اسلام میں سود قطعی طور پر حرام ہے،کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے معاشی استحصال،مفت خوری، خود غرضی، حرص و طمع،تنگ دستی،تنگ دلی جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں۔قرآن مجید میں ارشاد ہے:جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر پاگل بنا دیا ہو۔

سود کی تعریف:سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا،پروان چڑھنا اور بلندی کی طرف جانا ہے۔شرعی اصطلاح میں سود کی تعریف یہ ہے کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت کچھ زیادہ لے گا،مثلا کسی کو سال یا چھ ماہ کے لیے 100 روپے قرض دے تو اس سے یہ شرط کر لی کہ وہ 120 روپے لے گا،مہلت کے عوض یہ جو 20 روپے زیادہ لیے گئے ہیں یہ سود ہیں۔

احادیث مبارکہ:

1۔حضور ﷺ نے سود لینے والوں،سود دینے والوں،سودی دستاویز لکھنے والوں اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔(مسلم شریف)

2۔سود میں 70 گناہ ہیں سب سے ہلکا گناہ ایسا ہے جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(ابن ماجہ)

3۔سود کا ایک درہم جسے آدمی جان بوجھ کر کھائے اس کا گناہ 36 بار زنا کرنے سے زیادہ ہے۔(احمد،دار قطنی،مشکوٰۃ)

4۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:شب معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح ہیں ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں،میں نے پوچھا:اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ سود خور ہیں۔(مسند احمد،ابن ماجہ)

5۔جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی کو ہلاک کرنے کا حکم دیتا ہے۔(ابن ماجہ)

سود کے نقصانات:سود خوری کی وجہ سے وہ قومیں جو دیکھتی ہیں کہ ان کا سرمایہ سود کے نام پر دوسری قوم کی جیب میں جا رہا ہے ایک خالص بغض و کینہ اور نفرت سے قوم کو دیکھیں گی،سود خوری اخلاقی نقطہ نظر سے قرض لینے والے کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالتی ہے،سود خوری کی وجہ سے افراد اور قوموں کے درمیان اجتماعی تعاون ڈھیلا پڑ جاتا ہے،سود خوری معاشرے کے اقتصادی اعتدال کو تباہ و برباد کر دیتی ہے،سود دلوں میں کینے اور دشمنی کا بیج بوتی ہے،سود خوری کی وجہ سے مقروض خود کشی کر لیتا ہے اور کبھی شدید کرب سے دو چار ہو کر سود خوار کو خطرناک طریقے سے قتل کر دیا جاتا ہے۔

سود سے بچنے کی ترغیب:سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے اس کی حرمت کا منکر یعنی اس کے حرام ہونے کا انکار کرنے والا کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق اور مردود الشہادۃ ہے۔

اللہ پاک نے مسلمانوں پر سود کو حرام قرار دیا ہے اور جو بد نصیب یہ جاننے کے باوجود بھی سودی لین دین جاری رکھے تو گویا وہ اللہ پاک اور کے رسول ﷺ سے جنگ کرنے والا کام ہے،زندگی بے حد مختصر ہے،اس کا کوئی بھروسا نہیں تو آئیے دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے نیک اعمال کر لیں اور ان تمام برائیوں سے معافی مانگ لیں،موت کو کثرت سے یاد کریں،ہم سب کے لیے اسی میں فائدہ ہے کہ اللہ و رسول کے فرامین کی پیروی کریں اور موت کو کثرت سے یاد کریں۔

اللہ پاک ہمیں نیک کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور برے اور حرام کاموں سے ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھے۔آمین


سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے،اس کی حرمت کا منکر کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق اور مردود الشہادہ ہے،اللہ پاک نے قرآن پاک میں بھی سود کی مذمت فرمائی ہے اور عذابات بیان کئے ہیں اور اللہ پاک سود کو ہلاک کرتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔

کثیر احادیث مبارکہ میں سود کی بھرپور مذمت فرمائی گئی ہے۔

1۔شہنشاہ مدینہ ﷺؑ نے فرمایا:سات چیزوں سے بچو جو کہ تباہ و برباد کرنے والی ہیں،صحابۂ کرام نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ وہ سات چیزیں کیا ہیں؟ارشاد فرمایا: شرک کرنا،جادو کرنا،اسے ناحق قتل کرنا کہ جس کا قتل کرنا اللہ نے حرام کیا،سود کھانا،یتیم کا مال کھانا،جنگ کے دوران مقابلہ کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا اور پاک دامن و شادی شدہ مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔(صحیح بخاری،2/242،حدیث:2766)

2۔جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 69)

3۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 70)

4۔سود کے 70 دروازے ہیں ان میں سے کم تر ایسا ہے جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(شعب الایمان،4/394،حدیث: 5520)

5۔نبی کریم ﷺ نے سود کھانے والے،کھلانے والے،اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔(صحیح مسلم،ص 862،حدیث:1598)

