حضور
کی خاتون جنت سے محبت از بنت عبدالوسیم بیگ، جامعۃ المدینہ نارتھ کراچی
آپ کا نام
مبارک فاطمہ لقب زھراء اور بتول ہے آپ کا بچپن شریف اور زندگی کا ہر لمحہ ہی نہایت
ہی پاکیزہ تھا کیونکہ آپ کا بچپن حضور کریم ﷺ اور ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری
رضی اللہ عنہا کی آغوش رحمت رحمت میں گزرا۔ آپ اخلاق و عبادات کردار میں نبی پاک ﷺ
سے بہت مشابہت رکھتی تھی، ہمارے پیارے آقا مکی مدنی مصطفی ﷺ حضرت فاطمہ رضی الله عنہا
سے بے پناہ محبت فرمانے والے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے
رسول الله ﷺ کی صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا سے بڑھ کر کسی کو عادت و
اطوار سیرت و کردار میں آپ کی مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا۔ (ابو داود، 4/454،
حدیث: 5217)
پیارے آقا ﷺ حضرت
فاطمہ رضی الله عنہ سے اس قدر محبّت کرتے کہ جب آپ پیارے آقا کی خدمت اقدس میں
حاضر ہوتیں تو حضور ﷺ ان کے لئے کھڑے ہوجاتے اور ان کا ہاتھ پکڑ لیتے اور اس پر بوسہ
دیتے اور اپنی جگہ بیٹھا لیتے اور اسی طرح حضرت فاطمہ رضی الله عنہا بھی کیا کرتیں
کہ جب حضور ﷺ آپ کے پاس تشریف لاتے تو آپ کھڑی ہوجاتی ان کے ہاتھ پر بوسہ دیتیں اور
انکو اپنی جگہ بیٹھا لیتیں۔
پیارے آقا ﷺ نے
ارشاد فرمایا: فاطمہ جنّت کی عورتوں کی سردار ہیں اور یہی سب سے پہلے جنّت میں داخل
ہونگی۔
صحیح بخاری میں
ہے نبی کریم روف الرحیم فرماتے ہیں کہ فاطمہ خواتین امّت کی سردار ہیں فاطمہ میرے جگر
کا ٹکڑا ہیں جس نے انہیں تنگ کیا اس نے مجھے تنگ کیا اور جس نے مجھے تنگ کیا اس نے
الله کو تنگ کیا اور قریب ہے الله اسکا مواخذہ کرے۔ (مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)
حضرت ثوبان سے
روایت ہے فرماتے ہیں: حضور ﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنے اہل و عیال میں سب سے
بعد میں جس سے گفتگو فرما کر روانہ ہوتے وہ حضرت فاطمہ ہوتیں اور واپسی پر سب سے
پہلے جس کے پاس تشریف لے جاتے وہ بھی حضرت فاطمہ رضی الله عنہا ہوتیں کیا شان ہے
بی بی فاطمہ رضی الله عنہا کی کہ ساری دنیا حضور ﷺ سے محبت کرتی ہے اور پیارے آقا ﷺ
اپنی صاحبزادی زہراء بتول سے بے حد محبت فرماتے ہیں جن کی عظمتوں اور رفعتوں کا
کیا ہی کہنا ہے۔
حضرت جمیع بن
عمیر تیمی سے روایت ہے کہ میں اپنی پھوپھی کے ہمرا حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر
ہوا اور پوچھا حضور نبی اکرم ﷺ کو کون زیاده محبوب تھا ؟ ام المومنین نے فرمایا:
فاطمہ۔ عرض کیا: مردوں میں سے کون زیادہ محبوب تھا؟ فرمایا: ان کے شوہر۔ جہاں تک
میں جانتی ہوں وہ بہت زیادہ روزہ رکھنے والے اور راتوں کو قیام کرنے والے تھے۔ (ترمذی،
5/468، حدیث: 3900)
حضرت ابو سلمہ
بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ حضرت اسامہ بن زید نے مجھے بتایا کہ میں ایک دن بیٹھا
ہوا تھا کہ حضرت علی اور حضرت عبّاس رضی الله عنہما تشریف لائے، انہوں نے کہا
اسامہ ہمارے لئے حضور ﷺ سے اندر آنے کی اجازت مانگیں۔ عرض کی: یا رسول الله ﷺ حضرت
علی اور حضرت عبّاس اندر آنے کی اجازت مانگتے ہیں آپ نے فرمایا: جانتے ہو وہ کس کام
سے آئے ہیں؟ میں نے عرض کی نہیں آپ نے فرمایا: میں جانتا ہوں انہیں اندر آنے دو، چنانچہ
دونوں حضرات داخل ہوئے انہوں نے عرض کی یا رسول الله ﷺ ہم یہ بات جاننے کے لئے
حاضر ہوئے کہ اہلِ بیت میں سے آپ کو کون زیادہ محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا: فاطمہ بنت
محمد۔
ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب نے بارگاہ رسالت ﷺ میں عرض کی کہ یا
رسول الله ﷺ آپ کو فاطمہ اور مجھ میں کون زیادہ عزیز ہے؟ آپ نے فرمایا: فاطمہ مجھے
تم سے پیاری ہے اور تم میرے نزدیک فاطمہ سے عزیز ہو۔ (خاتون جنّت، ص 48)
حضرت مسور رضی
الله عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: بے شک فاطمہ میری شاخ ثمر بار ہے جس چیز
سے فاطمہ کو خوشی ہوتی ہے اس سے مجھے بھی خوشی ہوتی ہے اور جس سے فاطمہ کو تکلیف
ہوتی ہے اسے مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے۔ (حلیہ الاولیاء، 3/48)
حضور اکرم ﷺ حضرت
سیدہ فاطمہ زہراء رضی الله عنہا کے ہر رنج و راحت میں شریک ہوتے اور تقریبا روز آپ
کے گھر آپ کی خبر گیری کے لئے تشریف لے جاتے آپ کو کوئی تکلیف ہوتی تو اسے دور فرماتے
اگر حضور ﷺ کے گھر کوئی چیز پکتی تو کچھ نہ کچھ ضرور فاطمہ رضی الله عنہا کے گھر
بھجواتے۔