سود ایک بہت بُرا کام ہے کہ اس کے ہر معاملے میں یعنی دینے والا، لینے والا، دلوانے والا، لکھ کر دینے والا ، حتی کہ ساتھ جانے والا سب کے  سخت عذاب کے حق دار ہیں اور ان یعنی سودیوں پر ہمارے پیارے آخری نبی ﷺ نے لعنت بھی کی ہے۔جو سود کے کسی بھی معاملے میں شریک ہوں وہ سخت عذابِ نار کے حق دار ہے۔ سود جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔سود سے وقتی طور پرتو مال بڑھتا ہے لیکن اصل میں وہ اللہ (پاک ) کے نزدیک کسی کام کا نہیں ہوتا اوراُس مال کی الله کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔لہٰذا ہمیں ہر موقع پر سود لینے دینے سے بچنا چاہیے۔ سود کا گناہ بدکاری کرنے سے بھی بدتر ہے، بلکہ اس کا ستر حصہ گناہ ہے، سب سے کم درجہ گناہ ماں سے بدکاری کرنا ہے۔ قرآنِ پاک کی سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 275اور 276 میں ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۷۵) یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ(۲۷۶) ترجمہ کنز الایمان: وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سود کی مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سود تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو اب ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے،اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکرا بڑا گنہگار۔

ایک اور جگہ ارشاد باری ہے: وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِۚ-وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ(۳۹) (پ 21، الروم:39)ترجمہ کنز الایمان: اور تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی اور جو تم خیرات دو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو انہیں کے دونے ہیں۔

اس آیتِ مبارکہ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سود کا مال کس قدر ناقابلِ استعمال ہے کہ اس سے جو کاروبار کیا جاتا ہے وہ بھی کسی فائدے کا حامل نہیں ہوتا بلکہ اُلٹا عذاب کا باعث بنتا ہے۔ اگر سود کے مال سے کسی نے زکوٰۃ ادا کر بھی دی تو وہ مال کو ضائع کرنا ہے۔ کیوں کہ سود کا مال حرام ہوتا ہے اور حرام مال سے صدقہ و خیرات ، زکوٰۃ وغیرہ ادا نہیں ہوتے۔ اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی سود کے متعلق و عدیں آئی ہیں۔ جیسا کہ حدیثِ مبارکہ میں ہے:

حدیثِ مبارکہ: امام احمد ودارقطنی عبد الله بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہ عنہ سے روای ہیں کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا : سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ چھتیس مرتبہ بدکاری سے بھی سخت ہے۔(مسند امام احمد، 8 / 223 ، حدیث:22)ایک اور حدیثِ مبارکہ: ابنِ ماجہ و بیہقی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی کہ نبی پاکﷺ نے فرمایا: سود کا گناہ ستر حصہ ہے،ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے۔( ابنِ ماجہ،3 / 72،حدیث : 2274)

حدیثِ مبارکہ: مسلم شریف میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی کہ ہمارے نبی ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود کا کا غذ لکھنے والے اور اُس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا: وہ سب(گناہ میں) برابر ہیں ۔(مسلم، ص 862، حدیث : 1597)

استغفر الله !سود لینے دینے والے پر کس قدر عذاب الٰہی ہوگا۔ یہاں سود یوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے اور اُن کے لیے نصیحت بھی ہے کہ سودیوں پر ہمارے پیارے آقاﷺ نے لعنت فرمائی ہے۔یقیناً سود حرامِ قطعی ہے ۔اس کی حرمت کا منکر کافر ہے اور حرام سمجھ کر جو اس کا مرتکب ہے فاسق مردود الشہادہ ہے۔آج کل سود کی اتنی کثرت ہے کہ قرضِ حسن یعنی بغیرنفع روپیہ نہیں دینا چاہتے اور اہلِ حاجت اپنی حاجت کے سامنے اس کا لحاظ بھی نہیں کرتے کہ سودی روپیہ لینے میں آخرت کا کتنا بڑا عذاب ہے۔ اس سےبچنے کی کوشش کی جائے ۔

سود کی تعریف : فقہا نے لکھا کہ سود اس اضافہ کو کہتے ہیں جو دو فریق میں سے ایک فریق کو مشروط طور پر اس طرح ملے کہ وہ اضافہ عوض سے خالی ہو۔ (ہدایہ)ہمیں اللہ پاک سے عافیت کی دعا کرنی چاہیے اور سودی روپے سے خود بھی بچنا چاہیے اور دوسروں کو بھی اس سے بچانا چاہیے ۔ یقیناً سود بہت بُری چیز اور جہنم میں لے جانے کا باعث بھی ہے ۔


