سود آج کل ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے اور کچھ لوگ تو اس کا حرام ہونا ہی بھول گئے ہیں، لیکن سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام اور اس کی حرمت کا منکر (انکار کرنے والا) کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق و مردود الشہادہ ہے (یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی) اور اللہ نے قرآن پاک میں کئی مقامات پر اس کی مذمت فرمائی ہے، چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 275 میں ہے: ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-ترجمہ کنز الایمان: یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سود ہی کی مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود کو۔

سود کی تعریف: فقہائے کرام لکھتے ہیں کہ سود اس اضافہ کو کہتے ہیں جو دو فریق میں سے ایک فریق کو مشروط طور پر اس طرح ملے کہ وہ اضافہ عوض سے خالی ہو۔(ہدایہ) اور عاشقوں کے امام اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سود کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع و فائدہ حاصل ہو وہ سب سود اور بڑا حرام ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 17/359) اب سود کی مذمت پر احادیث مبارکہ پیش کی جاتی ہیں:

فرامین مصطفیٰ:

1۔ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی، ص 69)

2۔ جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی، ص 70)

3۔ حضور ﷺ نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، سود لکھنے والے او راس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 663، حدیث: 4093)

4۔ سود 73 گناہوں کا مجموعہ ہے ان میں سب سے ہلکا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(ابن ماجہ، 3/72، حدیث:2275 ملتقطا)

5۔ سرکار ﷺ فرماتے ہیں: شب معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح (بڑے بڑے) تھے جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے، میں نے جبرائیل سے پوچھا: یہ کون ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ سود خور ہیں۔(ابن ماجہ، 3/72، حدیث: 2273)

آہ صد کروڑ آہ! آج ہمارے پیٹ میں اگر معمولی سا کیڑا چلا چائے تو طبیعت میں بھونچال آجاتا ہے، قیامت کا یہ سخت عذاب کیسے برداشت کریں گے؟ سود کھانے والے لوگوں کے پیٹ اتنے بڑے ہوں گے جیسا کہ کسی مکان کے کمرے ہوں ان میں سانپ اور بچھو وغیرہ ہوں گے، کس قدر بھیانک عذاب ہے، اللہ پاک ہم سب کو سود کی آفت سے محفوظ فرمائے۔

مسلمانوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اللہ کے معاملے میں چون و چرا کریں اور مال کی فراوانی دیکھ کر اپنے آپ کو حرام روزی میں مبتلا کریں، مگر ہائے افسوس صد کروڑ افسوس! آج مسلمان بےباکی کے ساتھ گناہوں کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ کسی بات کی پروا کیے بغیر سود پر قرض لے لیتا ہے، بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی اگر کوئی شخص خود سود لینے کا عادی ہے تو وہ دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتا ہے مثلا اگر وہ کسی پریشان شخص کو دیکھ کر اس کی پریشانی پوچھے اور آگے والا کہے کہ بیٹی کی شادی کرنی ہے پیسے نہیں ہیں تو کہے گا کہ سود لے کر کر لو اور اگر کوئی کہے کہ گھر میں کچھ کھانے پینے کو نہیں ہے کیا کروں؟ تو کہے گا کہ سو د لے لو۔ ہم مسلمان ہیں اگر ہم خود کسی گناہ میں مبتلا ہیں تو خود کو اس سے بچائیں یہ نہیں کہ دوسروں کو بھی اس میں شامل کر لیں اور ویسے بھی آپ سود کی اتنی وعیدیں پڑھ چکے ہیں کہ سود لینے والے پر رسول اللہ ﷺ کی لعنت ہوتی ہے اور جس پر رسول اللہ کی لعنت وہ جہنم کے عذاب کا مستحق تو اس لیے خود کو اس حرام کام سے بچائیں اور دوسروں کو بھی۔