سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت طارق، فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ
اللہ پاک نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، انسان کو مال و دولت جیسی
نعمت دی ہے اللہ پاک جسے جتنا چاہے نوازتا ہے لیکن پھر بھی انسان کو ہمیشہ زیادہ
سے زیادہ کی ہوس رہتی ہے اور وہ اسے ناجائز و حرام طریقوں سے حاصل کرنا شروع کر
دیتا ہے، انہیں ناجائز و حرام طریقوں میں سے ایک طریقہ سود ہے جو کسی دوسرے انسان
کو مال ادھار دیا تواس ادھار مال کے ساتھ اس سے اضافی مال لینے سے حاصل ہوتا ہے جو
کہ حرام اور ہلاکت کا باعث بنتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَاۤ
اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا
عِنْدَ اللّٰهِۚ-وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ(۳۹) (پ 21،
الروم:39)ترجمہ کنز الایمان: اور تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال
بڑھیں تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی اور جو تم خیرات دو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے
تو انہیں کے دونے ہیں۔
(اور جو مال تم لوگوں کو دو) اس کی تفسیر صراط الجنا ن میں یہ ہے کہ ایک قول
یہ ہے کہ اس آیت میں وہی سود مراد ہے جسے سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 279 میں حرام
فرمایا گیا ہے یعنی تم قرض دے کر جو سود لیتے ہو اور اپنے مالوں میں اضافہ کرتے ہو
تو وہ اللہ پاک کے نزدیک اضافہ نہیں ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں وہ تحفے مراد ہیں جو اس نیت سے دیئے جاتے
تھے کہ جسے تحفہ دیا وہ اس سے زیادہ دے گا، چنانچہ مفسرین فرماتے ہیں کہ لوگوں کا
دستور تھا کہ وہ دوست احباب اور شناسائی رکھنے والوں کو یا اور کسی شخص کو اس نیت
سے ہدیہ دیتے تھے کہ وہ انہیں اس سے زیادہ دے گا یہ جائز تو ہے لیکن اس پر ثواب نہ
ملے گا اور نہ اس میں برکت ہوگی کیونکہ یہ عمل خالصۃً اللہ کے لیے نہیں ہوا۔
فقہا نے اس کی تعریف یوں کی ہے: سود اس اضافہ کو کہتے جو دو فریق میں سے ایک
فریق کو مشروط طور پر اس طرح ملے کہ وہ اضافہ عوض سے خالی ہو۔(ہدایہ)سود کی مذمت و
ممانعت کے بارے میں احادیث مبارکہ بھی موجود ہیں چند احادیث مبارکہ پڑھیے اور لرز
اٹھیے فوراً اس جہنم میں لے جانے والے کام اور ہلاکت کا باعث بننے والے کام سے
توبہ کر لیجیے تاکہ آپ کی آخرت سنور جائے۔
1۔ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اس
کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔
2۔ سود سے بظاہر اگرچہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔(مسند،
حدیث:3754)
3۔ادھار میں سود ہے اور ایک روایت میں ہے کہ دست بدست ہو تو سود نہیں یعنی
جبکہ جنس مختلف ہو۔
4۔ سود کو چھوڑو اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔(ابن ماجہ، حدیث:
2276)
5۔ سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔
اسی کی مثل بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی۔(مسند، حدیث:22016)
استغفر اللہ، الامان و الحفیظ احادیث مبارکہ میں سود کے بارے میں کس قدر منع
کیا گیا ہے لیکن آج کل لوگ اس سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے، خدارا اپنے ایمان کو
خطرے میں نہ ڈالیں اپنی آخرت کے بارے میں سوچیں دنیاوی زندگی تو آپ بہت آرام و
سکون اور آسائشوں کے ساتھ گزار لیں گے لیکن آخرت میں کیا کریں گے جب اپنا نامۂ
اعمال پڑھ کر سنانا ہوگا۔ اللہ پاک ہمیں بھی سود اور دیگر ناجائز وحرام کاموں سے
محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنی آخرت بہتر کرنے کی توفیق دے۔آمین