سود حرامِ قطعی ہے ۔اس کی حرمت کا منکر یعنی حرام ہونے کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ جس طرح سود لینا حرام ہے اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے۔

سود کی تعریف:عقدِ معاوضہ یعنی لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف سے زیادتی ہو کہ اس کے مقابل یعنی بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔ اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو فائدہ حاصل ہو وہ بھی سود ہے۔ (بہارِ شریعت، 2 / 769،حصہ:11)

1-فرمانِ مصطفٰے ﷺ :آج رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمینِ مقدس میں لے گئے ۔پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے۔ یہاں ایک شخص کنارے پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں کنارے کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر اس زور سے اس کے منہ پر مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا۔ پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے،لیکن کنارے والا منہ پر پتھر مار کر وہی لوٹا دیتا ہے۔ میں نے پوچھا: یہ کون شخص ہے؟ کہا: یہ شخص جو نہر میں ہے سودخور ہے۔(بخاری، ص 543، حدیث: 2085)

2-امام احمد، ابو داؤد، نسائی ،ابنِ ماجہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ سود کھانے سے کوئی نہیں بچے گا اور اگر سود نہ کھائے گا تو اس کے بخارات پہنچیں گے یعنی سود دے گا یا اس کی گواہی دے گا، دستاویز لکھے گا یا سودی روپیہ کسی کو دلانے کی کوشش کرے گا یا سود خور کے یہاں دعوت کھائے گا یا اس کا ہدیہ قبول کرے گا۔(ابو داؤد، 2/ 331، حدیث: 3331)

3-امام احمد ،ابنِ ماجہ،بیہقی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سود سے بظاہر اگرچہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔(بخاری، 2 / 14-15، حدیث: 2080)

4-حضور ﷺ نے فرمایا :اُدھارمیں سود ہے۔ایک روایت میں ہے:دست بدست ہو تو سود نہیں یعنی جبکہ جنس مختلف ہو۔(مسلم، حدیث:1584)

5-امام احمد و دارِقطنی عبداللہ بن حنظلہ غسیلُ الملائکہ رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ بدکاری سے بھی سخت ہے ۔ (مسندامام احمد، حدیث: 22016)

دینِ اسلام وہ عظیم دین ہے جس میں انسانوں کے باہمی حقوق اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا سبب بنتی ہے اور جو چیز معاشرتی آداب کے خلاف ہے اس سے دینِ اسلام نے منع فرمایا اور اس سے بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- (پ 3، البقرۃ: 275)ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود۔لہٰذا مسلمانوں کو سود سے بچنا چاہیے ۔مال کی حرص اور فضول خرچی کی وجہ سے لوگ سود جیسی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔انہیں اس سے بچنے کے لیے قناعت اختیار کرنی چاہیے اور لمبی امیدوں سے کنارہ کشی کر کے موت کو کثرت سے یاد کرنا چاہیے۔سود کے عذابات اور اس کے دنیاوی نقصانات کو پڑھنا چاہیے۔ بے شک دنیا اور آخرت سود کی وجہ سے برباد ہوتے ہیں۔ اللہ پاک سب مسلمانوں کو اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


سود ایک حرام کام ہے۔ لوگ چند پیسوں کی خاطر اپنی دنیاو آخرت تباہ کر بیٹھتے ہیں۔قرآن وحدیث میں سود کی مذمت کے بارے میں واضع طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ سود سے منع کیا گیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اس حرام کام سے بچیں ۔ جو اس کی حرمت کا انکار کرے وہ کافر ہے۔ سود دینے والا اور لینے والے دونوں جہنم کے حق دار ہوں گے۔سود کی مذمت کے بارے میں قرآنِ مجید میں آیتِ مبارکہ ہے ۔الله پاک  ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ: جو کچھ تم نے سود پر دیا کہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے ، وہ الله پاک کے نزدیک نہیں بڑھتا اور جو کچھ تم نے زکوٰۃ دی جس سے اللہ پاک کی خوشنودی چاہتے ہو، وہ اپنا مال دونا کرنے والے ہیں۔

