہ
بھی امر و نھی کے احکامات میں سے ہی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منصب کے
فرائض میں سے ایک اہم فریضہ یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نوع انسانی
کی تربیت فرمائیں اسی وجہ سے اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کو
نوع انسانی کے لئے کامل نمونہ بنا کر بھیجا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم
کی تربیت کا طریقہ مختلف انداز میں رہا اور ہر طریقہ و انداز ہی ایک الگ مثال
رکھتا ہے۔
محترم و معزز
ناظرین و سامعین کرام! نبی کریم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی تربیت کے انداز میں سے ایک پہلو یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم (2 )کا عدد ذکر کر کے مختلف موضوعات پر تربیت فرماتے جن میں سے چند ملاحظہ کیجئے ۔
1۔
دو چیزیں جوان رہتی ہیں: حضرت انس
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا! کہ انسان بوڑھا
ہوجاتا ہے اور اس کی دو چیزیں جوان رہتی ہیں مال کی حرص اور عمر کی حرص۔ (صحیح
مسلم، کتاب الزکاۃ، باب من جمع الصدقة و اعمال البر، ج3، ص99، حدیث1047،
دارالطباعة العامرة-ترکیا)
2۔
دو کلمے زبان پر ہلکے میزان پر بھاری: حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ نے فرمایا! کہ دو کلمے رحمن کو بہت زیادہ
محبوب ہیں یہ زبان پر بہت ہی ہلکے اور میزانِ
عمل میں بہت ہی بھاری ہیں(وہ دو کلمے یہ ہیں
) سُبْحَانَ
اللہ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہ الْعَظِیْمِ۔ (صحیح البخاری، کتاب التوحید، باب من قول اللہ تعالیٰ:{ونضع
الموازین القسط}۔۔۔الخ ج2، ص2749، حدیث 7124، دار ابنِ کثیر، دمشق)
3۔
گمراہ نہ ہوں گے۔ حضرت مالک ابن
انس سے روایت ہے
فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا! کہ میں نے تم میں دو چیزیں وہ چھوڑی ہیں جب تک انہیں
مضبوط تھامے رہو گے گمراہ نہ ہوگے (وہ دو چیزیں یہ ہیں) اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبرکی
سنت۔(موطأ مالک، کتاب القدر، باب النھی عن القول بالقدر، ج2، ص899، حدیث3، دار احیاء
التراث العربی بیروت)
4۔
دو عظیم نعمتیں۔ مفسر قرآن حضرت
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا!
تندرستی اور فراغت دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ اُن کی وجہ سے خسارہ اٹھاتے ہیں یا ان سے دھوکا
کھاتے ہیں۔(مسند احمد، مسند عثمان بن عفان، من اخبار عثمان، ج4 ص177، حدیث2340،
مؤسسة الرسالة)
5۔
دو چیزیں لازم کرنے والی ہیں۔ حضرت
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
فرماتے ہیں کہ آخری نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! دو چیزیں لازم کرنے والی ہیں کسی نے
عرض کیا یارسول الله لازم کرنے والی کیا ہیں
فرمایا جو الله کا شریک مانتا ہوا مرگیا وہ آگ میں جائے گا اور جو اس طرح مرا کہ کسی
کو الله کا شریک نہیں مانتا وہ جنت میں
جائے۔ (جامع الاصول، حرف الفاء، فی فضل الایمان والاسلام، ج9 ص365، حدیث7009،
مکتبة الحلوانی- مکتبةدارالبیان)
محمد اسجد نوىد (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی
لاہور،پاکستان)
معاشرےکےافرادکےظاہروباطن
کو بُری خصلتوں سے پاک کرکےاچّھے اوصاف سے مزیّن کرنا اور انہیں معاشرے کا ایک
باکردار فرد بنانا بہت بڑا کام اور انبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃ و السَّلام کا
طریقہ ہے۔تربیت کرنے والے کو حُسْنِ اَخلاق کا پیکر،خیر خواہی کا جذبہ رکھنے والا،عَفْو
و دَرگزر سے کام لینے والا،عاجزی اختیار کرنے والا،ہشّاش بَشّاش رہنے والا، حسبِ
موقع مسکرانے والا، نَفاست پسند اور خوفِ خدا رکھنے والا ہونا چاہئے۔اگر ہم لوگوں
کو سچّا مسلمان بنانا،دنیا و آخرت میں انہیں کامیاب و کامران دیکھنا اور خود بھی
سُرخرُو (کامیاب) ہونا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان کی اچّھے انداز سے تربیت کرنی ہوگی۔اچّھی
تربیت میں جن اُمور کا لحاظ رکھا جاتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ سامنے والے کی طبیعت
