سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا، پروان چڑھنا اور بلندی کی طرف جانا ہے اور شرعی اعتبار سے اس کی تعریف یہ ہے کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا، مثلا کسی کو سال یا چھ ماہ کے لیے 100 روپے قرض دیئے تو اس سے یہ شرط کر لی کہ وہ 100 روپے کے 120 روپے لے گا، مہلت کے عوض یہ جو 20 روپے زیادہ لیے گئے ہیں یہ سود ہے۔

سود کا حکم: سود حرام قطعی ہے اسے حلال جاننے والا کافر ہے اور قرآن و حدیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں، اسی طرح قرآن پاک میں سورۂ اٰل عمران کی آیت نمبر 130 میں بیان کیا گیا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) ترجمہ:اے ایمان والو! دونا دون (یعنی دگنا دگنا) سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تا کہ فلاح پاؤ۔

سود کے متعلق فرامین مصطفیٰ:

1۔ حضور ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث: 1597) اور اسی طرح قرآن کریم کی سورۂ بقرہ میں آیت نمبر 276 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ(۲۷۶) (پ 3، البقرۃ: 276) ترجمہ: خدا سود کو نابود کرتا اور خیرات کو بڑھاتا ہے اور خدا کسی ناشکرے گناہگار کو دوست نہیں رکھتا۔

2۔ سود 73 گناہوں کا مجموعہ ہے ان میں سے سب سے ہلکا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(ابن ماجہ، 3/72، حدیث: 2274) اسی طرح قرآن پاک کی سورۂ روم میں آیت نمبر 39 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِۚ-وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ(۳۹) ترجمہ کنز الایمان: اور تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی اور جو تم خیرات دو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو انہیں کے دونے ہیں۔

3۔بے شک سود خواہ کتنا بھی زیادہ ہو جائے لیکن اس کا انجام فقر و ذلت ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 2827) اور سود کی حرمت کے متعلق قرآن کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۷۵) (پ 3، البقرۃ: 275)ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود، تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جواب ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے۔

4۔ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جس رات مجھے معراج کرائی گئی تو میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ مکانوں کی طرح تھے ان کے اندر سانپ تھے جو باہر سے دکھائی دے رہے تھے، میں نے جبرائیل سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ سود کھانے والے ہیں۔(ابن ماجہ، حدیث: 2223) قرآن پاک کی سورۂ بقرہ آیت 278 میں ارشاد ہے، ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو کچھ سود میں سے باقی رہ گیا اگر تم مومن ہو پھر اگر نہیں چھوڑتے تو تیار ہو جاؤ لڑنے کو اللہ اور اس کے رسول سے۔

5۔ سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔(شعب الایمان، 4/390، حدیث: 5523)