اس آیتِ مبارکہ سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتی ہیں کہ جو ہم اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں بظاہر وه مال بڑھتا ہے،لیکن اللہ کے نزدیک اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ کیونکہ سود کا مال حرام ہوتا ہے۔دنیا میں تو اس مال کا فائدہ ملتا ہے لیکن آخرت میں وہی مال عذاب کا باعث بنے گا۔

سود کے متعلق فرامینِ مصطفٰے:

1-امام بخاری اپنی صحیح میں سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے راوی، حضور اقدس ﷺ نےفرمایا : آج رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمینِ مقدس (بیت المقدس) میں لے گئے۔پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے۔ یہاں ایک شخص کنارے پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے ۔ یہ کنارےکی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ا س زور سے اس کے منہ میں مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا ۔پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارے والا منہ میں پتھر مار کر وہیں لوٹا دیتا ہے ۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا : یہ کون شخص ہے؟ کہا :یہ شخص جو نہر میں ہے ،سود خوار ہے۔(بخاری،حدیث:2085)

2- مسلم شریف میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اُس کی گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا :وہ سب (گناہ میں)برابر ہیں۔(مسلم ، ص955، حدیث:4093)

3-امام احمدودارقطنی عبدالله بن حنظلہ غسیلُ الملائکہ رضی الله عنہ سے راوی کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ چھتیس مرتبہ بدکاری سے بھی سخت ہے ۔ (مسند احمد،حدیث: 22016)

4-ابنِ ماجہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا : سود کا گناہ ستر حصہ ہے، ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے ۔(ابنِ ماجہ،حدیث: 2274)

5-امام احمد و ابنِ ماجہ و بیہقی عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:( سود سے بظاہر) اگرچہ مال زیادہ ہو، مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا ۔(مسند احمد،2/50،حدیث:3754)


سود کی مذمت:سود حرامِ قطعی ہے۔اس کی حرمت کا منکر کافر ہےاور جو کوئی حرام سمجھ کر اس کا مرتکب ہے فاسق و مردودالشھادة ہے۔

سود کی تعریف:لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔(بہارشریعت،حصہ:2،ص769)

سود کی مذمت پر احادیث:

1-نبیِ کریمﷺنے فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح(بڑے بڑے)ہیں۔ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔میں نے پوچھا :اے جبرائیل!یہ کون لوگ ہیں؟انہوں نے کہا:یہ سود خور ہیں۔ (بہارِشریعت،حصہ2،ص768)

2-رسول اللہﷺنے فرمایا:جب کسی بستی میں بدکاری اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائرللذہبی ،ص69)

3-رسول اللہﷺنے فرمایا:سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ بدکاری سے سخت ہے۔ (مسندامام احمد، 8/223 ، رقم:22016)

4-مسلم شریف میں حضرت جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہﷺنے سود لینے والےاور سود دینے والےاور سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ وہ سب(گناہ میں)برابر ہیں۔(بہارِ شریعت،حصہ2،ص767)

5-رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ سود کا گناہ ستر حصے ہے ،ان میں سب سے کم درجہ کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے ۔( بہارِ شریعت ، حصہ 2 ، ص 767)

سود کے چند معاشرتی نقصانات:سود خوار لوگوں کی نظروں میں ذلیل و خوار ہو جاتا ہےاور دھوکے باز کہلاتا ہے۔ لوگ ایسے انسان سے کنارہ کشی کرتے ہیں ۔ اس کی دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی تباہی کی طرف چلی جا رہی ہوتی ہے۔

سود سے بچنے کی ترغیب:سود سے بچنے کے لیے قناعت اختیار کی جائے۔لمبی اُمیدوں سے کنارہ کشی کی جائے۔ سود کے دنیاوی اور اُخروی نقصانات کی طرف نظر کریں اور اللہ پاک سے رزقِ حلال کی دعا کیا کریں۔ اللہ پاک ہمیں سود جیسے گناہ اور اس کے تباہ کن نتائج سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنا فرمانبردار بنائے۔ آمین


سود حرامِ قطعی ہے۔اس کی حرمت کا منکر کافر ہے۔ جو شخص اس کو حرام سمجھتے ہوئے اس حرام کام کا ارتکاب کرے تو وہ فاسق ہے۔ سود کا لین دین حرام ہے ۔انسان چند پیسوں کی خاطر اپنی دنیا و آخرت تباہ و برباد کر دیتا ہے ۔قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں اس کی مذمت کا بیان ہے ۔

سود کی تعریف: عقدِ معاوضہ(یعنی لین دین کے کسی مُعَامَلے) میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل (بدلے) میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔(بہارِ شریعت، 2/769، حصہ: 11)

سود کی مذمت پر فرامینِ مصطفٰے:

1- حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرورِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار بدکاری کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔(شعب الایمان، 4/395 ،حدیث: 5523)

2- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:اللہ پاک سود خور کا نہ صدقہ قبول کرے،نہ حج،نہ جہاد،نہ رشتے داروں سے حسنِ سلوک ۔ (تفسیرِ قرطبی)

3-حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:سود کا گناہ 73 درجے ہے۔ ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے بدکاری کرے۔ (مستدرک، حدیث: 2304)

4-رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:سود سے بظاہر اگرچہ مال زیادہ ہو،مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہو گا۔(مسند،2/50،حدیث: 3754)

5- مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے سود دینے والے،لینے والے، اس کے کاغذات تیار کرنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا :وہ سب گناہ میں برابر ہیں ۔ (مسلم ،حدیث: 1598)

سود کے چند معاشرتی نقصان:

آج کل سود کی اتنی کثرت ہے کہ قرضِ حسن جو بغیر سودی ہوتا ہے بہت کم پایا جاتا ہے۔ لوگ اپنی وسعت سے زیادہ خرچ کرنا چاہتے اور سود کی آفت میں خود کو مبتلا کرتے ہیں۔ مال کا لالچ اور فضول خرچی جیسی آفات معاشرے میں سود کی بدولت ہی ہیں۔

سود سے بچنے کی ترغیب: شریعتِ مطہرہ نے جس طرح سود لینا حرام فرمایا ،سود دینا بھی حرام فرمایا اور فرمایا کہ دونوں گناہ میں برابر ہیں۔ ہر مسلمان کو اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب ﷺ پر ایمان رکھتے ہوئے حرام کاموں سے بچنا چاہیے۔ سود کے عذابات پر غور کرنا چاہیے کہ یہ کس قدر تباہی و بربادی کا سبب ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے رسول ﷺ کے صدقے ان حرام کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین


 سود کی مذمت: آج کل لوگ چند پیسوں کی خاطر سود جیسے حرام فعل کو فخر سے اپناتے ہیں،جبکہ سود جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔ اللہ نے بہت سی چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، انہی میں ایک سود ہے۔ الله پاک نے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) (پ 4، اٰل عمران:130) ترجمہ:اے ایمان والو! دونا دون (یعنی دگنا دگنا) سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تا کہ فلاح پاؤ۔

سود کی تعریف: عقد ِمعاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اورایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو سود ہے ۔ (بہارِ شریعت، 2 / 768، حصہ 11)

سود کا حکم:ربا یعنی سود حرامِ قطعی ہے۔ اس کی حرمت کا منکر کافر ہے اور حرام سمجھ کر جو اس کا مرتکب ہے فاسق، مردود الشہادہ ہے۔

احادیثِ مبارکہ میں سود کی مذمت :احادیثِ مبارکہ میں بھی سود کی مذمت بیان کی گئی ہے۔جن میں سے چند احادیثِ مبارکہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتی ہوں:

1- ابنِ ماجہ و دارمی امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ فرمایا :سود کو چھوڑ دو اور جس میں سود کا شبہ ہو ، اُسے بھی چھوڑ دو۔

2-مسلم شریف میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سودکا کاغذ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب (گناہ میں)برابر ہیں۔

3- امام احمد وابنِ ماجہ وبیہقی عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے راوی کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:(سود سے بظاہر)اگرچہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔

4-ابنِ ماجہ و بیہقی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی: رسول الله ﷺ نے فرمایا: سود کا گناہ سترحصہ ہے ،ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے۔

5-صحیحین میں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ، نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اُدھار میں سود ہے۔ایک روایت میں ہے:دست بدست ہو تو سود نہیں یعنی جبکہ جنس مختلف ہو ۔(بہارِ شریعت، جلد2،حصہ: 11)


فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار بُرائیوں میں مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین بُرائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے، وہ یہ ہے کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ سود ایک کبیرہ اور ہلاک کرنے والا گناہ ہے۔ سود لینے سے ہمارا سلام منع فرماتا ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتاہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ- پ 3،البقرۃ:275)ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط کر دیا ہو۔

سود کی تعریف:عقدِ معاوضہ (یعنی لین دین کے معاملے میں) جب دونوں طرف صرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔(بہارِ شریعت، 2/769،حصہ: 11)

سود کے مختلف احکام:سود حرامِ قطعی ہے ۔اس کی حرمت کا منکر کافر ہے ۔جس طرح سود لینا حرام ہے ،اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے۔( گناہوں کے عذابات،ص 37)

سود کے بارے میں پانچ فرامینِ مصطفٰے:

1-امام احمد و دارِ قطنی عبداللہ بن حنظلہ غسیلُ الملائکہ رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ بدکاری سے بھی سخت ہے۔ (مسندامام احمد،حدیث: 22016)

2-ابنِ ماجہ اور دارمی امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سود کو چھوڑ دو اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔( ابنِ ماجہ،حدیث: 2276)

3-امام محمد ،ابنِ ماجہ وبیہقی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (سود سے بظاہر ) اگرچہ مال زیادہ ہو، مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔(مسند امام احمد،حدیث:3754)

4-حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کسی بستی میں بدکاری اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے ۔(کتاب الکبائر للذہبی ، ص69)

5-حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سود کا گناہ 73 درجے ہے ،ان میں سے سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرے۔(مستدرک، 2/ 338، حدیث: 2306)

سود سے بچنے کی ترغیب:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اللہ پاک سود خور کا نہ صدقہ قبول کرے ،نہ حج، نہ جہاد،نہ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک۔(تفسیرِ قرطبی ، 2/ 274)

سود کے چند معاشرتی نقصانات:سود ایسا گناہ ہے جس کی وجہ سے ایک شخص کو معاشرے میں طرح طرح کے نقصانات پہنچتے ہیں مثلاً لوگوں کی نظروں میں ذلیل و خوار ہو جاتا ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں سود سے کس قدر منع کیا گیا ہے۔لیکن آج کل کئی لوگ اس سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے۔ خدارا !اپنے ایمان کو خطرے میں نہ ڈالیے۔ اپنی آخرت کے بارے میں سوچئے۔ دنیاوی زندگی تو آپ بہت آرام و سکون کے ساتھ گزار لیں گے ،لیکن آخرت میں کیا کریں گے! اللہ پاک ہمیں بھی سود اور دیگر ناجائز حرام کاموں سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنی آخرت بہتر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


تنگیِ رِزْق کے اسباب میں سے ایک سبب سُود خوری بھی ہےجیساکہ مروی ہے:اِیَّاکُمْ وَالرِّبَا فَاِنَّہُ یُوْرِثُ الْفَقْرَ یعنی سُود سے بچو کہ یہ تنگدستی لاتا ہے۔یاد رکھئے! سُود ایک ایسی بُرائی ہے جس نے ہمیشہ مَعِیْشت و روزگار کو تباہ و برباد کیا ہے۔قرآن و حدیث میں سُود کی نہایت سخت الفاظ میں بُرائی بیان کی گئی ہے،حتی کہ سُود سے باز نہ آنے والوں کے خلاف اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے اعلانِ جنگ کیا گیا ہے۔چنانچہ پارہ 3 سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 278 اور 279 میں ارشادِ باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) (پ 3، البقرۃ: 278-279) ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جو کچھ تمہارا سود باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم کو اللہ اور رسول کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہیں تمہارا اصل مال ملے گا نہ دوسروں پر تم ظلم کرو اور نہ دوسرا تم پر ظلم کرے۔

٭سود کا رواج تجارتوں کو خراب کرتا ہے کہ سُود خوار کو بے محنت مال کا حاصل ہونا تجارت کی مشقتوں اور خطروں سے کہیں زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے اور تجارتوں کی کمی انسانی معاشرت کو نقصان پہنچاتی ہے۔٭ سُود کے رواج سے باہمی محبّت کے سُلوک کو نُقصان پہنچتا ہے کہ جب آدمی سُود کا عادی ہوتو وہ کسی کو قرضِ حسن سے امداد پہنچانا گوارا نہیں کرتا ۔ ٭ سُود سے انسان کی طبیعت میں درندوں سے زیادہ بےرحمی پیدا ہوتی ہے اور ٭سُود خوار اپنے مقروض کی تباہی و بربادی کا خواہش مند رہتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی سُود میں اور بڑے بڑے نقصانات ہیں اور شریعت کی مُمانَعَت عین حکمت ہے۔

سود کی تعریف:سود کو عربی میں”ربا“ کہتے ہیں۔ربا سے مراد معینہ مدت کے قرض پر وہ اضافی مالی رقم ہے جس کا مطالبہ قرض خواہ مقروض سے کرتا ہے اور یہ شرح پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔

سُود کی مذمت پر 5فرامینِ مُصطفٰے:

1-رسول اللہﷺنے سُود لینے والے اور سُود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اُس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اورفرمایا کہ وہ سب (گناہ میں)برابر ہیں۔( مسلم، حدیث:1598)

2- سُود کا ایک دِرہم جس کو جان کر کوئی کھائے،وہ 36 مرتبہ بدکاری سے بھی سخت ہے۔(مسند امام احمد، حدیث:2201)

3- شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا،جس کےپیٹ گھر کی طرح(بڑے بڑے) ہیں،ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔میں نے پوچھا:اے جبرائیل!یہ کون لوگ ہیں؟ کہا:یہ سُود خور ہیں۔ (ابن ماجہ، حدیث:2273)

4- سُودسے(بظاہر) اگرچہ مال زیادہ ہو،مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔( مسندامام احمد، حدیث:3754)

5- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سود کے ستر حصے ہیں اور ان میں سب سے کم ترین حصہ یہ ہے کہ انسان خود اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرے ۔ ( ابنِ ماجہ )

سود کے معاشرتی نقصانات:موجودہ معاشی نظام کا معاملہ یہ ہے کہ وہ پوری طرح سودی نظام پر مبنی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا میں معاشی عدم مساوات تیزی سے بڑھ رہی ہے۔دنیا کی ساری دولت سمٹ کر گنتی کے چند ارب پتیوں کی تجوری میں جمع ہورہی ہے۔ ایک عام غریب آدمی کے لیے زندگی گزارنا ایسا دشوار ہورہا ہے کہ وہ خود کشی کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔سود کے اخلاقی و روحانی نقصانات ہیں، کیونکہ ہم سودی معاملہ کرنے والے جس انسان کو بھی دیکھتی ہیں اس کی طبیعت میں بخل و کنجوسی ،تنگیٔ صدر،سخت دلی، مال کی بندگی اورمادیت کی ہوس وغیرہ جیسے گندے اوصاف رچے بسے ہوتے ہیں۔

سود سے بچنے کا درس:کسی بھی کام کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے اور اس کام کو احسن طریقے سے انجام دینے کے لیے پکا ارادہ انتہائی ضروری ہے۔ اگر اللہ پاک کے فضل و کرم سے آپ کے دل میں یہ احساس پیدا ہوگیا ہے کہ سود ایک گندگی و بیماری اور گناہ کا کام ہے اور اس سے نجات حاصل کرنی ہے تو آپ اس پر ڈٹ جائیے۔ اس سود نے ہماری انفرادی زندگی ، گھریلو ماحول ، ہمارے معاشرے بلکہ کُل نسلِ انسانی کو پریشانی ،بے چینی ،اقتصادی بدحالی ،مہنگائی اور بے راہ روی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یقین جانئے کہ اگر آپ ارادہ کر لیں گی اور اس پر ڈٹ جائیں گی تو آپ یقینی طور پر اپنی زندگی کو اس غلاظت سے پاک کر لیں گی۔ ہر نیک کام جو اللہ کے ڈر اور اس کی رضا کے لیے کیا جائے ، اس رب کی رحمتوں کو آواز دیتا ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور کبھی مایوس نہیں کرتا۔


ربا یعنی سود حرامِ قطعی ہے۔اس کی  حرمت کا منکر کافر ہے اور حرام سمجھ کر جو اس کا ارتکاب کرے وہ فاسق ہے ۔سود لینا اور دینا دونوں حرام کام ہیں ۔حدیثِ مبارکہ میں ان دونوں پر لعنت فرمائی گئی ہے ۔

سود کی تعریف:عقدِ معاوضہ(یعنی لین دَین کے کسی مُعَامَلے)میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مُقَابِل (یعنی بدلے) میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سُود ہے۔(بہارِ شریعت ، 2/769، حصہ:11)

سود کی مذمت پر فرامینِ مصطفٰے:

1- حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اُس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ وہ سب(گناہ میں)برابر ہیں۔(مسلم،ص 862،حدیث: (1597) )

2- فرمانِ آخری نبی ﷺ: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے ، وہ 36 مرتبہ بدکاری سے بھی سخت ہے۔(مسند امام احمد، 8 /223، حدیث: 22016)

3- مکی مدنی آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: سود (کا گناہ) ستر حصے ہے، ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی اپنی ماں سے نکاح کرے۔ (مشکاۃ المصابیح،2/142، حدیث: 2826)

4-مدینے کے تاجدار ،مکی مدنی آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں ، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا : اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں ؟ اُنہوں نے کہا: یہ سود خوار ہیں۔( ابنِ ماجہ،3/72، حدیث: 2273)

5- رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: (سود سے بظاہر ) اگرچہ مال زیادہ ہو ، مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہو گا۔(مسند امام احمد،2/50، حدیث: 3754)

سود کے چند معاشرتی نقصانات: آج کل سود کی اتنی کثرت ہے کہ قرضِ حسن جو بغیر سود کے ہوتا ہے بہت کم پایا جاتا ہے ۔لوگ اپنی وسعت سے زیادہ خرچ کرنا چاہتے اور سود کی آفت میں خود کو مبتلا کرتے ہیں۔ مال کا لالچ اور فضول خرچی جیسی آفات معاشرے میں سود کی بدولت ہی ہیں۔

سود سے بچنے کی ترغیب:سود سے بچنے کے لیے قناعت اختیار کیجئے۔ لمبی اُمیدوں سے کنارہ کشی اختیار کیجیے۔ دنیا و آخرت کے تباہ کن نتائج ، سود کے عذابات اور اس کے نقصانات کو پیشِ نظر رکھیے۔اللہ پاک ہمیں سود جیسے گناہ اور اس کے تباہ کن نتائج سے محفوظ فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین


ربا یعنی سود حرامِ قطعی ہے ۔اس کی حرمت کا منکر کافر ہے۔ جو حرام سمجھ کر اس کا ارتکاب کرے وہ فاسق اور اس کی گواہی معتبر نہیں۔

سود کی تعریف:عقدِ معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابلے (بدلے) میں دوسری طرف کچھ نہ ہو تو یہ سود ہے۔ الله پاک نے متعدد مقامات پر سود کی مذمت بیان فرمائی۔ چنانچہ ارشادِ ربانی ہے: وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- (پ 3، البقرۃ: 275)ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود۔

سو دکی مذمت پر 5 فرامین مصطفٰے:

1-حضرت عبد اللہ بن خنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:سود کاایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ چھتیس مرتبہ بدکاری سےبھی سخت ہے ۔(مسند امام احمد، حدیث: 22016)

2-حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سود کا گناہ ستر حصہ ہے، اس میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے ۔( ابنِ ماجہ ،حدیث : 2274 )

3-حضرت جابر سے روایت ہے:رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود کا کاغذلکھنے والے اور ان کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا:وہ سب(گناہ میں)برابر ہیں۔(مسلم ،حدیث: 105 )

4-حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھر کی طرح ہیں۔ ان کے پیٹوں میں سانپ ہیں جوبا ہرسے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا :اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا :یہ سود خوار ہیں۔(ابنِ ماجہ، حدیث:2273)

5-حضرت عمربن خطاب سے روایت ہے :رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:سود کو چھوڑو اورجس میں سود کا شبہ ہوا سے بھی چھوڑ دو۔( ابنِ ماجہ، حدیث: 2276)

احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ سودلینا اور دینادونوں حرام ہے۔ دونوں پر حدیثوں میں لعنت آئی ہے۔ سود کے دنیاوی اور اخروی نقصانات ہیں۔ اللہ پاک ہمیں اس گناہِ کبیرہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


سود حرامِ قطعی ہے۔سود لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ سود لینے والا دنیا میں فائدہ حاصل کر لیتا ہے، لیکن اپنی آخرت برباد کر لیتا ہے۔ سود کے بہت سے نقصانات ہیں ۔یہ طبیعت میں بے رحمی پیدا کرتا ہے۔سود کا انکار کرنے والا کافر ہے۔سود کا ایک درہم جس کو جان بوجھ کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ بدکاری سے بھی سخت ہے ۔ارشادِ باری ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۷۵) یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ(۲۷۶) (پ3، البقرۃ: 275-276) ترجمہ کنز الایمان: وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سود کی مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سود تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو اب ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے،اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکرا بڑا گنہگار۔

سود کی تعریف:عقدِ معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو اس کے مقابل دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔

فرامینِ مصطفٰے:

1-شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح بڑے بڑے ہیں ۔ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا :اے جبریل !یہ کون لوگ ہیں ؟انہوں نے کہا :یہ سود خور ہیں۔ ( ابنِ ماجہ ،حدیث: 2273)

2-حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے،انہوں نے فرمایا: سود کو چھوڑ دو اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو ۔(ابنِ ماجہ، حدیث: 2276)

3-ادھار میں سود ہے اور ایک روایت میں ہے کہ دست بدست ہو تو سود نہیں جبکہ جنس مختلف ہو۔( حدیث: 1082)

4-لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ سود کھانے سے کوئی نہیں بچے گا۔ اگر سود نہ کھائے گا تو اس کے بخارات پہنچیں گے یعنی سود دے گا یا اس کی گواہی دے گا یا دستاویز لکھے گا یا کسی کو کھلانے کی کوشش کرے گا یا سود خور کے ہاں دعوت کھاے گا یا اس کا ہدیہ قبول کرے گا۔ ( ابو داود ،حدیث: 3331)

5-سونا بدلے میں سونے کے، چاندی بدلے میں چاندی کے اور گیہوں بدلے میں گیہوں کے اور جو بدلے میں جو کے اور کھجور بدلے میں کھجور کے اور نمک بدلے میں نمک کے برابر برابر دست بدست بیع کرو اور جب اصناف میں اختلاف ہو اور تو جیسے چاہو بیچو یعنی کم و بیش میں اختیار ہے جبکہ دست بدست ہو اور اس کی مثل ابو سعید خدری سے مروی ہے ۔اس میں اتنا اضافہ ہے کہ لینے والا ،دینے والا دونوں برابر ہیں اور صحیحین میں حضرت عمر سے بھی اسی کی مثل مروی ہے۔ (مسلم ،حدیث: 1081)

درس: سود حرام ہے ۔اللہ پاک ہمیں اس بُرے فعل سے بچائے اور ہمیں حلال مال کھانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دوسروں کو بھی اس سے بچانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین


سود حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ سود دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ لوگ چند پیسوں کے لیے آخرت اور دنیا دونوں کو تباہ کر لیتے ہیں ۔سود سے خود کو بچانا چاہیے۔ قرآن میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔جو اس کا انکار کرے وہ کافر ہے۔ سود کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) (پ 3، البقرۃ: 278-279) ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جو کچھ تمہارا سود باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم کو اللہ اور رسول کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہیں تمہارا اصل مال ملے گا نہ دوسروں پر تم ظلم کرو اور نہ دوسرا تم پر ظلم کرے۔

سود کی تعریف:سود کو عربی میں ربا کہتے ہیں، جس کا لغوی معنیٰ زیادہ ہونا، پرو ان چڑھنا اور بلندی کی طرف جانا ہے۔ شرعی اصطلاح میں سود یہ ہے کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت کچھ رقم زیادہ دے گا مثلا ًکسی کو سال یا چھے ماہ کے لئے 100 روپے قرض دیئے اور اس سے یہ شرط کر لی کہ وہ مہلت کے عوض سو کے بجائے 120 روپے واپس لے گا تویہ جو 20 روپے زیادہ لیے گئے ہیں سود ہے۔

فرامینِ مصطفٰے:

1-(سود سے بظاہر) اگرچہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔( بخاری، حدیث : 280)

2-(سود کا گناہ) ستر حصے ہے ان میں سے سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے۔ (ابنِ ماجہ،حدیث: 2274)

3-سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے گا وہ 36 مرتبہ بدکاری سے بھی سخت ہے۔اسی کی مثل بیہقی نے ابنِ عباس سے روایت کی ہے۔(مسند امام احمد ،حدیث:22012)

4-سود کو چھوڑ دو اور جس میں سود کا شعبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔( ابنِ ماجہ، حدیث: 22722)

5-ادھار میں سود ہے اور ایک روایت میں ہے :دست بدست ہو تو سود نہیں یعنی جب کہ جنس مختلف ہو۔ (حدیث:1082)

اللہ پاک ہم سب کو سود سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور دوسروں کو بھی اس سے محفوظ رکھے اور ہمیں حلال مال کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین