بابائے فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا جن پر ہماری کروڑوں جانیں فدا اپنی لاڈلی شہزادی کونین رضی اللہ عنہا سے اس قدر محبت فرماتے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی آپ ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی سے محبت کرکے ان تمام جاہلانہ رسوم و رواج کا خاتمہ کردیا جہاں بیٹی کو بوجھ اور نفرت کے قابل سمجھا جاتا تھا آپ رحمۃ للعالمین بن کر اس دارفانی میں تشریف لائے آپکی آمد سے پہلے ہر طرف جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے عورتوں کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کے تصور سے ہی انسانیت کانپ جاتی ہے اگر کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہو جاتی تو غم و غصّے کے مارے اسکا چہرہ سیاہ ہوجاتا غصے کی آگ بجھانے کے لئے اس ننھی کلی کو زندہ دفن کردیا جاتا الغرض عورتوں پر ظلم کی انتہا اپنے عروج پر تھی انکی بےبسی کا ان کے غموں کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں تھا۔

ایسے میں بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کے بطن اطہر سے وہ چاند چمکا جس نے سالوں سے جاری ظلم و ستم کے اندھیروں کو اپنے نور سے بجھا دیا اور عورت کو وہ عزت و شرف اور بلند مقام عطا فرمایا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی آپ نے عورت کے ہر کردار یعنی بیٹی،بہن،ماں،بیوی وغیرہ کے حقوق کا تحفظ کرکے ان پر رہتی دنیا تک کے لیے احسان عظیم فرمایا آپ محسن نسواں بلکہ محسن انسانیت بن کر اس جہان رنگ و بو میں تشریف لائے آپ نے بیٹی سے محبت کی عملی تفسیر پیش کی آپ نے بیٹی کو عظمت و رفعت سے نوازا جس کی جیتی جاگتی مثال آپکی شہزادی کونین،بانوئے مرتضی،خاتون جنت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے بے انتہا محبت ہے کہ جنکی تعظیم کے لیے آپ بنفس نفیس کھڑے ہو جاتے ہاتھ چومتے اور اپنی مسند پر بٹھاتے تھے۔ (ابو داود،4/454، حدیث: 5217)

زہراء جدوں وی آئیاں کھڑے ہو گئے رسول اینہوں کہواں شفقت یا پیار فاطمہ

حضور جان عالم ﷺ نے بیٹی کو رحمت کا درجہ عطا فرمایا آپ ﷺ نے فرمایا: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ (مسلم، ص 1021، حدیث: 6307)

آپ کی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت مثالی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔

سیدۂ کائنات کے ساتھ پیارے آقا کا طرز عمل:ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کے پاس جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آتیں تو آپ ﷺ انکی طرف متوجہ ہوتے پھر اپنے پیارے پیارے ہاتھ میں ان کا ہاتھ لے کر اسے بوسہ دیتے پھر انہیں اپنی جگہ بٹھاتے اسی طرح جب نبی کریم ﷺ حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ بھی کھڑی ہو جاتیں آپ کا مبارک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چومتیں اور آپ کو اپنی جگہ بٹھاتیں۔ (ابو داود، 4/454، حدیث: 5217)

سب سے زیادہ پیاری: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا: حضور ﷺ حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے وہ بیٹھے ہنس رہے تھے جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو وہ خاموش ہو گئے آپ نے ان سے پوچھا کہ تم کیوں ہنس رہے تھے جب مجھے دیکھا تو خاموش ہو گئے حضرت فاطمہ جلدی سے عرض کرنے لگیں انہوں نے فرمایا میرے والدین آپ پر فدا انہوں نے کہا کہ میں تم سے زیادہ آپ کو پیارا ہوں میں نے کہا کہ میں تم سے زیادہ آپ کو پیاری ہوں یہ سن کر آپ ﷺ مسکرانے لگے فرمایا: نور نظر! تمہارے لیے والد گرامی کی رقت ہے اور وہ مجھے تم سے زیادہ معزز ہیں۔ ایک اور روایت ہے کہ اہل بیت میں مجھے سب سے زیادہ پیاری فاطمہ ہیں۔

حضور پاک ﷺ نے حضرت فاطمہ سے فرمایا: رب تمہاری ناراضگی سے ناراض اور تمہاری رضا سے راضی ہو جاتا ہے۔

یہ تمام ارشادات حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عظمت و رفعت کی دلیل ہیں۔

حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی لاڈلی شہزادی ان کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی جنت کی عورتوں کی سردار ہیں آپ کی تربیت ایسی شخصیات کے ہاتھوں ہوئی جن کی بدولت وہ ایسے اعلیٰ مراتب پر فائز ہوئی جن کا ثانی نہیں ہے نہ ہوسکتا ہے آپ کے بابا جان کی آپ سے بے مثال محبت نےرہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے بیٹی سے محبت کے تمام دریچے وا کردئیے ہیں جن کی بدولت ہر بیٹی کو عظمت و رفعت حاصل ہوئی۔

اللہ پاک ہمیں بھی اہل بیت اطہار کی محبت کے صدقے میں بخشش کا پروانہ عطا فرمائے۔

میرے وجود کے ہر گوشے سے آتی ہے صدا سلام تجھ پر ہو اے بانوئے مرتضیٰ