فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ اتنی برائیوں میں مبتلا نظر آرہا ہے وہیں ایک اہم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے، وہ سود ہے کہ کوئی حاجت مند  قرض مانگتا ہے تو اسے سود کے بغیر قرض ملنا مشکل ہو جاتا ہے تو حاجت مند قرض بھی لے لیتا ہے اور سود بھی ادا کرتا ہے، ہمارے پیارے آقا ﷺ نے قرض کے بارے میں فرمایا: ہر قرض صدقہ ہے۔ اور یہ بھی فرمایا: جس قرض سے کچھ نفع لیا جائے وہ سود ہے۔ اور ہمارے معاشرے کا یہ حال ہے کہ وہ قرض دے کر صدقہ کا ثواب کمانے کے بجائے نفع اٹھا کر گناہ کر بیٹھتے ہیں اور اپنی دنیا اور آخرت برباد کر لیتے ہیں۔

فرامین مصطفیٰ:

1۔ جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی، ص 70)

2۔ بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ان میں سے کم تر ایسا ہے جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(معجم اوسط، 5/227، حدیث: 7151)

3۔قیامت کے دن سود خور کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ دیوانہ و مخبوط الحواس ہوگا۔(معجم کبیر، 13/60، حدیث: 110)

کل قرض جر منفعۃ فھو ربا یعنی جس قرض سے کچھ نفع لیا جائے وہ سود ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 17/713)

5۔جو بندہ مال حرام حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے لیے اس میں برکت اور چھوڑ کر مرے گا تو جہنم میں جانے کا سامان ہے، اللہ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے، بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔(مسند امام احمد،2/34، حدیث: 3672)

معاشرتی نقصانات: سود خور حاسد بن جاتا ہے، کیونکہ اس کی تمنا ہوتی ہے کہ اس سے قرض لینے والا نہ تو کبھی پھولے پھلے اور نہ ہی کبھی ترقی کر پائے کہ اس کی ترقی سے اس کی آمدنی تباہ ہوتی ہے، کیونکہ جس نے اس سے سود پر قرض لیا اگر وہ ترقی کرے گا تو قرض اتار دے گا تو اس کی آمدنی ختم ہو جائے گی اور پھر وہ دوبارہ اس سے قرض نہیں لے گا پھر اسے یہی حسد کہیں کا نہیں چھوڑتا اور یہ اکثر صورتوں میں معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