حافظ غلام حسن ( ناظم مدرسۃُ المدینہ فیضان غوث اعظم
ہزاری باغ جھارکھنڈ ہند)
دینِ اسلام ہمیں حسن معاشرت و رحم دلی کا درس دیتا ہے حضرتِ
سیّدنا تَمِیم داری رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: دین خیر خواہی ہے، ہم نے عرض کی: کس کی؟ فرمایا: ااشفاللہ
کی، اُس کی کتاب، اُس کے رسول اور مسلمانوں کے اماموں اور عوام کی۔ (مسلم،ص51،
حدیث:196)
ہمارے معاشرے میں چند ایسے عیوب پائے جاتے ہیں جو اس رحم
دلی محبت و اخلاص کو ختم کرتے جا رہے ہیں جہاں ہمیں لوگوں کی خلوص دل سے مدد کرنی
تھی آج وہاں بھی اپنا مفاد تلاش کیا جا رہا ہے۔ اسی میں سے ایک بہت ہی خبیث گناہ سود
ہے ، فتاویٰ رضویہ شریف میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ قرض پر نفع لینے کے متعلق فرماتے ہیں قرض دینے والے
کو قرض پر جو نفع و فائدہ حاصل ہو وہ سب سود اور نرا حرام ہے ۔ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ
مَنْفَعَۃً فَھُوَ رِبًا۔ قرض سے جو فائدہ
حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔ ( فتاویٰ رضویہ ،17/703)
سود قطعی حرام اور معاشرے کو برباد کرنے والا کام ہے اس کی
حرمت کا منکر کافر ہے اور جو اسے حرام جانتے ہوئے کرے وہ فاسق اور مردود الشہادة
ہے۔ ( یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی) اللہ پاک اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا
الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ
تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) ترجمۂ
کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید
پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے ۔ (پ4،اٰل عمران : 130) اس آیت میں سود
کھانے سے منع کیا گیا اور اسے حرام قرار دیا گیا۔ زمانۂ جاہلیت میں سود کی ایک
صورت یہ بھی رائج تھی کہ جب سود کی ادائیگی کی مدت آتی، اگر اس وقت مقروض ادا نہ
کرپاتا تو قرضخواہ سود کی مقدار میں اضافہ کر دیتا اور یہ عمل مسلسل کیا جاتا
رہتا۔ اسے دُگنا دَر دُگنا کہا جا رہا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی
قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر
آ رہے تھے، میں نے حضرت جبرئیل علیہ السّلام سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت
فرمایا تو انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔ (ابن ماجہ، کتاب
التجارات، باب التغلیظ فی الربا، 3 / 71، حدیث: 2273)
حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ
جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی
اجازت دے دیتا ہے۔ ( کتاب الکبائر للذھبی،الکبیرة الثانیہ عشرہ، ص69)اسی طرح کثیر
احادیثِ مبارکہ میں سود کی بھرپور مذمت فرمائی گئی ہے ۔ جس چیز سے خالق کائنات نے
روکا ہو ہمارے لئے اسی میں بہتری ہے کہ اس کے حکم کے آگے سرِ بندگی خم کریں قناعت
اختیار کریں حساب کے دن کو یاد رکھیں جس دن مالِ حلال کا بھی حساب دینا ہوگا تو
حرام مال تو وبالِ جان بن جائے گا ۔
یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ(۸۸) اِلَّا مَنْ
اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ(۸۹) ترجمۂ
کنزالایمان: جس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے مگر وہ جو اللہ کے حضور حاضر ہوا
سلامت دل لے کر ۔( پ19، الشعراء : 89،88)
اللہ کریم ہیں سود جیسے خبیث گناہ سے بچائے، قناعت پسند اور
حسنِ اخلاق کا پیکر بنائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم