پیارے محترم اسلامی بھائیو! سود( interest)وہ نُحُوسَت ہے جس کا انجام اور نتیجہ دنیا و آخرت میں تباہی وبربادی ہے قراٰن و حدیث میں جا بجا کئی مقامات پر سود کی تباہ کاریاں بیان کی گئی ہے آئیے سود کی مذمت کے حوالے سے پانچ احادیث مبارکہ پڑھ کر اس کبیرہ گناہ سے بچنے کا پکا ارادہ کرتے ہیں۔سود کھانے والوں کے پیٹ میں سانپ: (1)اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شبِ معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا ، جن کے پیٹ کمروں کی طرح (بڑے بڑے) تھے ، جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا : یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی : یہ سود کھانے والے ہے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 حدیث:2828 ،بالتصرف)

سود کھانے اور کھلانے والوں پر لعنت : (2) لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲ اٰکِلَ الرِّبَا وَمُوْکِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاھِدَیْہِ، وَقَالَ: ھُمْ سَوَاءٌ یعنی رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ تمام لوگ برابر ہیں۔( مسلم ،ص663،حدیث:4093) شرح: سود کھانے والے کا ذکر پہلے فرمایا کہ یہی بڑا گنہگار ہے کہ سود لیتا بھی ہے اور کھاتا بھی ہے، دوسرے پر یعنی مقروض (جس کو قرض دیا ہے) اور اس کی اولاد پر ظلم بھی کرتا ہے، اللہ کا بھی حق مارتا ہے اور بندوں کا بھی۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 حدیث:2807 بالتصرف)

(3) قیامت کے دن سود کھانے والے کی حالت : قیامت کے دن سود کھانے والے کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ دیوانہ و مَخْبُوطُ الحَوَاس ہو گا۔ یعنی سود کھانے والے قبروں سے اٹھ کر حشر کی طرف ایسے گرتے پڑتے جائیں گے۔ جیسے کسی پر شیطان سوار ہو کر اسے دیوانہ کر دے۔ جس سے وہ سیدھا نہ چل سکیں گے۔ اس لئے کہ جب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے اور محشر کی طرف چلیں گے تو سب یہاں تک کہ کفار بھی درست چل پڑیں گے مگر سود کھانے والے کو چلنا پھرنا مشکل ہو گا اور یہی سود کھانے والے کی پہچان ہو گی۔(سود اور اس کا علاج، ص 42 بالتصرف، مکتبۃ المدینہ)

(4) سود کھانا جیسے اپنی ماں سے زنا کرنا : بے شک سود کے 70سے زائد دروازے ہیں۔ ان میں سب سے ہلکا اس طرح ہے جیسے آدمی حالتِ اسلام میں اپنی ماں سے زنا کرے اور سود کا ایک درہم 35بار زنا کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال)(5) سود کھانے والا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والا ہے : ہلاکت میں ڈالنے والے سات گناہوں سے بچتے رہو۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! وہ کون سے گناہ ہیں ؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: (1) اللہ پاک کا شریک ٹھہرانا (2) جادو کرنا (3) اللہ پاک کی حرام کردہ جان کو ناحق قتل کرنا (4) سود کھانا (5) یتیم کا مال کھانا (6) جنگ کے دن میدان جنگ سے بھاگ جانا اور (7) پاک دامن،سیدھی سادی، شادی شدہ، مؤمن عورتوں پر تہمت لگانا۔ (جہنم میں لے جانے والے أعمال ج 1 سود کا بیان بالتصرف)

پیارے محترم اسلامی بھائیو! اِن احادیث کو بار بار پڑھیں اور خود بھی سود جیسے کبیرہ گناہ سے بچیں اور دوسروں کو بھی ثواب کی نیت سے بچائیے۔ اللہ پاک ہمیں اپنے پسندیدہ کام کرنے اور ناپسندیدہ کام کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے :جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی ،الکبیرۃالثانیۃ عشرہ ،ص70)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ حضور سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ شبِ معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا، جن کے پیٹ کمروں کی طرح(بڑے بڑے) تھے، جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے، میں نے جبرائیل علیہ السّلام سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ سود خور ہیں۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،باب التغلیظ فی الربا،3/71، حدیث: 2273)

افسوس صد کروڑ افسوس! اگر کوئی بندہ صرف اس حدیث کا صحیح معنوں میں تصور کرے تو شاید کوئی سود کھائیں۔ اگر ہمارے پیٹ میں معمولی سا کیڑا چلا جائے ، تو طبیعت میں بھونچال آجاتا ہے ۔ذرا غور کریں جب دنیا کی تکلیف کو برداشت کرنے کی قوت نہیں تو پھر قیامت کے وہ سخت ترین عذاب کو کیسے برداشت کریں گے ؟اور سود کھانے والے لوگوں کی پیٹ اتنے بڑے بڑے ہو جائیں گے جیسا کہ کسی مکان کے کمرے ہوں ۔اللہ اکبر یہ کس قدر بھیانک عذاب ہے ۔

حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والے کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے ۔( کتاب الکبائر للذہبی ،الکبیرۃ الثانیۃ عشرۃ، ص 69)یہی سبب ہے کہ آج ہمارے سماج میں امن و امان نہیں اور گھروں میں برکت نہیں ہیں کیونکہ آج ہمارے سماج میں زنا کے ساتھ ساتھ سود کی کثرت اس قدر ہو گئی ہے کہ اگر ایک محلہ میں 100گھر ہے تو95 گھروں میں سود کی وبا پہنچ چکی ہے ۔ تو پھر ایسے محلے میں بیماری اور قحط سالی نہیں ہو گی تو پھر کیا ؟

