اللہ پاک نے ایک انسان کو دوسرے انسان سے مربوط کیا ہے ہر
ایک کو دوسرے کی حاجت ہوتی ہی رہتی ہے۔ کبھی لین دین کا معاملہ ہوتا ہے تو کبھی
کچھ اور ۔اس میں کبھی بندہ سود میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ دو
مجرموں کے سوا کسی کو اللہ پاک کی طرف سے اعلان جنگ نہیں کیا گیا۔ ایک سود لینا
دوسرا اولیا اللہ سے عداوت رکھنا۔ سود کی مذمت احادیث مبارکہ میں بھی وارد ہیں ۔چنانچہ
(1) نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ میں نے شبِ
معراج ديکھا کہ دو شخص مجھے ارضِ مقدس (یعنی بیت المقدس)لے گئے، پھر ہم آگے چل
دئيے يہاں تک کہ خون کے ایک دریا پر پہنچے جس میں ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور دریا
کے کنارے پر دوسرا شخص کھڑا تھا جس کے سامنے پتھر رکھے ہوئے تھے، دریا میں موجود
شخص جب بھی باہر نکلنے کا ارادہ کرتا تو کنارے پر کھڑا شخص ایک پتھر اس کے منہ پر
مار کر اسے اس کی جگہ لوٹا ديتا، اسی طرح ہوتا رہا کہ جب بھی وہ (دریا والا)شخص
کنارے پر آنے کا ارادہ کرتا تو دوسرا شخص اس کے منہ پر پتھر مار کر اسے واپس لوٹا
ديتا، ميں نے پوچھا: یہ دریا میں کون ہے؟ جواب ملا: یہ سود کھانے والا ہے۔(صحیح
بخاری، کتاب البیوع،باب اکل ربا و شاھدہ وکاتبہ ،2/14،حدیث: 2085)
(2) حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے آقا
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں کہ شب معراج میں ایک ایسی قوم کے
پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح بڑے بڑے تھے جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے
دیکھے جا رہے تھے، میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی یہ
سود خور ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات،باب التغلیظ فی الرابا،3/72،حدیث :2273) (3) حضرت جابر رضی اللہ عنہ
سے مروی ہے کہ اللہ کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے،
کھلانے والے، اس کے تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ
یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔ (مسلم،کتاب المساقاۃ، باب لعن آکل الربا و موکلہ، حدیث:
1598)
(4)نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: سود کے ستر (۷۰ )دروازے ہیں ان
میں سے کم تر ایسا ہے جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔ (شعب الایمان، 4/394،
حدیث: 5520)اعلی حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو شخص سود کا پیسہ لینا چاہے
اگر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان
میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسے کا نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر ستر
بار زنا کرنا سود لینا حرام قطعی اور گناہ کبیرہ و عظیمہ ہے جس کا لینا کسی طرح
رواں نہیں۔(فتاوی رضویہ،17/307)
پیارے اسلامی بھائیو! آئیے اس سود کے گناہ کبیرہ سے اپنے آپ
کو روکتے ہیں اور یہ عزم کریں کہ اب ان شاء اللہ سود کی طرف نہیں جائیں گے۔ اور اب
تک جن سے سودی کاروبار کیا ہے ان کو ان کی رقم بھی واپس کر دیں اور توبہ بھی کریں۔
اللہ پاک ہم سب کو سود کی نحوست سے محفوظ فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم