فقہائے کرام سود کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ کیلی یا وزنی چیز کے تبادلہ میں دونوں فریق میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو عوض سے خالی ہو اور عقد میں مشروط ہو۔ قرآن کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪-(اٰل عمران:130) ترجمہ:دگنا در دگنا سود نہ کھاؤ۔اس آیت میں سود کھانے سے منع کیا گیا اور حرام قرار دیا گیا،زمانہ جاہلیت میں سود کی ایک صورت یہ بھی رائج تھی کہ جب سود کی ادائیگی کی مدت آتی اگر اس وقت مقروض ادا نہ کرپاتا تو قرض خواہ سود کی مقدار میں اضافہ کر دیتا اور یہ عمل مسلسل کیا جاتا رہتا،اسے دگنا در دگنا کیا جا تا رہتا۔

سود سےمتعلق وعیدیں:سود حرام قطعی ہے اسے حلال جاننے والا کافر ہے،قرآن پاک اور حدیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں،5 احادیث ملاحظہ ہوں:

1۔نبی پاک ﷺ نے سود کھانے والے،کھلانے والے،سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم،ص 862،حدیث:1599)

2۔سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔(شعب الایمان، 4/395،حدیث:5523)

3۔حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آرہے تھے،میں نے جبرائیل سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے عرض کی:یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(ابن ماجہ،3/71،حدیث: 2273)

4۔سود کا گناہ 73 درجے ہے ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، 2/338،حدیث:2354)

5۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 70)

اللہ کریم ہمیں سود سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


1۔جس بستی میں سود پھیلتا ہے وہ بستی سود کی وجہ سے ہلاک و برباد ہو جاتی ہے۔

2۔جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی کو ہلاک کرنے کا حکم دیتا ہے۔

3۔اللہ کے رسول ﷺ نے سود کھانے والے،کھلانے والے،اس کی گواہی دینے والے اور اس کا معاملہ لکھنے والے سب پر لعنت فرمائی۔(سنن ابن ماجہ)

4۔ جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 70)

5۔سود خور سخت سزا میں مبتلا ہوں گے،چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے:جس شب مجھے سیر کرائی گئی میں ایک جماعت کے پاس سے گزرا جس کے پیٹ کمروں کے مانند تھے ان میں سے بہت سے سانپ پیٹوں کے باہر سے دکھائی دے رہے تھے،میں نے کہا: جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟کہنے لگے سود خور ہیں۔(ابن ماجہ)

سود کھانے کا گناہ ماں سے زنا کرنے سے بھی بدتر ہے،چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے:سود میں ستر گناہ ہیں، سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرتا ہے۔(ابن ماجہ)


گناہ دو طرح کے ہوتے ہیں،گناہ کبیرہ اور گناہ صغیرہ،مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ گناہ صغیرہ کو بھی ہلکا نہیں جانتا،وہ سمجھتا ہے کہ چھوٹی چنگاری بھی گھر جلا سکتی ہے،اس لیے وہ ان کے کرلینے پر بھی جرأت نہیں کرتا اور اگر ہو جائیں تو فوراً توبہ کر لیتا ہے،بدکار شخص چھوٹے کیا بڑے گناہوں کو بھی ہلکا جانتا ہے،جیسے تہمت، بدکاری،غیبت،سود وغیرہ،بلاشبہ سود اسلام میں قطعی طور پر حرام ہے کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال،خود غرضی،مفاد پرستی وغیرہ جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا ذریعہ بھی ہے،اسی وجہ سے قرآن مجید میں سود سے منع کیا گیا ہے،نیز شریعت مطہرہ نے اسے قطعی حرام قرار دیا ہے،چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) (پ 4، اٰل عمران:130) ترجمہ:اے ایمان والو! دونا دون (یعنی دگنا دگنا) سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تا کہ فلاح پاؤ۔

سود کی تعریف:سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کا لغوی معنی ہے بڑھنا،اضافہ ہونا،بلند ہونا۔شرعی اصطلاح میں ربا سود کی تعریف قرض دے کر اس پر مشروط اضافہ یا نفع لینا یا کیلی (ناپ کر بیچی جانے والی) یا وزنی (تول کر بیچی جانے والی) چیز کے تبادلے میں دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو عوض سے خالی ہو اور عقد میں مشروط ہو۔آسان لفظوں میں یہ کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا،مثلا کسی کو سال یا چھ ماہ کے لیے 100 روپے قرض دے تو اس سے یہ شرط کر لی کہ وہ 100 روپے کے 120 روپے لے گا،مہلت کے عوض یہ جو 20 روپے زیادہ لیے گئے ہیں یہ سود ہے۔

5 فرامین مصطفیٰ:

1۔سات ہلاکت کی چیزوں سے بچو،لوگوں نے پوچھا حضور وہ کیا ہیں؟ فرمایا:اللہ کے ساتھ شرک اور ناحق اس جان کو ہلاک کرنا جو اللہ نے حرام کی اور سود خوری،یتیم کا مال کھانا،جہاد کے دن پیٹھ دکھا دینا،پاکدامن مومنہ بے خبر بیبیوں کو بہتان لگانا۔(بخاری)

2۔نبی اکرم ﷺ نے خون کی قیمت، کتےکی قیمت اور زانیہ کی کمائی سے منع فرمایا اور سود کھانے والے اور کھلانے والے،گودنے والی اور گدوانے والی اور فوٹو لینے والے پر لعنت فرمائی۔(بخاری)

3۔سونا سونے کے عوض اور چاندی چاندی کے عوض،گیہوں گیہوں کے عوض،جو جو کے عوض برابر برابر ہاتھوں ہاتھ بیچو جو زیادہ دے یا زیادہ لے اس نے سود کا کاروبار کیا،لینے والا دینے والا اس گناہ میں برابر ہے۔(مسلم)

4۔فرمایا:ہم شب معراج اس قوم پر پہنچے جن کے پیٹ کوٹھریوں کی طرح تھے جن میں سانپ تھے جو پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے،ہم نے کہا:اے جبرائیل یہ کون ہیں؟انہوں نے عرض کیا یہ سود خوار ہیں۔(ابن ماجہ)

5۔بدترین سود مسلمان کی آبرو میں ناحق دست درازی ہے۔(ابو داود)

معاشرتی نقصانات:جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے وہ یہ کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے،اس حوالے سے فرمان مصطفیٰ ہے جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔سود قطعی حرام ہے۔

حدیث پاک میں سود کھانے والے کھلانے والے اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی گئی ہے۔معاشرے سے اب حلال و حرام کی تمییز ختم ہو گئی ہے۔یاد رکھیں مالِ حرام میں کوئی بھلائی نہیں بلکہ اس میں بربادی ہی بربادی ہے،مال حرام سے کیا گیا صدقہ نہ ہی قبول ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے اور چھوڑ کر مرے تو عذاب جہنم کا سبب ہے،معاشرے میں سود لینے والے کو برا سمجھا جاتا ہے اور اس کی صحبت سے دور رہا جاتا ہے،سود خور کو اللہ اور رسول اکرم کی طرف سے جنگ کا اعلان ہے،سود خوری معاشرے کے اقتصادی اعتدال کو تباہ کر دیتی ہے اور تعاون کے رشتوں کی یہی کمزوری سود دینے والے اور سود لینے والے ممالک میں بھی واضح طور پر نظر آتی ہے وہ قومیں جو دیکھتی ہیں کہ ان کا سرمایہ سود کے نام پر دوسری قوم کی جیب میں جا رہا ہے انہیں قرض کی ضرورت تو ہے لیکن وہ منتظر رہتی ہیں کسی مناسب موقع پر اپنے رد عمل کا مظاہرہ کریں،یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں سود خوری اخلاقی نقطہ نظر سے قرض لینے والے کے دل ودماغ پر بہت برا اثر مرتب کرتی ہے اور اس کے دل میں اس بات کا کینہ ضرور رہ جاتا ہے۔

سود سے بچنے کی ترغیب:سود سے بچنے کی ترغیب اس طرح دلائیں کہ ان تمام برائیوں میں سود کا لین دین بھی ایک ایسا ہی برا کام ہے جس سے قرآن نے انسان کو بڑی شد و مد سے روکا ہے اس لیے کہ سود بہت بڑا ظلم ہے جو ایک انسان دوسرے انسان پر کرتا ہے،سود ایک دھوکا ہے اور دوسرے انسان کا خون چوسنے کے مترادف ہے،قرآن سود کو حرام قرار دیتا ہے اور ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) (پ 3، البقرۃ: 278-279) ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جو کچھ تمہارا سود باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم کو اللہ اور رسول کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہیں تمہارا اصل مال ملے گا نہ دوسروں پر تم ظلم کرو اور نہ دوسرا تم پر ظلم کرے۔ انسان ہر غلط کام کو کرنے کے لیے حیلے بہانے تراش کر کے اس کو جائز بتانے کی کوشش کرتا ہے اور یہ انسانی فطرت کا تقاضا بھی ہے اور شیطان کی ترغیب بھی ہے،یہ اس لیے کہ یہ کہتے ہیں کہ تجارت بھی تو نفع کے لحاظ سے ایسا ہی ہے جیسے سود لینا،حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔


معاشرے میں طرح طرح کی برائیوں نے جنم لیا ہے جس میں سے ایک سود بھی ہے،سود ایک ایسی برائی ہے جس نے ہمیشہ معیشت و روزگار کو تباہ کیا ہے،سود سے باز نہ آنے والوں کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ کیا گیا ہے،چنانچہ پارہ 3 سورۂ بقرۃ کی آیت نمبر 278 تا 279 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جو کچھ تمہارا سود باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم کو اللہ اور رسول کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہیں تمہارا اصل مال ملے گا نہ دوسروں پر تم ظلم کرو اور نہ دوسرا تم پر ظلم کرے۔

سود کی تعریف:سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں اور اصطلاح میں سود کی تعریف یہ ہے کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا۔

فرامین مصطفیٰ:

1۔رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔

2۔سود کا ایک درہم جس کو کوئی جان کر کھائے وہ 36 مرتبہ بدکاری سے بھی سخت ہے۔

3۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:شب معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح بڑے بڑے ہیں ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں،میں نے پوچھا:اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ کہا یہ سود خور ہیں۔

4۔سود سے بظاہر اگرچہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔

5۔سود میں 70 گناہ ہیں سب سےہلکا گناہ یہ ہے کہ جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(سنن ابن ماجہ،حدیث: 2274)

نقصانات:مالِ حرام کا وبال یہ ہے کہ جب لقمۂ حرام پیٹ میں پہنچتا ہے تو اس سے بننے والا خون انسان کو مزید برائیوں پر ابھارتا ہے یوں وہ برائیوں کے دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے اور اپنی عاقبت برباد کر بیٹھتا ہے۔سود کے پیسوں سےزکوٰۃ قبول نہیں ہوتی،سود خوری معاشرے کے اقتصادی اعتدال کو برباد کر دیتی ہے،سود دلوں میں کینے اور دشمنی کا بیج بوتا ہے اور بھی سود کے کئی نقصانات ہیں۔معلوم ہوا کہ مالِ حرام میں ہلاکت ہی ہلاکت ہے،لہٰذا مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دنیا و آخرت کی بربادی اور رزق کی تنگی سے بچنے کے لیے سود اور مالِ حرام سے کنارہ کشی اختیار کرے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سود جیسے گناہ سے بچنے کی سعادت نصیب فرمائے۔آمین


سود کی تعریف فقہائے کرام یہ کرتے ہیں کیلی یا وزنی  چیز کے تبادلے میں دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو عوض سے خالی ہو اور عقد میں مشروط ہو۔اسلام سے قبل جاہلیت میں سودی لین دین کا رواج تھا،جب قرآن میں اس کی حرمت نازل ہوئی تو مسلمان پورے طور پر اس سے کنارہ کش ہوگئے اور ایک طویل زمانہ تک اسلامی معاشرہ اور اسلامی حکومتیں اس سے محفوظ رہیں،حدیث مبارکہ میں پیشن گوئی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:یقینا لوگوں پر ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ کوئی بھی بغیر سود کھائے نہ بچ سکے گا اور اگر کھایا نہیں تو کم از کم اس کا دھواں یا گرد تو پہنچ ہی جائے گا۔

احادیث مبارکہ:

1۔سود کھانے،کھلانے والے اور اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی گئی اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔

وضاحت:اے سودی کھانے لکھنے اور سود پر گواہ بننے والو! دیکھو کس قدر وعید مروی ہے اللہ سے اس گناہ کی توبہ کرلو آج وقت ہے کل وقت نہیں ملے گا۔(کتاب المساقاۃ،حدیث:1598)

2۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 70)

3۔سود کے 70 دروازے ہیں ان میں سے کم تر ایسا ہے جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔میرے آقا اعلیٰ حضرت امام اہل سنت اس حدیث مبارکہ کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: تو جو شخص سود کا ایک پیسہ لینا چاہے اگر رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسہ کا نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر ستر بار زنا کرنا۔(شعب الایمان،4/394، حدیث:5520)

4۔قیامت کے دن سود خور کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ دیوانہ و مخبوط الحواس ہوگا۔یعنی سود خور قبروں سے اٹھ کر حشر کی طرف ایسے گرتے پڑتے جائیں گے جیسے کسی پر شیطان سوار ہو کر اسے دیوانہ کر دے،جس سے وہ یکساں نہ چل سکیں گے، اس لیے کہ جب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے اور محشر کی طرف چلیں گے تو سب یہاں تک کہ کفار بھی درست چل پڑیں گے مگر سود خور کو چلنا پھرنا مشکل ہوگا اور یہی سود خور کی پہچان ہوگی۔(معجم کبیر،18/60،حدیث:110)

5۔حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آرہے تھے،میں نے جبرائیل سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کی:یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(کتاب التجارات،3/71، حدیث:2273)

اللہ پاک ہمیں سود سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین


سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا،پروان چڑھنا اور بلندی کی طرف جانا ہے اور شرعی اصطلاح میں سود کی تعریف یہ ہے کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا،مثلا کسی کو سال یا چھ ماہ کے لیے 100 روپے قرض دیئے تو اس سے یہ شرط کر لی کہ 100 روپے کے 120 روپے لے گا مہلت کی عوض یہ جو 20 روپے لیے گئے ہیں یہ سود ہے۔

5 فرامین مصطفیٰ:

1۔بے شک سود کتنا ہی زیادہ ہو جائے لیکن اس کا انجام فقرو ذلت ہے۔

2۔سود میں ستر گناہ ہیں سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(ابن ماجہ، حدیث: 432)

3۔سود کھانے والے،سود کھلانے والے،سود کے لیے گواہ بننے والے اور اس کے کاتب یعنی لکھنے والے پر لعنت کی گئی ہے۔(سنن ابی داود،حدیث:2332)

4۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:جس رات مجھے معراج ہوئی میرا گزر ایک ایسے گروہ پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی طرح ہیں اور ان میں سانپ بھرے ہوئے ہیں جو باہر سے نظر آتے ہیں،میں نے جبرائیل سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور لوگ ہیں۔

5۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:معراج کی رات میں نے ایک آدمی دیکھا جو نہر میں تیرتے ہوئے پتھر نگل رہا تھا میں نے پوچھا یہ کون ہے؟بتایا گیا کہ یہ سود خور ہے۔

سود کے چند معاشرتی نقصانات:سود حرامِ قطعی ہے،اسے حلال جاننے والا کافر ہے،قرآن و حدیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں،جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ روز قیامت کھڑے نہیں ہو سکیں گے،مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو،ہمیں سود سے بچنا چاہیے اس سے پتا چلا کہ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ تو روز قیامت کھڑے ہیں نہیں ہو سکیں گے،یہ کہتے تھے کہ تجارت بھی تو سود کی مانند ہے،حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کیا ہے،بس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ سود سے باز آگیا تو جو پہلے گزر چکا وہ اس کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جس نے پھر بھی سود لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

مہاجنی سود:وہ یہ کہ لوگ اپنی ذاتی ضرورت کے لیے سرمایہ دار افراد سے قرضے لیتے اور انہیں ان کی دی ہوئی رقم پر ماہانہ مشروط سود کے ساتھ واپس کرتے ہیں۔

بینک کا سود:کچھ لوگ بینکوں سے تجارت یا زراعت کے لیے قرضے حاصل کرتے ہیں اور مقررہ میعاد پر متعین شرح سود کے ساتھ واپس کرتے ہیں۔سود کی جتنی بھی مثالیں لکھیں وہ کم ہیں،آج کل سود بہت ہی عام ہو چکا ہے ہمیں خود بھی بچنا چاہیے اور دوسروں کو بھی ترغیب دینی چاہیے تاکہ وہ بھی سود سے بچ سکیں اور بروز قیامت اللہ کے عذاب سے بھی بچ سکیں۔

اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ- (پ 3،البقرۃ:275)ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط کر دیا ہو۔ سود خوری جس کی قرآن و حدیث نے سخت الفاظ میں مذمت فرمائی اور اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں اور بار بار سود خوری چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اس کی بنیادی طور پر تین قسمیں ہیں:

1۔قرض دے کر اس سے زائد وصول کرنا جس کو ہمارے عرف میں سود کہا جاتا ہے۔

2۔تجارتی سود خرید و فروخت کاروبار میں لین دین کا ایسا طریقہ اختیار کرنا جو شرعی اصول کے مطابق سودی معاملہ بنتا ہو جس کو انٹرسٹ سود کہا جاتا ہے۔

3۔بینک ڈیپازٹ بینک کے ذریعے معاملہ کر کے سود وصول کرنا،پہلی دونوں قسمیں تو نزولِ قرآن کے وقت بھی رائج اور متعارف تھیں،قرآن و حدیث میں جو حرمت وارد ہوئی ہیں اس میں دونوں قسمیں شامل ہیں،اس کے علاوہ بینکوں کا معاملہ علما نے شرعی اصولوں کو دیکھتے ہوئے حرام قرار دیا ہے۔

سود سے بچنے کی ترغیب:آج کل ہمارے معاشرے میں سود بہت ہی زیادہ پھیل چکا ہے،اللہ پاک نے قرآن میں سود کے متعلق آیتیں بھی نازل فرمائیں اور حدیث پاک میں بھی سود کے متعلق بیان ہوا ہے پھر بھی لوگ اس سے نصیحت نہیں حاصل کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے ہیں کہ آپ بھی ایسا ایسا کریں،حالانکہ سود لینے والا دینے والا اور کھانے والا یہ سب جہنمی ہیں، سود کا ایک درہم جس کو آدمی جان بوجھ کر کھاتا ہے وہ 36 بار زنا سے زیادہ گناہ رکھتا ہے اور سود کے گناہ کے ستر درجے ہیں ان میں سے سب سے ادنی درجہ وہ ایسا ہے جیسے کوئی اپنی ماں سے زنا کرے،سود سے جتنا ہو سکے بچیں اوردوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں تاکہ وہ بھی سود سے بچیں اور اللہ کے عذاب سے بچیں۔


اللہ پاک نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، انسان کو مال و دولت جیسی نعمت دی ہے اللہ پاک جسے جتنا چاہے نوازتا ہے لیکن پھر بھی انسان کو ہمیشہ زیادہ سے زیادہ کی ہوس رہتی ہے اور وہ اسے ناجائز و حرام طریقوں سے حاصل کرنا شروع کر دیتا ہے، انہیں ناجائز و حرام طریقوں میں سے ایک طریقہ سود ہے جو کسی دوسرے انسان کو مال ادھار دیا تواس ادھار مال کے ساتھ اس سے اضافی مال لینے سے حاصل ہوتا ہے جو کہ حرام اور ہلاکت کا باعث بنتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِۚ-وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ(۳۹) (پ 21، الروم:39)ترجمہ کنز الایمان: اور تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی اور جو تم خیرات دو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو انہیں کے دونے ہیں۔

(اور جو مال تم لوگوں کو دو) اس کی تفسیر صراط الجنا ن میں یہ ہے کہ ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں وہی سود مراد ہے جسے سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 279 میں حرام فرمایا گیا ہے یعنی تم قرض دے کر جو سود لیتے ہو اور اپنے مالوں میں اضافہ کرتے ہو تو وہ اللہ پاک کے نزدیک اضافہ نہیں ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں وہ تحفے مراد ہیں جو اس نیت سے دیئے جاتے تھے کہ جسے تحفہ دیا وہ اس سے زیادہ دے گا، چنانچہ مفسرین فرماتے ہیں کہ لوگوں کا دستور تھا کہ وہ دوست احباب اور شناسائی رکھنے والوں کو یا اور کسی شخص کو اس نیت سے ہدیہ دیتے تھے کہ وہ انہیں اس سے زیادہ دے گا یہ جائز تو ہے لیکن اس پر ثواب نہ ملے گا اور نہ اس میں برکت ہوگی کیونکہ یہ عمل خالصۃً اللہ کے لیے نہیں ہوا۔

فقہا نے اس کی تعریف یوں کی ہے: سود اس اضافہ کو کہتے جو دو فریق میں سے ایک فریق کو مشروط طور پر اس طرح ملے کہ وہ اضافہ عوض سے خالی ہو۔(ہدایہ)سود کی مذمت و ممانعت کے بارے میں احادیث مبارکہ بھی موجود ہیں چند احادیث مبارکہ پڑھیے اور لرز اٹھیے فوراً اس جہنم میں لے جانے والے کام اور ہلاکت کا باعث بننے والے کام سے توبہ کر لیجیے تاکہ آپ کی آخرت سنور جائے۔

1۔ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔

2۔ سود سے بظاہر اگرچہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔(مسند، حدیث:3754)

3۔ادھار میں سود ہے اور ایک روایت میں ہے کہ دست بدست ہو تو سود نہیں یعنی جبکہ جنس مختلف ہو۔

4۔ سود کو چھوڑو اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔(ابن ماجہ، حدیث: 2276)

5۔ سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔

اسی کی مثل بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی۔(مسند، حدیث:22016)

استغفر اللہ، الامان و الحفیظ احادیث مبارکہ میں سود کے بارے میں کس قدر منع کیا گیا ہے لیکن آج کل لوگ اس سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے، خدارا اپنے ایمان کو خطرے میں نہ ڈالیں اپنی آخرت کے بارے میں سوچیں دنیاوی زندگی تو آپ بہت آرام و سکون اور آسائشوں کے ساتھ گزار لیں گے لیکن آخرت میں کیا کریں گے جب اپنا نامۂ اعمال پڑھ کر سنانا ہوگا۔ اللہ پاک ہمیں بھی سود اور دیگر ناجائز وحرام کاموں سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنی آخرت بہتر کرنے کی توفیق دے۔آمین


سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا، پروان چڑھنا اور بلندی کی طرف جانا ہے اور شرعی اعتبار سے اس کی تعریف یہ ہے کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا، مثلا کسی کو سال یا چھ ماہ کے لیے 100 روپے قرض دیئے تو اس سے یہ شرط کر لی کہ وہ 100 روپے کے 120 روپے لے گا، مہلت کے عوض یہ جو 20 روپے زیادہ لیے گئے ہیں یہ سود ہے۔

سود کا حکم: سود حرام قطعی ہے اسے حلال جاننے والا کافر ہے اور قرآن و حدیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں، اسی طرح قرآن پاک میں سورۂ اٰل عمران کی آیت نمبر 130 میں بیان کیا گیا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) ترجمہ:اے ایمان والو! دونا دون (یعنی دگنا دگنا) سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تا کہ فلاح پاؤ۔

سود کے متعلق فرامین مصطفیٰ:

1۔ حضور ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث: 1597) اور اسی طرح قرآن کریم کی سورۂ بقرہ میں آیت نمبر 276 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ(۲۷۶) (پ 3، البقرۃ: 276) ترجمہ: خدا سود کو نابود کرتا اور خیرات کو بڑھاتا ہے اور خدا کسی ناشکرے گناہگار کو دوست نہیں رکھتا۔

2۔ سود 73 گناہوں کا مجموعہ ہے ان میں سے سب سے ہلکا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(ابن ماجہ، 3/72، حدیث: 2274) اسی طرح قرآن پاک کی سورۂ روم میں آیت نمبر 39 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِۚ-وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ(۳۹) ترجمہ کنز الایمان: اور تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی اور جو تم خیرات دو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو انہیں کے دونے ہیں۔

3۔بے شک سود خواہ کتنا بھی زیادہ ہو جائے لیکن اس کا انجام فقر و ذلت ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 2827) اور سود کی حرمت کے متعلق قرآن کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۷۵) (پ 3، البقرۃ: 275)ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود، تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جواب ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے۔

4۔ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جس رات مجھے معراج کرائی گئی تو میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ مکانوں کی طرح تھے ان کے اندر سانپ تھے جو باہر سے دکھائی دے رہے تھے، میں نے جبرائیل سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ سود کھانے والے ہیں۔(ابن ماجہ، حدیث: 2223) قرآن پاک کی سورۂ بقرہ آیت 278 میں ارشاد ہے، ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو کچھ سود میں سے باقی رہ گیا اگر تم مومن ہو پھر اگر نہیں چھوڑتے تو تیار ہو جاؤ لڑنے کو اللہ اور اس کے رسول سے۔

5۔ سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔(شعب الایمان، 4/390، حدیث: 5523)


فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے، سود حرام قطعی ہے جس طرح سود لینا حرام ہے سود دینا بھی حرام ہے۔

سود کی تعریف: عقد معاوضہ یعنی لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔

فرامین مصطفیٰ:

1۔ نبی کریم ﷺ نے سود کھانے والے،کھلانے والے،اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔(صحیح مسلم،ص 862،حدیث:1598)

2۔(ظاہری طور پر ) سود اگرچہ زیادہ ہی ہو آخر کار اس کا انجام کمی پر ہوتا ہے۔(سود اور اس کا علاج، ص 36)

3۔ قیامت کے دن سود خور کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ دیوانہ و مخبوط الحواس ہوگا۔(سود اور اس کا علاج، ص 42)

4۔ بے شک سود کے 73 دروازے ہیں ان میں سے کمترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(سود اور اس کا علاج، ص 17)

5۔ سات چیزوں سے بچو جو کہ تباہ کرنے والی ہیں، صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ وہ چیزیں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا: شرک کرنا، جادو کرنا، اسے ناحق قتل کرنا جسے قتل کرنا اللہ نے حرام کیا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دوران مقابلہ کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا، پاک دامن شادی شدہ مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔(سود اور اس کا علاج، ص 15)

سود کے چند معاشرتی نقصانات: مال کی حرص سود کا معاشرتی نقصان ہے، فضول خرچی خاص طور پر شادی وغیرہ اور فضول رسموں میں سود پر قرض اٹھانا ہے، علم دین کی کمی سود کا معاشرتی نقصان ہے، بعض اوقات معلومات نہ ہونے کی وجہ سے آدمی سود کے لین دین میں مبتلا ہوتا ہے۔

سود سے بچنے کی ترغیب: قناعت اختیار کیجیے، فضول خرچی اور فضول رسومات سے بچیے، لمبی امیدوں سے کنارہ کشی کیجیے اور موت کو کثرت سے یاد کیجیے، سود کے عذابات اور اس کے نقصانات کو پڑھیے اور غور کیجیے۔


فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے۔

سود کی تعریف: عقد معاوضہ یعنی لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔(بہار شریعت، 2/769، حصہ: 11)

5 فرامین مصطفیٰ:

1۔شہنشاہ مدینہ ﷺؑ نے فرمایا:سات چیزوں سے بچو جو کہ تباہ و برباد کرنے والی ہیں،صحابہ کرام نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ وہ سات چیزیں کیا ہیں؟ارشاد فرمایا: شرک کرنا،جادو کرنا،اسے ناحق قتل کرنا کہ جس کا قتل کرنا اللہ نے حرام کیا،سود کھانا،یتیم کا مال کھانا،جنگ کے دوران مقابلہ کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا اور پاک دامن و شادی شدہ مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔(صحیح بخاری،2/242،حدیث:2766)

2۔جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 69)

3۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 70)

4۔ سرکار ﷺ فرماتے ہیں:شبِ معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح بڑے بڑے تھے جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے،میں نے جبرائیل سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟انہوں نے عرض کی یہ سود خور ہیں۔(ابن ماجہ،3/72)

5۔اللہ کے محبوب ﷺ نے سود کھانے والے،کھلانے والے،اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم،ص 862،حدیث:1598)

سود کے چند معاشرتی نقصان: سود بہت بری بیماری ہے جو معاشرے میں بہت پھیل رہی ہے، یہ سود ہی کی نحوست ہے کہ ملک سے تجارت کا دیوالیہ نکل جاتا ہے، ظاہر ہے کہ دولت چند اداروں ہی میں محدود ہو کر رہ جاتی ہے اور تجارت جس دولت کے ذریعے ہوتی ہے جب چند اداروں ہی تک محدود ہو جائے گی تو معیشت کی گاڑی کا پہیہ بھی رک جائے گا، سود کی نحوست سے جب انڈسٹری برباد ہو جاتی ہے تو تجارت ختم ہو جاتی ہے اور اس طرح بے روزگاری بڑھتی ہے، جب بے روزگاری بڑھتی ہے تو جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔

سود سے بچنے کی ترغیب: سودی لین دین سے بچنے کے لیے قناعت اختیار کیجیے، لمبی امیدوں سے کنارہ کشی کیجیے اور موت کو کثرت سے یاد کیجیے ان شاء اللہ دل سے دنیا کی محبت نکلے گی اور آخرت کی تیاری کرنے کا ذہن بنے گا، سود کے عذابات اور اس کے دنیوی نقصانات کو پڑھیے سنیے اور غور کیجیے کہ یہ کس قدر تباہی و بربادی کا سبب بنتا ہے۔اللہ کریم ہمیں اس سے بچائے۔ آمین


فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ اتنی برائیوں میں مبتلا نظر آرہا ہے وہیں ایک اہم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے، وہ سود ہے کہ کوئی حاجت مند  قرض مانگتا ہے تو اسے سود کے بغیر قرض ملنا مشکل ہو جاتا ہے تو حاجت مند قرض بھی لے لیتا ہے اور سود بھی ادا کرتا ہے، ہمارے پیارے آقا ﷺ نے قرض کے بارے میں فرمایا: ہر قرض صدقہ ہے۔ اور یہ بھی فرمایا: جس قرض سے کچھ نفع لیا جائے وہ سود ہے۔ اور ہمارے معاشرے کا یہ حال ہے کہ وہ قرض دے کر صدقہ کا ثواب کمانے کے بجائے نفع اٹھا کر گناہ کر بیٹھتے ہیں اور اپنی دنیا اور آخرت برباد کر لیتے ہیں۔

فرامین مصطفیٰ:

1۔ جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی، ص 70)

2۔ بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ان میں سے کم تر ایسا ہے جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(معجم اوسط، 5/227، حدیث: 7151)

3۔قیامت کے دن سود خور کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ دیوانہ و مخبوط الحواس ہوگا۔(معجم کبیر، 13/60، حدیث: 110)

کل قرض جر منفعۃ فھو ربا یعنی جس قرض سے کچھ نفع لیا جائے وہ سود ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 17/713)

5۔جو بندہ مال حرام حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے لیے اس میں برکت اور چھوڑ کر مرے گا تو جہنم میں جانے کا سامان ہے، اللہ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے، بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔(مسند امام احمد،2/34، حدیث: 3672)

معاشرتی نقصانات: سود خور حاسد بن جاتا ہے، کیونکہ اس کی تمنا ہوتی ہے کہ اس سے قرض لینے والا نہ تو کبھی پھولے پھلے اور نہ ہی کبھی ترقی کر پائے کہ اس کی ترقی سے اس کی آمدنی تباہ ہوتی ہے، کیونکہ جس نے اس سے سود پر قرض لیا اگر وہ ترقی کرے گا تو قرض اتار دے گا تو اس کی آمدنی ختم ہو جائے گی اور پھر وہ دوبارہ اس سے قرض نہیں لے گا پھر اسے یہی حسد کہیں کا نہیں چھوڑتا اور یہ اکثر صورتوں میں معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔


سود آج کل ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے اور کچھ لوگ تو اس کا حرام ہونا ہی بھول گئے ہیں، لیکن سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام اور اس کی حرمت کا منکر (انکار کرنے والا) کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق و مردود الشہادہ ہے (یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی) اور اللہ نے قرآن پاک میں کئی مقامات پر اس کی مذمت فرمائی ہے، چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 275 میں ہے: ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-ترجمہ کنز الایمان: یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سود ہی کی مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود کو۔

سود کی تعریف: فقہائے کرام لکھتے ہیں کہ سود اس اضافہ کو کہتے ہیں جو دو فریق میں سے ایک فریق کو مشروط طور پر اس طرح ملے کہ وہ اضافہ عوض سے خالی ہو۔(ہدایہ) اور عاشقوں کے امام اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سود کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع و فائدہ حاصل ہو وہ سب سود اور بڑا حرام ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 17/359) اب سود کی مذمت پر احادیث مبارکہ پیش کی جاتی ہیں:

فرامین مصطفیٰ:

1۔ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی، ص 69)

2۔ جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی، ص 70)

3۔ حضور ﷺ نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، سود لکھنے والے او راس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 663، حدیث: 4093)

4۔ سود 73 گناہوں کا مجموعہ ہے ان میں سب سے ہلکا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(ابن ماجہ، 3/72، حدیث:2275 ملتقطا)

5۔ سرکار ﷺ فرماتے ہیں: شب معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح (بڑے بڑے) تھے جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے، میں نے جبرائیل سے پوچھا: یہ کون ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ سود خور ہیں۔(ابن ماجہ، 3/72، حدیث: 2273)

آہ صد کروڑ آہ! آج ہمارے پیٹ میں اگر معمولی سا کیڑا چلا چائے تو طبیعت میں بھونچال آجاتا ہے، قیامت کا یہ سخت عذاب کیسے برداشت کریں گے؟ سود کھانے والے لوگوں کے پیٹ اتنے بڑے ہوں گے جیسا کہ کسی مکان کے کمرے ہوں ان میں سانپ اور بچھو وغیرہ ہوں گے، کس قدر بھیانک عذاب ہے، اللہ پاک ہم سب کو سود کی آفت سے محفوظ فرمائے۔

مسلمانوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اللہ کے معاملے میں چون و چرا کریں اور مال کی فراوانی دیکھ کر اپنے آپ کو حرام روزی میں مبتلا کریں، مگر ہائے افسوس صد کروڑ افسوس! آج مسلمان بےباکی کے ساتھ گناہوں کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ کسی بات کی پروا کیے بغیر سود پر قرض لے لیتا ہے، بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی اگر کوئی شخص خود سود لینے کا عادی ہے تو وہ دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتا ہے مثلا اگر وہ کسی پریشان شخص کو دیکھ کر اس کی پریشانی پوچھے اور آگے والا کہے کہ بیٹی کی شادی کرنی ہے پیسے نہیں ہیں تو کہے گا کہ سود لے کر کر لو اور اگر کوئی کہے کہ گھر میں کچھ کھانے پینے کو نہیں ہے کیا کروں؟ تو کہے گا کہ سو د لے لو۔ ہم مسلمان ہیں اگر ہم خود کسی گناہ میں مبتلا ہیں تو خود کو اس سے بچائیں یہ نہیں کہ دوسروں کو بھی اس میں شامل کر لیں اور ویسے بھی آپ سود کی اتنی وعیدیں پڑھ چکے ہیں کہ سود لینے والے پر رسول اللہ ﷺ کی لعنت ہوتی ہے اور جس پر رسول اللہ کی لعنت وہ جہنم کے عذاب کا مستحق تو اس لیے خود کو اس حرام کام سے بچائیں اور دوسروں کو بھی۔