اور مزاج کا خیال رکھا جائے اور بڑی حکمتِ عملی اور عَقْل مندی کے ساتھ تربیت کی
جائے،سامنے والے کی نفسیات سمجھنے کو تربیت کے سلسلے میں بڑی اہمیت حاصل ہے،اس
حوالے سے ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اندازِ تربیت بہترین
نمونہ ہے اور یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ کسی نبی کو جو عقل عطا کی جاتی ہے
وہ اوروں سے بہت زیادہ ہوتی ہے،کسی بڑے سے بڑے عقل مند کی عقل ان کی عقل کے لاکھویں
حصّے تک بھی نہیں پہنچ سکتی ۔ آئیے!رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
تربیت کے واقعہ ملاحظہ کرتے ہیں:
حدىث (1):حضرت سیِّدُنا ابو
عبد الرحمٰن عبد اللہ بن عُمَر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:میں نے رسولِ پاک صلّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو ارشاد فرماتے سنا کہ ”اِسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر
ہے: اس بات کی گواہی دینا کہاللہ پاک کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بےشک
حضرت محمد صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم اللہ کے بندے اور رسول ہیں،
نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا،بیْتُ اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔( بخاری،
كتاب الايمان، باب دعائكم ايمانكم، ۱/ ۱۴، حدیث:۸۔)
حدیث (2):حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ ایمان کی شاخیں ساٹھ سے کچھ زیادہ
ہیں اور’’ حیا‘‘ ایمان کی ایک بہت بڑی شاخ ہے۔ اس حدیث کو امام بخاری کے
علاوہ مسلم ،نسائی ،ابودائود ،ابن ما جہ نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں
تحریر فرمایا ہے۔ (منتخب حدیثىں جلد 1حدىث3)
حدیث (3):حضرت سیدنا معاذ بن
جبل رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ
جب ان کو رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے یمن کی طرف قاضی بناکر
بھیجا تو فرمایا کہ جب تجھے کوئی معاملہ پیش آئے تو تُو کیسے فیصلہ کرے گا۔ حضرت سیدنا
معاذرضی اﷲ عنہ نے عرض کیا کہ میں اﷲ عزوجل کی کتاب کے ساتھ حکم کروں
گا۔ آپ صلّی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّمنے فرمایا اگر اﷲ عزوجل کی کتاب میں تو اس
کا حکم نہ پائے تو پھر کیا کرے گا۔ انہوں نے عرض کی کہ رسول کریم صلّی اﷲ علیہ
واٰلہٖ وسلّمکی سنت کے ساتھ فیصلہ کروں گا۔ آپ صلّی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا
اگر تو رسول علیہِ السّلامکی سنت میں بھی اس حکم کو نہ پائے تو پھر کیا کرے گا ؟
انہوں نے عرض کی کہ میں اپنی عقل او ر رائے کے ساتھ اجتہاد کروں گا اور طلب ثواب میں
کمی نہ کروں گا۔ حضرت سیّدنا معاذرضی اﷲ عنہ کہتے ہیں پھررسول کریم رؤف رحیم صلّی
اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے میرے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایاالحمد ﷲعزوجل کہ
اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول صلّی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قاصد کو اس چیز کی توفیق
دی جس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ عزوجلکا رسول صلّی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم راضی
ہے. (اربعین حنفیہ جلد 1 حدیث 3)
حدیث (4): روایت ہے حضرت
عمر ابن خطاب( رضی اللہ عنہ) سے فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں حاضرتھے کہ ایک صاحب ہمارے سامنےنمودارہوئے جن کے کپڑے بہت سفیداور بال
خوب کالے تھے اُن پر آثارِ سفر ظاہر نہ
تھے اور ہم سےکوئی اُنہیں پہچانتا بھی نہ تھا یہاں تک کہ حضور( صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس بیٹھے
اور اپنے گھٹنے حضور(صلی اللہ علیہ وسلم) کےگھٹنوں شریف سے مَس کر دیئے اور اپنے ہاتھ اپنے زانو پر رکھے اور عرض کیا اَےمحمد(صلی اللہ علیہ وسلم)مجھے
اسلام کے متعلق بتائیے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ ﷲ کےسواءکوئی
معبودنہیں اورمحمد ﷲ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو،زکوۃ دو،رمضان کے روزے