ایک روایت میں سرکار والاتبار ہم بے کسوں کے مددگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: سود کے ستر دروازے ہیں ان میں سے سب سے کم یہ ہے کہ جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(شعب الایمان،حدیث :552 ،ص 394) شرحِ حدیث: یعنی ماں سے زنا کرنا جب کمترین درجہ ہوا تو بقیہ درجے اس سے زیادہ سخت ہوں گے،چونکہ اہلِ عرب سود کے بہت زیادہ عادی تھے، ان سے سود چھوڑانا آسان نہ تھا اس لیے سود پر زیادہ وعیدیں وارد ہوئیں۔ خیال رہے کہ زنا اکثر مرد عورت کی رضا مندی سے بلکہ زیادہ تر عورت کی رضا سے ہوتا ہے اسی لیے رب تعالٰی نے زنا میں عورت کا ذکر پہلے فرمایا۔ کہ فرمایا: اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ مگر سود میں مقروض کی رضا قطعًا نہیں ہوتی، اس وجہ سے بھی سود کے احکام سخت تر ہیں کہ یہ گناہ بھی ہے اور ظلم بھی صرف مقروض پر نہیں بلکہ اس کے سارے بچوں پر سود خور ایک تیر سے بہت سوں کا شکار کرتا ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:4 حدیث:2826)

اعلی حضرت امام اہلسنت مجدد دین و ملت فاضل بریلوی رضی اللہُ عنہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : تو جو شخص سود کا ایک پیسہ لینا چاہے اگر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسہ کا نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر ستر(70)بار زنا کرنا۔ سود لینا حرام قطعی و کبیرہ و عظیمہ ہے جس کا لینا کسی طرح روا نہیں۔( فتاویٰ رضویہ، 17/ 307)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جب کہ سود کھائے بغیر کوئی نہ رہے گا اگر سود نہ بھی کھائے گا تو اسے سود کا اثر ضرور پہنچے گا یہ بھی روایت ہے کہ اس کا غبار پہنچے گا(احمد،ابوداؤد،نسائی،ابن ماجہ)

اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ مولا تعالی ہم تمام مسلمانوں کو سود جیسے سے حرام کام سے بچائیں اور اس کی وعید پر نظر رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین یارب العالمین


سود ایک ایسی بری اور بھیانک چیز ہے کہ قراٰنِ پاک میں اللہ پاک نے اس سے باز نہ آنے والے کے خِلاف جنگ کا اعلان فرمایا ہے۔ پارہ 3 سورۃُ البقرۃ آیت نمبر 279 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹)ترجمہ کنزالایمان: پھر اگر ایسا نہ کرو تو یقین کر لو اللہ اور اللہ کے رسول سے لڑائی کا اور اگر تم توبہ کرو تو اپنا اصل مال لے لو نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤ نہ تمہیں نقصان ہو۔(پ3،البقرۃ:279)

کیسی بے باکی ہے کہ بندہ خدا و رسول سے جنگ کرے سودخوار شخص گویا کہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہا ہوتا ہے اور ساتھ ہی اپنے لیے جہنم میں جانے کا سامان کر رہا ہوتا ہے ایک حدیثِ پاک میں سودخوار کا کمترین درجہ اپنی ماں سے زنا کرنا بتایا گیا ہے۔ جیسا کہ روایت ہے حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کے ستّر حصّے ہیں جن میں سے کمترین حصّہ یہ ہے کہ انسان اپنی ماں سے زِنا کرے۔ یعنی ماں سے زِنا کرنا کمترین درجہ ہوا تو بقیہ درجے اس سے زیادہ سخت ہوں گے۔(مرآۃالمناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،جلد:4 حدیث :2826)

موجودہ دور میں دیکھا جائے تو سود بہت عام ہے بینکوں میں، مارکیٹوں میں کاروبار و تجارت وغیرہ میں۔ اس کی ایک سب سے بڑی وجہ علمِ دین کی کمی و دینی ماحول سے دوری ہے مسلمان کہلانے والے طبقے میں یہ برائی پائی جارہی ہے۔ اگر مذہبی لوگ سود خور کو بتادیں کہ یہ سود ہے تو اپنی عقل سے یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ جناب ہم تو مال کے بدلے میں یہ نفع لے رہے ہیں حالانکہ شرعی مسئلے کے مطابق وہ سود ہی ہوتا ہے۔ حدیثِ پاک میں روایت ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا: یہ سب برابر ہیں(مسلم)۔ سود کھانے والے کا ذکر پہلے فرمایا کہ یہی بڑا گنہگار ہے کہ سود لیتا بھی ہے اور کھاتا بھی ہے، دوسرے پر یعنی مقروض اور اس کی اولاد پر ظلم بھی کرتا ہے، اللہ کا بھی حق مارتا ہے اور بندوں کا بھی۔ یعنی اصل گناہ میں سب برابر ہیں کہ سود خور کے ممدو معاون ہیں، گناہ پر مدد کرنا بھی گناہ ہے رب تعالیٰ نے صرف سود خور کو اعلانِ جنگ دیا،معلوم ہوا کہ بڑا مجرم یہی ہے۔(مرآۃالمناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،جلد 4،حدیث:2807)

سودخور اتنا بڑا مجرم اور اس کے لیے اتنی زیادہ وعیدیں آئی ہیں تو ہمیں چاہیے کہ جب بھی ہم کوئی سا بھی نفع والا کام شروع کریں تو سب سے پہلے صحیح العقیدہ سنی مفتئ اسلام یا عالمِ دین سے رجوع کریں اور اپنے آپ کو موجودہ دور میں اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت دعوتِ اسلامی کے مہکے مہکے مدنی ماحول سے وابستہ رہیں۔ اللہ پاک نے چاہا تو علمِ دین حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ بشمول سود اور بھی بہت سارے ظاہری و باطنی گناہوں سے بچنے کا ذہین بنے گا۔ اللہ پاک ہمیں علمِ دین حاصل کرنے سود جیسے ناپاک مال سے بچنے اور ہر طرح کے گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہِ النبیِّ الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود۔ (پ3،البقرة : 275)

پیارے اسلامی بھائیو ! جہاں کہیں بھی اللہ پاک نے قراٰن مجید میں جن چیزوں کو حرام کیا ہے ان تمام چیزوں سے بچنا تمام بندگانِ خداوند پر لازم ہے اور اللہ پاک سے ڈریں اسی طرح یہاں اللہ پاک کے اس فرمان وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- کی وجہ سے بندوں پر لازم ہے کہ نہ سود لے اور ناہی دے کیونکہ سود لینے والا دینے والا اور سود کے لئے گواہی دینے والا سب ایک ہی قسم میں آتے ہیں۔ جن کو حدیث میں ملعون قرار دیا گیا ۔ آئیے اس کے متعلق احادیث رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کرتے ہیں۔ جن میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کا لین دین کرنے والوں کی مذمت کی ہے اور لعنت بھی فرمائی ہے ۔(1) صحیح مسلم شریف میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود کا کاغذ لکھنے والے اور اُس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اوریہ فرمایا: کہ وہ سب برابر ہیں۔( صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب لعن آ کل الربا ومؤکلہ،ص862،حدیث: 106)

سود کن چیزوں میں ہوتا ہے اس کے متعلق ایک حدیث ملاحظہ کرتے ہیں :۔(2) اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ ادھار میں سود ہے اور ایک روایت میں ہے کہ دست بدست (hand to hand) تو سود نہیں یعنی جبکہ جنس مختلف ( different) ہو۔ ( المرجع السابق ، حدیث : 82)

پیارے اسلامی بھائیو ! سود کا حکم تو اتنا سخت ہے کہ اگر جس چیز میں سود کا شک بھی ہو تو اسے بھی چھوڑ دینا ضروری ہے ۔(3) خلیفہ ثانی امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا: سود کو چھوڑو اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔ ( سنن ابن ماجہ ، کتاب التجارات ، باب التغلیظ فی الربا ، 2/73،حدیث: 2272)

سود کا ایک درہم کھانے والا بھی بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوجاتا ہے اس کے متعلق حدیث میں ہے : (4) حضرت عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہُ عنہما سے راوی، کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے، وہ چھتیس مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔( المسند للامام أحمد بن حنبل،حدیث عبداللہ بن حنظلۃ،8/223،حدیث: 22016)

سود کھانے سے آخرت تو آخرت دنیا میں بھی بربادی مقدر ہو جاتی ہے اور دل بے چین و بے سکون ہوجاتا ہے یہاں تک سود کھانے والا سمجھتا ہے کہ اس کا مال بڑھ رہا ہے حالانکہ حقیقت میں اس کے مال میں کمی ہو رہی ہوتی ہے اس کے متعلق حدیث ملاحظہ کرتے ہیں :۔(5) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود سے باہر اگر چہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔ ( المسند للامام احمد بن حنبل ، مسند عبد بن مسعود ،3/72، حدیث: 2273)

ان احادیث کو پڑھنے کے بعد عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ سود کتنا بڑا گناہ ہے تو ہمیں بھی چاہیے کہ سود کے لین دین سے بچیں اور اللہ پاک سے ڈریں اور اللہ پاک کی عطا سے جائز حلال طریقوں سے مال کمائیں۔ ن شاء اللہ اس کی برکت سے آخرت و دنیا دونوں سنور جائے گی۔ اللہ پاک ہم سب کو حرام کمائی سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


پیارے اسلامی بھائیو! الحمد للہ ہم مسلمان ہیں۔ دینِ اسلام کے ماننے والے ہیں اور اسلام چونکہ دینِ فطرت بھی ہے اسی لیے جہاں ہمیں یہ عبادت کا ڈھنگ سکھاتا ہے وہیں معاملات میں بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ انسانی زندگی کا ایک اہم پہلو کاروبار بھی ہے اور اسلام کی اس بارے میں تربیت یہ ہے کہ ہم حلال کمائیں، کھائیں اور حرام کمانے کھانے سے بچے۔ اسی وجہ سے حلال و حرام کو بھی بیان کر دیا۔ حرام کاروبار میں سے ایک سود کا لین دین بھی ہے۔ چنانچہ اللہ پاک سود کی حرمت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود۔ (پ3،البقرة : 275) فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃُ اللہ علیہ اپنی کتاب انوار الحدیث میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ کی کتاب اشعت اللمعات کے حوالے سے سود کی تعریف لکھتے ہیں کہ : ہر قرضے کہ بکشد سودے را پس آں ربوا است - یعنی ہر وہ قرض کہ جس سے نفع حاصل ہو سود ہے ۔ (انوار الحدیث، ص 301 ) قراٰن مجید سے سود کی مذمت کو جاننے اور سود کی تعریف کو سمجھنے کے بعد احادیث مبارکہ سے سود کی مذمت و قباحت کو پڑھیں اور سود کھانے کمانے سے بچنے کا ذہن بنائیں۔

(1) عن جابر لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲ اٰکِلَ الرِّبَا وَمُوْکِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاھِدَیْہِ، وَقَالَ: ھُمْ سَوَاءٌ یعنی رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ تمام لوگ برابر ہیں۔(مسلم ،ص663،حدیث:4093) (2) عن عبدالله بن حنظلة غسيل الملائكة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم درهم الربا يأكله الرجل وهو يعلم أشد من ستة و ثلاثين زنية - عبد اللہ بن حنظلہ غسیل الملائكۃ رضی اللہُ عنہ نے کہا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسّلام نے فرمایا: سود کا ایک درہم جسے آدمی جان بوجھ کر کھائے اس کا گناہ چھتیس بار زنا کرنے سے زیادہ ہے ۔( ايضاً )

(3) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرِّبَا سَبْعُونَ جُزْئً أَیْسَرُہَا أَنْ یَنْکِحَ الرَّجُلُ أُمَّہُ‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ نے کہا کہ رسول کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم نے فرمایا کہ سود ( کا گناہ) ایسے ستر گناہوں کے برابر ہے جن میں سب سے کم درجے کا گناہ یہ ہے کہ مرد اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے ۔ (ايضا با حوالہ ابن ماجہ و بیہقی )

پیارے محترم اسلامی بھائیو! ان تمام احادیث سے بھی سود کی حرمت مذمت و قباحت ثابت ہوتی ہے سود لینا دینا سودی دستاویز لکھنا اس پر گواہ بنانا یہ سب کام استحقاق لعنت کا سبب ہیں یاد رکھئے سود حرام قطعی ہے۔ اس کی حرمت کا منکر کافر ہے حرام سمجھ کر سود لینے والا فاسق مردود الشھادۃ ہے لہذا سود سے بچئے ۔(انوار الحدیث،ص 301 ) 


پیارے بھائیو! فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے وہی ایک مذموم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے اور وہ سود ہے ۔

آئیے سود کی نحوست اور اس کی دنیا و آخرت کی تباہ کاریاں جانتے ہیں کیونکہ اب سودی ادارے گھر گھر ،دفتر دفتر جاکر سود پر رقم دینے کے لئے عملہ (staff) رکھ رہے ہیں۔ سود قطعی حرام ہے اور اس کی حرمت کا منکر کافر ہے اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق اور مردود الشہادۃ ہے ۔اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں اس کی بھر پور مذمت فرمائی ہے۔ چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے۔ : اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ- ترجمۂ کنز الایمان: وہ جو سُود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیاہویہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سُود ہی کے مانند ہے ۔(پ3،البقرة : 275)

سود کو حرام فرمانے میں بہت سی حکمتیں ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں کہ سود میں جو زیادتی لی جاتی ہے وہ مالی معاوضے والی چیزوں میں بغیر کسی عوض کے مال لیا جاتا ہے اور یہ صریح ناانصافی ہے ۔دوسری حکمت یہ ہے کہ سود کا رواج تجارتوں کو خراب کرتا ہے کہ سود خور کو بے محنت مال کا حاصل ہونا ،تجارت کی مشقتوں اور خطروں سے کہیں زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے۔ تیسری حکمت یہ ہے کہ سود کے رواج سے باہمی محبت کے سلوک کو نقصان پہنچتا ہے کہ جب آدمی سود کا عادی ہو جاتا ہے تو وہ کسی کو قرضِ حَسن سے امداد پہنچانا گوارا نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ بھی سود میں اور بڑے بڑے نقصان ہیں اور شریعت کی سود سے ممانعت عین حکمت ہے۔

احادیث میں بھر پور سود کی مذمت کی گئی ہے آئیے چار حدیث سنتے ہیں :۔ (1)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے36 بار زنا کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔(شعب الایمان، الثامن و الثلاثون من شعب الایمان، 4 / 395، حدیث: 5523)(2)حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے، سود کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں ۔(صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب لعن آکل الربوا… الخ،ص862، حدیث: 1598)

(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ شبِ معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا، جن کے پیٹ کمروں کی طرح(بڑے بڑے) تھے، جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے، میں نے جبرائیل علیہ السّلام سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ سود خور ہیں۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،باب التغلیظ فی الربا،3/71، حدیث: 2273) (4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ سود( کا گناہ)ایسے ستر گناہوں کے برابر ہے جن میں سب سے کم درجہ کا گناہ یہ ہے کہ اپنی ماں سے زنا کرے ۔( انوار الحدیث، ص 232، مکتبہ فقیہ ملت دہلی)

ان حدیثوں کے علاوہ بھی بہت ساری حدیثیں موجود ہے سود کی مذمت پر اب ہم فرمان فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سنتے ہیں:۔(5) حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے کہ ہمارے بازار میں وہی شخص آئے جو فقیہ یعنی عالم ہو اور سود خور نہ ہو۔ (الجامع الاحکام القراٰن للقرطبی،القبرۃ،تحت الایۃ 279،جلد 2، الجزء الثالث،ص267)

ہمارے اسلاف سود کے شبہات سے بھی بچتے تھے چنانچہ۔ امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃُ اللہ علیہ ایک جنازہ پڑھنے تشریف لے گئے، دھوپ کی بڑی شدت تھی اور وہاں کوئی سایہ نہ تھا، ساتھ ہی ایک شخص کا مکان تھا، لوگوں نے امام اعظم رحمۃُ اللہ علیہ سے عرض کی کہ حضور! اس مکان کے سایہ میں کھڑے ہو جائے۔ امام اعظم رحمۃُ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ اس مکان کا مالک میرا مقروض ہے اور اگر میں نے اس کی دیوار سے کچھ نفع حاصل کیا تو میں ڈرتا ہوں کہ اللہ کے نزدیک کہیں سود لینے والوں میں شمار نہ ہو جاؤں۔ کیونکہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے:جس قرض سے کچھ نفع لیا جائے وہ سود ہے ۔ چنانچہ ، آپ دھوپ ہی میں کھڑے رہے ۔ (تذکرۃ الاولیاء،ص188)

دیکھا آپ نے ہمارے اسلاف احادیث پر کتنی سختی کے ساتھ عمل کرتے تھے اور سود کے شبہات سے بھی بچتے تھے لیکن افسوس آج مسلمان بے باکی کے ساتھ سود اور دیگر گناہوں میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے اور دنیا کی زیب و زینت میں اس قدر منہمک ہوتا جا رہا ہے اور اس کو اس بات کا بھی ہوش نہیں رہتا کہ وہ جو قرض (loan) لیے رہا ہے وہ سود (interest) پر مل رہا ہے یا بغیر سود کے۔ جیسے شادی رسومات کے مطابق کرنے کے لیے اور کاروبار میں مزید ترقی کے لیے نئی گاڑی کے لیے وغیرہ کاموں کے لئے مسلمان سود لیتے ہیں۔ سود لینا بھی حرام ہے اور سود دینا بھی حرام ہے۔ سود کے متعلق مزید معلومات کے لئے سود اور اس کا علاج رسالے کا مطالعہ کریں۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہم سب کو گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! علماء کرام فرماتے ہیں دو مجرم ایسے ہیں جن کے لیے اللہ پاک کی طرف سے اعلان جنگ ہے اور ان دو مجرموں کے علاوہ اللہ پاک نے کسی کے ساتھ اعلان جنگ نہیں فرمایا ۔ایک اولیاء اللہ سے عداوت رکھنے والا دوسرا سود لینے والا۔ اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو دوسرا گناہ یعنی سود لینا اتنا عام ہے کہ اگر ہر شخص اپنے خاندان پر غور کرے تو کوئی نہ کوئی اس گناہ میں ملوث نظر آتا ہے۔

آئیے پیارے اسلامی بھائیو ! ہم سود کی مذمت پر فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتے ہیں تاکہ لوگ سن کر ان کاموں سے توبہ کریں اور اللہ پاک کے عذاب سے بچ سکیں۔(1) ‌رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا سب برابر ہیں۔(مسلم، 2/27)یعنی اصل گناہ میں سب برابر ہیں سب سود خور کے معاون ہیں اور گناہ پر مدد کرنا بھی گناہ ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد 4، حدیث:2829 ) (2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ہم شبِ معراج ایسی قوم پر پہنچے جن کے پیٹ کمروں کی طرح تھے جن میں سانپ تھے جو پیٹوں کے باہر دیکھے جا رہے تھے۔ ہم نے کہا اے جبرائیل یہ کون ہیں؟ انہوں نے عرض کی سود خور۔(سنن ابن ماجہ ، ص 164)

(3) رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا ایک درہم جو انسان کھائے جانتے ہو وہ چھتیس بار زنا سے سخت تر ہے ۔(مشکوٰۃ المصابیح ، حدیث : 2825) ایک سود کے چھتیس زنا سے بدتر ہونے کی چند وجہیں ہیں زنا حقُّ اللہ ہے سود حقُّ العباد جو توبہ سے معاف نہیں ہوتا، سود خور کو اللہ و رسول سے جنگ کا اعلان ہے زانی کو یہ اعلان نہیں، سود خور کو برے خاتمہ کا اندیشہ ہے زانی کے متعلق یہ اندیشہ نہیں ، سود خور مقروض اور اس کے بال بچوں کو تباہ کرتا ہے اسی لیے سود خور پر زیادہ سختی ہے نیز عمومًا مسلمان زنا سے تو نفرت کرتے ہیں مگر سود سے نہیں، حکومتیں اور گناہوں کو روکنے کی کوشش کرتی ہیں مگر سود کو رواج دیتی ہیں اس سے بچنا مشکل ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد 4، حدیث: 2825 )

(4) حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ ( کتاب الکبائر للذھبی،الکبیرة الثانیہ عشرہ، ص102)(5) حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذھبی الکبیرۃ الثانیۃ عشر، ص 103 )

پیارے اسلامی بھائیو ! آپ نے سنا کہ سود خور پر اللہ پاک کی لعنت ہے اور ان کے پیٹ قیامت کے دن کمروں کی طرح بڑے ہو جائیں گے اور ان میں سانپوں کو بھر دیا جائے گا۔ آہ اگر ہمارے پیٹ میں معمولی سا کیڑا چلا جائے تو طبیعت میں بھونچال آ جاتی ہے۔ تو قیامت کا یہ درد ناک عذاب ہم سے کیسے برداشت ہوگا۔ آہ پیٹ میں سانپ اور بچھو کا ہونا کتنا بھیانک عذاب ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ سود کے لین دین سے توبہ کرے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو سود کی آفات سے محفوظ رکھے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے اسلامی بھائیو ! آج کل ہمارے معاشرے میں سود ( interest ) جیسا برا گناہ عام ہو چکا ہے اور سود کا لین دین کرنا بہت عام سی بات ہو چکی ہے ۔تو ہمیں جاننا چاہیے کہ سود کا لین دین کرنا ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے سود کی مذمت قراٰن احادیث میں جا بجا وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ اللہ پاک قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو سود دونا دون نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اُس امید پر کہ تمہیں فلاح ملے۔ (پ4،اٰل عمران : 130)

پیارے اسلامی بھائیو آئیے احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں سود کی مذمت پر فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کرتے ہیں ۔(1) سمرہ بن جندب رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کہ ميں نے شبِ معراج ديکھا کہ دو شخص مجھے ارضِ مقدس (یعنی بیت المقدس)لے گئے، پھر ہم آگے چل دئيے يہاں تک کہ خون کے ایک دریا پر پہنچے جس میں ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور دریا کے کنارے پر دوسرا شخص کھڑا تھا جس کے سامنے پتھر رکھے ہوئے تھے، دریا میں موجود شخص جب بھی باہر نکلنے کا ارادہ کرتا تو کنارے پر کھڑا شخص ایک پتھر اس کے منہ پر مار کر اسے اس کی جگہ لوٹا ديتا، اسی طرح ہوتا رہا کہ جب بھی وہ (دریا والا)شخص کنارے پر آنے کا ارادہ کرتا تو دوسرا شخص اس کے منہ پر پتھر مار کر اسے واپس لوٹا ديتا، ميں نے پوچھا: یہ دریا میں کون ہے؟ جواب ملا: یہ سود کھانے والا ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع،باب اکل ربا و شاھدہ وکاتبہ ،2/14،حدیث: 2085)

(2) صحیح مسلم شریف میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود کا کاغذ لکھنے والے اور اُس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اوریہ فرمایا: کہ وہ سب برابر ہیں۔( صحیح مسلم،کتاب المساقاۃ، باب لعن آ کل الربا ومؤکلہ،ص862،حدیث: 106)(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے راوی، کہ حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ سود کھانے سے کوئی نہیں بچے گا اور اگر سود نہ کھائے گا تو اس کے بخارات پہنچیں گے (سنن ابی داؤد، کتاب البیوع،باب فی اجتناب الشبھات،2/331،حدیث: 3331)

(4) عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہُ عنہما سے راوی، کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے، وہ چھتیس مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔( المسند للامام أحمد بن حنبل،حدیث عبداللہ بن حنظلۃ،8/223،حدیث: 22016)(5)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں ، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا، اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟ اُنہوں نے کہا، یہ سود خور ہیں۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب التجارات،باب التغلیظ في الربا،3/72،حدیث: 2273)

ان ذکر کردہ روایات سے معلوم ہوا کہ سود بدترین مرض ہے اور جہنم میں دخول کا سبب ہے ہمیں چاہیے کہ حضور الٰہی میں دل سے توبہ کریں اور کوئی بھی اسلامی بھائی سود کا لین دین نہ کریں اللہ پاک ہم سب کو سود جیسے مذموم گناہ سے اپنی حفاظت میں رکھے آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دورِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ایک ایسا بھی وقت آیا کہ کفار بدکار و مشرکین نے سود (interest) کے حلال ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اور سود اور خرید و فروخت (Buying and selling) کے درمیان برابری کرتے ہوئے کہا کہ سود خرید و فروخت کی طرح ہے۔ جس کو اللہ پاک نے قراٰن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے : اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ- ترجمۂ کنز الایمان: وہ جو سُود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سُود ہی کے مانند ہے ۔(پ3،البقرة : 275) تو اللہ پاک نے ان کے دعوے کا رد کرنے کے لئے اور بیع و سود کے درمیان فرق کرنے کے لئے آیت کریمہ نازل فرمائی: اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود۔

اور اِس دور میں بھی کافی تعداد اس حرام شدہ کام سے بچنے کے بجائے اس کو ذریعۂ معاش (A source of income ) سمجھتی ہے بلکہ موجودہ دور میں تو زیادہ تر لوگ اسی گناہ کے شکار ہیں جو کہ بالکل قابل مذمت ہے ۔سود کی مذمت صرف قراٰن کریم میں ہی نہیں بلکہ بارہا جگہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی اس حرام کام کی مذمت کرتے ہوئے اس کام سے روکا ہے آئیے کچھ احادیث میں اس کی مذمت میں ملاحظہ کرتے ہیں :

(1) صحیح مسلم شریف میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود کا کاغذ لکھنے والے اور اُس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اوریہ فرمایا: کہ وہ سب برابر ہیں۔( صحیح مسلم،کتاب المساقاۃ، باب لعن آ کل الربا ومؤکلہ،ص862،حدیث: 106)

(2) ابن ماجہ و بیہقی ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے راوی، کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود (کا گناہ) ستر حصہ ہے، ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔ (سنن ابن ماجہ ،کتاب التجارات،باب التغلیظ في الربا،3/72،حدیث: 2274) (3) عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہُ عنہما سے راوی، کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے، وہ چھتیس مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔( المسند للامام احمد بن حنبل،حدیث عبداللہ بن حنظلۃ،8/223،حدیث: 22016)

(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے راوی، کہ حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ سود کھانے سے کوئی نہیں بچے گا اور اگر سود نہ کھائے گا تو اس کے بخارات پہنچیں گے (سنن ابی داؤد، کتاب البیوع،باب فی اجتناب الشبھات،2/331، حدیث: 3331)

