سیدہ،
زاہرہ، طیبہ، طاہرہ جان احمد کی راحت
پہ لاکھوں سلام
ہم شکلِ مصطفی،جاں
پارہ مصطفی،جگر گوشہ مصطفی، راحت جان مصطفی،سیدہ و عابدہ،طیبہ و طاہرہ،فاطمہ
الزہرا رضی اللہ عنہا حضور جان عالم ﷺ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی شہزادی ہیں۔ آپ ﷺ اپنی
شہزادی حضرت بی بی فاطمہ الزہرا رضی الله عنہا سے بےحد محبت فرماتے تھے، چنانچہ
حدیث پاک میں ہے کہ جب آپ تشریف لاتیں تو حضور ﷺ آپ کا مرحباً بابنتی یعنی خوش
آمدید میری بیٹی! کہہ کر استقبال فرماتے اور اپنے ساتھ بٹھاتے۔ (بخاری، 2/507،
حدیث: 3623)
تمام مسلمانوں
کی پیاری امی جان حضرت بی بی عائشہ صدیقہ، طیبہ، طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
میں نے چال ڈھال، شکل وصورت اور بات چیت میں بی بی فاطمہ سے بڑھ کر کسی کو حضور
اکرم ﷺ سے مشابہ (یعنی ملتی جلتی) نہیں دیکھا اور جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا
پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو حضور ﷺ ان کے استقبال کے لئے کھڑے ہو
جاتے، ان کے ہاتھ کو پکڑ کر بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے اور جب حضور پرنور ﷺ
بی بی فاطمہ کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ بھی حضور ﷺ کی تعظیم کے لئے کھڑی ہو جاتیں
اور پیارے آقاﷺ کے مبارک ہاتھ کو تھام کر چومتیں اور اپنی جگہ بٹھاتیں۔ (ابو داود،
4/454، حدیث:5217)
رسول
اللہ کی جیتی جاگتی تصویر کو دیکھا کیا
نظارہ جن آنکھوں نے تفسیر نبوت کا
نبی پاک ﷺ جب
نماز کے لئے تشریف لاتے اور راستے میں حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر سے
گزرتے اور گھر سے چکی کے چلنے کی آواز سنتے تو بار گاہ رب العزت میں دعا کرتے: یا
ارحم الراحمین! فاطمہ کو ریاضت و قناعت کی جزائے خیر عطا فرما اور اسے حالت فقر
میں ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرما۔ (سفینہ نوح، حصہ: دوم، ص 35)
صحابی رسول
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ جب سفر کا ارادہ
فرماتے تو سب سے آخر میں حضرت بی بی فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا سے ملاقات فرماتے
اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہا سے ملاقات فرماتے۔
(مستدرک للحاکم، 4/141، حدیث: 4792)
حضرت علی
المرتضی کرم الله وجہہ الكريم فرماتے ہیں: ایک انتہائی ٹھنڈی اور شدید سرد صبح
رسولِ خدا محمد مصطفى ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے آپ نے ہمیں دعائے خیر سے نوازا اور
پھر حضرت فاطمہ سے تنہائی میں پوچھا: اے
میری بیٹی ! تو نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ جواب دیا: وہ بہترین شوہر ہیں۔ پھر آپ ﷺ
نے حضرت علی کو بلا کر ارشاد فرمایا: اپنی زوجہ سے نرمی سے پیش آنا، بے شک فاطمہ
میرے جسم کا ٹکڑا ہے، جو چیز اسے دکھ دے گی مجھے بھی دکھ دے گی اور جو اسے خوش کرے
گی مجھے بھی خوش کرے گی، میں تم دونوں کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور تم دونوں کو
اس کی حفاظت میں دیتا ہوں۔ اس نے تم سے ناپاکی دور کر دی اور تمہیں پاک کر کے خوب
ستھرا کر دیا۔
حضرت علی
المرتضی فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! اس حکم مصطفیٰ کے بعد میں نے نہ تو کبھی حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہا پر غصہ کیا اور نہ ہی کسی بات پر انہیں ناپسند کیا یہاں تک کہ
اللہ نے ان کو اپنے پاس بلا لیا، بلکہ وہ بھی کبھی مجھ سے ناراض نہ ہوئیں اور نہ
ہی کسی بات میں میری نافرمانی کی اور جب بھی میں ان کو دیکھتا تو وہ میرے دکھ درد
دور کرتی دکھائی دیتیں۔ (الروض الفائق، ص 278
ملخصاً)
ایک مرتبہ
رسول الله ﷺ نے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی
اللہ عنہا کو ایک فرش پر بٹھا کر ان کی دل جوئی فرمائی۔ حضرت علی المرتضی نے عرض
کی: يا رسول الله! آپ کو وہ مجھ سے زیادہ پیاری ہیں یا میں؟ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا: وہ مجھے تم سے زیادہ اور تم اس سے زیادہ پیارے ہو۔ (مسند حمیدی، 1/22،
حدیث: 38)
مفتی احمد یار
خان رحمۃ اللہ علیہ مراۃ میں فرماتے ہیں: آپ رضی اللہ عنہا کے جسم سے جنت کی خوشبو
آتی تھی جسےحضور ﷺ سونگھا کرتے تھے۔ اس لئے آپ رضی اللہ عنہا کا لقب زہرا ہوا۔ (مراة
المناجيح، 8/453)
بتول
و فاطمہ زہرا لقب اس واسطے پایا کہ
دنیا میں رہیں اور دیں پتہ جنت کی نکہت کا
اے کاش! حضور ﷺ
کی حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا سے محبت کا صدقہ ہمیں بھی محبت رسول اور محبت
اہل بیت نصیب ہو جائے۔