رکھو،کعبہ کا حج کرو اگر وہاں تک پہنچ سکو عرض کیا کہ سچ فرمایا ہم کو ان پرتعجب ہوا کہ
حضور سے پوچھتےبھی ہیں اورتصدیق بھی کرتے ہیں عرض کیا کہ مجھے ایمان کے متعلق بتائیے
فرمایاکہ ﷲ اور اس کے فرشتوں ،کتابوں اور اس کے رسولوں اور آخری دن کو مانواور اچھی
بُری تقدیرکو مانو عرض کیا آپ سچے ہیں عرض کیامجھےاحسان
کے متعلق بتائیے فرمایا ﷲ کی عبادت ایسے کرو کہ گویا اُسے دیکھ رہے ہو اگر یہ نہ ہوسکے تو خیال کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہاہے عرض
کیا کہ قیامت کی خبر دیجئے فرمایا کہ جس سے پوچھ رہے ہو وہ قیامت کے بارے میں سائل
سے زیادہ خبردارنہیں عرض کیا کہ قیامت کی
کچھ نشانیاں ہی بتادیجئے فرمایا کہ لونڈی اپنے مالک کوجنے گی اور ننگے پاؤں ننگے بدن والے فقیروں،بکریوں کے چرواہوں
کومحلوں میں فخر کرتےدیکھو گے راوی فرماتے ہیں کہ پھرسائل چلے گئے میں کچھ دیر
ٹھہرا حضور(صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھے فرمایا اےعمرجانتے ہو یہ سائل کون ہیں مَیں
نےعرض کیﷲ اوررسول جانیں فرمایا یہ حضرت
جبریل تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے ۔ (مسلم)
حدیث (5): روایت ہے عمر
ابن خطاب راضی الله عنہ سے فرماتے ہیں نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نےفرماىا: کہ اعمال نیّتوں سے ہیں ہرشخص کے لئے
وُہ ہی ہے جو نیّت کرے بس جس کی ہجرت اللہ و رسول کی طرف
ہو تو اُس کی ہجرت اللہ ورسول ہی کی طرف ہوگی اور
جس کی ہجرت دنیاحاصل کرنے یا عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہو اس کی ہجرت اس
طرف ہوگی جس کے لئے کی. (منتخب حدىثىں جلد 1)
حاجی محمد فیضان (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
جب ہم لفظ
"تربیت" سنتے یا بولتے ہیں تو ہمارے اندر ایک ایسی قوت جنم لیتی ہے جو
ہمیں اس طرف راغب کرتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کو تربیت کے گلدستوں سے اخلاقیات کے
پھول اگا سکتے ہیں تربیت ہی انسان کی زندگی کی کامیابی کا منبع اعظم ہے جیسے کہ رب
کریم نے بھی قران کریم میں فرمایا سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمان کو فائدہ دیتا ہے اسی
طرح اخری نبی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے بھی انسانوں کی تربیت بے
مثال طریقے سے فرمائی اس کا تعلق چاہے کاروبار سے ہو سوشل زندگی سے ہو یا فرد کے
اپنے معاملات ہوں الغرض کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس میں اپ نے ہماری تربیت نہ فرمائی
یہ علیحدہ بات ہے کہ ہماری عقل سمجھنے میں عاجز ہیں ائیے ان میں کچھ پھول ہم بھی
چن لیتے ہیں
(1) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ اخری نبی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم
نے ارشاد فرمایا دو نعمتیں ہیں جن میں بہت لوگ گھاٹے ہوئے ہیں (1)تندرستی اور
(2)فراغت ۔ (مرآۃالمناجیح جلد 7 صفحہ 21 حدیث 4924)
(2)حضرت انس
رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے اخری
نبی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا انسان بوڑھا ہو جاتا ہے اور اس کی دو
چیزیں جوان رہتی ہیں (1)مال کی حرص(2) عمر کی حرس ۔(مرآۃالمناجیح جلد 7 صفحہ 87 حدیث
نمبر 5033)
(3)آخری نبی
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مسلمان وہ ہے کہ اس کے ہاتھ اور زبان سے
دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔(بخاری جلد 1 صفحہ 15 حدیث 10)
(4)اخری نبی
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا غیبت اور چغلی ایمان کو اس طرح کاٹ دیتی
ہیں جس طرح چرواہا درخت کو کاٹ دیتا ہے ۔ (الترغیب والترھیب جلد3صفحہ334 حدیث28)
فرمان آخری
نبی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم شعبان کی پندرویں شب میں اللہ عزوجل اپنے بندوں
کو رحمت کی نظر سے دیکھتا ہے اور سب کو بخش دیتا ہے لیکن مشرک اور کینہ پرور
کو نہیں بخشا جاتا ۔ (صحیح ابن حبان
جلد8صفحہ480 حدیث5236)
اللہ پاک ہم
سب کو تربیت کے فیض سے مالا مال فرمائے امین بجاہ نبی الامین صلی اللہ علیہ والہ
وسلم