ربا یعنی سود حرامِ قطعی ہے۔اس کی  حرمت کا منکر کافر ہے اور حرام سمجھ کر جو اس کا ارتکاب کرے وہ فاسق ہے ۔سود لینا اور دینا دونوں حرام کام ہیں ۔حدیثِ مبارکہ میں ان دونوں پر لعنت فرمائی گئی ہے ۔

سود کی تعریف:عقدِ معاوضہ(یعنی لین دَین کے کسی مُعَامَلے)میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مُقَابِل (یعنی بدلے) میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سُود ہے۔(بہارِ شریعت ، 2/769، حصہ:11)

سود کی مذمت پر فرامینِ مصطفٰے:

1- حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اُس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ وہ سب(گناہ میں)برابر ہیں۔(مسلم،ص 862،حدیث: (1597) )

2- فرمانِ آخری نبی ﷺ: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے ، وہ 36 مرتبہ بدکاری سے بھی سخت ہے۔(مسند امام احمد، 8 /223، حدیث: 22016)

3- مکی مدنی آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: سود (کا گناہ) ستر حصے ہے، ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی اپنی ماں سے نکاح کرے۔ (مشکاۃ المصابیح،2/142، حدیث: 2826)

4-مدینے کے تاجدار ،مکی مدنی آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں ، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا : اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں ؟ اُنہوں نے کہا: یہ سود خوار ہیں۔( ابنِ ماجہ،3/72، حدیث: 2273)

5- رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: (سود سے بظاہر ) اگرچہ مال زیادہ ہو ، مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہو گا۔(مسند امام احمد،2/50، حدیث: 3754)

سود کے چند معاشرتی نقصانات: آج کل سود کی اتنی کثرت ہے کہ قرضِ حسن جو بغیر سود کے ہوتا ہے بہت کم پایا جاتا ہے ۔لوگ اپنی وسعت سے زیادہ خرچ کرنا چاہتے اور سود کی آفت میں خود کو مبتلا کرتے ہیں۔ مال کا لالچ اور فضول خرچی جیسی آفات معاشرے میں سود کی بدولت ہی ہیں۔

سود سے بچنے کی ترغیب:سود سے بچنے کے لیے قناعت اختیار کیجئے۔ لمبی اُمیدوں سے کنارہ کشی اختیار کیجیے۔ دنیا و آخرت کے تباہ کن نتائج ، سود کے عذابات اور اس کے نقصانات کو پیشِ نظر رکھیے۔اللہ پاک ہمیں سود جیسے گناہ اور اس کے تباہ کن نتائج سے محفوظ فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین