سُود کی مذمت پر تمہیدی کلمات: اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے :یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ(۲۷۶) (پ3 ، البقرۃ:276)ترجمہ کنز الایمان : اللہ ہلاک کرتا ہے سُود کو اور بڑھاتاہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکرا بڑا گنہگار۔

سُود کی تعریف:فقہا نے لکھا ہے :الربا ھو الفضل المستحق لاحد المتعاقدین فی المعاوضہ الخالی عن عوض شرط فیہ سود اس اضافے کو کہتے ہیں جو دو فریق میں سے ایک فریق کو مشروط طور پر اس طرح ملے کہ وہ اضافہ عوض سے خالی ہو ۔(ہدایہ)

سود کی مذمت پر فرامینِ مصطفٰے:

1-شہنشاہِ مدینہ ﷺ کا فرمانِ باقرینہ ہے:سات چیزوں سے بچو جو کہ تباہ وبرباد کرنے والی ہیں۔صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ!وہ سات چیزیں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا : (1)شرک کرنا (2)جادو کرنا (3)اسے ناحق قتل کرنا کہ جس کا قتل کرنا اللہ پاک نے حرام کیا (4)سود کھانا (5)یتیم کا مال کھانا (6)جنگ کے دوران مقابلہ کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا اور (7) پاک دامن ، شادی شدہ ، مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔ (بخاری ، 2 /242، حدیث : 2766)

2-حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں بدکاری اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ (کتاب الکبائر للذہبی ، ص69)

3-نبیوں کے سلطان،سرورِ ذیشان ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے:جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔( کتاب الکبائر للذہبی ، ص 70)

4-حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک کے محبوب ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے،اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔ (مسلم ، ص862، حدیث : 1598)

5-مکی مدنی آقا ﷺ کا فرمانِ عبرت نشان ہے : بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ۔ ان میں سے کم ترین یہ ہے کہ کوئی مرد اپنی ماں سے بدکاری کرے۔ (معجم اوسط ،5 /227،حدیث : 7151)

سود کے چند معاشرتی نقصانات :سود خور ، گھر کے گھر تباہ وبرباد کرتا ہے ۔ سب کو اجاڑ کر اپنا گھر بناتا ہے ۔مال کی محبت میں دیوانہ وار گھومتا رہتا ہے۔ صدقہ وخیرات کرنا بھی گوارا نہیں کرتا کہ کہیں مال کم نہ ہو جائے۔ آخر کار دولت کی یہی ہوس و حرص اسے جہنم کی آگ کا ایندھن بنا ڈالتی ہے۔سود خور کے دل سے رحم نکل جاتا ہے۔ اسے کسی پر ترس نہیں آتا ۔ مجبور سے مجبور شخص اس کے آگے ایڑیاں رگڑے بلکہ سرکی ٹوپی اتار کر اس کے پاؤں پر رکھ دے تو بھی اسے رحم نہیں آتا۔کیونکہ سود نے اس کے قلب کو کالا کر دیا ہوتا ہے۔سود خور حاسد بن جاتا ہے ۔ اس کی تمنا ہوتی ہے کہ اس سے قرض لینے والا نہ تو کبھی پھلے پھولے اور نہ ہی ترقی کرے کہ اُس کے پھلنے پھولنے میں اِس کی آمدنی تباہ ہوتی ہے۔ کیونکہ جس نے اِس سے سود پر قرض لیا اگر وہ ترقی کر جائے گا اور قرض اتار دے گا تو اس کی آمدنی ختم ہوجائے گی۔ یہی حسد اس کو تباہ و برباد کر دیتا ہے ۔

سود سے بچنے کی ترغیب:دنیا کے مال و دولت کی کوئی حیثیت نہیں، بلکہ حقیقی دولت تقویٰ ،پرہیز گاری ،خوفِ خدا اورعشقِ مصطفٰے ہے۔ اللہ پاک یہ دولت اسے عطا فرماتا ہے جس سے راضی ہوتا ہے۔ لہٰذا دولت و حکومت کا ہونا فضیلت کی بات نہیں ہے۔کیونکہ فرعون ، نمرود اور قارون بھی تو دولت و حکومت والے تھے۔ مگر ان کی دولت و حکومت انہیں ابدی لعنت سے محفوظ نہ رکھ سکی ۔ معلوم ہوا کہ حکومت اور دولت کا ہونا فضیلت کا باعث نہیں،بلکہ فضیلت کا باعث تو یہ ہے کہ اللہ پاک ہم سے راضی ہو جائے۔ہمیں تقویٰ وپرہیز گاری مل جائے۔ اگر دولت ملے تو وہ جس کے ملنے پر ربّ راضی ہو،وہ حلال اور شبہ سے پاک ہو۔ جیسا کہ دولت تو حضرت عثمانِ غنی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کے پاس بھی تھی ، مگر ان کی دولت حرام اور شبہ کے مال سے پاک تھی اور انہیں جو دولت بھی ملتی اسے اسلام کے نام پر قربان کرتے چلے جاتے اور اللہ پاک اور رسولِ کریم ﷺ کی رضا کے حصول کی کوشش کرتے تھے۔ چنانچہ دولت مند صحابہ کرام نے اپنی دولت سے ایسے ایسے غلام آزاد کئے کہ انہوں نے عشقِ رسول کی لازوال مثالیں رقم کیں۔

کرلے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی

ایک دن مرنا ہے آخر موت ہے کرلے جو کرنا ہے آخر موت ہے

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں


ہمارے معاشرے میں پائےجانے والے  گناہوں میں ایک ظاہری گناہ سود ہے ۔

سود کی تعریف: لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو تو یہ سود ہے ۔اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع جو فائدہ حاصل ہو وہ بھی سود ہے۔

سود کی مثال: جو چیز ماپ یا تول سے بکتی ہوں جب اس کو اپنی جنس سے بدلہ جائے مثلا گندم کے بدلے گندم، جو کے بدلے جو لئے اور ایک طرف زیادہ ہو تو یہ حرام ہے۔سود حرامِ قطعی ہے۔ حرام ہونے کا انکار کرنے والا کافر ہے۔جس طرح سود لینا حرام ہے تو دینا بھی حرام ہے۔اللہ پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ- پ 3،البقرۃ:275)ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط کر دیا ہو۔

سود کی مذمت پر احادیثِ مبارکہ:

1-مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے، سود دینے والے ،سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب(گناہ میں)برابر ہیں۔ (مسلم،ص 862،حدیث: 105-106 )

2-ابنِ ماجہ،دارمی امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے راوی ہے کہ فرمایا:سود کو چھوڑو اور جس کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔ ( ابنِ ماجہ،2 /83 ، حدیث:2286)

3- اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا کہ ادھار میں سود ہے اور ایک روایت میں ہے کہ دست بدست ہو تو سود نہیں یعنی جب کہ جنس مختلف ہو۔(بہارِ شریعت) ( حدیث: 1584)

4-امام احمد، ابنِ ماجہ، بیہقی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: (سود سے بظاہر) مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔ (مسند امام احمد،2/50،حدیث: 3854)

5-ابنِ ماجہ ،بیہقی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سود کا گناہ 70 حصے ہے، ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے۔(بہارِ شریعت)(ابنِ ماجہ، 3/ 82 ، حدیث:2284)

سود میں پڑنے کے اسباب: مال کی حرص ،فضول خرچی ،خاص طور پر شادی وغیرہ تقریبات میں فضول رسموں کی پابندی،علم دین کی کمی وغیرہ ۔سود سے بچنے کے لیے ہمیں قناعت اختیار کرنی چاہیے۔لمبی امیدوں سے کنارہ کشی کیجئے اور موت کو کثرت سے یاد کیجیے۔ ان شاءاللہ دل سے دنیا کی محبت نکلے گی اور آخرت کی تیاری کا ذہن بنے گا۔


دُرود شریف کی فضیلت:خواجۂ خواجگان ،حضرت خواجہ غلام حسن سواگ المعروف پیر سَواگ رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جب بہت غم اور مشکلات آجائیں تو درود شریف کی کثرت ہی تمام مشکلات کو حل کرتی ہے۔ (فیوضاتِ حسینہ ،ص 193)

مشکل جو سر پہ آپڑی تیرے ہی نام سے ٹلی مشکل کُشا ہے تیرا نام تجھ پر درود اور سلام

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللہُ علٰی مُحَمَّد

قرآنِ کریم میں سود کی حرمت کا بیان:سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا عمل ہے ۔اس کی حُرمت کا منکر کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق اور مردودُ الشہادہ ہے(یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔)اللہ پاک نے قرآن میں اس کی بھرپور مذمت فرمائی ہے ۔چنانچہ سورۂ بقرہ آیت نمبر 275 تا 278 ہے: ترجمہ:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو اس لئے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سود ہی کی مانند ہے اللہ پاک نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جواب ایسی حرکت کرے گاتو وہ دوزخی ہےوہ اس میں مدتوں رہے گا اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکر بڑا گنہگار بے شک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور نماز قائم کی اور زکوۃ دی ان کا نیگ(اجر و ثواب)ان کے رب کے پاس ہے اور نہ انہیں کچھ اندیشہ ہو اور نہ ہی غم۔ 


سُود(Interest) ایک صریح نا انصافی ہے۔سود اُس زیادتی کا نام ہے جوعقدِ معاوضہ میں عاقدین میں سے کسی ایک کے لیے مشروط ہواور عو ض سے خالی ہو ۔( فتح القدیر،6/151)

قرآنِ کریم میں اس کی خوب مذمت بیان کی گئی ہے۔چنانچہ سورہ ٔبقرۃ کی آیت 275تا279میں سود کی بھرپور مذمت فرمائی گئی ہے۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سود کھانے والے بروزِ قیامت ایسے کھڑے ہوں گے جیسے آسیب زدہ شخص سیدھا کھڑا ہونے کی بجائے گرتے پڑتے چلتاہے۔ اللہ نے سود کو حرام کیا ہے۔سود نہ چھوڑنے والا مدتوں دوزخ میں رہے گا۔اللہ پاک سود کو ہلاک(برکت سے محروم ) کرتا ہے۔پس اگر تم سود نہیں چھوڑتے تو اللہ اور اس کے رسول ﷺسے لڑائی کے لیے تیار ہوجاؤ۔(دلچسپ معلومات سوالا جوابات حصہ 1 ص46)نیز احادیث میں بھی سود کی سخت مذمت اور شدید وعیدات بیان کی گئی ہیں۔ چنانچہ

1-سرورِ ذیشان ﷺ کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔ (کتاب الکبائر للذہبی ، ص 70)

2- آقا ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے،اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا:یہ سب(گناہ میں) برابر ہیں۔ (مسلم ،ص862،حدیث: 1598)

3-ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا : شبِ معراج میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح(بڑے بڑے ) تھے، ان کے پیٹوں میں سانپ موجود تھے جو باہر سے دکھائی دیتے تھے۔میں نے پوچھا: اے جبرائیل!یہ کون لوگ ہیں؟کہا:یہ سُود خور ہیں۔ (ابنِ ماجہ،ص363،حدیث:2273 )

4- بے شک سود کے 72 دروازے ہیں،ان میں سے کم ترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے بدکاری کرے۔(معجم اوسط ،5 /227،حدیث:7151)

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: تو جو شخص سود کا ایک پیسہ لینا چاہے اگر رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسہ کا نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر(70)بار بدکاری کرنا! سود لینا حرامِ قطعی و کبیرہ و عظیمہ ہے جس کا لینا کسی طرح روا (جائز)نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ ،17/ 307)

5-آپ ﷺ نے سات مہلکات بیان فرمائے؛جن میں چوتھے نمبر پر سود کا ذکر فرمایا۔(بخاری، 2/422،حدیث: 2766)

سودکے سبب معاشرے میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوتیں ہیں۔انسان بے رحم اور خود غرض ہو جاتا ہے۔اس میں سے ہمدردی کے جذبات ختم ہو جاتے ہیں۔سود خور انتہائی بخیل ہوجاتا اور دوسروں سے حسد کرنے لگتا ہے۔افسوس!آج کل سود بہت عام ہوتا جارہا ہے۔ سود آخرت کی خرابی کے ساتھ ساتھ معاشرے میں کئی خرابیوں کا باعث ہے۔اللہ پاک ہمیں اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


سود عصر حاضر کا ایک حساس موضوع ہے اور ایک ناسور اور طاغوتی وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے، شریعت محمدی کے پیروکار ذرا رک کر اپنا موازنہ زمانہ جاہلیت کے طاقتور اور جابر و ظالم سے کریں تو خود کو ترقی یافتہ اور مہذب اور باشعور کہنے سے پہلے سر شرم سے جھک جائے گا، زمانہ جاہلیت میں سود خوری ایک مصروف تجارت سمجھی جاتی تھی، اسلام نے اس کا خاتمہ کیا اور اسلامی معاشرے کو اس سے پاک و صاف کرنے کی خاطر مسلمانوں پر کڑی شرطیں عائد کی ہیں تاکہ مسلمان کی جان اور عزت و آبرو کے ساتھ اس کے مال و دولت کی حفاظت کا بھی سامان کیا جائے۔

سود عربی زبان میں (ربا) زیادتی اور اضافہ کو کہتے ہیں سود قرآن کریم، سنتِ رسول اور اجماع سے حرام ہے۔

1۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کے لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ یہ سب کے سب برابر ہیں۔(صحیح مسلم، ص 862، حدیث: 1597)

2۔ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ (کتاب الکبائر للذہبی، ص 69)

3۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: آج کی شب میں نے خواب میں دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے اور مجھے ایک مقدس جگہ پر لے گئے چنانچہ ہم چلے یہاں تک کہ ایک خون کی نہر کے پاس آئے جس میں ایک شخص کھڑا تھا اور نہر کے درمیانی حصہ میں ایک شخص تھا جس کے سامنے ایک پتھر تھا تو وہ شخص جو نہر میں تھا آتا اور جب نکلنا چاہتا تو دوسرا شخص ایک پتھر اس کے منہ میں دے مارتا تو وہ شخص جہاں تھا وہیں لوٹ جاتا اسی طرح جب جب وہ شخص نکلنا چاہتا دوسرا شخص پتھر سے اس کے منہ میں مارتا اور وہ لوٹ کر وہیں چلا جاتا جہاں تھا، تو میں نے دریافت کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ فرشتے نے جواب دیا: جسے آپ نے نہر میں دیکھا وہ سود خور تھا۔ (بخاری، 3/11، حدیث: 2085)

4۔ سود کے 73 مراتب ہیں ان میں سب سے کم تر کا گناہ آدمی کے اپنی ماں سے زنا کرنے کے مثل ہے اور سب سے بڑا سود مرد مسلم کی آبرو ہے۔(شعب الایمان، 4/394، حدیث: 5520)

5۔ یقیناً لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان اس بات کی قطعاً کوئی پروا نہیں کرے گا کہ وہ مال کہاں سے حاصل کر رہا ہے حلال ذریعہ سے یا حرام ذریعہ سے۔(بخاری، 4/313، حدیث: 2083)

آہ افسوس صد افسوس! آج ہم خود کو عاشق رسول گردانتے ہوئے بڑے بڑے دعویٰ کرتے ہیں لیکن ہمارے اعمال سنتِ رسول کی پیروی کے منافی ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو شریعت کا پابند بنائے اور شبہات میں مبتلا نہ کرے کہ شبہات حرام امور کا دروازہ کھولتے ہیں۔


سود ایک بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے قراٰن و حدیث میں اس کی سخت مذمت آئی ہے ۔حدیث پاک(1) عن جابر قال لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲ اٰکِلَ الرِّبَا وَمُوْکِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاھِدَیْہِ، وَقَالَ: ھُمْ سَوَاءٌ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ تمام لوگ برابر ہیں۔( مسلم ،ص663،حدیث:4093)حدیث پاک (2 ) امام ابن ماجہ روایت کرتے ہیں عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرِّبَا سَبْعُونَ جُزْئً أَیْسَرُہَا أَنْ یَنْکِحَ الرَّجُلُ أُمَّہُ ترجمہ : حضرت ابو ہریره رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ سود کی برائی کے ستر 70 (Seventy) درجے ہیں اور سب سے کم درجہ کی برائی ایسی ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے ۔ حضرت علامہ امام حافظ شمس الدین محمد بن احمد ذینی شافعی (رحمۃُ اللہ علیہ) گناہِ کبیرہ کی ایک بہت بڑی ( Long Last) ایک طویل فہرست پیش کی ہے جس میں وہ سود کے متعلق چند احادیث بیان فرمائے ہیں، جن کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔

حدیث پاک (3) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچ کر رہو۔ صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم نے عرض کی : یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!وہ کون سے گناہ ہیں؟ ارشاد فرمایا : (1)شرک کرنا(2)جادو کرنا (3)اسے ناحق قتل کرنا کہ جس کا قتل کرنا اللہ پاک نے حرام کیا (4)سود کھانا (5)یتیم کا مال کھانا (6) جنگ کے دوران مقابلہ کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا (7)اور پاکدامن ، شادی شدہ ، مؤمنہ عورتوں پر تہمت لگانا۔(کتاب الکبائر)

سود حرام کیوں؟: سود کو حرام فرمانے میں بہت سی حکمتیں ہیں اِن میں سے بعض یہ ہیں : ( 1) سود میں جو زیادتی لی جاتی ہے وہ مالی معاوضے والی چیزوں میں بغیر کسی عوض کے مال لیا جاتا ہے اور یہ صریح ناانصافی ہے ۔ ( 2) سود کا رَواج تجارتوں کو خراب کرتا ہے کہ سود خور کو بے محنت مال کا حاصل ہونا ، تجارت کی مشقتوں اور خطروں سے کہیں زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے اور تجارتوں کی کمی انسانی معاشرت کو ضرر پہنچاتی ہے ۔ ( 3) سود کے رواج سے باہمی محبت کے سُلوک کو نقصان پہنچتا ہے کہ جب آدمی سود کا عادی ہوا تو وہ کسی کو قرضِ حَسَن سے اِمداد پہنچانا گوارا نہیں کرتا ۔ ( 4) سود سے انسان کی طبیعت میں درندوں سے زیادہ بے رحمی پیدا ہوتی ہے اور سود خور اپنے مقروض کی تباہی و بربادی کا خواہش مند رہتا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی سود میں بڑے بڑے نقصان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے سود کو حرام قرار دیا ۔ اور سود خور قیامت میں ایسے مَخبوطُ الحَواس ہوں گے اور ایسے گرتے پڑتے کھڑے ہوں گے ، جیسے دنیا میں وہ شخص جس پر بھوت سوار ہو کیونکہ سود خور دنیا میں لوگوں کے لئے بھوت بنا ہوا تھا۔ آج کل سودی قرضہ لینے دینے کا ابتدائی انداز تو بڑا مہذب ہوتا ہے۔ اچھے اچھے ناموں سے اور خوش کُن ترغیبات سے دیا جاتا ہے لیکن کچھ ہی عرصے بعد قرض دینے والوں کی خوش اخلاقی، ملنساری اور چہرے کی مسکراہٹ سب رخصت ہو جاتی ہے اور اصل چہرہ بے نقاب ہوجاتا ہے جو گالیاں دے رہا ہوتا ہے، غنڈے بھیج رہا ہوتا ہے، گھر کے باہر کھڑے ہو کر ذلیل و رسوا کررہا ہوتا ہے، دکان، مکان، فیکٹری سب پر قبضہ کرکے فقیر و کنگال اور محتاج و قَلّاش کرکے بے گھر اور بے زر کر رہا ہوتا ہے۔ (تفسیرِ صراط الجنان، 1/413)

حدیث پاک (4) حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : سود خور کا نہ صدقہ قبول کیا جائے گا ، نہ جہاد ، نہ حج اور نہ ہی صلہ رحمی۔(تفسیر قرطبی،2/274، البقرۃ،تحت الآیۃ:276) یعنی اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ پاک سود کو مٹاتا ہے جبکہ صدقہ اور خیرات کو بڑھاتا ہے، زیادہ کرتا ہے۔ دنیا میں بھی اس میں برکت پیدا فرماتا ہے اور آخرت میں بھی اس کا بہت اجرو ثواب عطار فرماتا ہے۔حدیث پاک(5) نبیٔ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں ، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا، اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟ اُنہوں نے کہا، یہ سود خور ہیں۔(سنن ابن ماجہ ،3/72،حدیث: 2273)

پس اِن چند احادیث کریمہ سے یہ ثابت ہوا کہ سود حرام ہے اور یہ کہ قطعی طور پر حرام ہے اس کی حرمت کا منکر کا فر ہے۔ اور جو اس کو حرام سمجھ کر مرتکب ہو وہ فاسق مردود الشہادۃ ہے۔ (بہار شریعت) اللہ پاک ہم سب کو سود سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے حبیبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمودات پر صحیح عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


سود کو عربی زبان میں "ربا" کہتے ہیں۔ جس کے معنی ہیں "زیادتی "۔ اصطلاح میں سود سے مراد یہ ہے کہ وہ خرید و فروخت جس میں دونوں طرف سے مال ہو اور ایک طرف سے زیادتی ہو لیکن اس کے بدلے کچھ بھی نہ ہو۔ (بہار شریعت ،2/769) آج ہمارے معاشرے میں جہاں بہت سی بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں ان میں سے ایک بیماری جو بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے وہ سود ہے۔ سود ایک ایسی شے ہے جس میں مال بظاہر تو بڑھتا ہے۔ لیکن اس میں برکت نہیں ہوتی۔ قراٰنِ پاک میں سود کی حرمت کے بارے میں بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں۔ جیسے اللہ کا فرمان ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) ترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان والو! اگر تم ایمان والے ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔(پ3،البقرۃ: 278)

(1) مسلم شریف کی حدیث ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب لوگ برابر ہیں۔(صحیح مسلم ،ص862،حدیث:106)(2) حضرت عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہُ عنہما سے راوی، کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے، وہ چھتیس مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔( المسند للامام أحمد بن حنبل،حدیث عبداللہ بن حنظلۃ،8/223،حدیث: 22016)

(3)حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی نے فرمایا: سود کا گناہ ستر (70) حصہ ہے ، ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔(سنن ابنِ ماجہ، 3/72، حدیث:2274)(4)حضرت عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: (سود سے بظاہر) اگرچہ مال زیادہ ہو، مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔ (المسند للامام أحمد بن حنبل،مسند عبداللہ بن مسعود،2/50،حدیث: 3754)

(5) حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں ، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا، اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟ اُنہوں نے کہا، یہ سود خور ہیں۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب التجارات،باب التغلیظ في الربا،3/72،حدیث: 2273)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! سود کی وجہ سے غریب کے لیے ہمدردی کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے ۔ امیر لوگ تو مال جمع کرتے چلے جاتے ہیں جبکہ غریب ویسا کا ویسا غریب ہی رہتا ہے۔ سود کو لوگ سود تصور ہی نہیں کرتے۔ اگر فیکٹری بنانی ہوں ،شادی کرنی ہو ، گاڑی لینی ہو، الغرض اگر کوئی سی پریشانی آتی ہے تو سودی قرض اٹھا لیتے ہیں ۔ ایک روایت سنیے اور لرز اٹھیے ، اللہ کی بارگاہ میں توبہ کریں ۔ اللہ پاک کے آخری نبی نے فرمایا: سود ایک درہم جس کو جان بوجھ کر کھائے گا، وہ چھتیس (36) مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔ نعوذ با اللہ من ذالک اللہ کریم ہمیں سود سے محفوظ رکھے۔


پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! ہمارا  معاشرہ جہاں بے شمار و لاتعداد برائیوں اور گناہوں کا مرکز و محور بنا ہوا ہے۔ وہیں پر ایک خطر ناک بیماری سود بھی ہے۔ جس نے ہمارے معاشرتی و معاشی ماحول کو آلودہ کر رکھا ہے۔ یاد رکھیے جس معاشرہ میں سود کو فروغ دیا جائے۔ وہ معاشرہ آئے روز ذلت و رسوائی بدامنی اور بدمزاجی و بدخلقی اور جرائم کے عمیق ترین گڑھوں میں گرتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں اس کا عملی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ سود کسی بھی معاشرے کے بگاڑ کے بنیادی اسباب میں سے ہے۔ اور ایسا کیوں کر نا ہو کہ سودی شخص اللہ پاک اور اس کے حبیب علیہ السّلام کا باغی نافرمان اور دشمن ہے۔

(1) اللہ پاک کے آخری نبی مکی مدنی رسولِ ہاشمی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کے یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ (2) یوں ہی معجم الاوسط کی حدیث مبارکہ ہے کہ بے شک سود کے ستر دروازے ہیں اور ان میں سے کم ترین ایسے ہے جیسے کوئی اپنی ماں سے زنا کرے۔ میرے آقا سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فتاویٰ رضویہ ج17، ص307 پر اس حدیث پاک کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: تو جو شخص سود کا ایک پیسہ لینا چاہے اگر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسہ کا نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر ستر بار زنا کرنا ۔ سود لینا حرام قطعی و کبیرہ و عظیمہ ہے جس کا لینا کسی طرح روا نہیں ہو سکتا۔

(3) حضرت سیدنا عوف بن مالک رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن سود خور کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ دیوانہ و مخبوط الحواس ہو گا۔ (المعجم الکبیر ،18/60، حدیث:110) یعنی سود خور قبروں سے اٹھ کر حشر کی طرف ایسے گرتے پڑتے جائیں گے جیسے کسی پر شیطان سوار ہو کر اسے دیوانہ کر دے۔ جس سے وہ یکساں نہ چل سکیں گے۔ اس لئے کہ جب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے اور محشر کی طرف چلیں گے تو سب یہاں تک کہ کفار بھی درست چل پڑیں گے مگر سود خور کو چلنا پھرنا مشکل ہو گا اور یہی سود خور کی پہچان ہو گی۔

اللہ پاک سود خور کو آخرت میں ہلاک فرمائے گا۔ اس کی تمام تر نیکیاں برباد و مردود کر دی جائیں گی۔ کیونکہ خراب بیج کا پھل بھی خراب ہی ہوتا ہے اور سود خور کو اس کا مال نہ موت کے وقت کام آئے گا ۔نہ اس کے بعد کام آئے گا۔ چنانچہ (4) سرکارِ عالی وقار علیہ الصلوة والسلام کا ارشاد مبارکہ ہے کہ (ظاہری طور پر )سود اگرچہ زیادہ ہی ہو آخر کار اس کا انجام کمی پر ہوتا ہے۔

میرے پیارے اسلامی بھائیو! سود خور کے لیے دنیا اور آخرت میں عذاب رب قہار و جبار سے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ ہاں اگر شرعی تقاضوں کے مطابق توبہ کرے تو بچت کی صورت ہو سکتی ہے ۔ سود حرامِ قطعی ہے اور مالِ حرام میں کوئی بھلائی نہیں۔ بلکہ اس میں بربادی ہی بربادی ہے۔ مالِ حرام سے کیا گیا صدقہ نہ قبول ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے اور چھوڑ کر مرے عذاب جہنم کا سبب بنتا ہے۔ چنانچہ۔(5) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے لئے اُس میں برکت نہیں اور چھوڑ کر مرے گا تو جہنم میں جانے کا سامان ہے، الله پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے، بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔( المسند للامام احمد بن حنبل، مسند عبداللہ بن مسعود،2/34، حدیث: 3672)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! یہ تو احادیثِ طیبات کی روشنی میں سود کی مذمت اور اس

کے اخروی نقصانات بیان ہوئے۔ مگر یاد رکھیے سود کے نہ صرف اخروی نقصانات ہیں بلکہ سود کے دنیاوی اعتبار سے بھی بڑی نقصانات ہیں۔ مثلاً سود خور دنیا میں حاسد بن جاتا ہے جس کے سبب وہ دنیا میں بھی بے چین و بے قرار سا رہتا ہے۔ یوں ہی سود خور بے رحم ہو جاتا ہے۔ جس کے سبب وہ اپنے ہی حلقائے احباب میں ظالم و جابر ہونے کے سبب ذلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لوگ اس کے منہ پر اس کے شر سے بچنے کے لیے اس کے فیور میں کوئی بات کر بھی دیں مگر اس کے ساتھ مخلص نہیں ہوتے۔ سود خور گھر کے گھر تباہ کرتا ہے۔ سب کو اجاڑ کر اپنا گھر بناتا ہے اور مال کی محبت میں پاگلوں کی طرح مارا مارا گھومتا رہتا ہے۔ یہ بد نصیب دولت کا ہی ہو کر رہ جاتا ہے اور اپنے اہل و عیال پر بھی خرچ نہیں کرتا۔ یہ چند ایک دنیاوی اعتبار سے سود کے نقصانات عرض کیے۔ بہرحال سود کا دنیاوی لحاظ سے اگر چہ کوئی نقصان نہ بھی ہو۔ پھر بھی بندۂ مؤمن کو چاہیے کے کبھی بھی سود کے قریب تک نہ جائے۔ کیونکہ سود کھانا رب ذولجلال کے عذاب کو دعوت دینے اور خود کو جہنمی بنانے کہ مترادف ہے۔ آپ کو ہو سکتا ہے بہت سے ڈیڑھ ہوشیار بھی مل جائیں گے۔ اس میں کیا حکمت، تو اس میں کیا راز ہے۔ ایسوں کے لیے یہی جواب ہونا چاہیے کے بھائی ہم عقل کے نہیں خدا کے بندے ہیں۔ ہماری فلاح و کامرانی سودی لین دین سے بچنے اور رب ذولجلال احکم الحاکمین کےفیصلوں کے سامنے سر ِخم کرنے میں ہی ہے۔ اللہ پاک ہمیں ہمیشہ سود جیسی لعنت سے بچائے رکھے۔اٰمین بجاہ خاتم النبیین 


آج کے دور میں حصولِ مال کیلئے ایک ایسی دور شروع ہے کہ جس کے اندر اکثر لوگ جو یہ فکر کیے بغیر دوڑتے نظر آتے ہیں کہ آیا حصولِ مال کا یہ طریقہ حلال ہے یا حرام اور ان حرام طریقوں میں سے ایک انتہائی برا مذموم اور منحوس طریقہ سود بھی ہے۔ جس کو شریعتِ مطہرہ نے ممنوع اور حرام قرار دیا ہے ۔ گویا کہ یہ ایک ایسا ناسور ہے جس نے کئی انسانوں اور کئی ریاستوں اور کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے کر معیشت کو تباہ و برباد کر کے قرضوں کے بوجھ تلے دبا رکھا ہے ۔ آئیے اس گھناؤنی بیماری کی مذمت میں شریعتِ مطہرہ ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے ؟ اس کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔

سود کی تعریف : عقدِ معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔(بہار شریعت، 2/ 769) ر با یعنی سود حرام قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر کافر اور اس کو حرام سمجھ کر جو اس کا مرتکب ہو فاسق اور مردود الشہادۃ ہے۔(یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی)ارشا دباری: اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود۔ (پ3،البقرة : 275) اس کے علاوہ سورۃ ُالبقرہ آیت نمبر 276 اور 278 اور سورۂ آل عمران کی آیت نمبر 130 میں بھی سود کی ممانعت آئی ہے ۔

سود کی مذمت میں بکثرت احادیث وارد ہیں، آئیے ان میں سے پانچ فرامینِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کرتے ہیں ۔(1)خون کا دریا : حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ آج رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمین مقدس (بیت المقدس) میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے، یہاں ایک شخص کنارہ پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے، یہ کنارہ کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اُس کے منہ میں مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارہ والا منہ میں پتھر مارکر وہیں لوٹا دیتا ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا، یہ کون شخص ہے؟ کہا، یہ شخص جو نہر میں ہے، سود خور ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، باب اکل ربا و شاھدہ وکاتبہ ،2/14،حدیث: 2085)

(2) ستر گناہوں کا مجموعہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود (کا گناہ) ستر حصہ ہے ، ان میں سے سب سے کم درجہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زِنا کرے ۔ (سنن ابنِ ماجہ، 3/72، حدیث:2274)(3)وہ سب برابر ہیں : عن جابر لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲ اٰکِلَ الرِّبَا وَمُوْکِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاھِدَیْہِ، وَقَالَ: ھُمْ سَوَاءٌ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ تمام لوگ برابر ہیں۔(صحیح مسلم ،ص862،حدیث:106)

(4) 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا : حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے۔ سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔(شعب الایمان، 6/ 395،حدیث: 5523)(5)ایک زمانہ ایسا آئے گا : حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی،ہے کہ حضور خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ سود کھانے سے کوئی نہیں بچے گا اور اگر سود نہ کھائے گا تو اس کے بخارات پہنچیں گے۔(سنن ابی داؤد، کتاب البیوع ،2/331،حدیث: 3331)

مدنی التجا: سود کے بارے میں مزید معلومات کیلئے مکتبۃ المدینہ کا شائع کردہ رسالہ سود اور اس کا علاج مطالعہ فرمائیں۔ الله پاک ہمیں سود سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے معاشرے کو بھی سود کی آفت سے محفوظ فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


سود بہت ہی بری صفت ہے اور اس کی مذمت بہت سخت انداز میں بیان کی گئی ہے اور اس پُر فتن دور بعض لوگ سود (Interest) کے بارے میں بہت کلام کرتے ہیں اور طرح طرح سے سودی معاملات میں راہیں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ سود کی اتنی سخت روایات اور وعیدوں کی کیا حکمت ہے، کبھی کہتے ہیں اگر سودی کاروبار بند کر دیں گے تو بین الاقوامی منڈی ( International Market ) کیسے کر سکیں گے ؟ کبھی کہتے ہیں دوسری قوموں سے پیچھے رہ جائیں گے اور کبھی انتہائی کم شرح سود کی آڑ لے کر لوگوں کو اکساتے ہیں۔ طرح طرح کی بدترین راہیں کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو کہ قرآن و حدیث کے بالکل خلاف ہیں۔ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنت، مجددِ دین و ملت، پروانۂ شمعِ رسالت، مولانا الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں اسی قسم کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: کافروں نے اعتراض کیا تھا : (اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-) بےشک بیع بھی تو سود کی مثل ہے۔ تم جو خریدو فروخت کو حلال اور سود کو حرام کرتے ہو ان میں کیا فرق ہے؟ بیع میں بھی تو نفع لینا ہوتا ہے۔ یہ اعتراض نقل کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ نے الله پاک کا یہ فرمان نقل کیا: (وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- ) یعنی الله نے حلال کی بیع اور حرام کیا سود۔ اور پھر ارشاد فرمایا: تم ہوتے ہو کون؟ بندے ہو، سرِ بندگی خم کرو۔ حکم سب کو دیئے جاتے ہیں، حکمتیں بتانے کے لئے سب نہیں ہوتے، آج دنیا بھر کے ممالک میں کسی کی مجال ہے کہ قانون ملکی کی کسی دفعہ پر حرف گیری کرے کہ یہ بےجا ہے، یہ کیوں ہے؟ یوں نہ ہونا چاہئے، یوں ہونا چاہئے۔ جب جھوٹی فانی مجازی سلطنتوں کے سامنے چون وچرا کی مجال نہیں ہوتی تو اس ملک الملوک، بادشاہِ حقیقی، اَزَلی، اَبدی کے حضور کیوں اور کس لئے، کا دم بھرنا کیسی سخت نادانی ہے۔(فتاوی رضویہ، 17/ 359) اور جو ان احکامات کو قید و بند سے تعبیر کرتا ہے کہ یہ کیسی قیود ہم پر لازم کر دی گئیں؟ اسے اعلیٰ حضرت ،مجددِ دین و ملت رحمۃُ اللہ علیہ سمجھا رہے ہیں: جو آج بے قیدی چاہے کل نہایت سخت قید میں شدید قید میں گرفتار ہو گا۔ اور جو آج احکام کا مُقیَّد رہے کل بڑے چَین کی آزادی پائے گا۔ اس کے بعد ارشاد فرماتے ہیں کہ دنیا مسلمان کے لئے قید خانہ ہے، کافر کے لئے جنت، مسلمانوں سے کس نے کہا کہ کافروں کی اموال کی وسعت اور طریقِ تحصیلِ آزادی اور کثرت کی طرف نگاہ پھاڑ کر دیکھے۔ اے مسکین !تجھے تو کل کا دن سنوارنا ہے: یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ(۸۸) اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ(۸۹) ترجمۂ کنزالایمان: جس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے مگر وہ جو اللہ کے حضور حاضر ہوا سلامت دل لے کر ۔( پ19، الشعراء : 89،88)

اے مسکین! تیرے رب نے پہلے ہی تجھے فرما دیا ہے: وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ﳔ لِنَفْتِنَهُمْ فِیْهِؕ-وَ رِزْقُ رَبِّكَ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى(۱۳۱) اپنی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ اس دنیاوی زندگی کی طرف جو ہم نے کافروں کے کچھ مردوں و عورتوں کے برتنے کو دی تا کہ وہ اس کے فتنہ میں پڑ ے رہیں اور ہماری یاد سے غافل ہوں اور تیرے رب کا رزق بہتر ہے اور باقی رہنے والا۔ (فتاوی رضویہ، 17/ 360)(ماخوذ سود اور اس کا علاج ص 18 تا 20 )

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ کے اس مکمل کلام سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سود کو ترک (چھوڑنا ) اور بہتر مال کو استعمال کرنا مسلمانوں پر لازم ہے اور اللہ پاک کے فرا مین بھی اس بات پر دلالت کرتے ہیں اور اب کچھ احادیث کی روشنی میں سود کی مذمت ملاحظہ کیجئے۔

(1) حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ ( کتاب الکبائر للذھبی،الکبیرة الثانیہ عشرہ، ص69)(2) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جس قوم میں سودہ پھیلتا ہے۔ اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔ ( کتاب الکبائر للذھبی،الکبیرة الثانیہ عشرہ، ص70)

(3) حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے، سود کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں ۔(صحیح مسلم،ص862، حدیث: 1598)(4)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ، ان میں سے کمترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(المعجم الاوسط، 5/227،حديث: 7151)

مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ الله پاک کے معاملہ میں چون و چرا کرے اور کفار کے مال کی فراوانی دیکھ کر اپنے آپ کو حرام روزی میں مبتلا کرے، مگر ہائے افسوس! صد کروڑ افسوس! آج مسلمان بے باکی کے ساتھ گناہوں کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اور دنیا کی زیب و زینت میں اس قدر منہمک ہوتا جا رہا ہے کہ اسے اس بات کی بھی پرواہ نہیں رہی کہ جو قرض (Loan) لے رہا ہے وہ سود (Interest) پر مل رہا ہے یا بغیر سود(Interest)۔ مثلاً : ”بیٹی کی شادی کرنا ہے؟ کیوں پریشان ہو؟“ پریشان اس لئے ہو رہا ہوں کہ سادگی سے شادی تو کر لوں گا لیکن یہ رسومات (Customs, Traditions)، یہ ڈھولک، یہ مہندی، یہ ناچ گانا، یہ باجے، یہ کئی کئی ڈِشوں کا کھانا اور پھر بہت سے لوگوں کو جمع کر کے اپنی شہرت چاہنے کی ہوس۔ اس کیلئے تو بہت بڑی رقم چاہئے۔ تو کوئی مشورہ دیتا ہے:”کیوں پریشان ہوتے ہو؟ تم بھی اپنی بیٹی کی شادی کر لو گے، پریشان مت ہو، قرض دینے والے ادارے بہت ہیں، قرض لے لو، سود دے دینا۔

ہمیں کیا ہو گیا ہے ؟ ارے مال و دنیا اور بیوی بچوں کی بے جامحبت نے اتنا اندھا کر دیا کہ سودی کاروبار اور سودی لین دین میں پڑ گئے۔ اگر الله پاک ناراض ہو گیا اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم روٹھ گئے اور سود کی وجہ سے عذاب نے آلیا تو کیا کریں گے؟

الله پاک ہمیں تمام گنا ہوں محفوظ فرمائے بالخصوص سود سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


میٹھے اور پیارے اسلامی بھا ئیو ! موجودہ دور میں سود معاشرے کا ایک ناسور بن چکا ہے جس کے برے اثرات سے اکثر لوگ متاثر ہیں۔ اسے مختلف ناموں سے کھایا اور معاشرہ کے متوسط اور پسماندہ طبقے کے افراد کا ناحق خون چوسا جاتا ہے۔ یہ عصرِ حاضر کا ایک حساس موضوع ہے۔ جسے سمجھنے سمجھا نے اس کی باریکیوں کو جاننے اور اس سلسلہ میں صحیح اسلامی تعلیمات نیز سودی لین دین کاروبار یا اس میں کسی بھی طرح کا تعاون کرنے کے سلسلہ میں جو احادیث میں وعیدیں وارد ہیں انہیں بیان کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کثیر احادیثِ مبارکہ میں سود کی بھر پور مذمت فرمائی گئی ہے۔ چنانچہ (1) شہنشاہِ مدینہ ، سرورِقلب وسینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے : سات چیزوں سے بچو جو کہ تباہ وبرباد کرنے والی ہیں۔ “ صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم نے عرض کی : یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!وہ سات چیزیں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا : (1)شرک کرنا(2)جادو کرنا (3)اسے ناحق قتل کرنا کہ جس کا قتل کرنا اللہ پاک نے حرام کیا (4)سود کھانا (5)یتیم کا مال کھانا (6) جنگ کے دوران مقابلہ کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا (7)اور پاکدامن ، شادی شدہ ، مؤمنہ عورتوں پر تہمت لگانا۔(صحیح البخاری کتاب الوصایا باب ان الذین یاکلون اموال الیتیم الخ،2/ 242، حدیث :2766)

(2) حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ ( کتاب الکبائر للذھبی،الکبیرة الثانیہ عشرہ، ص69)(3) نبیوں کے سلطان سرور ذیشان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے ۔ (کتاب الکبائر للذھبی ، الکبیرۃ الثانیۃ عشرۃ ،ص 70)

(4) حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں ، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا، اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟ اُنہوں نے کہا، یہ سود خور ہیں۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب التجارات،باب التغلیظ في الربا،3/72،حدیث: 2273)(5) حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے، سود کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں ۔(صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب لعن آکل الربوا… الخ،ص862، حدیث: 1598)


سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں۔ جس کا لغوی معنی ہے زیادتی۔ فتاوی رضویہ میں ہے : حدیث پاک میں ہے کہ حضور علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: : کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً فَھُوَ رِباً یعنی قرض سے جو فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔ (فتاویٰ رضویہ،17/713)سود کھانے سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے ۔ اللہ کریم قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود نہ کھاؤ ۔ (پ4،اٰل عمران : 130)اس آیتِ مبارکہ میں سود کھانے سے منع فرمایا گیا اور سود کو حرام قرار دیا گیا۔ سود حرام قطعی ہے اسے حلال جاننے والا کا فر ہے۔ سود کے بارے میں احادیثِ مبارکہ میں بھی سخت وعیدیں آئی ہیں ۔ سود کی مذمت پر 5 احادیثِ مبار کہ درج ذیل ہیں:۔(1)پیٹ میں سانپ : نبیٔ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آ رہے تھے، میں نے حضرت جبرئیل علیہ السّلام سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(ابن ماجہ، 3/ 71، حدیث: 2273)

(2)اپنی ماں سے زنا : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا گناہ 73درجے ہے ، ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، 2/338، حدیث: 2306)(3)سب برابر گناہ گار ہیں: حضرت جابر سے روایت ہے کہ اللہ کے آخری نبی نے ارشاد فرمایا: لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲ اٰکِلَ الرِّبَا وَمُوْکِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاھِدَیْہِ، وَقَالَ: ھُمْ سَوَاءٌ یعنی رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ تمام لوگ برابر ہیں۔( مسلم ،ص663،حدیث:4093)

کرلے تو بہ رب کی رحمت ہے بڑی

قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی

(4)برباد کر دینے والی سات چیزیں: اللہ کے آخری نبی نے فرمایا: ہلاک کرنے والی سات گناہوں سے بچو! صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے استفسار کیا کہ یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہ سات چیزیں کیا ہیں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:(1) شرک کرنا،(2) جادو کرنا، (3) کسی کو ناحق قتل کرنا،(4) سود کھانا، (5)یتیم کا مال کھانا، (6)میدانِ جنگ سے راہِ فرار اختیار کرنا اور(7) پاک دامن شادی شدہ مؤمنہ عورتوں پر بہتان لگانا۔ (صحیح البخاری کتاب الوصایا باب ان الذین یاکلون اموال الیتیم الخ، حدیث :2766)(5) بروزِ قیامت سودخور کی حالت: حضرت سیدُنا عوف بن مالک رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن سود خور کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ دیوانہ و مخبوط الحواس ہو گا۔ (المعجم الکبیر ،18/60، حدیث:110)

سود و رشوت میں نحوست ہے بڑی نیز دوزخ میں سزا ہو گی کڑی

پیارے اور میٹھے اسلامی بھائیو! آپ نے پڑھا کہ سود خور کے لیے قراٰن و حدیث میں کیا کیا وعیدیں آئی ہیں اور یاد رکھیں۔ آپ دنیا میں جتنا بھی مال کمالیں سارا کا سارا مال دنیا میں ہی رہ جانا ہے اور آپ اپنے ساتھ کچھ بھی لے کر نہیں جا سکیں گے۔ حرام طریقے سے کمانے پر آپ کو قبر و حشر میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سود خور جتنا مرضی مال جمع کر لے لیکن اس کی تمنا ،اس کا دل کبھی نہیں بھرے ۔ حدیث پاک میں ہے کہ اگر انسان کے لیے مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کی تمنا کرے گا اور انسان کے پیٹ کو صرف مٹی ہی بھر سکتی ہے اور جو شخص تو بہ کرتا ہے اللہ اس کی تو بہ کو قبول فرماتا ہے۔ (مسلم شریف ، کتاب الزکوۃ ، حدیث :1048)

پیارے اسلامی بھا ئیو ! آپ نے کبھی بھی کسی مالدار کر یہ کہتے ہوئے نہیں سنا ہوگا کہ اب بہت مال کما لیا، بلکہ وہ مزید مال کمانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اور اسی طرح کوئی عالم ایسا نہیں ملے گا کہ جو یہ کہے: بہت پڑھ لیا، اب مجھے مزید پڑھنے کی حاجت نہیں۔ بلکہ ہر عالم مزید علم کی طلب میں رہتا ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں بھی آیا ہے رسولُ اللہ نے ارشاد فرمایا :دو حریص کبھی سیر نہیں ہو سکتے، ایک مال کا حریص اور دوسرا علم کا حریص۔( المستدرک للحاکم، 1/282، حدیث: 318)

اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں علم کا حریص بنائے۔ مال کی حرص سے محفوظ فرمائے۔ خود کا کام کرنے اور سود کے کام میں معاونت کرنے سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مال و دولت کی دعا ہم نہ خدا کرتے ہیں ہم تو مرنے کی مدینے میں دعا کرتے ہیں