یہ بات حقیقت ہے کہ سود خور کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے جنگ کا اعلان ہے اور سود خور بے رحم ہو جاتا ہے اور سود کمانے والے کا مال اسے کوئی نفع نہیں دیتا اور سود سے معیشت برباد ہو جاتی ہے،حرام کھانے سے دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔اللہ کی پکڑ بہت شدید ہے،لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم سود سے بچیں اور قرآن و حدیث کے فرامین پر عمل کر کے جنت میں جانے کا ذخیرہ کریں۔


مال اللہ پاک کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے جس کے ذریعے انسان اللہ کے حکم سے اپنی دنیاوی نعمتوں کو پورا کرتا ہے لیکن شریعتِ اسلامیہ نے اس بات کی تلقین کی ہے کہ صرف جائز و حلال طریقے سے مال کمائے کیونکہ کل قیامت کے دن ہر شخص کو مال کے متعلق اللہ پاک کو جواب دینا ہوگا کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اگر ہمارے مال میں سود ہوگا تو کل بروز قیامت اللہ پاک کو کیا منہ دکھائیں گے اور اللہ کے عذاب سے کیسے چھٹکارا پائیں گے، سود ایک حرام کردہ مال ہے جس سے ہم تھوڑے عرصے کے لیے تو نفع حاصل کر لیتے ہیں لیکن بعد میں دنیا میں بھی رسوائی اور کل بروز قیامت بھی رسوائی ہوگی۔

قرآن پاک کی روشنی میں سود کی مذمت:بلاشبہ سود اسلام میں قطعی طور پر حرام ہے، کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا ذریعہ بھی ہے، اسی وجہ سے قرآن مجید میں سود سے منع کیا گیا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) (پ 4، اٰل عمران:130) ترجمہ:اے ایمان والو! دونا دون (یعنی دگنا دگنا) سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تا کہ فلاح پاؤ۔

سود کی وجہ سے اگرچہ بظاہر مال میں اضافہ ہوتا ہے لیکن در حقیقت وہ مال میں نقصان، بے برکتی اور ناگہانی آفات کا باعث ہوتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ(۲۷۶) (پ 3، البقرۃ: 276)ترجمہ: اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور نا شکرے گنہگار کو اللہ دوست نہیں رکھتا۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں سود کی مذمت:

1۔آپ ﷺ نے سود کو ہلاک خیز عمل قرار دیا ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:سات ہلاک کرنے والی باتوں سے دور رہو، لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ کون سی باتیں ہیں؟ فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور جادو کرنا اور اس جان کو ناحق مارنا جس کو اللہ نے حرام کیا ہے اور سود کھانا اور یتیم کا مال کھانا اور جہاد سے فرار (یعنی بھاگنا) اور پاک دامن بھولی بھالی مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔

2۔جس بستی میں سود پھیلتا ہے وہ بستی سود کی وجہ سے ہلاک و برباد ہو جاتی ہے، حدیث پاک میں ہے:جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی، ص 69)

3۔ سود کا گناہ ماں سے زنا کرنے سے بھی بد تر ہے، حدیث پاک میں ہے: سود میں 70 گناہ ہیں سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(سنن ابن ماجہ، 2/763، حدیث: 2274)


یوں تو معاشرے میں بہت سی برائیاں پائی جاتی ہیں، مگر سود بہت بڑی معاشرتی بیماری ہے جو بہت سی دوسری برائیوں کے دروازے کھولتی ہے۔ اللہ کریم ہمارے معاشرے کو سود سے پاک فرمائے۔

سود کی تعریف: عقد معاوضہ یعنی لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل یعنی بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔

اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع جو فائدہ حاصل ہو وہ سب بھی سود ہے۔

5 فرامین مصطفیٰ:

1۔ فرمان مصطفیٰ: رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمین مقدس (بیت المقدس) میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے یہاں ایک شخص کنارے پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے یہ کنارے کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اس کے منہ پر مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارے والا منہ پر پتھر مار کر وہیں لوٹا دیتا ہے، میں نے پوچھا: یہ کون شخص ہے؟ کہا: یہ شخص جو نہر میں ہے سود خوار (یعنی سود کھانے والا) ہے۔(بخاری، ص 543، حدیث: 2085)

2۔ رسول کریم ﷺ نے سود دینے والے، لینے والے، اس کے کاغذات تیار کرنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر ہیں۔

3۔ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی، ص 69)

4۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آرہے تھے،میں نے جبرائیل سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے عرض کی:یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(ابن ماجہ،3/71، حدیث: 2273)

5۔ اللہ تعالیٰ سود خور کا نہ صدقہ قبول کرے، نہ حج، نہ جہاد، نہ رشتے داروں سے حسن سلوک۔

سود کے چند معاشرتی نقصان: سود کا رواج تجارتوں کو خراب اور کم کر دیتا ہے، سود کے رواج سے باہمی محبت کے سلوک کو نقصان پہنچتا ہے، سود خور اپنے مقروض کی تباہی و بربادی کا خواہش مند رہتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی سود میں اور بڑے بڑے نقصان ہیں۔

سود سے بچنے کا درس: ہمیں سود سے بچنا چاہیے، سود کے عذابات اور نقصانات کو ذہن نشین فرما کر عذابِ الٰہی سے ڈرنا چاہیے۔ اے ایمان والو! دگنا در دگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے۔ اس آیت میں سود کو حرام قرار دیا گیا، چنانچہ فرمایا: اے ایمان والو! دگنا در دگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرتے ہوئے سودی لین دین چھوڑ دو کہ اس کا ثواب پا کر آخرت میں کامیاب ہو جاؤ۔

سود حرام قطعی ہے اسے حلال جاننے والا کافر ہے اس سے ہر مسلمان کو بچنا چاہیے۔ اللہ پاک ہمیں سود سے بچائے اور حلال مال حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے وہ یہ ہے کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے۔

سود کی تعریف:فقہا نے لکھا کہ سود اس اضافہ کو کہتے ہیں جو دو فریق میں سے ایک فریق کو مشروط طور پر اس طرح ملے کہ وہ اضافہ عوض سے خالی ہو۔(ہدایہ)

احادیث مبارکہ:

1۔جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 69)

2۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 70)

3۔سرکار ﷺ فرماتے ہیں:شب معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح بڑے بڑے تھے جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے،میں نے جبرائیل سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟انہوں نے عرض کی یہ سود خور ہیں۔(ابن ماجہ،3/72)

4۔اللہ کے محبوب ﷺ نے سود کھانے والے،کھلانے والے،اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم،ص 862،حدیث:1598)

5۔بےشک سود کے 72 دروازے ہیں ان میں سے کمترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔ (معجم اوسط،5/27، حدیث:7151)

سود کے بہت سے معاشرتی نقصانات بھی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں کہ سود سے معیشت برباد ہوجاتی ہے، سود کی نحوست سے جب انڈسٹری کو نقصان پہنچتا ہے تو تجارت میں کمی واقع ہوتی ہے اور اس طرح بے روزگاری بڑھتی ہے اور جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔

پیاری اسلامی بہنو! سود حرام ہے اور ہم نے احادیث میں بھی اس کی مذمت ملاحظہ کی ہمیں چاہیے کہ ہم اس سے بچیں،اپنے دل سے دنیا کے مال و دولت کی محبت کو نکالیں کیونکہ اس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ حقیقی دولت تقویٰ و پرہیزگاری ہے،خوف خدا اورعشق رسول ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو سود جیسی لعنت سے محفوظ فرمائے۔آمین



فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہے،آئیے سود کا شرعی حکم جانتے ہیں کہ سود حرام قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر کافر ہے،جس طرح سود لینا حرام ہے اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ- پ 3،البقرۃ:275)ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط کر دیا ہو۔ سود کی تعریف ملاحظہ ہو:

سود کی تعریف:سود کا لفظی معنی اضافہ کرنا ہے،عقد معاوضہ یعنی لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع و فائدہ حاصل ہو وہ سب سود ہے۔ آئیے سود کی مذمت پر 5 فرامین مصطفیٰ پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں

فرامین مصطفیٰ:

1۔سات گناہوں سے بچتے رہو؛اللہ پاک کے ساتھ شرک کرنا،جادو کرنا،اس جان کو قتل کرنا جس کا قتل اللہ پاک نے حرام قرار دیا ہے سوائے حق کے،سود خوری،یتیم کا مال کھانا،کافروں سے مقابلے کے دن بھاگ جانا،پاک دامن اور بھولی بھالی مسلمان عورت پر بد کاری کی تہمت لگانا۔(بخاری،2/719،حدیث:2766)

2۔جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی، ص 69)

3۔جس بستی میں زنا اور سود ظاہر ہو جائے تو انہوں نے اپنے لیے اللہ کے عذاب کو حلال کر لیا۔(مستدرک، 2/339،حدیث: 2308)

4۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس شب مجھے معراج میں سیر کروائی گئی میں نے ایک جماعت دیکھی جس کے پیٹ کمروں کے مانند تھے ان میں بہت سے سانپ پیٹوں کے باہر سے دکھائی دے رہے تھے،میں نے کہا جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟کہا کہ سود خور ہیں۔(سنن ابن ماجہ،3/72،حدیث:2273)

5۔رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمین مقدس (بیت المقدس) میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے یہاں ایک شخص کنارے پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے یہ کنارے کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اس کے منہ پر مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارے والا منہ پر پتھر مار کر وہیں لوٹا دیتا ہے،میں نے پوچھا:یہ کون شخص ہے؟کہا یہ شخص جو نہر میں ہے سود خور ہے۔(بخاری،ص 543،حدیث:2085)

سود کے معاشرتی نقصانات:سود خور حاسد بن جاتا ہے جس سے معاشرے میں حسد جیسا گناہ بھی عام ہو جائے گا،سود خور بے رحم ہو جاتا ہے اسے کسی پر ترس نہیں آتا کیونکہ سود نے اس کے قلب کو کالا کر دیا ہے،سود خور مال کا حریص ہو جاتا ہے اور گھر کے گھر برباد کرتا ہے سب کو اجاڑ کر اپنا گھر بناتا ہے۔

بچنے کی ترغیب:یاد رکھیے! آخرت میں ایک ایک ذرے کا حساب ہوگا اور اللہ کی پکڑ بڑی شدید ہے تو جہاں تک ممکن ہو سکے سودی کاروبار وغیرہ سے خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے،کاش ہمارے پیش نظر موت کا تصور ہو جائے اور اس دنیا کی عارضی زندگی میں مدنی سوچ نصیب ہو جائے،اے کاش مال جمع کرنے کی ہوس ہم سب کے دلوں سے نکل جائے،سود کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے مکتبۃ المدینہ کے رسالہ سود اور اس کا علاج کا مطالعہ فرمائیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں سود جیسے گناہ سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔آمین


پیاری اسلامی بہنو! سود کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے آئیے سب سے پہلے جانتے ہیں کہ کبیرہ گناہ سے کیا مراد ہے؟ راجح اور مدلل قول یہ ہے کہ جو شخص گناہوں میں سے کسی ایسے گناہ کا ارتکاب کرے جس کا بدلہ دنیا میں حد ہے،مثلا قتل،زنا یا چوری کرے یا ایسا گناہ کرے جس کے متعلق آخرت میں عذاب یا غضبِ الٰہی کی وعید ہو یا اس گناہ کے مرتکب پر ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی زبان سے لعنت کی گئی ہو تو وہ کبیرہ گناہ ہے۔(76 کبیرہ گناہ،ص 17)

قرآن مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآىٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا(۳۱) (پ 5، النساء: 31) ترجمہ کنز الایمان: اگر بچتے رہو کبیرہ گناہوں سے جن کی تمہیں ممانعت ہے تو تمہارے اور گناہ ہم بخش دیں گے اور تمہیں عزت کی جگہ داخل کریں گے۔اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے کبیرہ گناہوں سے بچنے والے شخص کو جنت میں داخل فرمانے کا ذمہ لیا ہے،گناہ کبیرہ کی تعداد کے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے، بعض کا قول ہے کہ گناہ کبیرہ 7 ہیں، ان حضرات نے حضور اکرم ﷺ کے اس فرمان سے دلیل لی ہے؛ فرمایا: سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو،پھر آپ ﷺ نے ان 7 گناہوں کا تذکرہ فرمایا: شرک، جادو کرنا، ناحق کسی جان کو قتل کرنا، یتیم کا مال کھانا، سود کھانا، جنگ کے دوران میدان سے بھاگ جانا، پاک دامن کو زنا کی تہمت لگانا۔

قارئین! ابھی جو ہم نے حدیث ملاحظہ کی اس میں بیان ہوا کہ کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ سود ہے،بد قسمتی سے آج کل ہمارے معاشرے میں سود بہت عام ہو چکا ہے،بات کریں تجارت کی تو سودی کاروبار،بات کریں بینکوں کی سودی لین دین، بات کریں قرض کی تو سودی شرائط ،بات کریں کمپنیوں کی تو بہت ہی کم ایسی کمپنیاں ہیں جو 100 فیصد سود سے پاک ہوں،اِدھر سود اُدھر سود ہمارا معاشرہ چاروں طرف سے سود میں گھرا ہوا ہے۔ اللہ پاک ہمیں سود سمیت تمام گناہوں سے بچائے۔آئیے سود کی مذمت پر فرامین مصطفیٰ سنتے ہیں، قارئین ملاحظہ کیجیے اور غور کریں کہ اگر معاذ اللہ آپ بھی سود کی آفت میں پھنسے ہیں تو فوراً سے پیشتر پکی توبہ کر لیں۔

فرامین مصطفیٰ:

1۔اللہ پاک نے سود لینے والے اور دینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔(مسلم،ص 862، حدیث: 1597)

2۔سود لینے والا،دینے والا،سود کی تحریر لکھنے والا جبکہ سود جان کر یہ کام کرتے ہوں قیامت تک حضور ﷺ کی زبان پر انہیں ملعون کہا گیا۔(نسائی، ص 815، حدیث:5114)

3۔سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو، صحابۂ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ وہ کون سے گناہ ہیں؟ ارشاد فرمایا: شرک کرنا، جادو کرنا،ناحق کسی جان کو قتل کرنا، یتیم کا مال کھانا،سود کھانا، میدان جہاد سے بھاگ جانا، پاک دامن عورت کو زنا کی تہمت لگانا۔(مسلم، ص 65، حدیث: 89)

4۔سود کا گناہ 73 درجے ہیں ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، 20/338، حدیث: 4356)

5۔سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔(شعب الایمان، 4/395، حدیث:5523)

قارئین محترم! دیکھا آپ نے سود کی کتنی مذمت ہے،لہٰذا نیت کر لیں کہ نہ سود کھائیں گے، نہ کھلائیں گے، سود میں ہر طرح سے پڑنے سے بچیں گے۔

اللہ کریم ہمارے معاشرے کو سود جیسی بری عادت خصلت سے بچا کر ہمارے معاشرے کو پاک و صاف کرے اور ہم سب کو بھی سود سے بچائے۔آمین


فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے ان میں ایک اہم ترین برائی جو ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے وہ یہ کہ کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہوگیا ہے،لہٰذا آئیے اس بھیانک بیماری کے بارے میں سنتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔

سود کی تعریف:عقد معاوضہ یعنی لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع جو فائدہ حاصل ہو وہ سب سود ہے۔

حکم:سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

فرامین مصطفیٰ:

1۔ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر،ص 69)

2۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 70)

3۔سود کے 70 دروازے ہیں ان میں سب سے کم تر ایسا ہے جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(شعب الایمان،ص 394،حدیث:5560)

4۔قیامت کے دن سود خور کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ دیوانہ و مخبوط الحواس ہوگا۔(معجم کبیر، 18/20،حدیث:110)یعنی سود خور قبروں سے اٹھ کر حشر کی طرف ایسے گرتے پڑتے جائیں گے جیسے کسی پر شیطان سوار ہو کر اسے دیوانہ کر دیا جس سے وہ یکساں نہ چل سکیں گے اس لیے کہ جب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے اور محشر کی طرف چلیں گے تو سب یہاں تک کہ کفار بھی درست چل پڑیں گے مگر سود خور کو چلنا پھرنا مشکل ہوگا اور یہی سود خور کی پہچان ہوگی۔

5۔لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی پرواہ بھی نہ کرے گا کہ اس چیز کو کہاں سے حاصل کیا ہے حلال سے یا حرام سے۔ (بخاری،2/14،حدیث:2083) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا مالِ حرام میں کوئی بھلائی نہیں اس میں بربادی ہی بربادی ہے مال حرام سے کیا گیا صدقہ قبول ہوتا ہے نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے اور چھوڑ کر مرے تو عذاب جہنم کا سبب بنتا ہے۔

نقصانات:سود کا لین دین کرنے سے اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ ناراض ہوتے ہیں،سود خور کا صدقہ جہاد اور حج قبول نہیں ہوتا،سود خور گھر کے گھر تباہ کر دیتا ہے،سود کی نحوست لمبی امیدوں کی وجہ سے ہوتی ہے اپنے آپ کو سود جیسی نحوست سے بچانے کے لیے خود کو لمبی امیدوں سے پاک رکھنا ہوگا،اللہ پاک ہمیں حلال رزق کھانے کی توفیق عطا فرمائے اور سود کی نحوست سے محفوظ رکھے۔


سود ایک اجتماعی جرم ہے،یہ معاشرے میں ایسی بیماری ہے جو اگر پھیل جائے تو وہ معاشرہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے،سود خور کا انجام دنیا میں بھی باعث عبرت ہے اور آخرت میں تو رب تعالیٰ نے سود خور سے دردناک عذاب کا وعدہ فرمایا ہے اور وہ اپنا وعدہ ضرور پورا فرماتا ہے۔

سود کیا ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس قرض سے کچھ نفع لیا جائے وہ سود ہے۔(سود اور اس کا علاج،ص 4)یعنی قرض سے جو فائدہ حاصل کیا جاتا ہے سود کہلاتا ہے اور قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں صراحتاً حرام قرار دیا گیا ہے اور اس کی مذمت میں کثیر احادیث مبارکہ اور آیات کریمہ ملتی ہیں۔سود خور کا انجام دنیا میں بھی بھیانک ہوتا ہے اور آخرت میں جو اس کا حال ہوگا شب معراج میں نبی کریم ﷺ نے ملاحظہ فرمایا اور بیان فرمایا:میں نے شب معراج دیکھا کہ دو شخص مجھے ارض مقدس لے گئے پھر ہم آگے چل دیئے یہاں تک کہ خون کے ایک دریا پر پہنچے جس میں ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور دریا کے کنارے پر دوسرا شخص کھڑا تھا جس کے سامنے پتھر رکھے ہوئے تھے دریا میں موجود شخص جب بھی نکلنے کا ارادہ کرتا تو کنارے پر کھڑا شخص ایک پتھر اس کے منہ پر مار کر اسے اس کی جگہ دوبارہ لوٹا دیتا اسی طرح ہوتا رہا کہ جب بھی وہ دریا والا شخص کنارے پر آنے کا ارادہ کرتا دوسرا شخص اس کے منہ پر پتھر مار کر اسے واپس لوٹا دیتا،میں نے پوچھا:یہ دریا میں کون ہے؟ جواب ملا یہ سود کھانے والا ہے۔(سود اور اس کا علاج،ص 1)

استغفر اللہ کس قدر تکلیف دہ اور درد ناک عذاب کا مستحق ہے سود خور چند دن کی زندگانی میں راحت حاصل کرنے کے لیے اللہ و رسول سے جنگ کرتا ہے اور نہ ختم ہونے والے عذابات میں مبتلا ہو جائے گا اور دنیا میں بھی اس شخص کا کیسا عبرت ناک انجام ہوتا ہے اس کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ اتنی بھیانک موت کہ پیٹ پھٹ کر گندگی کا ڈھیر بنا اور کوڑے دان والے شہر سے باہر پھینک آئے،تو کہیں قبر میں اژدھا موجود ہوتا ہے جو کہ سود خور کے انتظار میں ہے کہ اس سود خور کا لاشہ آئے اور میں اس پر ہلہ بول دوں،لوگوں نے دنیا میں اس کا یہ عبرت ناک انجام دیکھا۔

اسی طرح ایک اور سود خور کا انجام عبرت ناک ہوا، یہ اس شخص کا واقعہ ہے جو لوگوں کو قرض دیتا اور پھر اس پر سود لیتا اس کا یہی معمول تھا،وقتِ آخر موت کو طلب کرتا موت مانگتا پر موت نہ آتی،اس قدر تکلیف میں رہا کہ لوگوں نے اس کا یہ انجام اپنی آنکھوں سے دیکھا،آخر کار اپنے ہی بیٹے سے اس نے خوب منتیں کیں مجھ سے تکلیف سہی نہیں جاتی خدارا مجھے قتل کر دیا جائے اور اس کے بیٹے نے اپنے ہاتھوں سے اس کا دم گھوٹا تا کہ وہ مر سکے یوں سود خور کا انجام یہ ہوا کہ اپنے آپ کو ختم کرنے کے لیے وہ قتل ہونے کے لیے بھی تیار ہو گیا۔

ہم اسی طرح کہ کئی واقعات سنتے اور دیکھتے ہیں پر سود سے باز نہیں آتے۔

فرامین مصطفیٰ:

1۔سود اس قدر گھٹیا شے ہے کہ اس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سود کے 72 دروازے ہیں ان میں سے کم تر ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(سود اور اس کا علاج،ص 5)

2۔سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔(شعب الایمان، حدیث:5523) سود کس قدر غلیظ و گھٹیا ہے اس کی شدید ترین مذمت مندرجہ بالا احادیث موجود ہیں۔

3۔نبی کریم ﷺ نے سود کھانے کھلانے والے سود لکھنے والے اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم،ص 653،حدیث:4093) یعنی سودی نظام میں موجود ہر شخص پر لعنت فرمائی ہے جو بھی جس بھی طرح کا سودی نظام میں تعاون کرے یا سودی نظام کا حصہ بنے وہ سب رب کی رحمت سے مایوس دھتکارے ہوئے اور عذاب نار کے حق دار ہیں۔

معاشرہ میں سود کا رواج پڑ جائے تو وہ معاشرہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے،اس ضمن میں سود کی شدید مذمت پر فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: 4۔جس قوم میں سود عام ہو جائے وہ قحط سالی میں مبتلا ہوجاتی ہے۔(مسند احمد،جلد 7،حدیث: 948)

5۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(سود اور اس کا علاج،ص 4)

6۔نبی کریم ﷺ نے سات چیزوں سے بچنے کی ہدایت فرمائی کہ یہ چیزیں تباہ و برباد کرنے والی ہیں ان میں سے ایک سود کھانا بھی ہے۔(سود اور اس کا علاج، ص 4)

7۔بے شک سود خواہ کتنا زیادہ ہو جائے لیکن اس کا انجام فقر و ذلت ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح،حدیث:2827)

ان تمام فرامینِ مصطفیٰ میں سود کی کس قدر مذمت فرمائی گئی واضح طور پر معلوم ہوتی ہے،سود واقعی تباہی اور بربادی کا باعث ہے،مملکت کی اقتصادی بنیادوں کو منہدم کرنے والا ہے،ہم دیکھتے ہیں کہ جن غریب ممالک نے عالمی بینکوں سے قرض لیا وہ سود در سود ادا کرتے کرتے تباہ ہوگئے لیکن قرض بدستور برقرار رہے،جس چیز کی مذمت اللہ و رسول نے صراحتاً فرمادی تو وہ کسی صورت میں کسی شرط پر جائز نہیں ہو سکتا۔

اعلیٰ حضرت نے فتاویٰ رضویہ میں بیان فرمایا:سود لینا حرام قطعی و کبیرہ عظیمہ ہے جس کا لینا کسی طرح روا نہیں،اسی لیے سود اور سودی نظام سے خود کو بچانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ ذرا سی بے احتیاطی کہیں اس کی تباہ کاریوں اور عذاب نار میں مبتلا نہ کر دے۔

نبی کریم ﷺ نے سود سے بچنے کے لیے احتیاط ارشاد فرمائی ہےکہ جب کوئی کسی کو قرض دے تو قرض لینے والے سے کوئی ہدیہ قبول نہ کرے۔(مشکوٰۃ شریف) اسی احتیاط میں ہمارے بزرگان دین نے عمل فرمایا:

امام اعظم علیہ الرحمہ نے جس شخص کو قرض دیا اس کے گھر کے سائے میں بھی نہ کھڑے ہوئے کہ کہیں یہ سود میں شمار نہ ہو جائے،تو ہمیں بھی چاہیے کہ سود سے خود کو بچاتے رہیں اپنے پیسے انویسٹ کرتے ہوئے صحیح طور پر تسلی کی جائے کہیں میرا کاروبار سودی نظام پر تو نہیں اور حتی الامکان سود سے بچنے اور اس بلا سے دور رہنے کی کوشش کی جائے کیونکہ سود سے دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ ہی اٹھانا پڑتا ہے۔


فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے، وہ یہ کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، اس کی حرمت کا منکر کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق اور مردود الشہادہ ہے (یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی) سود خور کو اللہ اور رسول ﷺ کی طرف سے جنگ کا اعلان ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) (پ 3، البقرۃ: 279) ترجمہ کنز الایمان: پھر اگر ایسا نہ کرو تو یقین کر لو اللہ اور اللہ کے رسول سے لڑائی کا اور اگر تم توبہ کرو تو اپنا اصل مال لے لو نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤ نہ تمہیں نقصان ہو۔

صراط الجنان میں ہے: سود کی حرمت کا حکم نازل ہو چکا اس کے بعد بھی جو سودی لین دین جاری رکھے گا وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کا یقین کر لے، یہ شدید ترین وعید ہے۔

سود کی عام مثالیں ہمارے معاشرے میں بھی پائی جاتی ہیں، مثال کے طور پر کسی کو گاڑی چاہیے پیسے نہیں ہیں کیا پرواہ؟ کیوں پریشان ہو رہے ہو؟ قرض لے لو سود دے دینا! بلڈنگ بنانی ہے، قرض لے لو سود دے دینا! آئیے سود کی مذمت پر 5 احادیث مبارکہ ملاحظہ کیجیے:

1۔نبیوں کے سلطان ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی، ص 70)

2۔اللہ کے محبوب ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث:1598)اے سودی کھاتے لکھنے اور سود پر گواہ بننے والو! دیکھو کس قدر وعید مروی ہے۔

3۔ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ (کتاب الکبائر، ص 69)

4۔بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ان میں سے کمترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔ (معجم اوسط، 5/227، حدیث: 7151)

5۔پیارے آقا ﷺ فرماتے ہیں کہ شب معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح (بڑے بڑے) تھے جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے، میں نے جبرائیل سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ سود خور ہیں۔

اللہ پاک ہم سب کو سود کی آفت سے محفوظ فرمائے۔ آمین

کر لے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی


سود ایک حرام کردہ کام ہے جو انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے انسان چند پیسوں کے لیے حرام کام کرتا ہے، سود دنیا و آخرت کو تباہ کرنے والا کام ہے، سود کی ممانعت کے متعلق قرآن پاک میں بھی بیان ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۷۵) یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ(۲۷۶) (پ 3، البقرۃ: 275-276)ترجمہ کنز الایمان: وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سود کی مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سود تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو اب ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے،اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکرا بڑا گنہگار۔

پانچ فرامین مصطفیٰ:

1۔ سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔(مسند،8/223، حدیث:22016)

2۔ سود سے بظاہر اگرچہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔(مسند،2/50، حدیث:3754)

3۔ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث: 1597)

4۔ سود کو چھوڑو اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔(ابن ماجہ،2/73، حدیث: 2276)

5۔ ادھار میں سود ہے اور ایک روایت میں ہے کہ دست بدست ہو تو سود نہیں یعنی جبکہ جنس مختلف ہو۔

سود کی تعریف: ربا یعنی سود حرام قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر کافر ہے اور حرام سمجھ کر جو اس کا مرتکب ہے فاسق مردود الشہادہ ہے۔ عقد معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔

درس: سود ایک بری صفت ہے ہمیں اس سے بچنا چاہیے جو کوئی ایسے کاموں میں ملوث ہے اسے چاہیے کہ فورا ً توبہ کریں اور اس جہنم میں لے جانے والے کام سے پرہیز کریں، کیونکہ ہم سے جہنم کا عذاب سہا نہیں جائے گا۔

اللہ پاک ہمیں کبیرہ گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے۔

سود کی تعریف: فتاویٰ رضویہ شریف میں اعلیٰ حضرت قرض پر نفع لینے کے متعلق فرماتے ہیں: قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع و فائدہ حاصل ہو وہ سب سود اور نرا حرام ہے۔

لغوی و اصطلاحی معنیٰ: سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کا لغوی معنی ہے بڑھنا، اضافہ ہونا، بلند ہونا۔ شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ قرض دے کر اس پر مشروط اضافہ یا نفع لینا یا کیلی (ناپ کر بیچی جانے والی) یا وزنی (تول کر بیچی جانے والی) چیز کے تبادلے میں دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو عوض سے خالی ہو اور عقد میں مشروط ہو۔

بلاشبہ سود اسلام میں قطعی طور پر حرام ہے کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری، حرص و طمع، خود غرضی، شقاوت و سنگ دلی اور مفاد پرستی جیسی اخلاقی برائیاں جنم لیتی ہیں، بلکہ سود اقتصادی تباہ کاریوں کا ذریعہ بھی ہے، اسی وجہ سے قرآن کریم میں سود سے منع کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ کریم پارہ 4 سورۂ اٰل عمران آیت نمبر 130 میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! دگنا در دگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے۔ اس آیت میں سود کھانے سے منع کیا گیا اور اسے حرام قرار دیا گیا۔

احادیث مبارکہ میں سود کی حرمت: کثیر احادیث میں سود کی بھرپور مذمت فرمائی گئی ہے، چنانچہ

1۔ حضور رحمۃ للعالمین ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث: 1599)

2۔ سود کا گناہ 73 درجے ہے ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، 2/338، حدیث: 2356)

3۔ جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی، ص 70)

4۔ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر،ص 69)

5۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آ رہے تھے ،میں نے جبرائیل سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(ابن ماجہ، 3/71، حدیث: 2273)

سود کے چند معاشرتی نقصانات: سود کے بے شمار معاشرتی نقصانات ہیں جن میں سے چند ایک پیشِ خدمت ہیں:

سود خور حاسد بن جاتا ہے: اس کی تمنا ہوتی ہے کہ اس سے قرض لینے والا نہ تو کبھی پھلے پھولے اور نہ ہی ترقی کرے کہ اس کے پھلنے پھولنے میں اس کی آمدنی تباہ ہوتی ہے، کیونکہ جس نے اس سے سود پر قرض لیا اگر وہ ترقی کر جائے گا اور قرض اتار دے گا تو اس کی آمدنی ختم ہو جائے گی، یہی حسد اسے کہیں کا نہیں چھوڑتا۔

سود خور بے رحم ہو جاتا ہے: سود خور کے دل سے رحم نکل جاتا ہے اسے کسی پر ترس نہیں آتا، مجبور سے مجبور شخص اس کے آگے ایڑیاں رگڑتا ہے اور اگر وہ سر کی ٹوپی اتار کر اس کے پاؤں پر رکھ دے تو بھی اسے رحم نہیں آتا، کیونکہ سود نے اس کے قلب کو کالا کر دیا ہے اور وہ ہر ایک کی مالی مدد سود ہی کی خاطر کرتا ہے اور اس طرح قرض دینے کے عظیم اجر و ثواب سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔

سود خور مال کا حریص ہو جاتا ہے: سود خور گھر کے گھر تباہ و برباد کرتا ہے، سب کو اجاڑ کر اپنا گھر بناتا ہے اور مال کی محبت میں دیوانہ وار گھومتا رہتا ہے، صدقہ و خیرات کرنا بھی گوارا نہیں کرتا کہ کہیں مال کم نہ ہو جائے۔

سود کا علاج: سود کی نحوست سے محفوظ رہنے کے لیے سب سے پہلے لمبی امیدوں سے اپنے دامن کو پاک کرنے کی ضرورت ہے۔

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

دوسرا علاج دنیاوی دولت کی محبت سے پیچھا چھڑانا ہے اور تیسرا علاج قناعت کو اختیار کرنا ہے۔

سود سے بچنے کی ترغیب: بیان کی گئی آیات کریمہ اور فرامین مبارکہ میں سود کی مذمت بیان گئی ہے۔ اے کاش! ہمیں قناعت نصیب ہو جائے کیونکہ جو قناعت پسند ہو وہ سادگی اپناتا ہے، سادہ غذا اور لباس کو کافی جانتا ہے، اسے دولت کی چاہت ہوتی ہے نہ دولت مند کی اور جو قناعت پسند نہ ہو وہ حرص و لالچ کا شکار ہو جاتا ہے، کبھی سیر نہیں ہوتا، ہر وقت اس پر دَھن کمانے کی دُھن سوار ہوتی ہے یہاں تک کہ موت آپہنچتی ہے۔

بے جا مال کی محبت سے چھٹکارا پانے اور قناعت کی دولت اپنانے کے لیے دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے نیک اعمال پر عمل اور سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کو اپنا معمول بنا لیجیے۔

اللہ کریم ہم سب کو عافیت اور امان عطا فرماکر سود کی آفتوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین