خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش علان نبوت سے پانچ سال پہلے ہوئی۔آپ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی سب سے چھوٹی مگر سے زیادہ پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں۔ آپ کا نام مبارک فاطمہ اور لقب  زہراء اور بتول ہے۔ آپ کا وصال ظاہری 3 رمضان المبارک 11 ہجری کو ہوا۔

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اور ایک روایت میں ہے: ان کی پریشانی میری پریشانی اور ان کی تکلیف میری تکلیف ہے۔ (مشكوة المصابیح، 2/436، حديث: 6139) ذکر کردہ روایات سے معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے کس قدر محبت کرتے ہیں کہ آپ کو اپنے جگر کا ٹکڑا کہا اور فرمایا کہ آپ کی خوشی میں میری خوشی ہے آپ کی ناراضی کو اپنی ناراضی قرار دیا۔ یہاں ان کے لیے غور کا مقام ہے جو آپ کی ذات مبارکہ یا آپ کی اولاد مبارکہ کے بارے میں گستاخیاں کرتے ہیں۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ گھر میں تشریف لاتے تو بلند آواز سے سلام کرتے میں جواب دیتی مگر آپ دروازے پر کھڑے رہتے پھر میں مسکراتی اور فاطمۃ رضی اللہ عنہا کو آواز دیتی اور کہتی کہ آپ کے والد تشریف لائے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا دوڑ کر جاتی اور دروازہ کھولتی اور آپ ﷺ کی انگلی مبارک پکڑ کر گھر میں لاتی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب تک حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا دروازے پر نہیں جاتی تھیں آپ گھر میں تشریف نہیں لاتے تھے۔

دیکھا آپ نے کے نبی کریم ﷺ آپ رضی اللہ عنہا سے کس قدر محبت کیا کرتے تھے کہ جب تک آپ دروازے پر نہیں آتی تھیں آپ ﷺ گھر میں تشریف نہیں لاتے تھے۔

مشکاۃ شریف کی حدیث میں ہے کہ کسی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آپ ﷺ کو سب سے زیادہ کس سے پیار تھا ؟ حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا کہ آپ ﷺ کو سب سے زیادہ پیار حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے تھا۔ (ترمذی، 5/ 701، حدیث: 3874)

ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا تشریف لاتیں تو نبی کریم ﷺ کھڑے ہو جاتے اور آپ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ مبارک چومتے اور آپ رضی اللہ عنہا کو اپنی جگہ پر بٹھا دیتے۔ ذکر کردہ روایت میں دیکھے تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ آپ رضی اللہ عنہا سے کتنی محبت فرماتے کہ آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتے اور ہاتھ چومتے۔ (ابو داود، 4/454، حدیث: 5217)

حضور کے غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ جب کسی سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے ملتے ہوئے سفر پر جاتےاور سفر سے واپسی پر خاندان بھر میں سب سے پہلے حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا ہی سے ملاقات کرتے پھر اپنے گھر تشریف لے جاتے۔ (مستدرك للحاكم، 4/141، حدیث: 4792)

رسول خدا ﷺ گھر سے باہر نکلے، اس حالت میں کہ آپ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ مبارک پکڑا ہوا تھا، پھر آپ نے فرمایا کہ: جو بھی اسکو پہچانتا ہے، وہ تو پہچانتا ہی ہے اور جو نہیں پہچانتا تو وہ اسکو جان لے کہ یہ فاطمہ محمد ﷺ کی بیٹی ہے، وہ میری دل و جان اور میرے بدن میں موجود میری روح ہے۔ (الفصول المہمۃ: ص 146)

نبی کریم ﷺ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے کس قدر پیار و محبت فرماتے کہ آپ کو اپنی جان و دل کہا اور آپ رضی اللہ عنہا کو اپنی روح کہا۔

رسول خدا ﷺ نے فرمایا ہے: فاطمہ میرے جسم کا ایک بال ہے، پس جس نے میرے بدن کے بال کو اذیت کی تو اس نے مجھے، اذیت کی ہے اور جس نے مجھے اذیت کی تو اس نے اللہ پاک کو اذیت کی ہے اور جو اللہ پاک کو اذیت دے گا تو اللہ پاک اسکو زمین اور آسمان کے برابر لعنت کرے گا۔ (حلیۃ الاولياء، 2/40)

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی تکلیف نبی کریم ﷺ کی تکلیف ہے اور نبی کریم ﷺ کی تکلیف اللہ پاک کی تکلیف ہے تو جو ان کو تکلیف دے گا تو اللہ پاک اس کو رسوا کردے گا۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر وقت خاتون جنت سے فیض یاب ہونے کے توفیق عطا فرمائے۔