آج کل ہمارے معاشرے (Society) میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے کہ کوئی بھی الا ما شاء اللہ سود دینے لینے سے نہیں بچ رہا ہے اگر سود نہیں دیتا لیتا ہے تو سود کے لئے گواہی دیتا پھرتا ہے یا پھر سود کی رقم کھانے کھلانے کے لئے دستاویزات لکھتا ہے اور سود کی لذت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ سود کے لئے اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کرتے ہوئے ہمارے معاشرے کے افراد نظر آتے ہیں پیارے اسلامی بھائیو ہمیں ہر اس کام سے بچنا چاہیے جس سے اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے منع فرمایا اسی میں ہمارے بھلائی ہے ورنہ دنیا میں بھی ہم ذلیل ہوتے رہیں گے اور آخرت میں بھی ہمیں رسوہ ہونا پڑے گا اللہ پاک ہم سب اس برے کام اور دیگر حرام کاموں سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین یا رب العالمین


دینِ اسلام ہمیں حسن معاشرت و رحم دلی کا درس دیتا ہے حضرتِ سیّدنا تَمِیم داری رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: دین خیر خواہی ہے، ہم نے عرض کی: کس کی؟ فرمایا: ااشفاللہ کی، اُس کی کتاب، اُس کے رسول اور مسلمانوں کے اماموں اور عوام کی۔ (مسلم،ص51، حدیث:196)

ہمارے معاشرے میں چند ایسے عیوب پائے جاتے ہیں جو اس رحم دلی محبت و اخلاص کو ختم کرتے جا رہے ہیں جہاں ہمیں لوگوں کی خلوص دل سے مدد کرنی تھی آج وہاں بھی اپنا مفاد تلاش کیا جا رہا ہے۔ اسی میں سے ایک بہت ہی خبیث گناہ سود ہے ، فتاویٰ رضویہ شریف میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ قرض پر نفع لینے کے متعلق فرماتے ہیں قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع و فائدہ حاصل ہو وہ سب سود اور نرا حرام ہے ۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً فَھُوَ رِبًا۔ قرض سے جو فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔ ( فتاویٰ رضویہ ،17/703)

سود قطعی حرام اور معاشرے کو برباد کرنے والا کام ہے اس کی حرمت کا منکر کافر ہے اور جو اسے حرام جانتے ہوئے کرے وہ فاسق اور مردود الشہادة ہے۔ ( یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی) اللہ پاک اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے ۔ (پ4،اٰل عمران : 130) اس آیت میں سود کھانے سے منع کیا گیا اور اسے حرام قرار دیا گیا۔ زمانۂ جاہلیت میں سود کی ایک صورت یہ بھی رائج تھی کہ جب سود کی ادائیگی کی مدت آتی، اگر اس وقت مقروض ادا نہ کرپاتا تو قرضخواہ سود کی مقدار میں اضافہ کر دیتا اور یہ عمل مسلسل کیا جاتا رہتا۔ اسے دُگنا دَر دُگنا کہا جا رہا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آ رہے تھے، میں نے حضرت جبرئیل علیہ السّلام سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔ (ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب التغلیظ فی الربا، 3 / 71، حدیث: 2273)

حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ ( کتاب الکبائر للذھبی،الکبیرة الثانیہ عشرہ، ص69)اسی طرح کثیر احادیثِ مبارکہ میں سود کی بھرپور مذمت فرمائی گئی ہے ۔ جس چیز سے خالق کائنات نے روکا ہو ہمارے لئے اسی میں بہتری ہے کہ اس کے حکم کے آگے سرِ بندگی خم کریں قناعت اختیار کریں حساب کے دن کو یاد رکھیں جس دن مالِ حلال کا بھی حساب دینا ہوگا تو حرام مال تو وبالِ جان بن جائے گا ۔

یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ(۸۸) اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ(۸۹) ترجمۂ کنزالایمان: جس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے مگر وہ جو اللہ کے حضور حاضر ہوا سلامت دل لے کر ۔( پ19، الشعراء : 89،88)

اللہ کریم ہیں سود جیسے خبیث گناہ سے بچائے، قناعت پسند اور حسنِ اخلاق کا پیکر بنائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے ایک انسان کو دوسرے انسان سے مربوط کیا ہے ہر ایک کو دوسرے کی حاجت ہوتی ہی رہتی ہے۔ کبھی لین دین کا معاملہ ہوتا ہے تو کبھی کچھ اور ۔اس میں کبھی بندہ سود میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ دو مجرموں کے سوا کسی کو اللہ پاک کی طرف سے اعلان جنگ نہیں کیا گیا۔ ایک سود لینا دوسرا اولیا اللہ سے عداوت رکھنا۔ سود کی مذمت احادیث مبارکہ میں بھی وارد ہیں ۔چنانچہ (1) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ میں نے شبِ معراج ديکھا کہ دو شخص مجھے ارضِ مقدس (یعنی بیت المقدس)لے گئے، پھر ہم آگے چل دئيے يہاں تک کہ خون کے ایک دریا پر پہنچے جس میں ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور دریا کے کنارے پر دوسرا شخص کھڑا تھا جس کے سامنے پتھر رکھے ہوئے تھے، دریا میں موجود شخص جب بھی باہر نکلنے کا ارادہ کرتا تو کنارے پر کھڑا شخص ایک پتھر اس کے منہ پر مار کر اسے اس کی جگہ لوٹا ديتا، اسی طرح ہوتا رہا کہ جب بھی وہ (دریا والا)شخص کنارے پر آنے کا ارادہ کرتا تو دوسرا شخص اس کے منہ پر پتھر مار کر اسے واپس لوٹا ديتا، ميں نے پوچھا: یہ دریا میں کون ہے؟ جواب ملا: یہ سود کھانے والا ہے۔(صحیح بخاری، کتاب البیوع،باب اکل ربا و شاھدہ وکاتبہ ،2/14،حدیث: 2085)

(2) حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں کہ شب معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح بڑے بڑے تھے جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے، میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی یہ سود خور ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات،باب التغلیظ فی الرابا،3/72،حدیث :2273) (3) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کے تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔ (مسلم،کتاب المساقاۃ، باب لعن آکل الربا و موکلہ، حدیث: 1598)

(4)نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: سود کے ستر (۷۰ )دروازے ہیں ان میں سے کم تر ایسا ہے جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔ (شعب الایمان، 4/394، حدیث: 5520)اعلی حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو شخص سود کا پیسہ لینا چاہے اگر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسے کا نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر ستر بار زنا کرنا سود لینا حرام قطعی اور گناہ کبیرہ و عظیمہ ہے جس کا لینا کسی طرح رواں نہیں۔(فتاوی رضویہ،17/307)

پیارے اسلامی بھائیو! آئیے اس سود کے گناہ کبیرہ سے اپنے آپ کو روکتے ہیں اور یہ عزم کریں کہ اب ان شاء اللہ سود کی طرف نہیں جائیں گے۔ اور اب تک جن سے سودی کاروبار کیا ہے ان کو ان کی رقم بھی واپس کر دیں اور توبہ بھی کریں۔ اللہ پاک ہم سب کو سود کی نحوست سے محفوظ فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


محترم قارئین! فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے ، وہیں ایک بد ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے ، وہ یہ ہے کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ لہذا آئیے اس بھیانک بیماری کے بارے میں جانتے ہیں جو ایک وبا کی طرح ہمارے معاشرے میں پھیلتی چلی جا رہی ہے۔

کثیر احادیث مبارکہ میں سود کی بھرپور مذمت فرمائی گئی ہے جن میں سے چند احادیث ملاحظہ ہوں۔ چنانچہ حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اعظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ شبِ معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا ، جن کے پیٹ کمروں کی طرح (بڑے بڑے) تھے ، جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا : یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی : یہ سود خور ہیں۔ (سود اور اس کا علاج ،ص16)

محترم قارئین! ذرا غور فرمائیں آج ہمارے پیٹ میں اگر معمولی سا کیڑا چلا جائے، تو ہم بے چین و بیقرار ہو جاتے ہیں۔ تو سود کھانے والے قیامت کا یہ سخت عذاب کیسے برداشت کریں گے؟ سود خوروں کے پیٹ اتنے بڑے ہوں گے کہ جیسا کہ کسی مکان کے کمرے ہو۔ ان میں سانپ اور بچھو وغیرہ ہوں گے۔ ذرا سوچیں کہ یہ کس قدر بھیانک عذاب ہے۔

حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مصطفیٰ جانِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔ (ایضاً، ص17)

مکی مدنی آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: بے شک سود کے 72 دروازے ہیں، ان میں سے کمترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔

ایک روایت میں پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : سود کے 70 دروازے ہیں ، ان میں سے کم تر ایسا ہے جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔ (ایضاً ،ص17 ) میرے آقا اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلسنت ، مجددِ دین و ملت علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ ج 17، ص 307 پر اس حدیثِ پاک کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : تو جو شخص سود کا ایک پیسہ لینا چاہے اگر رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسہ کا نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر ستر(70)بار زنا کرنا۔ سود لینا حرام قطعی و کبیرہ و عظیمہ ہے جس کا لینا کسی طرح روا نہیں۔

امام احمد و دارقطنی عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہُ عنہما سے راوی، کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے، وہ چھتیس مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔ (بہار شریعت، سود کا بیان)

نبیوں کے سلطان ، سرورِ ذیشان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے : جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔ (ایضاً، ص16)شہنشاہِ مدینہ ، سرورِقلب وسینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے : سات چیزوں سے بچو جو کہ تباہ وبرباد کرنے والی ہیں۔ “ صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم نے عرض کی : یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!وہ سات چیزیں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا : (1)شرک کرنا(2)جادو کرنا (3)اسے ناحق قتل کرنا کہ جس کا قتل کرنا اللہ پاک نے حرام کیا (4)سود کھانا (5)یتیم کا مال کھانا (6) جنگ کے دوران مقابلہ کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا (7)اور پاکدامن ، شادی شدہ ، مؤمنہ عورتوں پر تہمت لگانا۔

محترم قارئین! آپ نے سود کی وعیدیں ملاحظہ فرمائی کیا اب بھی سود اور رشوت کے لین دین سے باز نہیں آئیں گے؟ ہمیں ہر حال میں سود سے اجتناب کرنا چاہیے، اور جہاں تک ممکن ہوسکے سودی کاروبار سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کیجئے۔ اور جو لوگ اس سے پہلے اس فعل بد میں گرفتار ہے وہ اپنے رب سے سچی پکی توبہ کرلیں۔ اللہ پاک ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو سود سے پاک و صاف رکھے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کرلے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی

قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی