سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت محمود علی،جامعۃ المدینہ فیض مکہ
خداداد کالونی کراچی
سود ایک اجتماعی جرم ہے،یہ معاشرے میں ایسی بیماری ہے جو اگر پھیل جائے تو وہ
معاشرہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے،سود خور کا انجام دنیا میں بھی باعث عبرت ہے اور
آخرت میں تو رب تعالیٰ نے سود خور سے دردناک عذاب کا وعدہ فرمایا ہے اور وہ اپنا
وعدہ ضرور پورا فرماتا ہے۔
سود کیا ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس قرض سے کچھ نفع لیا جائے
وہ سود ہے۔(سود اور اس کا علاج،ص 4)یعنی قرض سے جو فائدہ حاصل کیا جاتا ہے سود
کہلاتا ہے اور قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں صراحتاً حرام قرار دیا گیا ہے اور
اس کی مذمت میں کثیر احادیث مبارکہ اور آیات کریمہ ملتی ہیں۔سود خور کا انجام
دنیا میں بھی بھیانک ہوتا ہے اور آخرت میں جو اس کا حال ہوگا شب معراج میں نبی
کریم ﷺ نے ملاحظہ فرمایا اور بیان فرمایا:میں نے شب معراج دیکھا کہ دو شخص مجھے
ارض مقدس لے گئے پھر ہم آگے چل دیئے یہاں تک کہ خون کے ایک دریا پر پہنچے جس میں
ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور دریا کے کنارے پر دوسرا شخص کھڑا تھا جس کے سامنے پتھر
رکھے ہوئے تھے دریا میں موجود شخص جب بھی نکلنے کا ارادہ کرتا تو کنارے پر کھڑا
شخص ایک پتھر اس کے منہ پر مار کر اسے اس کی جگہ دوبارہ لوٹا دیتا اسی طرح ہوتا
رہا کہ جب بھی وہ دریا والا شخص کنارے پر آنے کا ارادہ کرتا دوسرا شخص اس کے منہ
پر پتھر مار کر اسے واپس لوٹا دیتا،میں نے پوچھا:یہ دریا میں کون ہے؟ جواب ملا یہ
سود کھانے والا ہے۔(سود اور اس کا علاج،ص 1)
استغفر اللہ کس قدر تکلیف دہ اور درد
ناک عذاب کا مستحق ہے سود خور چند دن کی زندگانی میں راحت حاصل کرنے کے لیے اللہ و
رسول سے جنگ کرتا ہے اور نہ ختم ہونے والے عذابات میں مبتلا ہو جائے گا اور دنیا
میں بھی اس شخص کا کیسا عبرت ناک انجام ہوتا ہے اس کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ
اتنی بھیانک موت کہ پیٹ پھٹ کر گندگی کا ڈھیر بنا اور کوڑے دان والے شہر سے باہر
پھینک آئے،تو کہیں قبر میں اژدھا موجود ہوتا ہے جو کہ سود خور کے انتظار میں ہے
کہ اس سود خور کا لاشہ آئے اور میں اس پر ہلہ بول دوں،لوگوں نے دنیا میں اس کا یہ
عبرت ناک انجام دیکھا۔
اسی طرح ایک اور سود خور کا انجام عبرت ناک ہوا، یہ اس شخص کا واقعہ ہے جو
لوگوں کو قرض دیتا اور پھر اس پر سود لیتا اس کا یہی معمول تھا،وقتِ آخر موت کو
طلب کرتا موت مانگتا پر موت نہ آتی،اس قدر تکلیف میں رہا کہ لوگوں نے اس کا یہ
انجام اپنی آنکھوں سے دیکھا،آخر کار اپنے ہی بیٹے سے اس نے خوب منتیں کیں مجھ سے
تکلیف سہی نہیں جاتی خدارا مجھے قتل کر دیا جائے اور اس کے بیٹے نے اپنے ہاتھوں سے
اس کا دم گھوٹا تا کہ وہ مر سکے یوں سود خور کا انجام یہ ہوا کہ اپنے آپ کو ختم
کرنے کے لیے وہ قتل ہونے کے لیے بھی تیار ہو گیا۔
ہم اسی طرح کہ کئی واقعات سنتے اور دیکھتے ہیں پر سود سے باز نہیں آتے۔
فرامین مصطفیٰ:
1۔سود اس قدر گھٹیا شے ہے کہ اس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سود کے 72
دروازے ہیں ان میں سے کم تر ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(سود اور اس
کا علاج،ص 5)
2۔سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا
ہے۔(شعب الایمان، حدیث:5523) سود کس قدر غلیظ و گھٹیا ہے اس کی شدید ترین مذمت
مندرجہ بالا احادیث موجود ہیں۔
3۔نبی کریم ﷺ نے سود کھانے کھلانے والے
سود لکھنے والے اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ
میں برابر ہیں۔(مسلم،ص 653،حدیث:4093) یعنی سودی نظام میں موجود ہر شخص پر لعنت
فرمائی ہے جو بھی جس بھی طرح کا سودی نظام میں تعاون کرے یا سودی نظام کا حصہ بنے
وہ سب رب کی رحمت سے مایوس دھتکارے ہوئے اور عذاب نار کے حق دار ہیں۔
معاشرہ میں سود کا رواج پڑ جائے تو وہ معاشرہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے،اس ضمن
میں سود کی شدید مذمت پر فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: 4۔جس قوم میں سود عام ہو جائے وہ قحط
سالی میں مبتلا ہوجاتی ہے۔(مسند احمد،جلد 7،حدیث: 948)
5۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(سود اور اس کا
علاج،ص 4)
6۔نبی کریم ﷺ نے سات چیزوں سے بچنے کی ہدایت فرمائی کہ یہ چیزیں تباہ و برباد
کرنے والی ہیں ان میں سے ایک سود کھانا بھی ہے۔(سود اور اس کا علاج، ص 4)
7۔بے شک سود خواہ کتنا زیادہ ہو جائے لیکن اس کا انجام فقر و ذلت ہے۔(مشکوٰۃ
المصابیح،حدیث:2827)
ان تمام فرامینِ مصطفیٰ میں سود کی کس قدر مذمت فرمائی گئی واضح طور پر معلوم
ہوتی ہے،سود واقعی تباہی اور بربادی کا باعث ہے،مملکت کی اقتصادی بنیادوں کو منہدم
کرنے والا ہے،ہم دیکھتے ہیں کہ جن غریب ممالک نے عالمی بینکوں سے قرض لیا وہ سود
در سود ادا کرتے کرتے تباہ ہوگئے لیکن قرض بدستور برقرار رہے،جس چیز کی مذمت اللہ
و رسول نے صراحتاً فرمادی تو وہ کسی صورت میں کسی شرط پر جائز نہیں ہو سکتا۔
اعلیٰ حضرت نے فتاویٰ رضویہ میں بیان فرمایا:سود لینا حرام قطعی و کبیرہ عظیمہ
ہے جس کا لینا کسی طرح روا نہیں،اسی لیے سود اور سودی نظام سے خود کو بچانے کی
بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ ذرا سی بے احتیاطی کہیں اس کی تباہ کاریوں اور عذاب نار
میں مبتلا نہ کر دے۔
نبی کریم ﷺ نے سود سے بچنے کے لیے احتیاط ارشاد فرمائی ہےکہ جب کوئی کسی کو
قرض دے تو قرض لینے والے سے کوئی ہدیہ قبول نہ کرے۔(مشکوٰۃ شریف) اسی احتیاط میں
ہمارے بزرگان دین نے عمل فرمایا:
امام اعظم علیہ الرحمہ نے جس شخص کو قرض دیا اس کے گھر کے سائے میں بھی نہ
کھڑے ہوئے کہ کہیں یہ سود میں شمار نہ ہو جائے،تو ہمیں بھی چاہیے کہ سود سے خود کو
بچاتے رہیں اپنے پیسے انویسٹ کرتے ہوئے صحیح طور پر تسلی کی جائے کہیں میرا
کاروبار سودی نظام پر تو نہیں اور حتی الامکان سود سے بچنے اور اس بلا سے دور رہنے
کی کوشش کی جائے کیونکہ سود سے دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ ہی اٹھانا پڑتا ہے۔